آج معروف شاعر اور ہندوستانی فلموں کے گیت نگار، جناب نقش لائلپوری کا یومِ پیدائش ہے۔

——
نقش لائلپوری کا اصل نام جسونت رائے شرما ہے۔ وہ 24 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ نقش کے والد انجینیئر تھے اور چاہتے تھے کہ انکا بیٹا بھی انجینیئر بنے، مگر نقش صاحب کو سائنس سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اسی وجہ سے وہ ایک اچھے طالبعلم نہ تھے۔ وہ کم عمری ہی سے اردو ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی شوق کی تکمیل کے لیے وہ لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور بہت جلد مقبول ہو گئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد نقش اپنے خاندان کے ہمراہ لکھنؤ چلے گئے جہاں انکا دل نہ لگا۔ لکھنؤ سے وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) چلے گئے جہاں انہوں نے محکمۂ ڈاک میں ملازمت کر لی لیکن جلد ہی اس زندگی سے اکتا گئے۔ بمبئی میں انکی ملاقات اداکار رام موہن سے ہوئی اور دونوں دوست بن گئے۔ رام موہن نے انکی ملاقات فلمساز جگجیت سیٹھی سے کروائی جن کی وجہ سے نقش صاحب کو فلم ‘جگو’ کیلئے گیت لکھنے کا موقع ملا۔ اسکے بعد انہوں نے ‘گھمنڈ’، ‘رائفل گرل’، ‘سرکس کوئین’ اور ‘چوروں کی بارات’ جیسی فلموں میں گیت نگاری کی۔ انہوں نے اُس دور میں کئی پنجابی فلموں کیلئے بھی گیت لکھے تاہم وہ اپنے کام سے مطمئن نہ تھے۔ نقش صاحب کو اصل کامیابی 1970ء کی فلم ‘چیتنا’ سے ملی جسکا مکیش کی آواز میں گایا ہوا گیت ‘میں تو ہر موڑ پر تجھ کو دوں گا صدا’ بیحد مقبول ہوا۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے بے شمار فلموں کیلئے گیت لکھے جو اپنے دور میں سپرہٹ ثابت ہوئے۔ ان نغمات میں ‘رسمِ الفت کو نبائیں تو نبھائیں کیسے’ (فلم دل کی دھڑکن)، ‘الفت میں زمانے کی’ (فلم کال گرل)، ‘یہ ملاقات اک بہانہ ہے’ (فلم خاندان) اور ‘نجانے کیا ہوا جو تُو نے چھو لیا’ (فلم درد) جیسے سدا بہار نغمات شامل ہیں۔
22 جنوری 2017 کو نقش لائلپوری وفات پا گئے تھے۔
——
نقش لائلپوری ، ایک منفرد گیت نگار از عبد الحفیظ ظفر
——
”مانا تری نظر میں ترا پیار ہم نہیں‘‘ اور ”چوری چوری کوئی آئے‘‘ جیسے مقبول گیت لکھے،سادہ الفاظ کا استعمال انکی نغمہ نگاری کا خاص وصف تھا
کچھ فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کی نہ زندگی میں قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی موت کے بعد ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال افسوسناک نہیں بلکہ المناک ہے۔ ہم اس مضمون میں ایک ایسے ہی گیت نگار کا ذکر کرر ہے ہیں جن کو ان کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ انکا نام تھا نقش لائلپوری۔نقش لائلپوری 24 فروری 1928کو لائلپور (اب فیصل آباد) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام جسونت رائے تھا۔ ان کے والد انجینئر تھے۔ نقش لائلپوری جب صرف دس ماہ کے تھے تو ان کی والدہ چل بسیں اور ان کے والد نے دوسری شادی کر لی۔ راولپنڈی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نقش لائلپوری لائلپور (فیصل آباد) کے ایک ہوسٹل میں شفٹ ہو گئے تاکہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ سکول میں نقش لائلپوری کے اردو کے استاد نے انہیں ہمیشہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دیں۔ بعد میں نقش صاحب لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے اردو روزنامہ ”رنجیت نگارا‘‘ میں کام کرنا شروع کیا۔تقسیم ہند کے بعد وہ بھارت چلے گئے۔ وہ لکھنو آئے اور انجینئرنگ کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کی لیکن یہ شعبہ انہیں راس نہ آیا اور وہ 1949ء میں ممبئی چلے گئے۔ یہاں انہیں ایک سٹیج ڈرامہ تحریر کرنے کی پیشکش کی گئی۔ اس ڈرامے کیلئے مشہور ڈرامہ ایکٹر رام موہن کو کاسٹ کیا گیا۔ نقش لائلپوری کے لکھے گئے سکرپٹ اور نغمات سے متاثر ہو کر رام موہن نے ان کا تعارف جگدیش سیٹھی سے کرایا۔ سیٹھی نے نقش لائلپوری کو اپنی فلم جگو (1932ء) کا ایک گیت لکھنے کو کہا۔ نقش صاحب کے علاوہ کچھ دوسرے نغمہ نگار اسد بھوپالی‘ ورما ملک‘ بھارت ویاس اور اے شاہ شکارپوری بھی آزمائشی طور پر اس فلم کے گیت لکھ رہے تھے۔ نقش صاحب کا لکھا ہوا گیت ”میں تیری ہوں‘ تو میرا ہے‘‘ اداکارہ کلدیپ کور پر پکچرائز ہوا۔ فلم کی موسیقی ہنس راج بہل نے ترتیب دی تھی۔ نقش صاحب نے ہنس راج بہل کے ساتھ 3 مزید فلموں میں کام کیا۔ یہ فلمیں تھیں ”نپشنرہ (1954)‘ مست قلندر (1955) اور گل بکاؤلی (1963)۔
انہوں نے 1953 ء میں سپن جگموہن کی پنجابی فلم ”جیجا جی‘‘ کیلئے کام کیا۔جب یہ فلم کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو انہیں کئی دوسری پنجابی فلموں کیلئے کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ انہوں نے 40پنجابی فلموں کیلئے 350 نغمات تحریر کئے۔ انہوں نے کئی سٹنٹ فلموں کیلئے بھی لکھا۔ 1960میں انہوں نے فلم ”چوروں کی بارات‘‘ کیلئے کچھ اور گیت نگاروں کے ساتھ مل کر کام کیا جن میں فاروق غازی‘ ساجن بہاری اور گلزار دینوی شامل ہیں۔ یہی گلزار دینوی بعد میں گلزار کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس کیساتھ ساتھ وہ دیگر ہندی فلموں کیلئے کام کرتے رہے جن میں ”تیری تلاش میں‘‘ (1968) ‘ کیپٹن شیرو (1963) سرفروش (1964) اور سنگدل (1967) شامل ہیں۔ لیکن ان کی شناخت 1971میں ریلیز ہونے والی فلم ”چیتنا‘‘ سے ہوئی۔ اس فلم کا یہ گیت بہت مقبول ہوا ”میں تو ہر موڑ پر تجھ کو دوں گا صدا‘‘ اس گیت کو مکیش نے گایا تھا۔ اس فلم کے ہٹ ہونے کے بعد نقش لائلپوری کو تمام عظیم سنگیت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں مدن موہن‘ جے دیو‘ رویندر جین‘ خیام‘ نوشاد اور شنکر جے کشن شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے
——
