اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر راجیندر منچندا بانی کا یوم پیدائش ہے

راجیندر منچندا بانی
(پیدائش: 12 نومبر 1932ء – وفات: 11 اکتوبر 1981ء)
——
راجیندر منچندا بانی 12 نومبر 1932 کو ملتان (اب پاکستان میں) پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان تقسیم ہند کے دوران ہجرت کر کے دہلی میں آ گیا۔ راجیندر منچندا بانی نے دہلی سے معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔ جلد ہی ، اس نے ایک مقامی ہائیر سیکنڈری سکول میں تدریس کا شعبہ اپنایا۔
اپنی شاعری کی تازگی کے ساتھ بانی جدید اردو شاعری میں سب سے اہم شراکت دار کے طور پر ابھرا۔
ان کی شائع شدہ تصانیف میں حرفِ مطبع اور حسبِ رنگ (1976)۔ بانی کا ایک اور مجموعہ شفقِ شجر بعد از مرگ شائع ہوا۔
11 اکتوبر 1981ء کو آپ نے وفات پائی
——
اقتباسات از عمیر منظر کا مونوگراف ’راجندر منچندا بانی‘ کا ایک تجزیاتی مطالعہ ، تحریر : شاہد کمال
——
میں یہاں پراردو زبان و ادب کی قدیم شعری روایات کو معرض بحث نہیں لانا چاہتابلکہ میرا موضوع گفتگو معاصر عہد کی جدیدآمیز شاعری سے عبارت عمیر منظر کا’’ راجیندر منچندا بانی‘‘کا مونوگراف ہے۔یہ مونوگراف’’قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان دہلی‘‘ سے شائع ہوا ہے۔ یہ مونوگراف اردو زبان کے جدید شاعر ــ’’ راجیندر منچندا بانی‘‘ کی مجموعی ادبی تخلیقات پر مشتمل ہے ۔جو عمیر منظر کا ایک گرانقدر ادبی کارنامہ ہے۔اس مونوگراف میں عمیر منظر نے ’’بانی‘‘ کی سوانح حیات بھی ضبط تحریر کی ہے۔جسے پڑھنے کے بعد قاری کو بانی کی زندگی سے متعلق بہت سی دلچسپ معلومات تک رسائی یقینی ہے۔اور جہاں تک بانی کی ادبی اہمیت کی بات ہے تو اس کا اندازہ عمیر منظر کے ’’ابتدیہ‘‘ کے اس تحریری اقتباس سے کرسکتے ہیں ۔اقتباس ملاحظہ کریں ۔’’بحیثیت جدید غزل گو بانی کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے، لیکن بانی کی شاعری کے بارے میں ابھی تک کوئی ایسا تفصیلی مطالعہ ہمارے سامنے نہیں آیا جس سے ان کی قدر و قیمت اور مرتبے کا معروضی انداز میں تعین کیا جاسکے۔‘‘
عمیر منظر کے اس اقتباس سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ،اس لئے کہ ’’بانی‘‘ ہماری جدید اردو شاعری کا ایک ایسا نام ہے جس پر مسلسل کچھ نہ کچھ لکھا جارہا ہے۔لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ’’بانی ‘‘ کی تفصیل پر ابھی اجمال کا ہی گمان ہوتا ہے۔عمیر منظر نے اس کتاب کی درجہ بندی مختلف عناوین کے تحت کی ہے۔اس کتاب کا پہلا عنوان’’سوانح اور شخصیت ‘‘ دوسرا عنوان ’’بانی کی غزل گوئی سے متعلق ہے۔یہ عنوان ’’بانی‘‘ کی شعری لیاقت اور ان کی ذہنی تجدد آمیزی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔عمیق حنفی بانی کی غزل گوئی سے متعلق کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں ۔
’’بانی کو اس صدی کی چھٹی دہائی کے بہترین اور اہم ترین غزل گویوں میں شمار کرنے سے مجھے کوئی مصلحت ، کوئی تکلف اور کوئی خوف باز نہیں رکھ سکتا۔‘‘(حرف معتبر ص 10)
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم پیدائش
——
مجھے بھی اس بات کا احساس ہے کہ راجیندر منچندا بانی کو وہ شہر ت اور مقبولیت نہیں ملی وہ جس کے حقدار تھے۔لیکن بانی کی غزلیں اردوادب کے مشہور ناقدین کی وسعت امکان سے باہر نہیں تھیں ،اس لئے بزرگ نقاد نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بڑے کشادہ دلی کے ساتھ ضرور کیا ہے۔اس کے تمام شواہد اس کتاب میں ضبط تحریر کئے گئے ہیں ۔1970 کے بعد جدیدشعرا کی جو صف بندی کی گئی ہے اس میں راجندر منچندا بانی کا نام بھی شامل ہے۔