آج ممتاز نقاد ‘ شاعر‘محقق اور استاد مغنی تبسم کا یوم پیدائش ہے۔

——
پروفیسر مغنی تبسم فکر و فن کے درمیاں از صابر علی سیوانی
——
بیسویں صدی کے ناقدین میں ایک اہم نام پروفیسر مغنی تبسم کا شمار کیا جاتا ہے ۔ مغنی تبسم نے اپنی ادبی خدمات ، تنقیدی نظریات اور شعری تخلیقات کی وجہ سے اردو ادب میں بیش بہا اضافے کا کام کیا ۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ اردو زبان و ادب کی آبیاری میں گزاردی اور مرتے دم تک وہ ادب کی خدمت کرتے رہے ۔ اس کا ایک اہم ثبوت ’’شعر وحکمت‘‘ کا وہ شمار ہے جو ان کی وفات کے کچھ ہی دنوں قبل شائع ہوا تھا ۔ وہ ’’شعر و حکمت‘‘ شہریار کے تعاون سے نکالتے رہے ۔ یہ دونوں فنکار اپنے عہد کے نابغہ تھے ۔ان کی دوستی بھی مثالی شمار کی جاتی تھی ۔ ان دونوں نے بے لوث دوستی کا حق ادا کیا اور یہاں تک کہ جب یہ دونوں اس دنیائے فانی سے گئے تو صرف دو روز کے فاصلے سے ۔ یعنی 13 فروری2012 کو شہریار داغ مفارقت دے گئے تو مغنی تبسم 15 فروری 2012 کو اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔
پروفیسر مغنی تبسم کا پیدائشی نام محمد عبدالمغنی اور قلمی نام مغنی تبسم تھا ۔ مغنی تبسم کی پیدائش 13 جون 1930ء کو ان کے آبائی مکان شکر کوٹھ حیدرآباد میں ہوئی ۔ والد کا نام محمد عبدالغنی اور والدہ کا نام حلیمہ بیگم تھا ۔ ان کے والد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ و سب جج کے عہدے پر فائز رہے ۔ پروفیسر عبدالمغنی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ چیلہ پورہ ، مدرسہ تحتانیہ جوگی پیٹ ، مدرسہ تحتانیہ یلاّ ریڈی ، مدرسہ وسطانیہ اردو شریف ، حیدرآباد اور مدرسہ فوقانیہ میدک میں ہوئی ۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان دارالعلوم ہائی اسکول حیدرآباد سے 1946 میں کامیاب کیا ۔ میٹرک میں آپ کا اختیاری مضمون اعلی ریاضی تھا ۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم دارالعلوم کالج سے 1948 میں مکمل کی ۔ انٹرمیڈیٹ میں آپ کے مضامین اختیاری اردو ، فارسی اور معاشیات تھے ۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے 1950 میں مغنی صاحب نے بی اے پاس کیا ۔ بعد ازاں 1952 میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی ۔ 1961 ء میںآپ نے ایم اے (فارسی) کا امتحان پاس کیا اور 1962ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے ہی حاصل کی ۔ مغنی تبسم کے پی ایچ ڈی کا مقالہ نہایت اہم ادبی و تحقیقی کارنامہ تصور کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے ’’فانی بدایونی : حیات ، شخصیت اور شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا اور اردو دنیا میں ان کی اس تحقیقی کاوش کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ۔پی ایچ ڈی میں آپ کے نگراں ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خان تھے ۔ ان کی رہنمائی میں آپ نے لسانیات کی بھی تعلیم حاصل کی اور بعد میں اسلوبیات پر آپ کی بہترین تنقیدی تحریریں منظر عام پر آئیں، جسے اہل علم نے بہت پسند کیا اور ان کی تحریروں نے ادبی و تنقیدی دنیا میں اپنی انفرادیت قائم کی ۔
