اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف مؤرخ ، طب یونانی کے حکیم اور ماہر علم عروض مولوی نجم الغنی خان نجمی رام پوری کا یوم پیدائش ہے

نجم الغنی خان نجمی
(پیدائش: 8 اکتوبر 1859ء – وفات: یکم جولائی 1941ء)
——
مولوی نجم الغنی خان نجمی رامپوری 8 اکتوبر 1859ء میں ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
نجم الغنی خان نجمی کی پرورش ادبی اور علمی ماحول میں ہوئی۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔دادا مولوی عبد العلی خاں عدالت رام پور میں مفتی تھے۔ پر دادا مولوی عبد الرحمان خاں صوفی، منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے، انہوں نے یہ صفات و کردار اپنے والد حاجی محمد سعید خاں سے ورثے میں پائے تھے جنہیں شاہ ولی اللہ دہلوی کا قرب حاصل تھا۔ نجم الغنی خاں کی والدہ حکیم اعظم خاں کی بہن تھیں جو حکیموں کے ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
نجم الغنی خان نجمی کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے عہد کے سر بر آوردہ عالموں میں سے ایک تھے، انہوں نے ریاست اودے پور، راجپوتانہ (موجودہ راجستھان) میں سکونت اختیار کر لی۔ نجم الغنی خاں کی ولادت تو رام پور میں ہوئی لیکن بچپن والد کے ساتھ اودے پور میں گزرا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں پائی۔
1883ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے واپس رامپور آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔یہاں مولوی حفیظ اللہ، مولوی ظہیر الحسن، مولانا عبد الحق خیر آبادی، مولونا محمد طیب مکی، سید حسن شاہ اور مولوی ارشاد حسین جیسے نابغہ روزگار عالموں سے تعلیم حاصل کی۔
1886ء میں فاضل درس نظامی میں اول آئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر، داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی کا یوم وفات
——
نجم الغنی خان نجمی نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے انچارج، لائبریرین، رضا لائبریری، رام پور کے رکاب دار، نواب حامد علی خان کے دربار دار، اسکول میں مدرس (ہیڈ مولوی سے ہیڈ ماسٹر تک) سمیت بہت سی آسامیوں پر خدمات انجام دیں۔ بلاوے پر ریاست حیدرآباد بھی گئے۔ تاریخ سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ چنانچہ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدرآباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ان کی کتاب اخبار الصنادید روہیل کھنڈ کی تاریخ ہے۔ اس کا پہلا مسودہ ستمبر 1889ء میں یعنی مدرسہ عالیہ سے سند لینے کے تین برس بعد مکمل ہوا تھا۔ کتابی صورت میں اخبار الصنادید کا پہلا ایڈیشن لاہور کے مطبع خادم التعلیم نے 1906ء میں شائع کیا تھا۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں کی تعداد تقریباً 32 ہے۔ پانچ قلمی نسخے بھی یادگار چھوڑے۔
1893ء میں ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شمس الغنی خاں رکھا گیا۔
——
تصانیف
——
اخبار الصنادید (روہیلکھنڈ کی تاریخ)
اصول فقہ
مختصر الاصول
مذاہب الاسلام
تاریخ راجگان ہند موسوم بہ وقائع راجستان
تاریخ اودھ
بحر الفصاحت (یہ کتاب رام پور میں مطبع سرور قیصری سے 1885ء میں شائع ہوئی تھی، اس وقت 232صفحات پر مشتمل تھی۔ دوسری بار 1917ء میں مطبع منشی نول کشور سے شائع ہوئی تو صفحات کی تعداد 1119 تھی۔)
خواص الادویہ
خزانۃ الادویہ
تعلیم الایمان شرح فقہ اکبر
تہذیب الاعقائد (شرح عقائد نسفی)
سلک الجواہر فی احوال البواہریہ (بوہری فرقہ کی تاریخ)
تذکرۃ السلوک (تصوف)
معیار الافکار (منطق، فارسی)
میزان الافکار (منطق، فارسی)
نہج الادب(صرف و نحو، قواعد فارسی)
مزیل الغواشی
مختصر الاصول
شرح سراجی
قرابا دین نجم الغنی
منتہی القواعد عرف قواعد حامدی
تسہیل اللغات (غیر مطبوعہ)
