آج اُردو کے نامور شاعر رام ریاض کا یومِ ولادت ہے۔

——
رام ریاض کا اصل نام ریاض احمد ھے ۔
آپ 13 جنوری 1933 ء کو پانی پت ھریانہ میں پیدا ھوئے ۔ آپ کے والد کا نام شیخ نیاز احمد ھے ۔ آپ نے 1945ء میں پرائمری کا امتحان محلہ انصاریاں پانی پت کے مدرسہ شاخِ انصاریاں سے پاس کیا ۔ پھر ابھی مڈل کی تعلیم مکمل نہیں ھوئی تھی کہ آزادی کی صبح درخشاں طلوع ھوئی ۔ اس گل رنگ سویرے میں رام ریاض محلہ گلاب والا ، وارڈ نمبر 5 جھنگ شہر میں پہنچے ۔
مڈل کا امتحان 1950 ء میں حالی مسلم ھائی سکول جھنگ سے پاس کیا ۔ میٹرک کا امتحان ایم بی ھائی سکول جھنگ سے بطور ریگولر اسٹوڈنٹ 1953ء میں پاس کیا عالمی شہرت کے حامل نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر عبدالسلام بھی اسی ادارے میں زیرِ تعلیم رھے ۔
رام ریاض کی شاعری کا آغاز ھائی سکول دور سے ھو چکا تھا ۔ میٹرک کے بعد رام ریاض نے گورنمنٹ وول سپننگ اینڈ ویونگ سنٹر جھنگ شہر میں داخلہ لے لیا ۔ وہ یہاں 14 اپریل 1955ء سے 22 مئی 1957ء تک زیرِ تعلیم رھے ۔ اور یہاں سے وول ٹیکنا لوجی کا سپننگ ماسٹر ڈپلومہ کورس کامیابی سے مکمل کیا ۔ اس کے بعد صوبہ پختون خواہ کی ایک وول مل میں بحیثیت سپننگ ماسٹر ملازمت اختیار کر لی ۔ یہ ان کی پہلی ملازمت تھی جلد ھی وہ ملازمت چھوڑ کر واپس جھنگ آ گئے اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ۔
1965ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کا امتحان پاس کیا اس وقت تک آپ ریاض احمد شگفتہ کے نام سے معروف تھے ۔ آپ کی ڈگری پر بھی یہی نام درج ھے ۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنا قلمی نام رام ریاض اختیار کر لیا ۔
گریجویشن کے بعد رام ریاض نے اسلامیہ ھائی سکول خانیوال میں معلم کی حیثیت سے جاب اختیار کر لی معروف ادیب علی تنہا بھی اسی ادارے کے فارغ التحصیل ھیں ۔ جن کا ذکر رام ریاض بیحد محبت سے کرتے تھے ۔ ملازمت کا یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا ۔اور آخر کار جھنگ واپس آ گئے ۔ اسی دوران میں ان کی شادی ھو گئی لیکن یہ شادی کامیاب نہ ھو سکی اور آخر کار انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ مگر تنہائی اور بیروزگاری کا عفریت مسلسل ان کے سر پر منڈلاتا رھا ۔ فکرِ معاش نے ان کے تعلیمی کیرئیر میں جس طرح رخنے ڈالے وہ ان کے امتحانات کی تواریخ سے عیاں ھے ۔
1973ء میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی میں بحیثیت پبلسٹی آفیسر کے طور پر انہین جاب مل گئی یہ سلسلہ تقریبا 4 برس تک جاری رھا اور بالآخر یہ ملازمت بھی تخفیف کی زد میں آ گئی ۔ اس کے ساتھ ھی رام ریاض کی بیروزگاری ، اور اعصابی شکست و ریخت کا ایک ایسا لرزہ خیز دور شروع ھوا جو ان کی معذوری اور بالآخر ان کی المناک اور حسرت ناک موت پر منتج ھوا ۔
