آج معروف نعت گو شاعر حفیظ تائب کا یوم وفات ہے

(پیدائش: 14 فروری، 1931ء- وفات: 13 جون، 2004ء)
——
ممتاز نعت گو شاعر حفیظ تائب از خواجہ غلام قطب الدین فریدی
——
قدموں میں شہنشاہ دو عالم کے پڑا ہوں
میں ذرہ ناچیز ہوں یا بخت رسا ہوں
اب کون سی نعمت کی طلب حق سے کروں
دہلیز پر سلطان مدینہ کے کھڑا ہوں
——
حفیظ تائب ایک عہدساز نعت گو تھے۔آپ کا اصل نام عبدالحفیظ ہے اور تاؔئب تخلص فرمایا کرتے تھے۔ 14 فروری 1931 ء کو اپنے ننھیال پشاور چھاونی میں آپ کی ولادت ہوئی۔ احمد نگر ضلع گوجرانوالہ آپ کا آبائی شہر ہے۔ آپ کے والد کا نام حاجی چراغ دین منہاس قادری ایک مشہور معلم اور امام و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی تھے آپ کی ولادت کی خوشخبری ایک درویش نے آپ کے والد مکرم حاجی چراغ دین قادری سروری کو دی تھی کہ آپ کا فرزند حمد و نعت گوئی میں مقام پیدا کرے گا۔ آپ کے والدِ ماجد خود بھی برگزیدہ شخص تھے۔ ان کی وجہِ شہرت امامت و تدریس فی سبیل اللہ تھی۔ ساتھ ہی ساتھ نعت خوانی کا اہتمام خصوصاً کرتے۔ حفیظ تائب کو نعت سے شغف اور محبت یہیں سے ملی۔
——
خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمدنگر کی ہے
مجھ پر نظر ازل سے شہِ بحر و بر کی ہے
——
اگرچہ انہوں نے آغازِ سخن غزل سے کیا مگر یہ وہ غزل نہیں جو لہو و لعب کی طرف لے جاتی ہو۔ آپ کی غزل میں بھی تصوف اور ایقان کی جھلک موجود تھی۔ شاید یہ مشقِ سخن نعت گوئی کی تیاری تھی جب آپ گلشنِ نعت میں داخل ہوئے تو پھر یہیں کے ہو رہے۔ اس کی آب و ہوا آپ کو بہت راس آئی۔ یہ باریابی آپ کے سچے جذبے‘ بے پایاں خلوص‘ کھری طلب اور بے پناہ عاجزی کے باعث نصیب ہوئی۔حضور کے ذکر پر آپ کی پلکوںپر عقیدت کے ستارے جھلملانے لگتے‘ لبوں پر تشکر کے الفاظ مہکتے اور آپ کا دل احساسِ تشکر سے سرشار ہو جاتا۔ اپنی کیفیتِ حضوری کو انہوں نے اپنے سخن میں یوں پیش کیا کہ سلیقہ اور قرینہء نیاز مندی بتا دیا:
——
شوق ونیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچہء حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
سوزِ تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تُو
عشقِ نبی کی آگ سے تائب پگھل کے آ
——
ابتدائی تعلیم دلاور نگر سکھیکی میں ہوئی مڈل کی تعلیم احمد نگر کے سکول اور میٹرک زمیندار ہائی سکول گجرات سے کیا۔ زمیندار کالج، گجرات میں ایف ایس نان میڈیکل کے طالب علم ہوئے لیکن ریاضی میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اس خیر باد کہا اور اپنے ذوق کے مطابق اردو اور پنجابی زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیویٹ پاس کئے۔ 1949 ء میں واپڈا میں سرکاری نوکری پر بھرتی ہوگئے۔ اور دوارن ملازمت 1974 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم-اے پنجابی کیا اور 1976 ء سے 2003 ء تک مختلف اطوار سے شعبہ ِ پنجابی میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔
آپ کی شاعری نے نعتیہ شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ پچپن ہی سے آپ کو نعت سے خصوصی لگاؤ تھا۔ آپ کے والد مسجد میں امام کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ کبھی کبھار جمعہ کی نماز سے پہلے حفیظ تائب نعت سنایا کرتے تھے، اور کبھی ایسا ہوتا کہ وقت کی کمی کے باعث آپ کے والد آپ کو نعت پڑھنے نہ دیتے۔ جب سب گھر لوٹتے تو حفیظ صاحب کی والدہ اپنے شوہر سے دریافت فرماتیں کہ کیا آپ نے آج حفیظ کو نعت نہ پڑھنے دی؟ تو والد مسکرا کر پوچھتے کہ کیا اس نے تم سے گلہ کیا؟ تو والدہ جواب دیتیں کہ اس نے تو گلہ نہیں کیا، لیکن جس روز وہ نعت پڑھ کر آتا ہے، اس روز اس کے چہر ے کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