پروفیسر مغنی تبسم شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد سے وابستہ ہوئے ۔ دسمبر 1979ء میں معتمد شعبہ امتحانات مقرر کئے گئے ۔ 1978ء میں ادارہ ادبیات اردو کی جانب سے شائع ہونے والے ادبی رسالے ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے مجلس ادارت کے معتمد اور اعزازی مدیر بنائے گئے ۔ 4 اپریل 1994ء سے ادارہ ادبیات اردو کے معتمد عمومی کی خدمات انجام دیتے رہے لیکن عمر کے آخری ایام میں جب ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تو وہ اس عہدے سے الگ ہوگئے اور ان کی جگہ پروفیسر ایس اے شکور کو معتمد عمومی بنایا گیا ۔
مغنی صاحب مختلف اداروں سے وابستہ رہے ۔ وہ بیشتر اداروں کے رکن رہے ۔ لیکن حیدرآباد لٹریری فورم کے صدر ، عوامی ادبی سوسائٹی کے مشیر ، اردو مجلس کے معتمد ادبی ، انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر ، ادارہ شعر و حکمت کے صدر ، شام غزل سوسائٹی کے صدر اور ایچ ای ایچ دی نظامس اردو ٹرسٹ کی مختلف کمیٹیوں کی رکنیت بھی ان کی ذمہ رہی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سید فیاض علی زیدی کا یوم وفات
——
مغنی تبسم کی تصانیف میں ’’نوائے تلخ‘‘ (شعری مجموعہ) 1946 میں شائع ہوا اور دوسرا شعری مجموعہ ’’پہلی کرن کا بوجھ‘‘ 1980 میں ، تیسرا شعری مجموعہ ’’مٹی مٹی میرا دل‘‘ 1991 میں منظر عام پر آیا ۔ ان کی دیگر تصانیف میں فانی بدایونی : حیات شخصیت اور شاعری (تحقیق) 1969 ، فانی کی نادر تحریریں (ترتیب) 1970 ، ’’آواز اور آدمی‘‘ (تنقید) 1992، لفظوں سے آگے (تنقید) 1993 ، بازیافت (تبصرے) تلگو ادب کی تاریخ پر ایک نظر 1956 اور ’’نکات اردو‘‘ 1956 شامل ہیں ۔ پروفیسر مغنی تبسم کی تالیفات اور ترتیب دی ہوئی کتابوں میں فکر اقبال (1977) نذر فانی بدایونی (1968) کہانیاں (1982) اور انگریزی میں معاصر ہندوستانی کہانیاں (1996) شامل ہیں ۔ پروفیسر مغنی تبسم نے دو کتابوں کے ترجمے بھی کئے ۔ ان میں کہانی اور اس کا فن (1957) اور شادی کی آخری سالگرہ (1975) میں شامل ہیں ۔
ادبی صحافت سے بھی پروفیسر مغنی تبسم کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے ۔ وہ مختلف رسالوں کے مدیر تھے اور وہ شبستان ادب کے رکن مجلس ادارت رہے ۔ ماہنامہ صبا کے رکن مجلس ادارت کے طور پر بھی انھوں نے خدمات انجام دیں ۔ سہ ماہی ’’شعر و حکمت‘‘ شش ماہی ’’سوغات‘‘ اور ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے مدیر رہے ۔ اس طرح وہ ایک طویل عرصے تک ادبی صحافت سے بھی وابستہ رہے اور اپنی صحافتی خدمات کی وجہ سے ان رسائل کو بلندیوں تک پہنچایا ۔
پروفیسر مغنی تبسم بنیادی طور پر ایک ناقد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ خصوصاً اسلوبیاتی تنقید پر ان کی گہری نظر کا اندازہ ان کی تحریروں سے ہوتا ہے ۔ حالانکہ شاعری سے بھی وہ شغف رکھتے تھے اور ان کے تین شعری مجموعے بھی منظر عام پر آئے لیکن شاعر کے طور پر انھیں شہرت حاصل نہ ہوسکی ۔ ایک محقق اور ناقد کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنی شناخت قائم کی اور اس کا ثبوت ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو فانی بدایونی کی حیات ، شخصیت اور شاعری پر مشتمل ہے ۔ یہ کارنامہ نہ صرف تحقیق کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ تنقیدی اعتبار سے بھی اس کام کو قابل قدر تصور کیا جاتا ہے۔ پروفیسر گیان چند جین مغنی صاحب کے متعلق رقمطراز ہیں :۔