1986ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام پیڑ اور پتے شائع ھوا ۔ 10 جون 1986ء کو فالج کے شدید حملے نے اس توانا شاعر کو مستقل طور پر اپاھج بنا کر رکھ دیا ۔ زندگی کے آخری ایام میں رام ریاض انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھا بیماری ، لاچاری اور بیروزگاری کا زھر اس کی نس نس میں اتر چکا تھا گزراوقات کا واحد ذریعہ اکادمی ادبیات کا 500 روپے ماھانہ وظیفہ تھا ۔ اپنی ضعیف ماں کے ساتھ جس طرح اس نے سانسیں گن گن کر اپنی زندگی کے دن پورے کئے وہ ھمارے لئے لمحہ فکریہ ھیں ۔ لیکن رام ریاض کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لایا ۔ وھی سدا بہار مسکراھٹ اس کے لبوں پر رھتی اور اپنے داخلی کرب کا اظہار اپنے شعرون کے ذریعے کرتا ۔
اور پھر بالآخر یہ شاعر ایک دن تھک کے گر پڑا ۔ 07 سپتمبر 1990ء کو بے باک شاعر زندگی کی بازی ھار گیا ۔ اب یہ خوبصورت لب و لہجے کا شاعر جھنگ کے نواحی قبرستان میں آسودۃ خاک ھے۔
بشکریہ معلومات عامہ
——
یہ بھی پڑھیں : اُردو کے نامور شاعر رام ریاض کا یومِ وفات
——
رام ریاض اور شاعروں کا قائد اعظم ۔۔ علی تنہا
——
رام ریاض کے تغزل کاآغاز 58ءمیں ہوا۔فی الجملہ شعریات کاانہیں ابتداءمیں شوق نہیں تھا۔سکول اور کالج کے زمانے میں کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے۔وضع قطع کے اعتبار سے نہایت وجہیہ اور حسین آدمی تھے۔رام ریاض بتاتے تھے کہ ایک طو یل رومانس کے بعد یکایک ان کے اندر شاعر نے انگڑائی لی اور پہلی غزل جعفر طاہر جیسے طناز شاعر کو دکھلائی ۔جعفر طاہر نے ہر شعرپر داد دی حالانکہ جعفر طاہر بڑے بڑے جغادری شاعروں کو زبان و بیان کے سقم پر،سرمحفل جھاڑ دیا کرتے تھے۔رام ریاض بنیادی طورپر ترقی پسند اور وسیع المشرب انسان تھے۔جب انہوں نے شاعری آ غاز کی تو پاکستان میں ایوب خان کی آمریت نے جمہوریت پر شب خون مارا اور رام ریاض نے اس زمانے میں پاکستانی معاشرے میں قومیتوں ،لسانی تعصبات اورفرقہ واریت کوسرعت کے ساتھ پھیلتے پایا۔جاگیردارانہ نظام اس پر مستزاد،یہ سب سماجی شکست وریخت کا رام ریاض کے ذہن پر انمٹ نقش جم گیا۔رام ریاض نے شروع میں ہی کلاسیکل شعراءاور معاصر لکھاریوں کو نہایت عرق ریزی سے پڑھا۔وہ بنیادی طورپر فراق اور احمد مشتاق کے مداح تھے۔ناصر کاظمی سے اور مجید امجد سے گہرے مراسم تھے۔وہ اگرچہ غزل گو تھے مگر مجید امجد کے عاشق صادق تھے۔1971ءمیں جب خانیوال ملازمت کے سلسلے میں آئے تو ہرمہینے ساہیوال مجید امجد سے ملنے جاتے۔رام ریاض مجید امجد کوشاعروں کاقائداعظم کہتے تھے۔جن دنوں غزل ان پروارد ہوتی ۔وہ جنون کی کیفیت میں مبتلا ہوتے۔شعر کہنا ایک روحانی واردات تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری شعری دنیا،کرب،نظری آہنگ اور زبردست تخلیقی توانائی کی مظہر ہے۔جب وہ خانیوال میں آئے تو ان کا دل تین سالہ قیام کے دوران میں ذرہ بھرنہیں لگا۔ایک تو جھنگ کی بوباس انہیں ٹکنے نہیں دیتی تھی۔پھراس دور میں جعفر طاہر ، شیر افضل جعفری اورمحمودشام سے بچھڑنے کا دکھ۔یہاں ان کی شاعری میں شدت احساس،ارتکاز اور المیاتی رنگ نے زور پکڑا۔وہ مشاعروں کی جان تھے۔60سے 90ءتک پنجاب کا وہ کون سا مشا عرہ تھا جس میں رام ریاض نے شرکت نہ کی ہو۔ ان کی آواز بلا کی سریلی ،ڈوب کے ایسی غزل پڑھتے کہ بڑے بڑوں کے چراغ گل ہوجاتے ۔
