اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف صحافی، مؤرخ، مترجم ، ناول نگار اور سوانح نگار رئیس احمد جعفری ندوی کا یوم وفات ہے

 

 رئیس احمد جعفری ندوی
(پیدائش: 23 مارچ، 1914ء – وفات: 27 اکتوبر، 1968ء)
——
رئیس احمد جعفری ندوی 23 مارچ 1914ء کو لکھیم پور، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ندوۃ العلما، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔
1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان کی سوانح عمری سیرت محمد علی کے نام سے تحریر کی۔ 1934ء میں مولانا شوکت علی نے انہیں روزنامہ خلافت بمبئی کا مدیر مقرر کیا۔ مولانا شوکت علی کی وفات کے بعد وہ روزنامہ ہندوستان اور روزنامہ انقلاب، لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔ 1949ء میں وہ پاکستان چلے آئے، پاکستان میں بھی وہ کئی اخبارات اور جرائد کے مدیر اور نائب مدیر رہے جن میں روزنامہ خورشید، ماہنامہ ریاض، روزنامہ زمیندار اور سہ ماہی ثقافت کے نام سرفہرست ہیں۔
رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں اقبال اور عشق رسول، دیدو شنید، علی برادران، اوراق گم گشتہ، اقبال اور سیاست ملی، واجد علی شاہ اور ان کا عہد، تاریخِ تصوّف، تاریخ دولت فاطمیہاور بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد زیادہ مشہور ہیں۔
تصانیف:
واجد علی شاہ اور ان کا عہد،
بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد
علی برادران،
اوراق گم شدہ،
دید و شنید
حکایات اغانی (جزو اول)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو دوم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو سوم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو چہارم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو پنجم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو ششم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
حکایات اغانی (جزو ہفتم)، از ابوالفرح علی بن حسین (ترجمہ)
مفرور (ناول)،جوزف ہیز (ترجمہ)
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر رئیس امروہوی کا یوم وفات
——
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے،روز وائلڈرلین (ترجمہ)
اقبال اپنے آئینے میں
اقبال اور سیاست ملی
اقبال اور عشق رسول
حیات محمد علی جناح
مسلم لیگ، قائد اعظم و مولانا مودودی
خطباتِ قائدِ اعظم
قائدِ اعظم اور ان کا عہد
نگارشاتِ محمد علی (جوہر شناسی)
سیرت محمد علی (جوہر شناسی)
رندِ پارسا (ریاض خیرآبادی کے حالات سوانح و کلام)
باغی (ناول)
اورنگزیب
غدر
احمد و ایاز
مولانا محمد علی جوہر
الناصر
خون بہتا رہا
دام خیال
ہچکولے (ناول)
تعلق (ناول)
نازلی (ناول)
نفرت (ناول)
محبت کا انتقام (ناول)
یورش (ناول)
پاگل (ناول)
جال (ناول)
بدنام (ناول)
دل کے آنسو (افسانہ)
خلیفہ ہارون الرشید اور اُس کا عہد
تاریخ خوارج
تاریخِ تصوّف
شہاب الدین غوری
خون کی ہولی (ناول)
کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی ( ترجمہ)
آزادی ہند
سیاست شرعیہ
امامت و سیاست
اسلام اور رواداری
اسلام اور عدل و احسان
سفرنامہ ابن بطوطہ حصہ اول و دوم (ترجمہ)
امام جعفر صادق
آثار امام محمد و ابو یوسف
آثار امام شافعی
امام ابوحنیفہ
امام ابن تیمیہ
امام احمد بن حنبل
تاریخ دولت فاطمیہ
آثار امام محمد ابو یوسف
اسوہ علی
حضرت امام جعفر صادق
سیرت ائمہ اربعہ
حجاج بن یوسف
خوارزم شاہ
حضرت محل
گل کدہ (مضامین)
فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ٹام راج سے رام راج تک
علاؤ الدین خلجی
تاریخ اسلام موسوم بہ کاروان اسلام
تغلق
ماہرین تعلیم
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
غزالی نامہ
چنگاری
اسلامی جمہوریت
حیدرآباد ۔۔۔۔۔ جو کبھی تھا؟
الناصر
اعزازات
حکومت پاکستان نے رئیس احمد جعفری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 14 اگست، 1966ء میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف مترجم اور سوانح نگار عنایت اللہ دہلوی کا یوم وفات
——
وفات
رئیس احمد جعفری 27 اکتوبر، 1968ء کو پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
——
چند یادیں از مجید نظامی
——
رئیس احمد جعفری مرحوم کو بطور صحافی,مدیر,ادیب,اور مصنف ہر کوئی جانتا تھا ,میں بھی ان کے نام اور کام سے تو واقف تھا …لیکن نیاز حاصل نہیں کر سکا تھا.سن 1962کی فروری میں جب جب سے بھائی مرحوم بزرگوار حمید نظامی کے عارضہءدل کے ہاتھوں اچانک گرفتاری اور انتقال پر لندن سے واپسی پر “نوائےوقت”کی باگ دور سنبھالنی پڑی.تو جن بزرگ دوستوں نے عمی قلمی معاونت و تعاون کی پیشکش فرمائی ان میں مرحوم رئیس احمد جعفری بھی شامل تھے
