آج حیدرآباد، دکن، بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر، مصنف اور نقاد راشد آذر کا یومِ پیدائش ہے ۔

——
راشد آذر کے والد حسین علی خان انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ان کی والدہ معصومہ بیگم ایک سیاسی شخصیت تھیں اور وزیررہ چکی ہیں۔
راشد نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد پبلک اسکول میں پائی۔ انہوں نے نظام کالج سے ڈگری مکمل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایل ایل بی کیا اور دو سال پیشہ وکالت سے منسلک رہے۔ بعد میں وکالت کو چھوڑ دیا اور تدریس کے ارادے سے بی ایڈ کیے۔
چونکہ راشد کا طبعی میلان درس کی دنیا سے جڑا تھا، اس لیے بی ایڈ کے فوری بعد وہ حیدرآباد پبلک اسکول میں انگریزی کے مدرس بن گئے۔
حالانکہ پیشہ ورانہ دنیا میں راشد انگریزی سے وابستہ ہیں، مگر عملی طور پر اردو سے ان کو لگاؤ ہے۔ ان کے والد ان کی اردو شاعری کے خلاف تھے، مگر طبعی رجحان کی وجہ سے وہ اسی سے جڑ گئے۔ وہ ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گئے۔
راشد آذر غرلیں اور قطعات لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔
راشد آذر کی تصنیفات میں نقشِ آذر ، صدائے تیشہ ، آبدیدہ ، خاکِ انا ، جمع خرچِ وفا ، خاکِ انا ( دو سو رباعیات جو اوزان میں ہیں ) ، زخموں کی زبان ، اندوختہ ، قرضِ جاں اور نقدیات شامل ہیں ۔
——
راشد آذر کی شہر حیدرآباد کے ایک نہایت ذی حیثیت گھرانے میں 31 اگست تقریبأ 1918ء کو ولادت ہوئی ،
آپ ایک اعلی سیاسی گھرآنہ کے چشم و چراغ تھے ان کے والد جناب حسین علی خاں انگریزی کے مشہور پروفیسر تھے اور انکی والدہ محترمہ معصومہ بیگم صاحبہ ایک قابل خاتون جو کہ اسوقت کے متحدہ آندھراپردیش کی کانگریس سرکار میں وزارت کے عہدے پر فائز تھیں والدین کی تربیت اور شفقت کے سایہ میں راشد پروان چڑھے انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد پبلک اسکول میں پائی پھر نظام کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد ا یل ایل بی کر کے وکالت کے پیشے سے جڑ گئے مگر دو سال کے بعد وکالت کو خیر باد کہہ دیا اور بی ایڈ کیا اور حیدرآباد، پبلک اسکول میں درس تدریس سے وابستہ ہوگئے راشد پڑھاتے تو انگلش تھے، لیکن انہیں اردو سے فطری لگاؤ تھا وہ اردو میں شاعری کرنے لگے اٹھارہ سال کی عمر میں راشد آذر کے نام سے مشہور ہوگئے ان کے والد ان کی شاعری کے خلاف تھے مگر طبیعت میں بغاوت کا جذبہ تھاچنانچہ راشد اس راہ پر گامزن رہے
بقول خود راشد آذر کے
——
دل پاگل ہے اب تک اس نے سنی ہے اب جو سنے گا
جو کرنا تھا وہی کیا ہے جو کرنا ہے وہی کرے گا
——
یہ بھی پڑھیں : ن م راشد کا یوم پیدائش
——