اس کا اعتراف خود گوپی چند نارانگ نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے،اور وہ مضمون پاکستان کے ایک معروف جریدہ ’’فنون ‘‘ لاہور میں شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی ،شمس الرحمٰن فاروقی،پروفیسر عتیق اللہ وغیرہ نے بھی بانی کی غزلوں کی علامتوں پر ایک الگ زوایہ انفراد سے گفتگو فرمائی ہے،اور خاص کر شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مقبول ترین رسالے ’’شب خون‘‘ میں ’’بانی‘‘ کی بہت سی غزلوں کی اشاعت بھی فرمائی ہے۔میں اپنی بات کی مزید توثیق کے لئے بانی کی مختلف غزلوں میں سے ایک غزل کاتذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ’’شب خون ‘‘ میں ( مارچ، اپریل 1974)کے شمارے میں شائع ہوئی تھے اُسے آپ بھی ملاحظہ کریں ۔
——
صبح کی پہلی دعا سے آشنا ہوتا ہوا
ایک سناٹا ہے مانوس صدا ہوتا ہوا
جاتے موسم کی عجب تصویرہے چاروں طرف
درمیاں اس کے ہے اک پتا ہرا ہوتا ہوا
اتنی آگاہی تو ہے میں بڑھ رہاہوں کس طرف
یہ نہیں معلوم کس سے ہوں جدا ہوتا ہوا
اک نوا آہستہ آہستہ فنا ہوتی ہوئی
ایک حرف صد طلب چپ چپ ادا ہوتا ہوا
دیکھ میں اپنی جگہ سے اک قدم سر کا نہیں
دیکھ تیرا ہی نشانہ ہے خطا ہوتا ہوا
اک نظر ، امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی
ایک منظر ، سوپرت ، یکسر نیا ہوتا ہوا
بڑھ رہا ہے کون اپنا راستہ لیتے ہوئے
سست ہم راہوں سے چپکے سے خفا ہوتا ہوا
——
بانی کی یہ پوری غزل اپنا ایک الگ طرز اسلوب کی نمائندگی کررہی ہے،ان کا یہ اسلوب بڑ دلچسپ ہے ۔جس میں لہجہ کا بانکپن اور لفظوں کا خوبصورت امتزاج ایک نیا رنگ پیدا کررہا ہے۔اور اس غزل کے متون میں انسانی نفسیات اور اس سے متصادم ہونے والےمتغائز احساسات و جذبات کے مختلف کیفیات اس کے معنی کے مختلف جہات کی دریافت کررہے ہیں ۔جس کی وجہ سے اس کے معنوی تنوع اور ترفع میں ایک حیرت و استعجاب کی کیفیت کو جنم دے رہے ہے۔شاید یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے بانی کی غزلوں کا اپنا ایک الگ رنگ ہے،اور اس غزل کا ہر شعر انسان کے اجتماعی شعور کی عکاسی کرنے کے باوجود اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ان کی بیشتر غزلیں کچھ اس طرح کے جدید رنگ و آہنگ سے عبارت ہیں ۔لیکن ان کی غزلوں میں پائی جانے والی رومانی کیفیت میں ہیجان انگیزیزی کے عناصر بڑا توازن پایاجاتا ہے۔اس بات کی طرف خود شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے ۔یہ اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : فخر الدین بلے کا یوم وفات
——
’’راجیندر منچندا بانی کو محبوب کا ایسا وجود قبول کرنے میں تامل تھا جو انسانی شخصیت نہ رکھتا ہو ، محض رومانی یا محض جسمانی ہو ، بانی کے یہاں جسم کے تذکرے میں ایک مہذب بے باکی ہے ، جو ہمارے زمانے میں کم شاعروں کے حصہ میں آئی ہے۔بے باکی جذبے کی ہے اور تہذیب استعارے کی۔‘‘
بانی جتنے اچھے شاعر تھے اسی معیار کے نثر نگار بھی تھے۔ ان کی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تخلیقی عناصر پائے جاتے ہیں ۔جب کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے،کہ ایک اچھا شاعر بہترین نثر نگا ر بھی ہو،لیکن یہ سعادت بانی کو حاصل تھی۔لہذا بانی کی شاعری کے ساتھ ان کی نثرنگاری کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
——
ناقدین کی رائے
——
عمیق حنفی
——
راجیندر منچندا بانی اپنے ہم عصروں میں ایک منفرد اور ممتاز آواز کے مالک ہیں ۔ ان کی غزل میں کسی خاص خیال ، کسی خاص فکر ، کسی خاص لفظ یا کسی خاص استعارے کا موہ اور کسی خاص expression کی تکرار نہیں پائی جاتی ۔ جذبے، احساس ، فکر اور فن کا ایسا سادہ اور فطری استحلال پایا جاتا ہے کہ ذہن اس کی پیچیدگی پہ
عش عش تو کر سکتا ہے اور اس سے محظوظ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے اجزاء کو پوری طرح تحلیل مشکل سے ہی کر سکتا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : نذرانۂ عقیدت بانی جماعتِ اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
——