رسالہ نجم الغنی ( نہج الادب کا انتخاب)
مفتاح البلاغت ( بحر الفصاحت کا انتخاب)
شرح چہل کاف
مختصر تاریخِ دکن
——
وفات
——۔
حکیم نجم الغنی خان نجمی رام پوری یکم جولائی 1941ء کو 82 سال کی عمر میں رام پور میں فوت ہوئے۔
——
(نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیع الاول 1349 ھجری 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔)
——
یہ بھی پڑھیں : اُردو کے نامور شاعر رام ریاض کا یومِ وفات
——
اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مورخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مورخ ہیں۔ شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرہ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔ مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہارانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہاراجہ کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاو کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔
میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کئے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہوجائے گی۔
مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔
رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔
ضمیمہ نظام المشائخ دہلی ، اگست 1930 صفحہ 17۔18
مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعی کا بھی ذوق رکھتے تھے ، نجمی تخلص تھا ۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔ ان کی تالیفات کی فہرست درج ذیل ہے:
تاریخ اودھ
1910-1914 میں حکیم نجم الغنی خاں نے تاریخ اودھ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی جس کا پہلا اڈیشن مطبع نیر اعظم مراد آباد و مطبع مطلع العلوم مراد آباد سے شائع ہوا۔ جنوری 1978 میں‌اس کتاب کی پہلی جلد نفیس اکیڈمی کراچی نے نہایت اہتمام سے شائع کی ہے۔ راقم الحروف محمد ایوب قادری نے اس پر مقدمہ لکھا ہے۔
عقود الجواہر فی احوال البواہر
سلک الجواہر فی احوال البواہر
یہ دونوں رسالے بوہروں کے حالات میں ہیں اور مطبع نیر اعظم مراد آباد میں چھپے ہیں۔
اخبار الصنادید (دو حصے)
یہ روہیلوں اور روہیل کھنڈ کی مفصل تاریخ ہے۔ اس کا پہلا اڈیشن پیسہ اخبار لاہور میں چھپا تھا اور دوسرا اڈیشن مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوا۔
حکیم نجم الغنی خاں نے اخبار الصنادید علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کیا جس کی رسید اور رائے دیتے ہوئے علامہ اقبال نے حکیم نجم الغنی خاں کو مندرجہ ذیل خط لکھا۔
لاہور 14 دسمبر 1918
مخدوم و مکرم جناب قبلہ حکیم صاحب السلام علیکم
اخبار الصنادید کی دو جلدوں کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں نے پہلی جلد کو بالخصوص نہایت دلچسپی سے پڑھا۔ قوم افغان کی اصلیت پر آپ نے خوب روشنی ڈالی ہے۔ کشامرہ غالبا اور افاعنہ یقینا اسرائیلی الاصل ہیں۔ قاضی امیر احمد شاہ رضوانی جو خود افغان ہیں ایک دفعہ مجھ سے فرماتے تھے کہ لفظ "فغ” قدیم فارسی میں بمعنی بت آیا ہے اور افغان میں الف سالبہ ہے چونکہ ایران میں بود و باش رکھنے کے وقت افغان بت پرست نہ تھے اس واسطے ایرانیوں نے انہیں افغان کے نام سے موسوم کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : بفضل کبریا، نجم ھدی صدیق اکبر ہیں
——
میرے خیال میں حال کی پشتو میں بہت الفاظ عبرانی اصل کے موجود ہیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو مجھے یقین ہے نہایت بار آور ہوگی۔ آپ کا طرز تحریر نہایت سادہ اور موثر ہے اور بحیثیت مجموعی آپ کی تصنیف تاریخ کا عمدہ نمونہ ہے۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا
کارنامہ راجپوتاں
یہ اجستھان کی تاریخ ہے۔ مطبع روزانہ اخبار بریلی سے شائع ہوئی ہے۔
وقائع راجستھان