1940 ء کی دہائی میں ترقی پسند تحریک میں شریک ہوئے مخدوم ، شاہد صدیقی، سلیمان اریب جیسی مشہور شخصیتوں کے ساتھ شمار کئے جاتے۔ نہ صرف رکن بلکہ سکریٹری بھی رہے راشد آذر ایک بلند پایہ شاعر تھے وہ مارکسی نظریہ کے حامی رہے وہ ایک بے باک نقاد بھی تھے جان نثار ، اختر، ساحر لدھیانوی ، علی سردار فری ، کیفی اعظمی، سلیمان اریب اور شاذ تمکنت پر ان کے مضامین قابل ذکر ہیں انہوں نے شعری اور ادبی جمالیات پر بھی کئی فکرانگیز مضامین لکھے ہیں 1988ءمیں سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد نے بہ حیثیت پویٹ آف دی کیمپس ان کا انتخاب کیا راشد آذر ایک خود مختار شخصیت کے مالک اور اپنے اصولوں کے پابند تھے وقت سے بے نیازی انہیں بالکل پسند نہیں رہی کوئی بھی محفل ہو بلانے پر پابندی وقت کے ساتھ جاتے ہیں مگر پروگرام میں تاخیر ہوتی تو واپس لوٹ جاتے تھے یہ ان کی نازک مزاجی نہیں بلکہ اپنے اصولوں پر ثابت قدمی کا اظہار ہے جس بات کو صحیح سمجھا ، چاہے اس کی مخالفت دنیا کرے راشد اپنی سوچ پر اٹل رہتے ایک خوش حال گھرانے کا فرد ہونے کے باوجود جہاں دولت و عزت کی انکو کمی نہیں تھی ، زندگی کے نشیب و فراز پر استقلال سے چلتے رہے اپنی خودداری کو سنبھالے رکھا کبھی اپنے اعلیٰ عہدیدار رشتے داروں سے مدد نہ مانگی ، عجیب بات ہے راشد کی اس کج کلاہی کا خیال نہ کرتے ہوئے لوگ ان کا احترام کرتے ، خلوص سے ملتے تھے
راشد آذر نے غزلیں لکھیں، قطعات بھی لکھے، لیکن بنیادی طور پر وہ نظم گو شاعر ہی تھے ان کے گیارہ مجموعے انکی زندگی میں ہی شائع ہوچکے تھے جو یہ ہیں
(1) نقش آذر ۔1963 ء (2) صدائے تیشہ۔ 1971 ء (3) آبدیدہ۔1974 ء (4) خاک انا ۔ 1979 ء (5) جمع خرچ وفا۔1992 ء (6) منزل شوق۔1992 ء (یہ دو سو رباعیات جو اوزان میں ہیں) (7) زخموں کی زبان 1997 ء ( اندوختہ 1997 ء (9) قرض جاں 2003 ء (10) نقد یات 2007 ء اور گیارھویں ’’میر کی غزل گوئی ایک جائزہ‘‘ پر مقالہ انجمن ترقی اردو ہند نے شائع کیا اس میں وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی شاعر کے کلام کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے سارے کلام کا جائزہ لینا ضروری ہے اگر ان کی اس کتاب کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے میر کے چھ دیوان میں پائے جانے والے کلام کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ، ساتھ ہی میر کے بارے میں بہت سے مفکرین کی تحریروں پر بھی نظر ڈالی ہے اس کا ثبوت ان کی کتاب میں محمد حسین آزاد کے خیالات ، فراق گورکھپوری کا میر کے غم و ناکامی کی تصویر جابجا دکھائی دیتی ہے انہوں نے مولوی عبدالباری سامی کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے بلکہ ان کے مضمون سے میر کے متعلق جن 22 اجزاء کا ذکر ہے، تفصیل کے ساتھ بتایا ہے میر کی عالم گیر مقبولیت رشید احمد صدیقی کے تعارف سے لکھی ہے اسی طرح پروفیسر مغنی تبسم کے اور دوسرے مفکرین کی تحریروں کے بارے میں کہا ہے کہ نامور صاحب ذوق نے میر کے کلام کی چھان بین اپنے اپنے انداز سے کی ہے ۔ اس کے بعد بھی راشد نے میر کی کلیات کا پھر مطالعہ کیا اور نقادوں کو پڑھا تو انہیں محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے میر کے کلام اور شخصیت کی جو تصویر بنائی ہے وہ میر کی اصلی شخصیت سے جدا اور بہت الگ ہے ۔ انہیں میر کے کئی رنگ ، کئی موڑ ، کئی رخ دکھائی دیئے پھر راشد نے چھ مضامین میں اس کی وضاحت کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساغر خیامی کا یومِ وفات