پی ٹی وی کو ایک انٹرویودیتے ہوئے حفیظ تائب نے فرمایا کہ وہ لڑکپن ہی میں علامہ اقبال کی شاعری سے بہت متاثر تھے۔ اسی محبت میں انہوں نے 18 سال کی عمر میں جو پہلی نعتیہ رباعی کہی وہ علامہ اقبال کی مرد مومن کے بارے کہی ہوئی ایک رباعی کی زمین میں تھی۔ علامہ اقبال کی رباعی یہ ہے۔
——
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغ دیدہء افلاک ہے تو
ترے صید زبوں افرشتہ و حور
کہ شاہین شہ لولاک ہے تو
——
حفیظ تائب نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد بھی انہوں نے علامہ اقبال کی زمین میں جو بھی کلام کہا وہ اتفاق سے نعتیہ ہوا اور اس کے بعد علامہ اقبال کی غزلوں کی زمینوں میں نعتیں کہنے کی شعوری کوشش کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : آنکھوں کو جسجتو ہے تو طیبہ نگر کی ہے
——
فرانس:غیر ویکسین شدہ افراد پر ریسٹورینٹ، سیاحتی مقامات اور کھیلوں کی جگہ جانے پر پابندی عائد
حفیظ تائب نے اپنے نعتیہ سفر کو ایک نعتیہ تحریک کی شکل دی اور بہت سے شعراء کو نعت گوئی کی طرف راغب کیا۔ ان کی دعوت پر نعت کہنے والے بہت سے شعراء نے اپنے نعتیہ مجموعے بھی مکمل کئے جن میں احمد ندیم قاسمی کا نام سر فہرست رکھا جاتا ہے۔
حفیظ تائب کی نعت کا مرکزی موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و متعلقات سے ارادت اور عقیدت مندی ہے مگر یہ عقیدت مندی آپ کی شان کی مدح و توصیف تک محدود نہیں تائب نے صاحب موضوع کے ارشادات و پیغامات اور مقاصد نبوت و بعثت نبوی کو، جو جدید نعت کی اصل خوبی ہے، مسلسل پیش نظر رکھا ہے، ان کی نعت گوئی اصلاحی اور مقصدی پہلو لیے ہوئے ہے، پاکستان اور ملت اسلامیہ کو در پیش مسائل کا اظہار جس شائستگی سے ان کی نعتوں میں ملتا ہے، دوسروں کے ہاں نظر نہیں آتا، مسلمانوں کی زبوں حالی، پاکستان میں سیاسی انتشار، اخلاقی و مذہبی قدروں کی پامالی سے مسجد اقصیٰ کے ماتم افغانستان میں روسی جارحیت پر نالہ و فریاد کے جو مضامین تائب کی نعت گوئی میں ملتے ہیں، ان کے سبب نہ صرف تائب کے فن بلکہ صنف نعت کو وسعت ملی ہے۔
——
دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
——
حفیظ تائب عاشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تھے ہی تو مدینہ شریف حاضری رہتی تھِی۔ قلب ِ گداز اور صحبت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ نعت گوئی کو تحریک دی اور آپ نے وہاں بھی کچھ نعتیہ کلام کہے۔ اور ادب کا یہ انداز اختیار کیا کہ ان نعتوں میں نہ کبھی مقطع کہا اور نہ کہیں تخلص استعمال کیا ۔
جب جناب حفیظ تائب کو کینسر کا مرض لاحق ہوا تو وہ مختلف ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے پھر ڈاکٹروں نے انہیں کہا کہ فوری طور پر امریکہ جائیں اور وہاں سے آپریشن کروائیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے انہوں نے جو جمع پونجی ان کے ساتھ تھی اکٹھی کی اور تقریباً چھ لاکھ روپے لے کر امریکہ روانہ ہوگئے وہاں ڈاکٹروں نے ان کا مکمل معائنہ کیا اور بتایا کہ آپ کے آپریشن کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے چانسز ہیں گویا آپریشن کے بعد آپ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں اور خدانخواستہ آپ کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ جناب حفیظ تائب نے یہ سوچا کہ جتنی زندگی ہے وہ تو ا ن شاء اللہ ضرور پوری کروں گا پھر میں جو جمع پونجی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرسکتا ہوں اسے ایک ’’بے مقصد آپریشن‘‘ پر کیوں ضائع کردوں۔ انہوں نے آپریشن نہ کروانے کا فیصلہ کیا اور امریکہ سے سیدھے عمرے کے لیے سعودی عرب چلے گئے جہاں نمازوں کی پنجگانہ ادائیگی کے ساتھ ساتھ روضہء رسول کے پاس بیٹھ کر روتے رہنا ان کا معمول بن گیا۔ مسلسل دو تین دن کے عمل کے بعد ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میں کئی روز سے آپ کو روضہء رسول کے پاس بیٹھے اور روتے ہوئے دیکھ رہا ہوں آپ رونے کے بجائے اپنا مدعا کیوں بیان نہیں کرتے۔ حفیظ تائب نے رونا بند کردیا اور اپنے پیارے رسول سے ’’باتیں‘‘ کرتے ہوئے اپنا مدعا بالکل ایسے انداز میں بیان کیا جیسے کسی انتہائی قریبی اور ہمدرد شخص کے سامنے بیان کیا جاتا ہے وہ باتیں کرتے ہوئے ایک اجنبی کیفیت میں کھو گئے اور جب انہیں ہوش آیا تو ان کے جسم اور کپڑے پسینے سے شرابور تھے اور وہ خود کو انتہائی تروتازہ محسوس کررہے تھے۔ وہ اٹھے اور اپنی رہائش گاہ چلے گئے اور اگلے روز کی فلائٹ سے وطن واپس پہنچ گئے یہاں انہوں نے اپنے ڈاکٹروں سے دوبارہ چیک اپ کروایا جنہوں نے تشخیص کی کہ آپ کے مرض میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اب صرف ایک نشان سا دکھائی دیتا ہے پھر ہم سب نے دیکھا کہ حفیظ تائب اس موذی مرض کے ساتھ بھی زندہ رہے اور خوشبوئے رسول نے ان کے دامن کو معطر کیے رکھا۔
حفیظ تائب کی حافظ فقیر افضل سے گہری ارادت تھی۔ ایک بار آپ نے ان کو اپنا کلام سنایا تو اس میں ان کا ایک مشہور شعر
——
ماہ عرب کے آگے تری بات کیا بنے
اے مہتاب روپ نے ہر شب بدل کے آ
——
بھی شامل تھا۔ حافظ فقیر افضل نے حفیظ تائب سے فرمایا کہ آپ محتاط شاعر ہیں تو شعر آپ کے مزاج کا نہیں لگتا۔ اسے نکال دیں۔ حفیظ تائب عموما حافظ فقیر افضل کی رائے قبول فرما لیتے تھے لیکن اس شعر پر آپ کا دل ان کی رائے سے مطمئن نہ ہوا۔ اگلی دن صبح سویرے انہوں نے حافظ فقیر افضل کو اپنے دروازے پر پایا۔ حافظ فقیر افضل نے حفیظ تائب سے کہا کہ نجانے میں نے رات اس شعر کے بارے آپ سے کیوں کہا کہ اسے نکال دیں۔ رات بھر مجھے چین نہیں آیا کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔ وہ شعر قطعا نہ نکالیں۔
حفیظ تائب کے بردار عزیز عبدالمجید منہاس فرماتے ہیں کہ ایک بار حفیظ تائب عمرے پر تشریف لا جارہے تھے۔ ائیر پورٹ پر ان کو چھوڑنے گیا تو میری پاکٹ میں جتنے روپے تھیمیں نے زاد راہ کے طور پر پیش کئے۔ آپ جب عمرہ سے واپس آئے تو میری بیوی کو وہ ساری رقم اور ایک رقعہ دے گئے۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ”برادر عزیز، آپ نے جس محبت سے یہ رقم مجھے دی تھی۔ اس کا اجر آپ کو یقینا مل چکا ہوگا۔ یہ رقم سفر سعادت میں میرے لئے باعثِ تقویت رہی لیکن خرچ نہ ہو سکی۔ میں اپنے ایوارڈ کا کچھ حصہ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ لہذا نہایت خوشدلی سے یہ رقم واپس کر رہا ہوں۔ اللہ کریم آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ مجھے اگر کسی بھی وقت کوئی مالی دشواری پیش آئی تو آپ سے مالی امداد طلب کرنے میں ذرا بھر عار محسوس نہیں کروں گا۔ بہر حال آپ یہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھ پر ایسا وقت نہ لائے ”