یہ بھی راجپوتانے کی تاریخ ہے اور مطبع روزنامہ ہمدم لکھنو سے شائع ہوئی ہے۔
تاریخ راجپوتانہ
یہ کتاب مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔
نہج الادب
فارسی قواعد ، اصول ادب ، صنائع بدائع اور علم بیان پر مفصل تصنیف ہے۔ 1919 میں مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوئی ہے۔
رسالہ نجم الغنی
یہ نہج الادب کا خلاصہ ہے۔ مطبع احمدی رام پور سے شائع ہوا ہے۔
منتہی القواعد عرف قواعد حامدی
اردو زبان میں کتاب لکھی گئی ہے۔
شرح نکتہ رسالہ عبدالواسع ہانسوی
یہ فارسی رسالہ منتہی القواعد کے ساتھ چھپا ہے۔
بحر الفصاحت
یہ اپنے موضوع پر اہم اور ضخیم کتاب ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اردو فاضل کے کورس میں داخل رہی ہے۔ ایک مرتبہ مطبع سرور قیصری رام پور میں اور دو مرتبہ مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہو چکی ہے۔
مفتاح البلاغت
یہ بحر الفصاحت کا انتخاب ہے اور مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوا ہے۔
خواص الادویہ
یہ کتاب ادویہ مفردہ کے بیان میں ہے۔ تین جلدوں میں مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔
خزانتہ الادویہ
یہ کتاب چار جلدوں میں مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوئی ہے۔
خزائن الادویہ
یہ کتاب آٹھ ضخیم جلدوں میں مطبع پیسہ اخبار لاہور سےشائع ہوئی ہے۔
قرابا دین نجم الغنی
یہ مرکب ادویہ کے بیان میں ضخیم کتاب ہے۔ مطبع نول کشور لکھنو سے دو مرتبہ چھپ چکی ہے۔
القول الفیصل فی شرح الطہر المتخلل
شرح وقایہ کے مسئلہ متخلل کی شرح عربی زبان میں لکھی ہے۔
مختصر الاصول
یہ کتاب اصول فقہ میں ہے۔ مطبع نیر اعظم مراد آباد سے شائع ہوچکی ہے۔
مزیل الغواشی
اصول الشاشی کی شرح ہے۔ مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوچکی ہے۔
تہذیب العقائد
عقائد نسفی کی شرح ہے۔ کئی مرتبہ مطبع نامی لکھنو سے شائع ہوچکی ہے۔
تعلیم الایمان
فقہ اکبر کی ضخیم شرح ہے۔ مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوچکی ہے۔
تذکرۃ السلوک
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی کا یوم پیدائش
——
تصوف و سلوک سے متعلقہ کتاب ہے۔ اس میں مصطلحات صوفیہ کی فہرست باعتبار حروف تہجی شامل ہے۔ آخر میں دو تین فتوے بھی شامل ہیں۔
شرح سراجی
علم فرائض میں نہایت اہم اور مفید کتاب ہے۔ مطبع سرکاری رام پور میں طبع ہوئی ہے۔
معیار الافکار
یہ فارسی زبان کا رسال مطبع احمدی رام پور سے شائع ہوا ہے۔
شرح چہل کاف
یہ رسالہ مطبع نیر اعظم مراد آباد سے شائع ہوا ہے۔
مفتاح المطالب
یہ رسالہ قرآن کی آیات سے فال نکالنے کے بیان میں ہے اور شیخ محی الدین ابن عربی کے ایک عربی رسالہ کا اردو ترجمہ ہے۔ مطبع سرور قیصری رام پور سے شائع ہوچکا ہے۔
تاریخ ریاست حیدر آباد دکن
حیدر آباد دکن کی مفصل تاریخ ہے مطبع نول کشور لکھنو سے شائع ہوچکی ہے۔
مختصر تاریخ رام پور
تسہیل اللغات
یہ کتاب اردو زبان میں لغات و مصطلحات پر لکھی تھی۔ 1928 میں حرف سین تک لکھی جاچکی تھی۔ یہ مواد دو جلدوں میں آیا تھا۔ جلد اول 634 صفحات اور جلد دوم 534 صفحات پر مشتمل تھی۔ مولانا نجم الغنی خاں نے دونوں جلدیں نواب سر رضا علی خاں رئیس رام پور کو پیش کردی تھیں۔ صرف دوسری جلد رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے۔
تاریخ اودے پور
مولانا نجم الغنی خان سے یہ کتاب خواجہ حسن نظامی نے لے لی تھی ، غالبا شائع نہ ہوسکی۔
مذاہب اسلام
یہ کتاب فرقہ ہائے اسلام کے عقائد و احوال کے بارے میں ہے۔
دیوان نجمی
حکیم نجم الغنی خاں شاعرانہ ذوق رکھتے تھے۔ نوجوانی میں خوب شعر کہتے تھے۔ 16 سال کی عمر تک جو کچھ کہا تھا اس کا انتخاب کرکے دیوان نجمی کے نام سے 27 نومر 1929 کو رضا لائبریری رام پور میں داخل کر دیا ہے۔ اس مجموعہ کلام میں غزلیات و قصائد ہیں ۔