——
انہوں نے بتایا ہے کہ میر غزل واردات قلبی کے اظہار کیلئے لکھتے تھے جس کا اندازہ ان کے اشعار میں جذبات کا واضح ہوجانا ہے ، میر کی غزلوں کے زیادہ تر اشعار میں زندگی کی نمایاں اور مرکزی احساس دکھ ، درد ، غم اور ناکامی کے تجربات و احساسات کا عکس جھلکتا ہے پھر میر کا حسن پرستی کا شکار ہوکر جنوں زدہ ہونے کا بھی تذکرہ ہے ۔ میر کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے راشد کہتے ہیں کہ میر نے حصول معاش کی خاطر مختلف نوعیت کے کام کئے ، وہ کبھی سفیر رہے ، کبھی محرر ، کبھی جنگی مہم میں شریک رہے ، کبھی مصالحت کروائی ، کبھی درویش ، کبھی مصاحب رہے ، کبھی محفلیں سجائیں، کبھی شہر اجڑے دیکھے مگر انہوں نے ہر منزل پر اپنے آپ کو مثبت قدروں سے منسلک رکھا ۔ ظاہر ہے ان سب کا اثر ان کے کلام میں پایا جاتا ہے ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے راشد نے اپنے مضامین میں میر کے اشعار پیش کئے ہیں ، غرض کہ یہ کتاب ’’میر کی غزل گوئی ایک جائزہ ‘’
راشد آذر کی لگن اور جانفشانی کا ثبوت ہی نہیں اہمیت کی حامل ہے ہم کواندازہ ہے کہ سچا عشق اور شادی زندگی کی دو الگ باتیں ہیں لیکن معشوق رفیق حیات بن جائے تو مت پوچھئے کیا کچھ مل جاتا ہے راشد آذر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا مگر حسن و عشق کے شب و روز کو زمانے کی نظر لگ گئی انکی بیگم فاطمہ کو پروردگار عالم نے حسن کے مکمل پیکر میں ڈھالا تھا ایسی توبہ شکن ہستی سامنے رہے تو ایسے ویسے بھی شاعری کرنے لگتے ہیں راشد تو آذر تھے ہی لفظوں سے شعری بت تراشی کرتے رہے فاطمہ نے اپنی محبت کی مہر ننھے حسین کے روپ میں راشد کی زندگی پر لگا کر عالم بالا کی وسعتوں میں گم ہوگئی راشد کی دنیا تہہ و بالا ہوگئی ، ان کی شریک حیات فاطمہ کے اسطرح اچانک سانحہ ارتحال سے پیدا شدہ جذبات و احساسات کی دین ہے ان کی نظمیں، جسے انھوں نے بڑی خوبصورتی و مہارت کے ساتھ کچھ ایسا موڑ دیا ہے کہ قاری و سامع بے ساختہ اسے اپنے دل کی ترجمانی پر محمول کر بیٹھتا ہے، مثلاً "آبِ دیدہ” میں شامل خوبصورت سی نظم "#لفظوں_کی_زندگی” کے آخری بند میں وہ یوں رقم طراز ہیں
——
اور بھی لوگ مری طرح لئے یاد کے زخم
زندگی کاٹ دیا کرتے ہیں
اور مرتے ہیں تو سب کہتے ہیں بیچارہ شریف آدمی تھا
کتنے بے معنی ہیں الفاظ، نہ جذبات، نہ رنگ
اور جو لفظ ترے منہ سے نکلتے تھے کبھی
——
"آبِ دیدہ” میں شامل تقریباً نظموں اور غزلوں سے لگتا ہے کہ فاطمہ جو کہ بقول خود راشد آذر ، ان کی بیگم بھی تھیں اور محبوبہ بھی، کی دائمی جدائی نے راشد آذر کی شاعری کو گویا اک نیا موڑ عطا کیاجو کہ قاری ان کے کلام کے مطالعے سے بخوبی محسوس کرسکتا ہے کہ نشاط آمیز جذبات و احساسات سے مزین شاعری میں غم والم کی تاثیر، خود فراموشی اور لہولہان دل کی کسک کچھ اس طرح در آئی ہے جسے شاعر نے اپنے ذات کے نہاں خانوں سے اٹھا کر آفاقی و کائناتی بنانے کی جانب کامیاب مراجعت کی ہے۔ ان سب کے باوجود ان کی انا کبھی جھکنے کو آمادہ نہیں ہوئی بطور مثال ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو
——
"انھیں یہ ضد کہ میں زخموں کا اشتہار بھی دوں
مجھے تو شرم سی آتی ہے آہ بھرتے ہوئے ”
——
یہ بھی پڑھیں : میر تقی میر کا یوم وفات
——
1940ء کی دہائی میں ترقی پسند تحریک میں شمولیت کے سبب ان کا شمار حیدرآباد دکن کی مشہور شخصیات جیسے مخدوم محی الدین، شاہد صدیقی، سلیمان اریب کے ساتھ ہوتا تھا ان کی پہچان کئی دہائیوں تک حیدرآباد کے ادبی افق پر سینئر و کہنہ مشق شاعر کے علاوہ ایک بے باک نقادکے بطور بھی رہی ہے سرزمین ہند کے ممتاز شعراء مثلاً جان نثار اختر، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، سلیمان اریب اور شاذ تمکنت پر تحریر کردہ ان کے مضامین ادبی حوالے سے نہایت معتبر اور قابل ذکر ہیں خود رائے، خود آگاہ اور خود مختار سی شخصیت کے مالک کی حیثیت سے مشہور راشد آذر صاحب نے روزمرہ کے معاملات ہوں کہ شاعرانہ رویوں کا انتخاب دیگر عام شعراء کے برعکس مکمل حیات اپنے ہی اصولوں کی پابندی، ثابت قدمی اور پاسداری میں بسر کی، مخدوم محی الدین صاحب کی شخصیت ہی صرف ایک ایسی شخصیت تھی جو دفتری اوقات ہوں کہ ادبی محافل یا عام مشاعرے، وقت مقررہ پر موجود ہوا کرتے تھے جب کہ مخدوم صاحب کے بعد اگر کوئی اور ادبی شخصیات پابندی ِوقت کے اصولوں کی اسیر رہی ہیں تو وہ تھیں ڈاکٹر آر آر سکسینہ الہام اور محترم راشد آذر صاحب ، میرے اپنے اسی ناقص مطالعے کے مطابق عام روایتی شاعری اور جدیدیت و مابعد جدیدیت سے پرے ان کی تخلیقات ترقی پسند رجحانات ہی کی حامل محسوس ہوئیں ہر مشہور شاعر کی طرح ان کے ہاں بھی شعری سفر رومانوی دورسے شروع ہو کر زندگی کی تلخ و ترش حقیقتوں ، تعمیر و تخریب کے کڑوے کسیلے تجربات ، دکھ سکھ کے زیر اثر بڑھتے گھٹتے جذبات و احساسات کا سامنا کرتے ہوئے بتدریج آگہی اور بصیرت کی جانب گامزن نظر آتا ہے، انکی بیگم کے انتقال کی وجھے سے سمجھئے یا گذرتے وقت کے سبب پیدا شدہ فطری بیگانگی سمجھیے کہ وہ انتقال سے قبل ادھر کچھ عرصے سے راشد آذر صاحب ادبی افق پر غیر فعال سے ہو گئے تھے انھیں آخری بار سال 2014ء میں اردو اکیڈمی متحدہ آندھرا پردیش کی جانب انھیں عطا کئے گئے مخدوم ادبی ایوارڈ کی تقریب منعقدہ رویندرا بھارتی آڈیٹوریم، حیدرآباد میں دیکھا گیا تھا، شہر حیدرآباد اور جامعہ عثمانیہ کے اس عظیم سپوت نے 04/اکٹوبر 2016 ء کو اپنی زندگی کا سفر مکمل کیا اور اپنے شہر حیدرآباد ہی میں ابدی نیند سوگئے اللّه ان کے درجات بلند کرے آمین
——
منتخب کلام
——
ساتھ تھا تیرا تو ہمت تھی کہ روشن ہے جہاں
تو نہیں ہے تو اُجالے سے دہل جاتا ہوں
——
بجھ گئیں ساری تمنا کے چراغوں کی لَویں
کس سے پوچھوں مرے گھر کا دروازہ کہاں ہے
——
ابھی بُجھا نہیں آنکھوں کے دشت میں سورج
