اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر سعید احمد اختر کا یومِ پیدائش ہے۔

سعید احمد اختر(پیدائش: 3 مارچ 1933ء – وفات: 20 اگست 2013ء)
——
۳ مارچ ۱۹۳۳ء کو عید کے دن پشین میں پیدا ہونے والے سعید احمد اختر کا نام بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کہ سعید مبارک کو کہتے ہیں اور اختر پشتو میں عید کو ۔ ان کے والد محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور بنیادی طور پر تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی سے تھا۔ سعید صاحب کے والد اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے اور علامہ اقبال سے نہ صرف عقیدت رکھتے تھے بلکہ ان کے خطبات سننے بھی جایا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی رحلت کی خبر پڑھ کرسعید صاحب کے والد غم سے غش کھا کر گرپڑے تھے اورپھر جنازے میں شرکت کے لیے کُلاچی سے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے ۔ والد کے حوالے سے پس منظر بتانے کا مقصد یہ حقیقت واضح کرنا تھاکہ سعید صاحب کو شعر و علم سے محبت در حقیقت ورثے میں ملی تھی ۔ عِلم سے محبت وہ پہلا سبق تھا جو سعیدصاحب کو ان کے والد نے سکھایااور پھر سعید صاحب کی ساری زندگی اسی درس سے عبارت رہی ۔سعید صاحب ابھی کم سِن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس زمانے تک کُلاچی میں بجلی بھی نہیں تھی اور سعید صاحب کو گھر سے کئی میل دُور شہر جانے والی سڑک پر لگے ایک کھمبے کی بتی کے نیچے جا جا کر پڑھنا پڑا تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود تعلیم جاری رکھی اورپھر اُردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ انگریزی ادب کے پروفیسر کے طور پر پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ۱۹۶۸ء میں سی ایس ایس کرنے کے بعد مغربی پاکستان سِول سروس میں آئے اور صوبہ سرحد( اب خیبر پختونخواہ) کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور مختلف ڈویژنز میں ایڈیشنل کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ۱۹۹۰ء میں بحیثیت ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ پری میچور ریٹائرمنٹ لے کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش اختیار کی۔ملازمت کے دوران اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی شاعری کے مجموعے وقفے وقفے سے شائع ہوتے رہے۔ عید کے دن پیدا ہونے والے سعید احمد اختر گزشتہ سا ل عید ہی کے دن طویل علالت کے باعث کومہ میں چلے گئے اور کچھ روز بعد یعنی ۲۰ اگست ۲۰۱۳ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال کر گئے اور وہیں مدفون ہیں۔
——
بس ہمیشہ کے لیے چُپ سادھ لی
یہ بھی کوئی صورتِ اظہار ہے
——
احمد ندیم قاسمی ، سید ضمیر جعفری،حمایت علی شاعر، افتخار عارف، پرتو روہیلہ اور سحر انصاری جیسے معتبر شعراء کی آراء سے مزین سعید احمد اختر مرحوم کے اب تک کے تیرہ مطبوعہ شعری مجموعے اس امر کے عکاس ہیں کہ ان کی بنیادی پہچان ان کی شاعری ہے ۔انہوں نے انگریزی میں بھی شاعری کی۔ان کے دو شعری مجموعے( ایک اُردو اور ایک انگریزی ) فی الوقت زیرِ اشاعت ہیں ۔ اُن کی اُردو اور انگریزی کے علاوہ سنسکرت، فارسی ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتو ادب پربھی گہری نظر تھی ۔ \”سعید احمد اختر شخصیت اور فن\” کے عنوان سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے حسین محمود داوڑ ایم فل کی سطح کا تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں جسے وہ عنقریب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔تاہم درج ذیل سطور میں ان کی شاعری سے زیادہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ان پہلووں اور مشاغل کو سامنے لانے کی کو شش کی گئی ہے جن سے لوگ کم واقف ہیں اور اسی حوالے سے اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔
——
شاعر مجھے اور آپ کو افسر نظر آیا
دو چار تھے جن کو وہ قلندر نظر آیا
——
سعید احمد اختر صاحب کا نواسا ہونے کی حیثیت سے راقم نے انہیں قریب سے دیکھا ۔ وہ ایک خوش شکل، خوش مزاج اور خوش لباس شخص تھے۔ان کے پرانے دوست اور شاگر د بتاتے ہیں کہ جب وہ تھری پیس سُوٹ اور ہیٹ پہنتے تو ان پر ہالی وڈ کے کسی ہیرو کا گماں ہوتا۔ انتہائی ایمان دار، با اصول او ر وقت کی پابندی کرتے تھے۔اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ان کی طبیعت میں کسی قسم کا کوئی غرور نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے اپنے عہدوں کا کبھی ناجائز استعمال کیا۔ انہوں نے دفتر کی گاڑی تک کبھی ذاتی کاموں کے لیے استعمال نہیں کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بیٹے نے انہیں ایک گاڑی دی جو سعید صاحب کے انتقال تک ان کے زیرِ استعمال رہی۔ ان کاایک ہی گھر تھا جو انہوں نے سِول سروس میں آنے سے پہلے بنا نا شروع کیا اور اپنی ملازمت کے دوران اسے تعمیر کرتے رہے اور جو ریٹائرمنٹ کے بعد جا کر مکمل ہوا ۔اسی گھرمیں وہ انتقال تک مقیم رہے اور پھر اسی گھر سے ان کا جنازہ اُٹھا۔
——
مُدت سے خامشی ہے چلو آج مَر چلیں
دو چار دن تو گھر میں ذرا انجمن رہے
——
ان کی طبیعت میں عوام الناس کی مدد کرنے کا جذبہ بے انتہا تھا۔ جب وہ محکمہ تعلیم میں تھے اس دورا ن انہوں نے ہزاروں لوگوں کی تعلیمی امداد کی ۔ایسے کئی افراد بلکہ پورے خاندان ہیں جو سعید صاحب کی بدولت زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئے ۔ چونکہ انہیں خود تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس لیے وہ زندگی بھر اوروں کو ویسی مشکلوں سے نکلنے میں مدد فراہم کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے گھر میں ایک ایجوکیشنل کوچنگ سنٹر کھولا، جہاں وہ سی ایس ایس ، بی اے اور انٹر کی سطح کے طلبا ء وطالبات کو پڑھایا کرتے۔ انگریزی ان کا بنیادی مضمون تھا تاہم پولیٹکل سائنس، اردو ، تاریخ وغیرہ کے حوالے سے بھی لیکچر لیتے اور ان مضامین کے دیگر اساتذہ کو بھی مدعو کر کے لیکچر دلواتے۔ شاگردوں کے لیے ہر ہفتے ایک کلاسیک موضوعاتی یا معلوماتی انگریزی فلم دکھانے کا بھی انتظام کرتے جو کورس کے حصے کے طور پر دکھائی جاتی۔ بیماری کے دوران بھی ان کی کوشش ہوتی کہ کلاس لینا نہ چھوڑیں اور پھر عمر کے آخری دو سال میں جب وہ وہیل چئیر پرآگئے تب بھی ان کی کلاس لینے کی روایت میں تعطل نہ آیا۔ اسی دوران جب نحیف ہونے کی وجہ سے ان کے لیے بلند آواز میں لیکچر لینا مشکل ہوا اور ڈاکٹرز نے بھی اونچا بولنے سے منع کیا تو وہ مائیک کا سہارا لے کر کلاس لیتے۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
ان کی کلاس کے دروازے سب کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے اور قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کی اکثریت سے فیس نہیں لی جاتی تھی یوں سعید صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۲ سال تک لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مفت تعلیم دیتے رہے۔یہ بات بھی قابلِ ستائش ہے کہ سعید صاحب خود کبھی ایسی کوئی بھی بات نہ بتاتے بلکہ وہ لو گ جن کی مدد کی جاتی ان کے ذریعے اوروں کو معلوم ہوتا۔تعلیمی حوالے کے علاوہ متعدد ضرورت مندبچیوں کی شادی کرانے کے لیے بھی انہوں نے مالی معاونت کی ۔
سعید صاحب کے مشاغل کا دائرہ وسیع تھا ۔ان کو کھیلوں کابہت شوق تھا ۔ بچپن اور نوجوانی میں فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے ۔بعدمیں لان ٹینس کھیلنا شروع کیا اور ۵۸ برس کی عمر تک کھلیتے رہے۔ ۸۰ کی دہائی میں جب وہ پشاور میں افغان مہاجرین کے ڈپٹی کمشنر تعینات تھے تب بھی اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر باقاعدگی سے لان ٹینس کھلیتے ۔ان کے گھر میں رکھی کئی ٹرافیز اس کھیل میں ان کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کھیلنا تو چھو ڑ دیالیکن اپنی وفات تک کھیل کو follow کرتے رہے اور تمام مقابلے خصوصاً grand slam کے مقابلے انتہائی انہماک سے دیکھا کرتے۔شطرنج اور تاش کے مشہور کھیل \”برج\” کے بھی چیمپینز میں شمار ہوتے تھے۔