وہ مزاجاً بھی ایک مُصلح اور خدمت گزار تھے۔ ہر وقت سمٹے سمٹائے‘ گردن خم اور آنکھیں نیچی۔ جیسے وہ زمین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ تکبر‘ نخوت اور گھمنڈ کا کبھی شائبہ تک نہیں تھا۔ ان کے اس رویے نے انہیں ہر دلعزیز ہی نہیں اتنا مکرم و محترم بنا دیا کہ انہیں مل کر لوگ فخر محسوس کرتے۔ وہ شدید بیماری کے عالم میں بھی جس طرح طہارت اور پاکیزگی کا خیال کرتے وہ حیران کن تھا۔ وہ حالی کی طرح اپنے معاشرے کی تطہیر چاہتے تھے۔ ان کے اندر امت مسلمہ کے لیے ایک تڑپ تھی کہ وہ اسوہ ء حسنہ سے روشنی حاصل کرکے ایک مرتبہ پھر دنیا میں سرخرو ہو۔ خورشید رضوی صاحب نے ان کے اور حالی کے درمیان مماثلت کو بہت اچھے انداز میں واضح کیا ہے اور انہوں شیخ عبدالقادر کے بانگ درا کے لیے لکھے گئے مقدمہ کا حوالہ دیا ہے جو ایک ہی وقت میں تائب صاحب کے لیے زبردست خراجِ تحسین بھی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں
——
ڈاکٹر وحید قریشی حفیظ تائب کے بارے فرماتے ہیں۔
’’حفیظ تائب کا مجموعہ نعتیہ شاعری کا عام روایت سے ہٹ کر رسول مقبول سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے، انہوں نے عام نعتوں کی پیروی میں رسول پاک کی سراپے کو موضوع نہیں بنایا اور نہ ہندی شاعری کی روایت سے اثر لیکر حب رسول کو کرشن اور گوبیوں کی سطح پر محسوس کیا ہے، انہوں نے رسول اکرم کی ذات کو برقرار رکھا ہے اور محبت کے ساتھ اسوہ¿ حسنہ کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں، مجموعہ کی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ یہ اشعار تائب کے نزدیک شخصی ثواب کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اسے تخلیقی سطح پر محسوس کیا ہے، یہ کلام ان اعلیٰ لمحات کی روداد ہے جو کسی بھی بڑے شاعر کے لیے سرمایہ افتخار ہو سکتی ہے
سید عبداللہ حفیظ تائب کے بارے فرماتے ہیں
’’زبا ن و بیا ن میں کمال درجے کی شستگی اور شائستگی، سکون و سکونت اور برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہ ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ
احمد ندیم قاسمی حفیظ تائب کے بارے فرماتے ہیں
’’میں نے فارسی، اردو اور پنجابی کی بے شمار نعتیں پڑھی ہیں، ان میں آنحضرت سے عقیدت اور عشق کا اظہار تو جابجا ملتا ہے مگر حفیظ تائب کے ہاں اس عقیدت اور عشق کے پہلو بہ پہلو میں نے جو ندرت اظہار دیکھی ہے، اس کی مثال ذرا کم ہی دستیاب ہوگی۔‘‘
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی حفیظ تائب کے بارے فرماتے ہیں
وہ عربی زبان سے واقف تھے۔ فارسی پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اُردو اور پنجابی شاعری کا وسیع مطالعہ کر رکھا تھا اور ان چاروں زبانوں کے ادب پر فاضلانہ گفت گو کرتے تھے۔ بہترین کلام اُنھیں ازبر تھا۔ قرآنِ مجید اور حدیث کے مطالعے میں مستغرق رہتے تھے۔ تاریخ ِاسلام خصوصاً سیرت مبارکہ کی کتب پر اُن کی گہری نظر تھی۔ علاوہ ازیں فنی باریکیوں سے خوب واقف تھے اوراس بات سے آگاہ تھے کہ شعر کو بقائے دوام کس طرح حاصل ہوتی ہے چناں چہ اُن کی نعتوں کا مطالعہ گہرائی میں جا کر کیا جائے،تو جلد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مضامین کی وسعت و ندرت کے ساتھ ساتھ فن ِ شعر میں اُن کا ریاض کس پائے کا ہے۔
ڈاکٹر عباس نجمی حفیظ تائب کے بارے فرماتے ہیں
” وہ سارا خطہ کہ جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ببانگ دہل اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حفیظ تائب نے نہ صرف اسلوبیاتی سطح پر نعت کو نئے رنگوں سے آشنا کیا بلکہ انہوں نے فکری و فنی طور پر نعت میں ایسے تجربے کئے کہ نعت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے ان کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا۔