فیض احمد فیض نے انہیں پہلی بار مشاعر ے میں سنا تو تڑپ گئے ۔اس محفل سخن میں رام ریاض نے یہ غزل سنائی تھی جس کے چند شعر ہیں
——
تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا
میں وہ پاگل کہ فقط ،آنکھ میں آنسو لایا
جب بھی دنیا میں کسی قصر کی بنیاد پڑی
سنگ کچھ میں نے فراہم کیے ،کچھ تولایا
مجھے اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے
توکہاں سے مری آنکھیں ،مر ے بازو لایا
——
فیض نے یہ اشعار بارباپڑھوائے اوربے تاب ہو کے داد دی۔اس نوع کے بے شمارواقعات ہیں ۔حافظ آباد کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت احمد ندیم قاسمی کررہے تھے۔حبیب جالب بھی موجودتھے۔رام ریاض کوجب انہوں نے سنا تو روپڑے۔حالانکہ حبیب جالب ترنم میں لاثانی تھے۔حبیب جالب کے اصرار پر انہوں نے جب یہ مطلع سنایا
——
اب کے اس طرح ،ترے شہر میں کھوئے جائیں
لوگ معلوم کریں،ہم کھڑے روئے جائیں
——
تو حبیب جالب کوسنبھالنا مشکل ہوگیاتھا
رام ریاض کاتعلق یوپی کے شہر مظفرنگر سے تھا۔1933ءمیں وہیں جنم لیا اور 48ءمیں والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے جھنگ آئے۔ادبی حیات کاآغاز رام ریاض نے احمد ندیم قاسمی کے مشہور ادبی رسالے”فنون“سے کیاتھا۔احمد ندیم قاسمی کی شفقت اورمحبت کے وہ ہمیشہ احسان مند رہے۔رام ریاض کے مزاج میں تصوف اوربغاوت کے عناصر نے انہیں دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز بنایاتھا۔زندگی کایہ رنگ ان پر مجید امجد کی ہم نشینی کے باعث چڑھاتھا۔سماجی عدم مساوات،جاگیرداری،منافرت،مذہبی فرقہ بندی کا انہوں نے زندگی بھر مشاہدہ کیا اورپوری شدت کے ساتھ اس کے خلاف آرٹ کی سطح پر ڈٹے رہے۔مگر براہ راست بیان اور نظریاتی تبلیغ سے نفرت کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف نعت گو شاعر ریاض مجید کا یوم پیدائش
——
اس ضمن میں حبیب جالب مرحوم کو برملا کہتے کہ ایک جاندارشاعر کوآپ نے ترقی پسندی،بلندآہنگی اوربیان بازی کی خاطر قتل کردیا۔وہ پاکستان کے اولین برسوں کے شعراءمیں احمد مشتاق ،منیر نیازی ،ناصر کاظمی اور ظفراقبال کوسراہتے تھے۔اپنے معاصرین میں شکیب جلالی،اطہرنفیس اورظہور نظر کوبھی پسند کرتے تھے۔
رام ریاض داخلیت پسند فن کارتھے۔ترقی پسند وہ ضرورتھے مگر کٹر مارکسی نہیں تھے۔ذوالفقارعلی بھٹو کے بہت مداح تھے۔وہ پاکستان کے لیے بھٹو مرحوم کی ذات کو روشنی کامینار گردانتے تھے۔مگر ان کی شہادت کے بعد وہ کبیدہ خاطر بلکہ مستقل اداس رہا کرتے تھے۔ان کے افکار کی چوٹ،ان اشعار پر صاف پڑتی دکھلائی دیتی ہے۔
——
تو مگر عرش نشیں ہے،تجھے معلوم نہیں
لوگ کیوں حلقہ انکار خدا میں آئے
——
کئی نے سورج کو اپنایا،کچھ تاروں کے ساتھ رہے
دیواروں کے سائے تھے ہم،دیواروں کے ساتھ رہے
——
اہل فن کی جنگ ہو یا، اہل شہر کا قبیلہ ہو