بانی کو اس صدی کی چھٹی دہائی کے بہترین اور اہم ترین غزل گویوں میں شمار کرنے سے مجھے کوئی مصلحت ، کوئی تکلف اور کوئی خوف باز نہیں رکھ سکتا ۔ بانی کی غزل مجھے ایک توجہ زاد کیفیت Hypnotic State میں چھوڑ جاتی ہے ۔
——
سلام مچھلی شہری
——
اردو غزل کی تلاشِ نو میں اَن گنت جدید شعرا برسرِ پیکار ہیں مگر جو منزل سے قریب تر ہیں اُن میں بانی کا نام بہت اہم ہے ۔
——
مظہر امام
——
میں بانی کو اردو غزل کی نئی آوز سمجھتا ہوں اور ناصر کاظمی اور ظفر اقبال کے بعد سب سے منفرد آواز
——
بشیر بدر
——
بانی تم غزل لکھو یا نظم تمہارا ہر سُخن ایک مقام سے ہوتا ہے ۔ میں تمہارا یار ہوں ، اگر تمہارا کوئی دشمن ہو ، اس سے پوچھ دیکھو ، تمہارے کلام کا وہ بھی عاشق نکلے گا ۔ تم بہت پیارے انسان اور شاعر ہو۔
——
منتخب کلام
——
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
——
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
——
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے
——
یہ بھی پڑھیں : دستِ قاتل کہ نہیں اذنِ رہائی دیتا
——
بانیؔ ذرا سنبھل کے محبت کا موڑ کاٹ
اک حادثہ بھی تاک میں ہوگا یہیں کہیں
——
بگولے اس کے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا
——
اس تماشے میں تأثر کوئی لانے کے لیے
قتل بانیؔ جسے ہونا تھا وہ کردار تھا میں
——
مرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف
——
کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا
کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا
——
وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانیؔ
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا
——
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے
——
جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا
اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا
کوئی کچھ پوچھے تو کہتا کہ ہوا سے بچنا
خود بھی ڈرتا تھا بہت سب کو ڈرا دیتا تھا
اس کی آواز کہ بے داغ سا آئینہ تھی
تلخ جملہ بھی وہ کہتا تو مزہ دیتا تھا
دن بھر ایک ایک سے وہ لڑتا جھگڑتا بھی بہت
رات کے پچھلے پہر سب کو دعا دیتا تھا
وہ کسی کا بھی کوئی نشہ نہ بجھنے دیتا
دیکھ لیتا کہیں امکاں تو ہوا دیتا تھا
اک ہنر تھا کہ جسے پا کے وہ پھر کھو نہ سکا
ایک اک بات کا احساس نیا دیتا تھا
جانے بستی کا وہ اک موڑ تھا کیا اس کے لئے
شام ڈھلتے ہی وہاں شمع جلا دیتا تھا
ایک بھی شخص بہت تھا کہ خبر رکھتا تھا
ایک تارا بھی بہت تھا کہ صدا دیتا تھا
رخ ہوا کا کوئی جب پوچھتا اس سے بانیؔ
مٹھی بھر خاک خلا میں وہ اڑا دیتا تھا
——
یہ بھی پڑھیں : میری آنکھوں سے وہ آنسو جدا ہونے نہیں دیتا
——
وہ بات بات پہ جی بھر کے بولنے والا
الجھ کے رہ گیا ڈوری کو کھولنے والا
لو سارے شہر کے پتھر سمیٹ لائے ہیں ہم
کہاں ہے ہم کو شب و روز تولنے والا
ہمارا دل کہ سمندر تھا اس نے دیکھ لیا
بہت اداس ہوا زہر گھولنے والا
کسی کی موج فراواں سے کھا گیا کیا مات
وہ اک نظر میں دلوں کو ٹٹولنے والا
وہ آج پھر یہی دہرا کے چل دیا بانیؔ
میں بھول کے نہیں اب تجھ سے بولنے والا
——
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے
تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے
مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جدا ہے میرے لیے
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے
عجیب درگزری کا شکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے
گزر سکوں گا نہ اس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹی بھی زنجیر پا ہے میرے لیے
اب آپ جاؤں تو جا کر اسے سمیٹوں میں
تمام سلسلہ بکھرا پڑا ہے میرے لیے
یہ حسن ختم سفر یہ طلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے
یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیؔ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