——
تصانیف
——
1۔ صلو علیہ و آلہ۔۔ اردو مجموعہ نعت ،آدم جی ادبی ایوارڈ
2۔ سک متراں دی۔۔ پنجابی مجموعہ نعت ،پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ
3۔ وسلموا تسلیما۔ پنجابی مجموعہ نعت ،صدارتی ایوارڈ
4۔ وہی یسیں وہی طہ۔ 1998ئ، اردو مجموعہ نعت، وزیر اعظم ادبی ایوارڈ برائے نعت، نیشنل لٹریری ایوارڈ
6۔ کوثریہ، 2003 ء اردو مجموعہ نعت،
7۔ اصحابی کالنجوم، 2006ء
8۔ حاضریاں، 2007ئ، پنجابی سفر نامہ بمعہ تصاویر
9۔ حضوریاں، 2007ئ، حاضری کے نعتیہ کلام
اس کے علاوہ غزلیات اور تحقیق و تدوین پر چند کتابیں
——
ایوارڈز
——
1۔ تمغہ حسن کارکردگی
2۔ نقوش ایوارڈ
3۔ آدم جی ایوارڈ
4۔ ہمدرد فاونڈیشن ایوارڈ
5۔ پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ
6۔ اکیڈمی ایوارڈ برائے نعت گوئی اور بے شمار دیگر ایوارڈانہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں نعت کہی اور خود کو ہمیشہ کے لیے امر کرلیا ان کی ایک پنجابی نعت کا شعر ملاحظہ کیجیے۔
——
پانی لالا پھاوے ہوئے
روح دے رُکھ نہ ساوے ہوئے
——
ممتاز نعت گو شاعر جناب حفیظ تائب 13 جون 2004ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے دنیا ایک سچے عاشق رسول سے محروم ہوگئی۔انہیں ان کے گھر کے قریب علامہ اقبال ٹاون کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور نماز جنازہ میں بیشتر نامور ادیب شامل ہوئے۔حفیظ تائب کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ رقت و محبت میں ڈوبی ہوئی ایک کیفیت کا نام تھا کہ جو لاکھوں کروڑوں کے ہجوم میں سے کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔جناب حفیظ تائب اردو اور پنجابی زبان میں نعت کی متعدد تصانیف کے خالق ہونے کے علاوہ تحقیق، تدوین اور تنقید کے حوالے سے بھی درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔ لیکن ان کی زندگی کا ایک پہلو جو ان کے ہر کام اور ہر جہت پر حاوی ہوگیا وہ نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سچی اور بھرپور لگن تھی بلاشبہ اسی لگن کی بدولت رہتی دنیا تک اس عاشق رسول کا نام زندہ رے گا بقول بابا بلھے شاہ
——
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گورپیا کوئی ہور۔
——
یہ بھی پڑھیں : بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
——
منتخب کلام
——
سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا
پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا
——
یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے
بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام
——
جاں سرفراز ہو تو کیوں کر ہو
گرد راہ حجاز تو بھی نہیں
——
میں نہ کیوں اس پہ جان دوں تائبؔ
جب نبی کو پسند تھی خوشبو
——
میں اپنے گناہوں کو تائبؔ دھونے کا ارادہ رکھتا تھا
رحمت نے بڑھ کر تھام لیا ہے اشکر فراواں سے پہلے
——
میں بھی غمِ حبیب سے کر لوں ذرا سا پیار
مجھ کو زمانہ تھوڑی سی فرصت کی بھیک دے
——
جانتا کون تھا تائبؔ کو زمانے بھر میں
اُن کی نسبت ہی سے ناچیز کی توقیر بنی
——
سودائے سراب دے گئے ہیں
کیا کچھ ہم خواب دے گئے ہیں
ہر آن نئے سوال تائبؔ
اعصاب جواب دے گئے ہیں
——
بالادستی کا فسوں اسلحہ سازی کا جنوں
یہ ذرائع تو ہلاکت کے ہیں عظمت کے نہیں
——