’’مغنی صاحب کی ادبی شخصیت میں سب سے زیادہ نمایاں اور درخشاں ان کی تنقید نگاری ہے ۔ وہ ڈاکٹر مسعود حسین خان کے شاگر اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے دوست ہیں اور اس دوسری نسبت سے اسلوبیاتی تنقید میں کارہائے نمایاں کئے ۔ اسی کے پردے میں ان کی صوتیات دانی سامنے آئی ۔ ظاہراً وہ جدیدیئے سمجھتے جاتے ہیں لیکن شمس الرحمن فاروقی کی طرح بلاغت کے کلاسیکی علوم پر بھی حاوی ہیں ۔ انھیں نہ صرف عروض بلکہ علم قافیہ کا بھی وقوف ہے ۔ انھوں نے اپنے مجموعۂ مضامین ’’آواز اور آدمی‘‘ میں علم قافیہ میں جس گہری نظر کا ثبوت دیا ہے وہ میرے لئے خوش گوار حیرت ثابت ہوا‘‘ ۔ (نذر مغنی تبسم ، مرتب پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ، حیدرآباد ، جولائی 2000)
مغنی صاحب کو صوتیاتی تنقید پر گرفت حاصل تھی اور اس سلسلے میں جو انھوں نے کارنامے انجام دیئے اسے کافی سراہا گیا ۔ قدیم علم عروض کی خامیوں کی بھی انھوں نے نشاندہی کی ۔ان کا کہنا ہے کہ قدیم علم عروض میں خرابی یہ رہی کہ علم عروض میں بحور ، اوزان ، قوافی کی بنیاد مصمتوں پر رکھی گئی ہے ، جبکہ ہمارا عروضی ڈھانچہ مصوتوں پر استوار ہے ۔ پروفیسر مغنی تبسم نے اردو عروض کا مطالعہ صوتیاتی نقطۂ نظر سے کیا اور قدیم علم عروض کی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی ۔ مغنی صاحب اپنی کتاب ’’آواز اور آدمی‘‘ میں قافیہ کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’قافیہ ایک سادہ صوتی تنظیم ہے ۔ لیکن قدمانے غیر ضروری موشگافیوں سے اسے پیچیدہ مسئلہ بنادیا ہے اور ایک مستقل علم کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علم قافیہ کی خشت اول ہی ٹیڑھی رکھی گئی ہے ۔ یہ علم چند غلط مفروضات پر قائم ہے ۔ قدما نے قافیہ کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے قافیہ کا اطلاق چند معین حروف پر ہوتا ہے جو قصیدہ اور غزل کے مطلعوں ،مثنوی کی ابیات کے ہر مصرع کے آخر میں اور قطعہ ، غزل اور قصیدہ کے اشعار کے مصرع ثانی کے آخر میں الفاظ مختلفہ کے اندر آتے ہیں اور مستقل نہیں ہوتے ۔ بات یہاں تک توٹھیک ہے ۔ حروف سے مراد اگر زبان کی اصوات لی جائیں تو کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی ،لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ماہرین علم قافیہ حروف کو اصوات کی علامت نہیں سمجھتے تھے ۔ان کے ذہن میں مصوتوں (vowels) اور مصمتوں (Consonents) کا تصور زیادہ واضح نہیں تھا‘‘ (’’آواز اور آدمی‘‘ ، پروفیسر مغنی تبسم ، الیاس ٹریڈرس ، شاہ علی بنڈہ حیدرآباد ، 1983 صفحہ 35) ۔ پروفیسر مغنی تبسم معروف ناقد پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تحریروں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’پروفیسر نارنگ کا کمال یہ ہے کہ وہ نہایت شگفتہ پیرائے میں ادق سے ادق بات کو بھی سہل بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔ خشک علمی تصریحات سے ممکنہ حد تک گریز کرتے ہوئے برجستہ مثالوں سے تفہیم کا کام لیتے ہیں ۔ یہ مثالیں بجائے خود محکم دلیلیں بن کر ذہن نشین ہی نہیں ،بلکہ دلوں میں جاگزیں ہوجاتی ہیں ۔ نارنگ صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلوبیاتی تنقید کولسانیات کے عالموں اور طالب علموں کے محدود حلقے سے باہر نکال کر ادب کے عام قارئین تک پہنچادیا ۔ انھوں نے اس طرز تنقید کو وہ اعتبار اور وقار بخشا کہ آج سماجیاتی ، تاثراتی اور نفسیاتی تنقید کے وابستگان بھی اس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں‘‘ (لفظوں سے آگے ، حیدرآباد ، 1993 صفحہ 39)