ہم نے دیکھا لوگ اکثر سرداروں کے ساتھ رہے
——
ہم نشیں تیری بھی آنکھوں میں جھلکتا ہے دھواں
تو بھی منجملہ ارباب نظرلگتا ہے
ہم پہ بیداد گرو،سنگ اٹھانا ہے فضول
کہیں افتادہ درختوں پر ثمر لگتا ہے
——
کبھی تو یوں بھی دل بے زبان بولتا ہے
کہ جیسے رات کوسونا مکان بولتا ہے
ہماری چپ کابھی اعجاز تم نے دیکھ لیا
ہرایک شخص ہماری زبان بولتا ہے
——
جب تک مرا دم ہے تجھے رونے نہیں دوں گا
تو مارگزیدہ ہے تجھے نیند نہ آجائے
ہم نے یہ ہواﺅں میں پرندوں سے نہ پوچھا
جب حبس کاموسم ہو تو کس طرح اڑا جائے
——
رام ریاض کے اشعار کے کرب،معنی آفرینی اورتاثیر کے عقب میں ،ان کی غنائیہ اور جمالیاتی حسیت کابڑا ہاتھ ہے۔رام ریاض کے شعری طرز احساس میں جو نرماہٹ اورفنی کاملیت ہے۔اس نے ان کے کلام میں زندگی بھر کھردرا پن ،یکسانیت یاتکرار کوآنے نہیں دیا۔ان کے ہاں نارسائی،اور بیسویں صدی کے انسان کا فکری بکھراﺅ اوراجتماعی اندوہ اس طرح ڈھل گیا ہے کہ شعری بے ساختگی میں روح عصر منعکس ہوگئی ہے۔
——
میں نے اک عمر گنوائی تو یہ انداز ملا
سوچ لے،پھر مر ی آواز میں آواز ملا
——
ورق سنگ پہ تحریر کریں نقش مراد
اوربہتے ہوئے دریا میں بہاتے جائیں
——
توکبھی صبح کا تارا بن جائے
ہم تجھے دورسے تنہا دیکھیں
آگ پانی میں اگر جنگ ہوئی
کس طرف آدمی ہوگادیکھیں
——
ستارہ وا رجواُڑتے تھے آسمانوں میں
مثال گردسر ر ہ گزار بیٹھ گئے
تر ی نگاہ فقیروں پہ اب اٹھے نہ اٹھے
تر ی نگاہ کے امیدوار بیٹھ گئے
——
رام ریاض بے حد غیور اوربے باک ،اس قدر کہ حیرت ہوتی ہے وہ اپنی 60سالہ زندگی گزارکیسے گئے۔دنیا داری انہوں نے دیکھی ہی نہ تھی۔یہ سب آثار اورصداقتیں،ان کے ہر شعرمیں شدت جذبات اوراثر آفرینی کی صورت میں موجودہیں۔ان کا پہلا مجموعہ کلام ”پیڑ اورپتے“تھا اور دوسرا ”ورق سنگ“یہ دونوں مجموعے جدید اردو غزل کی تاریخ میں نشان راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف مصنف ، نقاد اور ماہر غالبیات مالک رام کا یوم پیدائش
——
رام ریاض کے آخری پانچ برس علالت اور تنگ دستی میں گزرے لیکن اس غیور اور جرات مند فن کار نے آلام ،تن تنہا سہے۔رام ریاض کے یہ دواشعار انہی ایام کی اندوہ ناک صورت حال کے گویا ہیں
——
اے دوست تراقرب مجھے چاٹ گیا ہے
میں اتنی مروت کاسزاوارنہیں تھا
یہ جس کی سزا اتنی کڑی زیست ملی ہے
مرنے پر مجھے اتنا تو اصرارنہیں تھا
——
منتخب کلام
——
زندگی کشمکش وقت میں گزری اپنی
دن نے جینے نہ دیا رات نے مرنے نہ دیا
——
ترے انتظار میں اس طرح مرا عہد شوق گزر گیا
سر شام جیسے بساط دل کوئی خستہ حال سمیٹ لے
——
اب کہاں وہ پہلی سی فرصتیں میسر ہیں
سارا دن سفر کرنا ساری رات غم کرنا
——
آنسو جو بہیں سرخ تو ہو جاتی ہیں آنکھیں
دل ایسا سلگتا ہے دھواں تک نہیں آتا
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعرہ , ادیبہ اور دانش ور فہمیدہ ریاض کا یومِ وفات
——
ہم اوس کے قطرے ہیں کہ بکھرے ہوئے موتی
دھوکا نظر آئے تو ہمیں رول کے دیکھو
——
تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا
میں وہ پاگل کہ فقط آنکھ میں آنسو لایا
مطلع جاں پہ کرن ایسی نمودار ہوئی
جیسے کوئی تری آواز کی خوشبو لایا
مجھ کو اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے
تو کہاں سے مری آنکھیں مرے بازو لایا
ان میں کوئی نہیں لگتا ہے شناسا چہرہ
رامؔ کس آئینہ خانہ میں مجھے تو لایا
——
اب کے اس طرح ترے شہر میں کھوئے جائیں
لوگ معلوم کریں ہم کھڑے روئے جائیں
ورق سنگ پہ تحریر کریں نقش مراد
اور بہتے ہوئے دریا میں ڈبوئے جائیں
سولیوں کو مرے اشکوں سے اجالا جائے
داغ مقتل کے مرے خون سے دھوئے جائیں
کسی عنوان چلو تازہ کریں ظلم کی یاد
کیوں نہ اب پھول ہی نیزوں میں پروئے جائیں
رامؔ دیکھے عدم آباد کے رہنے والے
بے نیاز ایسے کہ دن رات ہی سوئے جائیں
——
دل میں تو بہت کچھ ہے زباں تک نہیں آتا
میں جتنا چلوں پھر بھی یہاں تک نہیں آتا
لوگوں سے ڈرے ہو تو مرے ساتھ چلے آؤ
اس راستے میں کوئی مکاں تک نہیں آتا
اس ضد پہ ترا ظلم گوارا کیا ہم نے
دیکھیں کہ تجھے رحم کہاں تک نہیں آتا
ایک ایک ستارہ مری آواز پہ بولا
میں اتنی بلندی سے وہاں تک نہیں آتا
آنسو جو بہیں سرخ تو ہو جاتی ہیں آنکھیں
دل ایسا سلگتا ہے دھواں تک نہیں آتا
——
روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا
ہم نے انسان میں انسان کو مرنے نہ دیا
تیرے بعد ایسی بھی تنہائی کی منزل آئی
کہ مرا ساتھ کسی راہ گزر نے نہ دیا
کون تھا کس نے یہاں دھوپ کے بادل برسائے
اور ترے حسن کی چاندی کو نکھرنے نہ دیا
پیاس کی آگ لگی بھوک کی آندھی اٹھی
ہم نے پھر جسم کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا
زندگی کشمکش وقت میں گزری اپنی
دن نے جینے نہ دیا رات نے مرنے نہ دیا
اشک برسائے کبھی خون بہایا ہم نے
غم کا دریا کسی موسم میں اترنے نہ دیا
——
لفظ بے جاں ہیں مرے روح معانی مجھے دے
اپنی تخلیق سے تو کوئی نشانی مجھے دے
تیرا بھی نام رہے میں بھی امر ہو جاؤں
ایسا عنوان کوئی ایسی کہانی مجھے دے
چل رہی ہے بڑی شدت سے یہاں سرد ہوا
مجھ کو بجھنے سے بچا سوز نہانی مجھے دے
یہ حسیں پیڑ یہ خوشبو مری کمزوری ہے
دن کا سب مال ترا رات کی رانی مجھے دے
میرا مشکل ہے سفر تیرے سہارے کے بغیر
رکنے لگ جاؤں اگر میں تو روانی مجھے دے
اس قدر دھاندلی اچھی نہیں عمر رفتہ
میرا بچپن نہ سہی میری جوانی مجھے دے
مجھے اندیشہ ہے اس بھیڑ میں اوروں کی طرح
تو بھی کھو جائے گا اپنا کوئی ثانی مجھے دے
رامؔ ہر اک کے مالک سے گزارش ہے تو یہ
صاف لہجہ مجھے دے سادہ بیانی مجھے دے
——
نہ آنکھیں سرخ رکھتے ہیں نہ چہرے زرد رکھتے ہیں
یہ ظالم لوگ بھی انسانیت کا درد رکھتے ہیں
مجھے شک ہے کہ تم تیرہ شبوں میں کیسے نکلو گے
چٹانیں کاٹنے کا حوصلہ تو مرد رکھتے ہیں
محبت کرنے والوں کی تمہیں پہچان بتلاؤں
دلوں میں آگ کے با وصف سینہ سرد رکھتے ہیں
ہوا نے اہل صحرا کو عجب ملبوس بخشا ہے
سروں پر لوگ پگڑی کے بجائے گرد رکھتے ہیں
اسے دیکھا تو چہرہ ڈھانپ لو گے اپنے ہاتھوں سے
ہم اپنے ساتھیوں میں رامؔ ایسا فرد رکھتے ہیں