آج معروف شاعر ڈاکٹر محمد دین تاثیر کا یومِ وفات ہے۔

——
اردو شاعر ،نقاد اور ماہر تعلیم محمد دین تاثیر قصبہ اجنالہ ضلع امرتسرمیں پیدا ہوئے۔ 1904ء میں پہلے والد پھر والدہ نے وبائے طاعون میں انتقال کیا۔ میاں نظام الدین رئیس لاہور نے جو ان کے خالو تھے پرورش کی۔ فورمین کرسچن کالج لاہور سے 1926ء میں ایم اے کی ڈگری لی۔ اسی سال اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ 1928ء میں دوبارہ اسلامیہ کالج میں آ گئے۔ 1934ء میں انگلستان چلے گئے اور کیمبرج سے پی۔ ایچ۔ ڈی کیا۔
1936ء میں ایم۔ اے او کالج امرتسر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم تک مختلف عہدوں پر کام کیا۔ 1947ء میں سری نگر گئے اور پھر پاکستان آکر آزاد کشمیر کے محکمہ نشر و اشاعت کے انچارچ ہو گئے۔ 1948ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی کالج سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر تاثیر کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن ہی میں ہو گیا تھا۔ کالج میں ان صلاحیتوں نے جلا پائی۔ اور 1924ء تک ادبی دنیا میں خاصے معروف ہو گئے۔ انھی دنوں ’’ نیرنگ خیال‘‘ لاہور کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ دیگر ممتاز رسائل میں ان کی نقلیں اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے تھے۔ انھوں نے روایت سے بغاوت کی اور مروجہ اسلوب سے ہٹ کر آزاد نظم کو ذریعۂ اظہار بنایا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : تُجھ سے دور آتے ہوئے جانا کہ یہ سب کیا ہے
——
وہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابقہ مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد تھے۔
غازی علم دین شہید کے جسد مبارک کے لیے صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا۔
تصانیف
کنول (ناول)
آتش کدہ (شعری مجموعہ)
——
منتخب کلام
——
یہ بھی رہے خیال ستانے کے ساتھ ساتھ
ہم بھی بدل رہے ہیں زمانے کے ساتھ ساتھ
رُک رُک کے ہو رہے ہیں ادا حرفِ معذرت
کچھ کچھ غرور بھی ہے بہانے کے ساتھ ساتھ
——
وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ
نہ طریق آشنائی نہ رسوم جام و بادہ
——
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
——
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
——
ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں
کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح
——
داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
——
جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں
اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں
——
غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں
کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں
عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں
عشق کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں
اب مرے عشق پہ تہمت ہے ہوس کاری کی
مسکراتے ہوئے اب وہ لبِ بام آتے ہیں
واعظِ شہر کی محفل ہے کہ ہے بزمِ نشاط
حوضِ کوثر سے چھلکتے ہوئے جام آتے ہیں
یہ رہِ شوق رہِ عشق ہے اے اہلِ ہوس
منزلیں آتی ہیں اس میں نہ مقام آتے ہیں
اب نئے رنگ کے صیاد ہیں اس گلشن میں
صید کے ساتھ جو بڑھ کر تہِ دام آتے ہیں
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
جن کو خلوت میں بھی تاثیرؔ نہ دیکھا تھا کبھی
محفلِ غیر میں اب وہ سرِ عام آتے ہیں
——
میری وفائیں یاد کرو گے
روؤ گے ، فریاد کرو گے
مجھ کو تو برباد کیا ہے
اور کسے برباد کرو گے
ہم بھی ہنسیں گے تم پر اک دن
تم بھی کبھی فریاد کرو گے
محفل کی محفل ہے غمگیں
کس کس کا دل شاد کرو گے
دشمن تک کو بھول گئے ہو
مجھ کو تم کیا یاد کرو گے
ختم ہوئی دشنام طرازی
یا کچھ اور ارشاد کرو گے
جا کر بھی ناشاد کیا تھا
آ کر بھی ناشاد کرو گے
چھوڑو بھی تاثیر کی باتیں
کب تک اس کو یاد کرو گے
——
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک نظر ایک دل بھی ایک سہی
معاملات من و تو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقام جنبش ابرو نکل ہی آتے ہیں
ھناۓ ناخن پا ہو کہ حلقہء سر زلف
چھپاؤ بھی تو یہ جادو نکل ہی آتے ہیں
جناب شیخ وضو کے لیے سہی لیکن
کسی بہانے لب جو نکل ہی آتے ہیں
متاع عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گۓ
زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں
——
داغ سینے پہ جو ہمارے ہیں
گل کھلاۓ ہوۓ تمھارے ہیں
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
کوئی جدت نہیں حسینوں میں
سب نے نقشے ترے اتارے ہیں
تیری باتیں ہیں کس قدر شیریں
تیرے لب کیسے پیارے پیارے ہیں
جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں
اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : ہم اہلِ عشق ہیں ، صدیوں کو چمکاتے رہیں گے
——
نظم
رس بھرے ہونٹ
پھول سے ہلکے
جیسے بلور کی صراحی میں
بادہء آتشیں نفس چھلکے
جیسے نرگس کی گول آنکھوں سے
ایک شبنم کا ارغواں قطرہ
شفق صبح سے درخشندہ
دھیرے دھیرے سنبھل سنبھل ڈھلکے
رس بھرے ہونٹ یوں لرزتے ہیں!
یوں لرزتے ہیں جس طرح کوئی
رات دن کا تھکا ہوا راہی
پاؤں چھلنی نگاہ متزلزل
وقت صحراۓ بیکراں کہ جہاں
سنگ منزل نما نہ آج نہ کل
دفعتاً دور ، دور ، آنکھ سے دور
شفق شام کی ساہی میں
قلب کی آرزو نگاہی میں
فرش سے عرش تک جھلک اٹھے
ایک دھوکا، سراب ، منبع نور!
رس بھرے ہونٹ دیکھ کر تاثیرؔ
رات دن کے تھکے ہوۓ راہی
یوں ترستے ہیں ، یوں لرزتے ہیں!