——
یہ بھی پڑھیں : مشہورادیبہ محترمہ بانو قدسیہ کا یوم وفات
——
پروفیسر مغنی تبسم کی شاعری میں ان کی تنقید کی طرح ایک خاص رنگ نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کا آہنگ دھیما اور لہجے میں سرگوشی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔ ان کی شاعری ان کے واردات قلبی کی عکاسی کرتی ہے ۔ ملاحظہ کیجئے ان کے چند اشعار ؏
——
اب آکے کوئی رلادے تو روشنی آئے
بہت دنوں سے لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
——
سونپ دی ہے اسے تنہائی بھی
اب مجھے اپنی ضرورت نہ رہی
——
پاس آتے ہوئے صحرا میں کہیں
دور جاتا ہوا دریا دیکھا
——
میں اپنے خوابوں کی دنیا میں کھویا رہا
کب رات ڈھلی کب چاند بجھا معلوم نہیں
——
منزل منزل تیرے کرم کے ڈیرے ہیں
تپتی دھوپ میں دشت رواں ہیں میرے بھی
——
اس بستی میں کتنے گھر ہیں مٹی کے
بادل ٹوٹ کے برسے گا تو دیکھیں گے
——
ایک اک یاد کو آہوں سے جلاتا جاؤں
کام سونپا ہے عجب اس نے مسیحائی کا
——
لوح اس کی ہے ، قلم اس کا ، مقدر میرا
ہاتھ میرے ہیں ، دعاؤں میں اثر اس کا ہے
اس کی راتیں مرے خوابوں کو جنم دیتی ہیں
جاگتی آنکھوں سے پیمانِ سحر اس کا ہے
——
پروفیسر شمیم حنفی مغنی صاحب کی شاعری کی تہہ داریوں کا جائزہ لیتے ہوئے رقمطراز ہیں : ’’مغنی اپنی شاعری میں جس واردات کا ، دھیان کی جن ڈوبتی ابھرتی لہروں کا ، جس طرح کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کا بیان کرتے ہیں ، وہ کبھی بھی اپنی آمد کا اعلان نہیں کرتیں ۔ یہ واردات اور یہ کیفیتیں چاندنی کی طرح زمین پر اترتی ہیں ، اتنی آہستگی کے ساتھ کہ ان سے ہمیں اپنے رابطے کا احساس اس وقت ہوتا ہے ،جب وہ ہمارے شعور میں اپنی جگہ بناچکی ہوتی ہیں‘‘ (نذر مغنی تبسم ، صفحہ 440) مغنی صاحب نے غزلوں کے علاوہ بہت سی نظمیں بھی لکھیں ، لیکن ان کی شاعری میں کہیں کہیں اوزان اور قوافی میں ان سے چوک بھی ہوئی ہے لیکن بجا طور پر ان کی شاعری لائق ستائش ہے ۔ مغنی صاحب اس دنیا سے ضرور رخصت ہوگئے ، لیکن ان کی نگارشات اور تخلیقات ادبی دنیا پر اپنی حکمرانی جاری رکھیں گی ۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔ ان کی تنقیدی و تحقیقی نگارشات کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی خدمات کا ایماندارانہ طور پر تعین ہوسکے ۔مغنی صاحب کے بعد حیدرآباد میں تنقید کا منظرنامہ بالکل سونا سونا سا لگتا ہے ۔ اب ایسا کوئی نام نظر نہیں آتا ہے جس کا شمار ملک گیر پیمانے پر ایک بڑے ناقد کے طور پر کیا جاتا ہو ۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے نئی نسل کو آگے آنا چاہئے اور اپنی تنقیدی افکار کے ذریعہ اردو ادب کے تنقیدی منظر نامہ پر ایک نئی شناخت قائم کرنی چاہئے ۔ حیدرآباد میں فی الوقت جس طرح کا بھی ادب تخلیق کیا جارہا ہے وہ اپنی جگہ اہم ضرور ہے ، لیکن تنقیدی نقطۂ نظر سے یہاں پر کوئی حوصلہ افزاء کام نہیں ہورہا ہے ۔ بس اخبارات میں مضامین ، شاعری اورافسانوں کی اشاعت کو ہی یہاں کے ادیب اپنی بڑی حصولیابی تصور کرنے لگے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر عنوان چشتی کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