مولانا محمد علی مرحوم کے جانثارساتھی اور “خلافت”کے سابق مدیر”سیرت محمد علی”کے مصنف جناب رئیس احمد جعفری سے میری ملاقات سن 1964میں ہوئی..مادر ملت نے اپوزیشن کے مجبور کرنے پر قوم کی طرف سے صدر ایوب خاں کو چیلنج کرنا قبول کر لیا تھا .سر کاری مولوی علمائے کرام اور مشائخ حضرات ان کے عورت ہونے تابڑ توڑ حملے کر رھے تھے ..”نوائے وقت” کو میں نے عوام کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے مادرملت کے لیے وقف کر دیا تھاخبریں تو ہم صدر ایوب خاں کی بھی چھاپ رہے تھے.لیکن ادارتی پالیسی ان کے خلاف تھی
میں ابھبی سوچ ہی رہا تھا کہ مادر ملت کے خاتوں امیدوار ہونے کے حق میں کسی سے مضمون لکھنے کی فرمائش کروں کہ کوئٹہ سے ریئس احمد مرحوم کا مدلل اس موضوع پر موصول ہو گیا……یہ مضمون بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا..اس کے بعد ماد ملت بطور خاتون امید وار صدارت کے حق میں مضامین کی چھڑی لگ گئی…جعفری صاحب ان دنوں نیم سرکاری ملازم تھے…اور ادرہ ثقافت اسلامیہ کے لیے کام کر رھے تھے…آپ کی صحت بھی کمزور تھی اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عارضہ دل میں مبتلا ہو چکے تھے ..لیکن آپ نے اپنی صحت اور ذریعہ آمدنی کی ہرواہ کیے بغیر مادر ملت کے حق میں ایک معرکۃالآرامضمون لکھ دیا ..اس مضمون کی اشاعت کے بعد وہ کوئٹہ سے تشریف آوری کے بعد دفتر نوائے وقت میں بھی تشریف لائے ..وہ اوورکوٹ اور گرم ٹوپی میں ملبوس تھے,…افسوس آتس بوڑھا ہو چکا تھا..بہت دیر تک صدارتی انتخابی مہم پر گفتگو فرماتے رہے
یہ سن 1967ءکی بات ہے .حضرت آغا شورش کاشمیری کا فون آیا کہ رئیس احمد جعفری اور رشیداخترندوی کے ہپمراہ دفتر نوائے وقت آ رھے ہیں…چائے تیار رکھوں..کوئی دس منٹ بعد وہ آ دھمکے ..چائے تیا رتھی.جعفری صاحب تو خاموش ہی رھے ندوی صاحب نے فرمایا کہ وہ ایک ادارہ معارف ملیہ کی بنیاد رکھ رھے ہیں..اشاعتی ادارہ ہو گا کام وہ اور جعفری صاحب کریں گے..آغا صاحب کے ساتھ میں بھی اس کا بانی رکن بن جاؤں.ادارے کے سابق صدر چیف جسٹس منیر ہوں گے.میں نے بہت معذرت کی کہ یہ رکنیت میرے بس کا روگ نہیں,,..میں اصولی طور پر بھی اس کے خلاف ہوں ,دوسرے آپ حکومت سے کوئی مفاد بھی ہماری وجہ سے حاصل نہیں کر سکیں گے..اس کے باوجود معلوم نہیں کیوں ندوی صاحب کا اصرار بڑھتا گیا,,,…جعفری صاحب بدستور خاموش تھے
آغا صاحب چونکہ خود حامی بھر چکے تھے اس لیے مجھے مجبور کرنے پر مجبور ہو گئے………..جسٹس منیر صاحب کے ساتھ وقت پہلے ہی طے ہو چکا تھا ..ہم وفد کی صورت میں پندرہ,بیس منٹ بعد ان کے بنگلے میں بیٹھے تھے …میں نے دلچسپ بات یہ نوٹ کی کہ جعفری صاحب وہاں بھی خاموش بیٹھے رہے ..واپسی پر میں راستے میں پوچھا محمد علی اکیڈمی کے ساتھ ساتھ آپ اس اشاعتی ادارے کے لیے وقت نکال سکیں گے؟ تو جعفری صاحب نے اس کا جواب بھی صرف مسکراہٹ میں دیا
اس کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چند ماہ بعد شورش صاحب کو جیل جان پڑا.ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ ادراہ معارف ملیہ کے سربراہ پیر مآب دیول شریف بن گئے ہیں .میں اس کا تراشہ آغا صاحب کو کو جیل میں بھجوایا .انھوں نے فورا ایک خط ندوی صاحب کے نام بھجوا دیا ..کہ بھائی اب ہمارا ادارہ معارف ملیہ کے ساتھ چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے ..وہ خط میں نے آپ کے ساتھ ندوی صاحب کو بھجوا دیا اس طرح یہ باب ختم ہوا…پھر ایک صبح کو اچانک فون آیا کہ جعفری صاحب عارضہ قلب کی وجہ سے انتقال فر ما گئے ہیں اور ان کی میت ان کی بیگم صاحبہ فلاں فلیٹ سے کراچی جا رہی ہیں ..ائیر پورٹ پر ان کی غم سے نڈھال بیوہ کے پاس چند دوست احباب اورعزیز موجود تھے ..جعفری صاحب کا تو ہمیں آخری دیدار نصیب نہ ہوا….
“””” حق مغفرت کرے عجب آرزو مرد تھا “”””
جعفری صاحب مولانا شوکت علی مرحوم کے وفادار اور جانثار ساتھی تھے..ان کے اخبار”خلافت”کے مدیر بھی رہے بعد میں بھی انھوں نے قلم اس مرد مجاہد کے لیے وقف کر دیا ” سیرت مححمد علی ” لکھنے کے بعد وہ مرحوم پر “اتھارٹی” بن گئے …آپ ایک بلند پایہ ادیب,علم فاضل, مصنف , مؤلف, مترجم, اخبار نویس,اور ناول نویس تھے..چونکہ “انجمن ستائش باہمی” یعنی “ترقی پسند مصنفین” میں سے تھے…اسلام کے نام لیوا تھے.اس لیے “رجعت پسند قلمکار” رہے.
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