اردوئے معلیٰ

آج ممتاز شاعر صبا اکبر آبادی کا یوم ِ پیدائش ہے ۔

صبا اکبر آبادی(پیدائش: 14 اگست 1908ء – وفات: 29 اکتوبر 1991ء)
——
صبا اکبر آبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، صحافی، مترجم اور ناول نگار تھے۔ انہیں شاعری میں نعت اور مرثیہ گوئی میں شہرت حاصل تھی۔
صبا اکبرآبادی 14 اگست، 1908ء کو آگرہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری کا آغاز 1920ء سے ہوا۔ شاعری میں ان کے استاد خادم علی خاں اخضر اکبر آبادی تھے۔ 1927ء میں وہ شاہ اکبر داناپوری کے صاحبزادے شاہ محسن داناپوری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور اسی وسیلے سے انہیں تصوف کی دنیا سے شناسائی ہوئی۔ 1928ء میں انہوں نے ایک ادبی ماہنامہ آزاد نکالا۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے رعنا اکبر آبادی کے رسالے مشورہ کی ادارت بھی سنبھالی۔
تقسیم ہند کے بعد انہوں نے حیدرآباد (سندھ) اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی اور بہت جلد یہاں کی ادبی فضا کا ایک اہم حصہ بن گئے۔ انہوں نے مختلف النوع ملازمتیں بھی کیں اور تقریباً ایک سال محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اکبر الہ آبادی کا یوم وفات
——
صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراق گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغ بہار، خونناب، حرز جاں، ثبات اور دست دعا کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کے تین مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاس الم کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عمر خیام، غالب، حافظ شیرازی اور امیر خسرو کے منتخب فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جن میں سے عمر خیام اور غالب کے تراجم اشاعت پزیر ہوچکے ہیں۔ ان کی ملی شاعری کا مجموعہزمزمۂ پاکستان قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا تھا۔ انہوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو زندہ لاش کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔
صبا اکبرآبادی 29 اکتوبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی کے سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
عشق نبی اور صبا اکبر آبادی کی نعتیہ شاعری از شاہد سلمان
——
جتنی قرآن کی عبارت ہے
وہ رسول خدا کی سیرت ہے
جو نہ مانیں یہ ان کی قسمت ہے
نعت احمد بڑی عبادت ہے
——
اس دور میں نعت گوئی اور نعت خوانی کے بارے میں پیدا ہونے والی مختلف بحث و مباحثہ کو حضرت صبا اکبر آبادی کے ان نعتیہ اشعار کے حوالے سے سمجھا جائے تو سب کا جواب اس میں موجود ہے۔
——
رات دن اپنا وظیفہ ہے صبا
یا حبیب یا حبیب یا حبیب
——
غزلوں میں تو ہر شاعر کے یہاں ایسے متعدد اشعار مل جائیں گے جن کو نعتیہ مضامین پر منطبق کیا جا سکے تو صبا صاحب کی غزلوں میں بھی اگر ایسے اشعار مل جاتے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ رہی ان کے مرثیوں کی بات تو اس بارے میں مشہور و ممتاز عالم دین ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں (سابق صدر شعبہ اُردو و فارسی سندھ یونیورسٹی) فرماتے ہیں کہ حضرت صبا نے نعت کہتے وقت احتیاط، احترام اور ادب کو پوری طرح قائم رکھا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ حضرت صبا اکبر آبادی کا نعتیہ کلام پڑھتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ یہی باتیں نبی اکرم ے بارے میں ہمارے دل میں بھی ہیں لیکن ہم ان کا اظہار اس خوبصورتی سے نہیں کرسکے جیسے حضرت صبا اکبر آبادی نے کیا ہے۔ وہ زور ایمانی اور زور قلم جو صبا اکبر آبادی صاحب کے مراثی میں بالخصوص حمدیہ اور نعتیہ بندوں میں نظر آتاہے وہ انہیں ان کے معاصر مرتبہ نگاروں سے ایک بلند درجے پر پہنچا دیتا ہے اور وہ سب مرہون منت ہے رسول کے پر خلوص ذکر خیر کا اور یہی کیفیت حضرت صبا اکبر آبادی کے خالص نعتیہ کلام میں بھی موجود ہے۔ اسی تعلق سے جناب صبا اکبر آبادی کے ایک مرثیے ”ترقی“ کا نعتیہ بند ملاحظہ ہو:
——
چودہ سو سال گزرے کہ مکہ اک بشر
امی مگر علوم الٰہی سے باخبر
بندوں کے درمیان خدا کا پیامبر
صادق، امین، صابر و ساجد بہر نظر
بندوں کو وہ خد اکی عطائے عظیم تھا
آغوش کائنات میں در یتیم تھا
باتوں میں لطف، خلق میں عظمت جبیں پہ نور
ایک اک عمل کا کبر و انا سے دور
داتا، سخی، شریف، مزکی، غنی، غیور
اس نے حیات تازہ کا سامان کردیا
انسان کو جھنجھوڑ کے انسان کردیا
——
یہ بھی پڑھیں :کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر، اللہ اکبر
——
غرض اس مرثیے (ترقی) میں ایک دو تین نہیں بلکہ 33 بند حضور اکرم کی شان میں موجود ہیں۔ اسی نعتیہ نظم میں تین اور ملاحظہ ہوں:
——
وہ رحمت تمام زمانے کے واسطے
آیا تھا بزم نور سجانے کے واسطے
ذروں کو آفتاب بنانے کے واسطے
عالم سے ظلم و جور منانے کے واسطے
ہر قلب کو خزینہ ایمان دے دیا
اس کی زبان پاک نے قرآن دے دیا
قرآن گفتگوئے خداوند ذوالجلال
دستور حق، صحیفہ بے مثل و بے مثال
گنجینہ معارف و قانون لا زوال
اللہ کا کلام محمد کی بول چال
ایک ایک حرف ناز سے ہے جھومتا ہوا
آیا ہوں میں رسول کے لب چومتا ہوا
قرآن جس کے دل پہ اترتا تھا وہ نبی
آلائش حیات سے مطلق رہا بری
اس کے عروج ذات کو سمجھے گا کیا کوئی
اس نے زمیں سے جا کے سر عرش سیر کی
ہوتی ہے یہ جو چاند میں دنیا کی جستجو
ہے یہ اسی کے نقش کف پا کی جستجو
——
آج سے چالیس برس پہلے کے کہے ہوئے مرثیے کے چند بند آپ نے ملاحظہ کئے۔ اب صبا اکبر آبادی صاحب کی خالص نعتیہ شاعری کے بارے میں چند باتیں۔
دراصل، دنیا میں جتنی خیر ہے، جتنی اچھائی ہے، جتنی بھلائی اور بہتری ہے وہ سب مرہون منت ہے ہمارے نبی آخر الزماں کی۔ میرے نزدیک دنیا کا ہر وہ شاعر اور ادیب جو اپنے ظلم سے نیکی کا پرچار کررہا ہے۔ وہ دراصل پیغمبر خدا کے کسی عمل یا کسی بات کو دہرا رہا ہے۔ حضرت صبر اکبر آبادی جب یہ کہتے ہیں کہ:
——
بے مثل ہے، زمین میں وہ آسماں میں وہ
اپنی مثال آپ ہے دونوں جہاں میں وہ
——
تو ہم سوائے تائید کے اور کچھ کہنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس لئے کہ حضور سرور کائنات اس جہاں کے ہی نہیں بلکہ دونوں جہاں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ اسی لئے تو پروردگار عالم نے آپ کو رحمت اللعالمین کے خطاب سے سرفراز فرمایا ہے۔ چنانچہ اسی ضمن میں حضرت صبا اکبر آبادی نے کیا خوبصورت بات کہی ہے:
——
جو چاہے جلوۂ احمد سے روشنی لے لے
یہ نور صرف ہمارا نہیں ہے سب کا ہے
——
ایک بالکل سامنے کی بات ہے۔ اذان میں اللہ کی وحدانیت کا تذکرہ ہے تو ساتھ ساتھ محمد رسول کے رسول اللہ ہونے کی شہادت بھی موجود ہے۔ اسی بات کو جناب صبا اکبر آبادی نے بھی اپنے شاعرانہ پیرایہ اظہار میں ادا کیا ہے۔