——
(یہ متن مولانا نجم الغنی خاں کی کتاب "مذاہب اسلام” کے مقدمہ از پروفیسر محمد ایوب قادری سے لیا گیا ہے۔)
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
الٰہی تو ہے کردگارِ جہاں
دو عالم میں ہے سکہ تیرا رواں
سرِ فرش سے عرش تک بے گماں
برابر ہے تجھ پر عیاں و نہاں
ہزاروں طرح کے چمن در چمن
کھلاتا ہے تُو لالہ و یاسمن
نسیمِ سحر کو تری آرزو
پھراتی ہے شام و سحر چار سُو
اُگائے ہزاروں طرح کے شجر
دیے سبز و شاداب برگ و ثمر
ترا کفو کوئی نہ خلقت سے تُو
بری ہے اب وجد کی تہمت سے تُو
مہ و آفتاب و زمین و فلک
پری زاد و انسان و حور و ملک
تو بینا ہے بے چشم و نورِ بصر
سبب سے مُبرا ہے شام و سحر
گلستانِ عالم میں لیل و نہار
دکھاتا ہے رنگِ خزاں و بہار
رولاتا ہے شبنم کو تُو رات بھر
ہنساتا ہے غنچوں کو وقتِ سحر
کیا ہے کچھ اس رنگ سے رازداں
کہ خاموش ہے سوسن زدہ زباں
ہر اک لذت و رنگ و بُو میں جُدا
اثر کا وہ عالم کہ صلِ علیٰ
یہ جو کچھ ہے پیشِ نظر جلوہ گر
طلسمِ شب و روز شام و سحر
یہ سب تیری قدرت سے پیدا ہوئے
نہاں و عیاں آشکارا ہوئے
ہر اک کو بڑے حسنِ دل خواہ سے
تُو لایا جہاں میں عدم گاہ سے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
اُٹھاؤں دمِ جوشِ اُلفت قلم
کروں نعتِ شاہِ مدینہ رقم
وہ اشعار پیدا کروں دلنشیں
کہیں سُن کے روح الامیں آفریں
رسولِ اولوالعزم گیتی سناں
فرستادۂ خُسروِ خسرواں
ضلالت نہ باقی رہی نام کو
نکالا خدائی سے اصنام کو
کبھی موجِ کوثر بنی اُنگلیاں
ہوئے آبِ شیریں کے چشمے رواں
درختوں نے آ کر کبھی پیشِ پا
گواہی نبوت کی دی برملا
کبھی کچھ لعابِ دہن ڈال کر
کیا چاہِ شورابہ رشکِ شکر
غرض اُن کے اعجاز کیا ہوں بیاں
زبانِ قلم میں یہ قدرت کہاں
جگر کاوشِ فکر سے خوں کروں
رقم رشک یاقوت مضموں کروں
محمد ہیں سردار کونین کے
محمد ہیں سالار دارین کے
کیا اس طرح منصبی فرض ادا
کہ بول اٹھے روح الامیں مرحبا !
ہزاروں کیے معجزے آشکار
کہ مشکل ہے جن کا بیان و شمار
نہ انسان لب تشنہ آیا نظر
نہ پیاسا کسی کا رہا جانور
کبھی سنگِ رہ بے زبان دہن
ہوئے آپ سے برملا ہم سخن
کبھی شق کیا آپ نے ماہ کو
دیا داغ کُفارِ گمراہ کو
بشر کیا کہے آپ کی شان میں
خدا خود ہے وصاف قرآن میں
——
مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات
——
الٰہی میں ہوں بندۂ پُر گناہ
شب و روز مثلِ قلم رو سیاہ
تری شانِ رحمت سے پروردگار
یہ امید رکھتا ہوں لیل و نہار
فرشتے شب و روز شام و سحر
نگاہوں سے میری نہاں خیر و شر
ملے جب پسِ مرگ مدفن مجھے
تہہِ گنبدِ خاک مسکن مجھے
کرم سے تو مانندِ صبحِ امید
عطا کر مجھے حُسنِ رو سے سفید
کہ میرے گناہوں کو افشا نہ کر
مجھے دن قیامت کے رُسوا نہ کر
جو کچھ لکھتے ہیں قدرتی خامہ سے
مٹا دے سرِ صفحۂ نامہ سے
زمینِ لحد ہو برائے فشار
تنِ خستہ و زار سے ہمکنار
لکیریں حاضر ہوں بہرِ سوال
کریں نسبتِ اصل دیں قیل و قال
سوالات کے دوں مناسب جواب
فشارِ لحد کے نہ دیکھوں عذاب
دل آرا جو حُسنِ رخِ پاک ہو
مجھے فرشِ گُل بسترِ خاک ہو
نہ سونے دے جب شور و غوغا سے حشر
ہر اک سمت ہو زورِ سودائے حشر
جگر تشنگی سے نہ بیتاب کر
مجھے آبِ کوثر سے سیراب کر
طفیلِ محمد علیہ السلام
عطا کر مجھے قصرِ دارالسلام
تُو اُس وقت لے اس طرح سے خبر
کہ رہ جائیں سب منہ مرا دیکھ کر
تہہِ گور بھی اے مجیب الدعا
رہیں میرے حامی شفیع الورا
شرف یاب چشمِ تمنا کروں
جمالِ مبارک کو دیکھا کروں
قیامت کے میداں میں لا کر مجھے
عطا کر تُو قربِ پیمبر مجھے
کرم سے کر اپنے مکرم مجھے
جگہ دے تہہِ عرشِ اعظم مجھے
وہاں خاص رحمت کے اقرار سے
شرف یاب کر اپنے دیدار سے
ترے فضل سے ہے یہاں یہ امید
وگرنہ کہاں میں ، کہاں یہ امید
——
شعری انتخاب از قرابا دین نجم الغنی ، مصنف نجم الغنی خان نجمی
صفحہ نمبر 1 ، 2
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