مذکورہ بالا تمام موسیقاروں کیلئے نقش لائلپوری نے جو گیت لکھے ان میں اکثر گانے سپرہٹ ہوئے۔نقش لائلپوری نے کئی ٹی وی ڈراموں کیلئے بھی نغمات لکھے۔ نقش لائلپوری کی نغمہ نگاری کا یہ خاص وصف تھا کہ وہ سادہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔ 1973میں ان کا فلم ”دل کی راہیں‘‘ کیلئے لکھا گیا یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا ”رسم الفت کو نبھائیں‘‘۔ یہ گانا لتا منگیشکر نے گایا تھا۔ لتا نے اس گیت کی کامیابی کا کریڈٹ نقش لائلپوری اور موسیقار مدن موہن کو دیا۔ یہ گیت راگ مدھوونتی میں گایا گیا تھا۔ 1977 میں فلم ”گھروندا‘‘ کیلئے لکھا گیا ان کا یہ گیت بہت مقبول ہوا ”تمہی ہو نا ہو‘‘ یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا۔ پھر 1979میں فلم ”خاندان‘‘ کیلئے ایک گیت لکھا ۔ ان کے اس گیت نے زبردست شہرت حاصل کی جس کے بول تھے ”یہ ملاقات اِک بہانہ ہے‘‘۔ اس گیت کو غزل کے انداز میں لکھا گیا تھا۔ 1991میں ریلیز ہونے والی فلم ”حنا‘‘ کیلئے انہوں نے پنجابی گیت لکھا ”چھٹیے نی درد فراق والیے‘‘ 2000 میں انہوں نے اکبر خان کی فلم ”تاج محل‘‘ کیلئے گیت لکھے۔ نقش لائلپوری نے فلم ”درد‘‘ کیلئے بھی شاندار نغمات لکھے۔ اس کے علاوہ فلم ”نوری‘‘ کیلئے بھی ان کا یہ گیت بہت مشہور ہوا ”چوری چوری کوئی آئے‘‘ وہ انڈین پرفارمنگ رائٹس سوسائٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے جن فلموں کیلئے گیت لکھے ان میں ”جگو‘ گھمنڈ‘ چوروں کی بارات‘ تیری تلاش میں‘ چیتنا‘ دل کی راہیں‘ کال گرل‘ گھروندا‘ تمہارے لیے‘ درد‘ دل ناداں اور حنا‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
نقش لائلپوری نے خوبصورت غزلیں بھی تحریر کیں۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔
——
مانا تری نظر میں ترا پیار ہم نہیں
کیسے کہیں کہ تیرے طلبگار ہم نہیں
تن کو جلا کے راکھ بنایا بجھا دیا
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
جس کو نکھارا ہم نے تمنا کے خون سے
گلشن میں اس بہار کے حقدار ہم نہیں
——
نقش لائلپوری کے مشہور نغمات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
——
1- میں تو ہر موڑ پر…فلم چیتنا
2- پھر تری یاد نے دیپ… فلم آئی تیری یاد
3- تمہارا پیار شامل ہے… فلم آئی تیری یاد
4- ابھی تو جی لیں…فلم ابھی تو جی لیں
5- مانا تیری نظر میں…فلم آہستہ آہستہ
6- دل جلے تو کوئی کیا کرے…فلم کال گرل
7- الفت میں زمانے کی… فلم کال گرل
8- چوری چوری کوئی آئے…فلم نوری
9- نجانے کیا ہوا جو تو نے چھو لیا… فلم درد
10- پیار کا درد ہے… فلم درد
22جنوری 2017کو یہ نادر روزگار نغمہ نگار 88برس کی عمر میں اس جہاں سے رخصت ہو گیا۔
——
منتخب کلام
——
نام ہونٹوں پہ ترا آۓ تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
——
یہ انجمن یہ قہقہے یہ مہوشوں کی بھیڑ
پھر بھی اداس پھر بھی اکیلی ہے زندگی
——
خود کو جلا کے راکھ بنایا ، مٹا دیا
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
——
ہم نے کیا پا لیا ہندو یا مسلماں ہو کر
کیوں نہ انساں سے محبت کریں انساں ہو کر
——
زندگی میں سدا مسکراتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
فاصلے کم کرو دل ملاتے رہو
درد کیسا بھی ہو آنکھ نم نہ کرو
رات کالی سہی کوئی غم نہ کرو
اک ستارہ بنو، جگمگاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
بانٹنا ہے اگر بانٹ لو ہر خوشی
غم نہ ظاہر کرو تم کسی پہ کبھی
دل کی گہرائی میں غم چھپاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
اشک انمول ہیں، کھو نہ دینا کہِیں