——
قائم ہے تا ابد جو نمازوں کا سلسلہ
شامل خدا کے ساتھ رہے گا اذاں میں وہ
——
یہ بات بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے:
——
اُس کے بغیر منزل مقصد کسے ملی
قائد ہے کارواں کا ہر اک کارواں میں وہ
——
میں نے اپنی گفتگو کی ابتداءمیں صبا صاحب کی غزل کا ایک شعر آپ کو سنایا تھا
——
دل کافر خدا کا منکر تھا
تم کو دیکھا تو اعتبار کیا
——
یہ بھی پڑھیں : سبط علی صبا کا یومِ وفات
——
یہ خیال غزل کہتے ہوئے صبا صاحب کے ذہن کو منور کر گیا اور انہوں نے مذکورہ شعر کی صورت میں اسے نظم کردیا لیکن جب وہ نعت کہہ رہے ہیں تو یہی خیال بالکل دل کو چھو لینے والے انداز میں سامنے آتا ہے۔ اس نعت کا مطلع ہے:
——
مجھے یہ سبق مصطفیٰ نے دیا ہے
جو میرا خدا ہے وہ سب کا خدا ہے
——
تو اسی نعت میں یہ شعر بھی نظر آتا ہے:
——
دلیل خدائی ہے ذات محمد
محمد کو دیکھا تو سمجھے خدا ہے
——
حضرت صبا اکبر آبادی ذہنی طور پر اپنی مکمل آزاد خیالی کے باوجود ایک ایسے مسلمان عناصر ہیں جو نبی اکرم کی رسالت کے بغیر انسانیت کو نامکمل اور انسان کی وجہ تخلیق کو بے سبب مانتے ہیں کیونکہ وہ رسول کو شافع محشر سمجھتے ہیں، بغیر کسی تاویل اور دلیل کے۔
——
حضور آپ سنواریں گے میرا مستقبل
حضور نے میرا ماضی و حال دیکھا ہے
——
بہار گلشن انسانیت اسی سے ہے
کمال عظمت انساں بھی تھا وہی لوگو
خدائی قبضہ قدرت میں اس کے تھی لیکن
نمونہ عمل بندگی تھا وہ لوگو
——
قلب کا آرام ہے ذکر رسول
روح کی تسکین ہے نام مصطفیٰ
——
صبا صاحب کی نگاہ کا مدعا اور خیال کا آسرا محبوب خدا کی ذات اقدس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے:
——
حبیب رب العلیٰ محمد شفیع روزِ جزا محمد
نگاہ کا مدعا محمد خیال کا آسرا محمد
——
اب صبا اکبر آبادی صاحب کی نعتوں کے چند اشعار بغیر کسی تبصرے اور عبارت آرائی کے ملاحظہ فرمائیے:
——
دوبارہ جی اُٹھے امت نبی کی
سلیقہ اس کو مرنے کا سکھا دے
صبا جس باغ کی خوشبو ہے تجھ میں
پتا اس کا زمانے کو بتا دے
——
وسیلہ کیا ہے سوائے محمد عربی
خدا ملا تو خدائے محمد عربی
——
ہوئی تمام زبان و قلم کی ہر طاقت
ادا ہوئی نہ ثنائے محمد عربی
صبا غبار بنوں اور مجھے اڑا لے جائے
سوئے مدینہ ہوائے محمد عربی
——
نام پر ان کے مٹے تو زندگانی مل گئی
مرنے والوں کو حیات جاودانی مل گئی
مجھ کو قسمت نے بڑا منصب دیا ہے اے صبا
یعنی محبوب خدا کی مدح خوانی مل گئی
——
یہ بھی پڑھیں : اے صبا مصطفی سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں
——
حقیقت یہ ہے کہ آج اُردو شاعری میں حضرت صبا اکبر آبادی صاحب کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ محبوب خدا کی مدح خوانی کی بدولت ہے۔
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
اے ساقیٔ الطاف خُو اللہ ہو اللہ ہو
لانا ذر اجام و سبُو ، اللہ ہو اللہ ہو
لا بادۂ گلفام دے ، بھر بھر کے پیہم جام دے
پیاسا ہوں میں ساقی ہے تو اللہ ہو اللہ ہو
ہر جام میں جلوہ ترا ، ہر قطرہ آئینہ ترا
ہے میکدے میں تو ہی تو اللہ ہو اللہ ہو
یہ پھول یہ شاخ و شجر ، یہ رس بھرے میٹھے ثمر
مٹی میں یہ جوشِ نمو اللہ ہو اللہ ہو
یہ شام یہ کالی گھٹا ، یہ معتدل ٹھنڈی ہوا
یہ بارشیں یہ رنگ و بو اللہ ہو اللہ ہو
میں مست ہوں مخمور ہوں ، کیف و طرب سے چُور ہوں
خود ہوش میں لائے گا تُو اللہ ہو اللہ ہو