موسیقی سے بہت لگاوٗ تھا۔ اس حوالے سے بھی ان کی پسند متنوع تھی۔ پکے راگ، کلاسیکل، نیم کلاسیکل، پرانے انڈین فلمی گانے ، گیت، غزل، ٹھمری ، بھجن اور لوریاں شوق سے سنتے ۔نورجہان، لتا، آشا، ہیمنت کمار، مکیش کی آواز اور نوشاد ، مدن مو ہن اور شنکر جے کشن کی دُھنیں زیادہ پسند تھیں۔
——
ہے نور جہاں چین ، لتا ہے نیند میری
نوشاد بہت ہے دلِ ناشاد کی دولت
——
اُردو کے علاوہ فارسی، سرائیکی، پشتو، پنجابی موسیقی بھی پسند تھی۔ نغمہ مینگل،گوگوش ، ناشناس، حمیرا چنا، گلبہار بانو، شکیلہ ناز کے گیت بھی پسند تھے۔موسیقی نہ صرف سنتے بلکہ یہ بھی بتاتے کہ گانے کی دُھن کس راگ میں ترتیب دی گئی ہے ۔ایک مستند استاد سے باقاعدہ ہارمونیئم اورپیانو / کی بورڈ بجانا بھی سیکھا۔اور اچھے موڈ میں پیانو پر فرمائش پر گیتوں کی دُھن بھی بجا کر سناتے ۔جب امریکہ اور برطانیہ گئے تو واپسی پر اپنی پسند کی موسیقی ، فلمز اور کتابوں کی ایک بہت بڑی collectionبھی جمع کی۔ہالی وڈ کی کلاسیک انگریزی فلمز جیسے شیکسپئر کے ڈراموں پر بنی فلمز اور دیگر کلاسیک جیسےJane Eyre, Wuthering Heights, Hunchback of Notre-Dame, Ten commandments, Ben-Hur جیسی شاہکار فلمز سمیت پرتھوی راج اور راج کپور کی فلمز اور انڈین آرٹ فلمز بھی ان کی لائبریری کا حصہ تھیں۔ ان کی ذاتی لائبریری مختلف انسائکلوپیڈیا سمیت ہزاروں کتب پر مشتمل تھی۔کئی کتب ایسی تھیں جو انھوں نے بیرون پاکستان سے منگوائی تھیں اورپاکستان میں کہیں دستیاب نہیں تھیں۔تاہم اپنے انتقال سے چند برس قبل انہوں نے اپنی پور ی لائبریری ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک نجی یونیورسٹی ( جہاں وہ ان دنوں بلا معاوضہ پڑھا رہے تھے) کو عطیہ کردی تھی۔
سعید احمد اختر صاحب کو پرندے اور جانور پالنے کا بھی شوق تھا۔ ہمیشہ اعلیٰ نسل کا ایک کتا ان کے گھرہُوا کرتا۔پرندوں میں مور، نیل کنٹھ، بٹیر، تیتر،توتے، چڑیاں، کبوتر اور چکور بھی ان کے گھر ہوا کرتے تھے
۔باغبانی کا بھی شوق تھا اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے کشادہ گھر میں لا نز کے علاوہ ایک بڑا باغ بھی تھا۔جہاں انواع واقسام کے پھول، سبزیاں اور پھل داردرخت لگے ہوئے تھے۔
چھوٹا سا ایک کھیت تھا بس اپنی جائیداد چھوٹا سا ایک باغ ہمارا خزانہ تھا
باغ کی کیاریوں میں ٹیوب روز، چنبیلی، رات کی رانی اور کم و بیش ہر رنگ کے گلاب کے علاوہ متعدد اقسام کے خوش رنگ و خوش نما پھول موجود ہوتے ۔ساگ کی کئی اقسام، مرچ، لیموں،بینگن، کریلے،بھنڈی سمیت کئی سبزیاں بھی باغ میں اگتی تھیں۔ پھلوں میں کھجور، انگور،انجیر، انار، امرود، جامن،چیکو اور آم کے درخت تھے۔آموں کا ذکر آیا تو یہ بات برمحل ہے کہ انھیں آم بہت خاص لگتے تھے۔ نجانے آموں کا شاعروں سے کیا تعلق ہے:
——
کچھ آم تھے رات کی رانی تھی اور اپنی پریم کہانی تھی
چھوٹے سے باغ میں چھوٹا سا اپنا یہ خزانہ رہتا تھا
——
آموں کی کئی اقسام جیسے لنگڑا، چونسہ،انوَرَ ٹول ، توتا پری، سیندُوری اور collector کے درخت ان کے باغ میں تھے۔آموں کے موسم میں ہر شام سعیدصاحب کا یہی کام ہوتا کہ اپنے ہمسایوں ، عزیزوں کے لیے آموں کی پیٹیاں تیار کروا کر بھیجتے ۔ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ باقی شہروں میں بھی اپنے عزیز واقارب کو آم بھیجا کرتے۔ ہر ہفتے ان کے لان میں ایک مینگو پارٹی کا اہتمام ہوتا جس میں ان کے شاگرد، دوست، ہمسائے سب شوق سے شرکت کیا کرتے۔