ان کی ہر بُوند ہے موتیوں سے حسِیں
ان کو ہر آنکھ سے تم چُراتے رہو
زندگی میں سدا مُسکرا تے رہو
فاصلے کم کرو دل ملاتے رہو
زندگی میں سدا مُسکراتے رہو
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اور گیت نگار ، صہباؔ اختر کا یوم وفات
——
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
دھڑکنیں دھڑکنوں میں کھو جائیں
دل کو دل کے قریب لانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
میں ہوں اپنے صنم کی بانہوں میں
میرے قدموں تلے زمانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
خواب تو کانچ سے بھی نازک ہیں
ٹوٹنے سے انہیں بچانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
مَن میرا پیار کا شِوالا ہے
آپ کو دیوتا بنانا ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
——
اپنی بھیگی ہوئی پلکوں پہ سجا لو مجھ کو
رشتۂ درد سمجھ کر ہی نبھا لو مجھ کو
چوم لیتے ہو جسے دیکھ کے تم آئینہ
اپنے چہرہ کا وہی عکس بنا لو مجھ کو
میں ہوں محبوب اندھیروں کا مجھے حیرت ہے
کیسے پہچان لیا تم نے اجالو مجھ کو
چھاؤں بھی دوں گا دواؤں کے بھی کام آؤں گا
نیم کا پودا ہوں آنگن میں لگا لو مجھ کو
دوستوں شیشے کا سامان سمجھ کر برسوں
تم نے برتا ہے بہت اب تو سنبھالو مجھ کو
گئے سورج کی طرح لوٹ کے آ جاؤں گا
تم سے میں روٹھ گیا ہوں تو منا لو مجھ کو
ایک آئینہ ہوں اے نقشؔ میں پتھر تو نہیں
ٹوٹ جاؤں گا نہ اس طرح اچھالو مجھ کو
——
کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے
تو کرن ہے کے کلی ہے کے صبا ہے کیا ہے
تیری آنکھوں میں کئی رنگ جھلکتے دیکھے
سادگی ہے کہ جھجھک ہے کہ حیا ہے کیا ہے
روح کی پیاس بجھا دی ہے تری قربت نے
تو کوئی جھیل ہے جھرنا ہے گھٹا ہے کیا ہے
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
ہوش میں لا کے مرے ہوش اڑانے والے
یہ ترا ناز ہے شوخی ہے ادا ہے کیا ہے
دل خطا وار نظر پارسا تصویر انا
وہ بشر ہے کہ فرشتہ ہے کہ خدا ہے کیا ہے
بن گئی نقش جو سرخی ترے افسانے کی
وہ شفق ہے کہ دھنک ہے کہ حنا ہے کیا ہے
——
مانا تری نظر میں ترا پیار ہم نہیں
کیسے کہیں کہ تیرے طلب گار ہم نہیں
سینچا تھا جس کو خون تمنا سے رات دن
گلشن میں اس بہار کے حق دار ہم نہیں
ہم نے تو اپنے نقش قدم بھی مٹا دیے
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
یہ بھی نہیں کے اٹھتی نہیں ہم پہ انگلیاں
یہ بھی نہیں کے صاحب کردار ہم نہیں
کہتے ہیں راہ عشق میں بڑھتے ہوئے قدم
اب تجھ سے دور منزل دشوار ہم نہیں
جانیں مسافران رہ آرزو ہمیں
ہیں سنگ میل راہ کی دیوار ہم نہیں
پیش جبین عشق اسی کا ہے نقش پا
اس کے سوا کسی کے پرستار ہم نہیں
——
جب درد محبت کا مرے پاس نہیں تھا
میں کون ہوں کیا ہوں مجھے احساس نہیں تھا
ٹوٹا مرا ہر خواب ہوا جب سے جدا وہ
اتنا تو کبھی دل مرا بے آس نہیں تھا
آیا جو مرے پاس مرے ہونٹ بھگونے
وہ ریت کا دریا تھا مری پیاس نہیں تھا
بیٹھا ہوں میں تنہائی کو سینہ سے لگا کے
اس حال میں جینا تو مجھے راس نہیں تھا
کب جان سکا درد مرا دیکھنے والا
چہرہ مرے حالات کا عکاس نہیں تھا
کیوں زہر بنا اس کا تبسم میرے حق میں
اے نقشؔ وہ اک دوست تھا الماس نہیں تھا