سانسوں میں تیرا نام ہے ، ہر وقت تجھ سے کام ہے
ہر دم ہے تیری گفتگو اللہ ہو اللہ ہو
تسلیم ہے تیرا کرم ، احساس ہے یہ دمبدم
میں آپ ہوں اپنا عدو اللہ ہو اللہ ہو
دائم نہیں ہے کوئی شے ، اُڑ جائیگی خود روحِ مئے
فانی ہوں میں باقی ہے تُو اللہ ہو اللہ ہو
تیرے کرم سے زندگی ، دنیا میں ہے ہستی مری
مثلِ حبابِ آبِ جُو اللہ ہو اللہ ہو
کیسے دھڑکتا ہے یہ دل ، کیوں مضطرب ہے مستقل
گردش میں ہے کیسے لہو ، اللہ ہو اللہ ہو
تیرا صباؔ بھرتا ہے دم ، اِس پر رہے تیرا کرم
کہتا پھرے یہ چار سُو اللہ ہو اللہ ہو
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
وہ جلوہ تھا جو پردوں میں نہاں اب آشکار آیا
انہیں دیکھا تو دنیا کو خدا کا اعتبار آیا
ہزاروں حسن لے کر آمنہ کا گلعذار آیا
بہ طرزِ رنگ و بو آیا ، بہ عنوانِ بہار آیا
گدا بن کر اسی کے در پہ تاج و تخت والے ہیں
وہ تاج و تخت کو ٹھکرانے والا تاجدار آیا
خزاں کی زد میں تھا باغِ تمدن ایک مدت سے
وہ جب تشریف لے آئے تو پھر دورِ بہار آیا
تصور ان کے آنے کا حسیں تھا ان کے آنے تک
جب ان کے حسن کو سوچا تو خود یوسفؑ کو پیار آیا
زہے اسمِ گرامی ! جب سنا ، جس سے سنا ہم نے
درود اپنی زبانِ شوق پر بے اختیار آیا
عطا فرمائی وہ نعمت جہاں کے دردمندوں کو
غریبوں کو سکوں آیا ، یتیموں میں وقار آیا
تری تعلیم نے انسانیت کو آبرو بخشی
اخوت پر بہار آئی ، محبت پر نکھار آیا
تمہارے دامنِ رحمت نے کیسا صاف کر ڈالا
ذرا آئینۂ خاطر پہ جب اپنے غبار آیا
خوشا تقدیر ! دل میں نور تھا عشقِ محمد کا
فضائے تِیرگی میں کام جو زیرِ مزار آیا
انہیں اللہ نے تفویض کی قسمت دو عالم کی
انہی کے ہاتھ میں کون و مکاں کا اقتدار آیا
زباں بخشے گی خود خاکِ مدینہ بے زبانوں کو
فضا خود بول اٹھے گی محمد کا دیار آیا
تمہارے لطف کی دولت سے پھر مسرور پلٹا ہے
تمہارے سامنے آقا کوئی جو شرمسار آیا
کرم اللہ کا اتنا رہا تا زندگی آقا
تمہارا نام ہونٹوں پر ہمارے بار بار آیا
مدینے سے بلاوا آئے گا اک روز جائیں گے
صباؔ اس آرزو میں کتنا لطفِ انتظار آیا
——
اُس بارگاہِ ناز کا اعجاز دیکھنا
میں چُپ رہا تو دستِ دعا بولنے لگے
——
صباؔ نعتِ رسولِ پاک اپنے ہاتھ میں رکھو
شفاعت کی سند لے کر چلو دربارِ داور میں
——
اگرچہ وقفِ عصیاں زندگی ہے
ہماری مغفرت نعتِ نبی ہے
——
محمد جو تشریف لائے صبا
خدا کا ہمیں اعتبار آ گیا
——
ہم عاشقانِ آلِ محمد ہیں اے صباؔ
زندہ رہیں گے نام ہمارے فنا کے بعد
——
ممکن نہ تھا اللہ کا عرفاں ہونا
دشوار تھا یہ مرحلہ آساں ہونا
اے محسنِ انسان ترے صدقے میں
انسان کو آ گیا ہے انساں ہونا
——
لب پہ رہے کیا نامِ محمد کے سوا
کس کے ہیں سب اکرام محمد کے سوا
جب حشر کے روز ہو گی نفسا نفسی
کون آئے گا پھر کام محمد کے سوا
——
ہر چند زمانے کی فضا پُر فن ہے
عالم ہے خلاف اور ہوا دشمن ہے
دنیا میں جلایا تھا جو احمد نے چراغ
چودہ سو برس سے آج تک روشن ہے
——
میں اپنی عقبیٰ سنوارتا ہوں ، انہی کو پیہم پکارتا ہوں
مری زبان پر ہے یا حبیبی ، مرا وظیفہ ہے یا محمد
——
ہے دونوں جہاں میں تو ہی مقصودِ وجود
ہے نامِ محمد تو ہے رتبہِ محمود
اُمیدِ شفاعت ہے گنہ گاروں کو
ہیں اشکِ ندامت مری آنکھوں کے درود
——
جب سے کمالِ فن مرا معیار ہو گیا
اپنی دکاں پہ آپ خریدار ہو گیا
——
شعری انتخاب از دستِ دعا ، مصنف : صبا اکبر آبادی
شائع شدہ : 2003 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