شاعر بنیادی طور پر حُسن پرست ہُوا کرتا ہے اور سعید احمد اختر مرحوم کی زندگی کے مختلف زاویوں ، جیسے شاعری،تعلیمی سوشل ورک اور مشاغل کو دیکھنے کے بعد وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے اوراس میں حُسن کو تلا ش کرنے اوراسے مزید نکھارنے کی کوشش کی۔
——
منتخب کلام
——
پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں
میں باغ کے اجڑے ہوئے گوشے کی طرح ہوں
تو دل میں اترتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے
میں جسم سے اترے ہوئے کپڑے کی طرح ہوں
——
جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے
جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے
——
وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لیے
——
عقل و دل کا سامنا تھا دیدۂ حیران میں
میں کھڑا ساحل پہ تھا وہ حلقۂ طوفان میں
——
اور مرتا کہیں جا کر ترے در سے لیکن
ہوش اتنا بھی کہاں تھا ترے دیوانے کو
——
ہے قحط نہ طوفاں نہ کوئی خوف وبا کا
اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا
ہر شام سسکتی ہوئی فریاد کی وادی
ہر صبح سُلگتا ہوا صحرا ہے صدا کا
اپنا تو نہیں تھا میں کبھی، اورغموں نے
مارا مجھے ایسا رہا تیرا نہ خدا کا
پھیلے ہوئے ہر سمت جہاں حرص و ہوس ہوں
پھولے گا پھلے گا وہاں کیا پیڑ وفا کا
ہاتھوں کی لکیریں تجھے کیا سمت دکھائیں
سُن وقت کی آواز کو ، رُخ دیکھ ہوا کا
لُقمان و مسیحا نے بھی کوشش تو بہت کی
ہوتا ہے اثر اس پہ دعا کا نہ دوا کا
اس بار جو نغمہ تِری یادوں سے اُٹھا ہے
مشکل ہے کہ پابند ہو الفاظ و صدا کا
اتنی تِرے انصاف کی دیکھی ہیں مثالیں
لگتا ہی نہیں مُلک ترا مُلک خدا کا
سمجھا تھا وہ اندر کہیں پیوست ہے مُجھ میں
دیکھا تو مِرے ہاتھ میں آنچل تھا صبا کا
——
یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے
گلوں نے کس لیے بوسے قبا کے لیے
وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم نقش پا کے لیے
تم اپنی زلف بکھیرو کہ آسماں کو بھی
بہانہ چاہیۓ محشر کے التوا کے لیے
یہ کس نے پیار کی شمعوں کو بددعا دی ہے
اجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا کے لیے
ابھی تو آگ سے صحرا پڑے ہیں رستے میں
یہ ٹھنڈکیں ہیں فسانے کی ابتدا کے لیے
سلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم
کسی حسین کو آواز دو خدا کے لیے
——
بُت کیا ہیں ، بشر کیا ہے؟ یہ سب سلسلہ کیا ہے
پھر میں ہوں مرا دل ہےمِری غارِ حرا ہے
جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے
جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے
تارے مری قسمت ہیں کہ جلتے ہوئے پتھر
دنیا مری جنت ہے کہ شیطاں کی سزا ہے
دل دشمنِ جاں ہے تو خِرد قاتلِ ایماں
یہ کیسی بلاؤں کو مجھے سونپ دیا ہے
سُنتے رہیں آرام سے ہر جُھوٹ تو خوش ہیں
اور ٹوک دیں بُھولے سے تو کہتے ہیں بُرا ہے
شیطان بھی رہتا ہے مِرے دل میں خدا بھی
اب آپ کہیں دل کی صدا کس کی صدا ہے
اختر نہ کرو اُن سے گِلہ جَور و جفا کا
اپنی بھی خدا جانے ہوس ہے کہ وفا ہے
——
کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں
وہ بھی باقی نہیں رہی اس دور کے انسانوں میں
وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ
پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گلدانوں میں
شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن
پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دونوں میں
ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی
جانتا ہے کوئی اپنوں میں نہ بیگانوں میں
سر ہی ہم پھوڑنے جائیں تو کہاں جائیں گے
کھوکھلے کانچ کے بت ہیں ترے بت خانوں میں
——
نظم : زندگی
——
زندگی اس طرح گزرتی ہے
جس طرح جون کے مہینے میں
کوئی بوڑھا غریب پردیسی
لاکھ ارماں دبائے سینے میں
بوجھ سے چور اور تھکن سے نڈھال
ہانپتا کانپتا پسینے میں
اونچے محلوں تلے گزرتا ہو
اور ہر گام آہ بھرتا ہو
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