غزالِ شوق ابھی رَم رہا ہے آنکھوں میں
——
اگر دریچہ نہ وا ہو تو در سے ڈرتا ہوں
خبر نہیں پسِ دیوارِ آرزو کیا ہے
——
پہلی سی اب بسیط اکائی کہاں سے لائیں
اس دور میں حیات بھی خانوں میں بَٹ گئی
——
مر مِٹ گیا تو کون سی دنیا بدل گئی
زندہ رہا تو کب ہوئی تکمیلِ آرزو
——
انہیں یہ ضد کہ میں زخموں کا اشتہار بھی دوں
مجھے تو شرم سی آتی ہے آہ بھرتے ہوئے
——
کبھی نہ ختم ہوئی آرزوئے منزلِ شوق
ڈھلی جو دھوپ تو سائے کے پیچھے چل نکلا
——
عجیب وقت ہے ہر چیز چِھن گئی مجھ سے
مجھے تمہاری بھی یادوں پہ اختیار نہیں
میں سوچتا ہوں یہ منزل ہے کون سی کہ مجھے
تمہارے لوٹ کے آنے کا انتظار نہیں
——
نہ جانے کس سے کیا کیا کہہ گیا ہوں
وہ کہتے ہیں کہ میں رَو میں بہہ گیا ہوں
حقیقت یہ ہے جب سے تم نہیں ہو
اُجالے میں اکیلا رہ گیا ہوں
——
کہوں تو کیسے کہ کیوں نَم رہا ہے آنکھوں میں
بس ایک شخص کا ماتم رہا ہے آنکھوں میں
اس احتیاط کا عالم رہا ہے آنکھوں میں
کہ مدتوں سے لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
اگرچہ سامنے چہروں کا اک سمندر ہے
مگر وہ چہرہ جو کم کم رہا ہے آنکھوں میں
اندھیرا کیا ہے ، اُجالا ہے کیا ، کسے معلوم
تمہارے بعد کہاں دم رہا ہے آنکھوں میں
تمام عمر خوشی سے گذار دی میں نے
تمام عمر ترا غم رہا ہے آنکھوں میں
وہ رات کیسے بھلاؤں ، ترے وداع کی رات
خیالِ کاکُلِ برہم رہا ہے آنکھوں میں
ابھی بُجھا نہیں آنکھوں کے دشت میں سورج
غزالِ شوق ابھی رَم رہا ہے آنکھوں میں
تراش لوں اسے آنکھیں بھی موند کر آذرؔ
وہ ایک چہرہ جو پیہم رہا ہے آنکھوں میں
——
وہ شخص تھک کے جو دشتِ جنوں میں بیٹھا ہے
وہ شخص میں نہیں ، وہ شخص میرا سایا ہے
مرے بدن کا لہو ، دل کی آس لے گیا
وہ اک ثمر جو مری شاخِ دل سے ٹوٹا ہے
اگر دریچہ نہ وا ہو تو در سے ڈرتا ہوں
خبر نہیں پسِ دیوارِ آرزو کیا ہے
میں ڈھونڈ لیتا ہوں اشکوں کی دھند میں جس کو
وہ تم نہیں ہو تو پھر کیا وہ کوئی تم سا ہے
تمہاری آنکھوں کا جادو ہے یا نمودِ سحر
اندھیرے میں بھی اُجالا دکھائی دیتا ہے
مجھے جو دیکھو تو آنکھوں سے پھول برساؤ
ہوں قصرِ شیشہ جو پتھر سے ٹوٹ جاتا ہے
اُس ایک جسم کو آذرؔ تراشنے کے لیے
ہر اک بدن کو ہر اک زاویہ سے دیکھا ہے
——
میرے پاس تم آئے بھی تو ایسے آئے خوابوں میں
تَیر رہی ہیں میری آنکھیں اشکوں کے تالابوں میں
ابروؤں کے قوس کے نیچے آنکھوں کے نسخے مت پوچھ
جیسے بُت رکھے ہوں سجا کر مندر کی محرابوں میں
زخم ، تجسس ، بھوک ، تمنا ، اشک ، آوارہ گردی ، غم
کتنے چکر اور ہیں آخر لمحوں کے گردابوں میں
کتنے چہرے ہم نے سجائے ہاتھوں کے گلدان سے پوچھ
آخر سب کچھ وقت بہا لے جاتا ہے سیلابوں سے
تم کو خبر ہے صبحیں کتنی راتوں کو بخشیں ہم نے
نام ہمارا بھی لکھ لے اے شہر ترے بے خوابوں میں
تنہائی ، فرقت ، مایوسی ، حال کا ڈر ، فردا کا خیال
جاتے ہوئے بانٹے ہیں تم نے یہ دکھ ہم بیتابوں میں
——
تحریر : سید نوید جعفری حیدرآباد دکن 31 اگست 2021
بحوالہ فیس بک صفحہ : سید نوید جعفری
شعری انتخاب از آبدیدہ 1974 ء ، متفرق صفحات