اُڑتی ہے راکھ درد کے خیمے کے آس پاس
تنہائیوں کی آگ میں جلنے لگا ہے کچھ
——
کل میرے لفظوں میں میری جان رہے گی
دنیا جب دیکھے گی تو حیران رہے گی
——
لوح اس کی ہے ، قلم اس کا ، مقدر میرا
ہاتھ میرے ہیں دعاؤں میں اثر اس کا ہے
——
نالے تھے وہ جو شعر کے پیکر میں ڈھل گئے
شکوے لبوں پہ آئے تو حرفِ دعا ہوئے
ہلکی سی ایک موجِ تبسم لبوں پہ تھی
پوچھا جو ہم نے آپ کے وعدے وہ کیا ہوئے
——
زندگی تجھ سے پشیماں ہیں یہی سوچ کے ہم
اپنے وعدوں سے کسی روز مُکر جانا ہے
——
لہو کا کھیل تھا جوشِ بہار کیسا تھا
چمن میں دامنِ گل تار تار کیسا تھا
سرِ اُفق سے نظر لوٹ کر نہیں آئی
وہ جا چکا تھا مگر انتظار کیسا تھا
——
تیرا خیال خواب میں ڈھلنے لگا ہے کچھ
اب رنگ زندگی کا بدلنے لگا ہے کچھ
اُڑتی ہے راکھ درد کے خیمے کے آس پاس
تنہائیوں کی آگ میں جلنے لگا ہے کچھ
——
تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی
ذکر زمانے کا تھا تیری بات کہاں سے آئی
جلتی دھوپ کے لشکر کے خیمے کس نے توڑ دیے
جھلمل کرتے تاروں کی بارات کہاں سے آئی
بیتے لمحے لوٹے بھی تو یاد بنے یا خواب
پرچھائیں تھی پرچھائیں پھر بات کہاں سے آئی
چاند ابھی تو نکلا ہی تھا کیسے ڈوب گیا
میرے آنگن میں یہ کالی رات کہاں سے آئی
——
کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا
یا ایک دل بھی درد کے قابل نہیں رہا
ان کے لہو کی دہر میں ارزانیاں نہ پوچھ
جن کا گواہ دامن قاتل نہیں رہا
اپنی تلاش ہے ہمیں آنکھوں کے شہر میں
آئینہ جب سے اپنے مقابل نہیں رہا
سرگرمی حیات ہے بے مقصد حیات
سب رہ نورد شوق ہیں محمل نہیں رہا
اس کا خیال آتا ہے اپنے خیال سے
اب وہ بھی اپنی یاد میں شامل نہیں رہا
——
چھپا رکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
کسی پہ کھل نہیں پایا جو حال میرا تھا
ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مری زنجیر
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی
کہ اپنے آپ سے بچنا محال میرا تھا
ہر ایک سمت سے سنگ صدا کی بارش تھی
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا
ترا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا
میں رو پڑا ہوں تبسمؔ سیاہ راتوں میں
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا
——
عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو
جو ہو سکے تو کہیں دار پہ چڑھا مجھ کو
ترس گیا ہوں میں سورج کی روشنی کے لیے
وہ دی ہے سایۂ دیوار نے سزا مجھ کو
جو دیکھے تو اسی سے ہے زندگی میرے
مگر مٹا بھی رہی ہے یہی ہوا مجھ کو
اسی نظر نے مجھے توڑ کر بکھیر دیا
اسی نظر نے بنایا تھا آئینہ مجھ کو
سراب عمر تمنا کی تشنگی ہوں میں
اگر ہے چشمۂ فیاض تو بجھا مجھ کو
کبھی تو اپنے بدن کے چراغ روشن کر
کبھی تو اپنے لہو سے بھی آزما مجھ کو
——
نظم : مجھے یاد ہے
——
مجھے یاد ہے تری گفتگو جو فضا میں تھی
مجھے یاد ہے تری آرزو
تری آرزو کے قریب ہی
مری زندگی تھی کھڑی ہوئی
مرے راستے میں ہر ایک سمت رکاوٹیں تھی اٹی ہوئی
مجھے یاد ہے
وہ انا بدست سوال بھی
وہ خیال بھی
کوئی حادثہ جو شریک ہو تو سفر کٹے
کہ یہ دائرہ تو قفس ہے جس کا محیط مرگ دوام ہے
مجھے زندگی کا شرار جستہ عزیز تھا
کہ میں دائرے سے نکل گیا
تری آرزو سے خجل ہوں میں
مجھے اپنے عہد کا پاس کچھ بھی نہیں رہا