سمجھوں کہ آ گیا ہے زمانے میں انقلاب
ہو جائیں گے غریب کے شام و سحر درست
——
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہو ترے اوصافِ حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
اے ہادیٔ برحق! تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے تیرے لب کا شنیدہ
اے رحمتِ عالم! تری یادوں کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
تو روحِ زمن روحِ چمن روحِ بہاراں
تو جانِ بیاں جانِ غزل جانِ قصیدہ
ہے طالبِ الطاف مرا حالِ پریشاں
محتاجِ توجہ ہے مرا رنگِ پریدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامانِ دریدہ
یوں دور ہوں تائبؔ میں حریمِ نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخِ بریدہ
——
شوق و نیاز عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیا بھی ادب سے ہیں دم بخود
یہ بارگاہِ سرور دیں ہے سنبھل کے آ
آتا ہے تو جو شہر رسالت مآب میں
حرص و ہوا کے دام سے باہر نکل کے آ
ماہِ عرب کے آگے تری بات کیا بنے
اے ماہتاب روپ نہ ہر شب بدل کے آ
سوز و تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تو
عشقِ نبی کی آگ سے تائبؔ پگھل کے آ
——
یوں ذہن میں جمالِ رسالت سما گیا
میرا جہانِ فکر و نظر جگمگا گیا
خلقِ عظیم و اسوہ ء کامل حضور کا
آدابِ زیست سارے جہاں کو سکھا گیا
اس کے قدم سے پھوٹ پڑا چشمہ ء بہار
وہ دشتِ زندگی کو گلستاں بنا گیا
انوارِ حق سے جس نے بھرا دامنِ حیات
جو نکہتِ وفا سے زمانے بسا گیا
کتنا بڑا کرم ہے کہ تائب سا بے ہنر
توصیفِ مصطفی کے لیے چن لیا گیا
——
اک نیا کرب مرے دل میں جنم لیتا ہے
قافلہ درد کا کچھ دیر جو دم لیتا ہے
رنگ پاتا ہے مرے خون جگر سے گل شعر
سبزۂ فکر مری آنکھ سے نم لیتا ہے
آبرو حق و صداقت کی بڑھا دیتا ہے
جب بھی سقراط کوئی ساغر سم لیتا ہے
رات کے سائے میں شبنم کے گہر ڈھلتے ہیں
رات کی کوکھ سے خورشید جنم لیتا ہے
ذہن بے نام دھندلکوں میں بھٹک جاتا ہے
آج فن کار جو ہاتھوں میں قلم لیتا ہے
جس کو ہو دولت احساس میسر تائبؔ
چین وہ کار گۂ زیست میں کم لیتا ہے
——
پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا
کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا
سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا
پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا
سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی
تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا
یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف
یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا
وہ جس کو بھولنے کا تصور محال تھا
وہ عہد رفتہ رفتہ مجھے بھولتا گیا
جب اس کو پاس خاطر آزردگاں نہیں
مڑ مڑ کے کیوں وہ دور تلک دیکھتا گیا
——
اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سر شام
جب چاند جھروکے میں نکلتا ہے سر شام
بے نام سی اک آگ دہک اٹھتی ہے دل میں
مہتاب جو ٹھنڈک سی اگلتا ہے سر شام
کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر
ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سر شام
یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے
بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام
بنتا ہے وہ اک چہرہ کبھی گل کبھی شعلہ
سانچے میں خیالوں کے جو ڈھلتا ہے سر شام
چھٹ جاتی ہے آلام زمانہ کی سیاہی
جب دور تری یاد کا چلتا ہے سر شام
میں دور بہت دور پہنچ جاتا ہوں تائبؔ
رخ سوچ کا دھارا جو بدلتا ہے سر شام