اردوئے معلیٰ

آج ممتاز کلاسیکل شاعر صفی لکھنوی کا یوم پیدائش ہے۔

 صفی لکھنوی(پیدائش: 3 جنوری، 1862ء- وفات: 24 جون، 1950ء)
——
سید علی نقی نام۔ صفی تخلص، تاریخ ولادت ۳ جنوری ۱۸۶۲ء مطابق یکم رجب ۱۲۷۸ھ اور قدیم وطن لکھنو ہے۔ والد مولوی سید فضل حسین آخری تاجدار اودھ کے بھائی شاہزادہ سلیمان قدر بہادر کے معتمد تھے۔ ۵ سال کی عمر میں مکتب نشیں ہوئے اور مولوی نجم الدین کاکوروی سے فارسی اور مولوی احمد علی محمد آبادی سے درسیات عربی و فارسی کی تکمیل کی ۔ فن طب کی تعلیم حکیم سید باقر حسین صاحب سے ہوئی۔ امین آباد نائٹ اسکول اور کیننگ کالجیٹ اسکول لکھنو میں انٹرنس تک انگریزی پڑھی ۔ اس کے بعد لال اسکول اور برانچ اسکول متعلقہ کیننگ کالج لکھنو میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہو گئے۔ جون ۱۸۸۳ء سے اودھ کے محکمہ دیوانی میں مستقل ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور سلطان پور رائے بریلی وغیرہ مقامات میں مختلف عہدوں پر رہ کر ۱۹۲۲ء میں سرکاری ملازمت سے پنشن حاصل کی۔ کلام پڑھنے کا طریقہ خاص رہاہے۔ جو تحت اللفظ اور ترنم کے بین بین ہے۔ انجمن بہار ادب کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی مثنوی تنظیم الحیات پر ہندستانی اکاڈمی الہ آباد نے بحیثیت اعلیٰ نمونہ شاعری کے پانچ سو کی رقم بطور صلہ مرحمت کی ہے۔ قومی نظموں کے اعتراف میں پبلک نے انہیں’’ لسان القوم‘‘ کا لقب دیا ہے اور کئی بار طلائی تمغے پیش کئے گئے ہیں۔ فارسی کلام کا خاصا مجموعہ ہے اور کافی تعداد میں متفرق نظمیں اور ایک دیوان طبع ہو چکا ہے۔صفی لکھنوی کی وفات 15 جون 1950 ء میں ہوئی۔
——
صفی لکھنوی۔ اپنے دور کا ایک ممتاز شاعر
——
دہلی اور دکن کی طرح لکھنؤ بھی کسی زمانے میں ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا عظیم مرکز سمجھا جاتا تھا۔ دہلی کا دبستان شاعری جب زوال پذیر ہوا تو یہاں کے نابغۂ روزگار ادبا و شعرا نے لکھنؤ کے خوشگوار ماحول کی طرف رخ کیا اور وہ یہاں جوق در جوق آکر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اس طرح دہلی اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں کو فروغ حاصل ہوا۔ یہاں شاعری کا ایک عام ماحول پیدا ہوا اور مشاعروں کی محفلیں آراستہ ہونے لگیں۔ نوابین اودھ اور عوام الناس کی خوش حالی اور فارغ البالی کے سبب یہاں اردو تہذیب و تمدن اور تاریخی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے خوب مواقع میسر آئے۔ لکھنؤ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ یہاں کے ماحول کے مطابق زبان کی ادائگی، سلاست، نزاکت، الفاظ کی نوک پلک کو سنوارنے اور ان میں سوز و گداز پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی تھی جس کی وجہ سے لکھنؤ کی شاعری کو ایک عظیم مرتبہ حاصل ہوا۔ یہاں شاعروں، ادیبوں اور نثرنگاروں کی ایک کھیپ ہمیشہ موجود رہی ہے جنھوں نے اپنے کمال فن سے لکھنؤ اور ملک کی فضا میں حب الوطنی، اخوت اور محبت کا ایسا رَس گھولا جس کی مٹھاس آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔ ان سب عوامل نے عوامی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں کے لوگ شعرا کی قدردانی اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے جس کی وجہ سے شعر و شاعری اور اردو ادب کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کا یوم پیدائش اور یوم وفات
——
لکھنؤ کے دبستان شاعری میں صفی لکھنوی کا نام ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ ان کی شاعری میں جو شیرینی، تنوع، لطافت، شگفتگی، برمحل لفظوں کا استعمال اور سادگی دیکھنے کو ملتی ہے اس سے لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول کی پوری طرح عکاسی ہوتی ہے۔ صفی کی یہی خوبیاں انھیں لکھنؤ سے وابستہ دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے عہد کا ایک عظیم شاعر تصور کیا جاتا ہے۔
صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ 3جنوری 1862 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ میں ہی 24 جون 1950 کو ان کی وفات ہوئی اور ان کے حسد خاکی کو غفراں مآب کے امام باڑے کے قریب راجہ نواب علی کے مقبرے کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کے آبا و اجداد غزنی کے رہنے والے تھے جو شہاب الدین غوری (1160-1206) کے ساتھ ہندوستان آئے اور دہلی میں سکونت اختیار کی۔ نظام الدین اولیا کے قریب حوض شمسی کے گرد و نواح میں ان کے بزرگوں کے مزارات اب بھی موجود ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد یہ خاندان دہلی کے مضافاتی علاقہ پنگوڑ منتقل ہوگیا۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد صفی کے پر دادا سید احسان علی نے جاٹوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر پنگوڑ کو چھوڑا اور فیض آباد آگئے لیکن شجاع الدولہ (1732-1775) کی وفات کے بعد آصف الدولہ (1748-1797) نے جب لکھنؤ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو صفی کے دادا سید سلطان حسین (وفات 1317ھ/ 1899ء) بھی لکھنؤ چلے آئے اور یہاں نواب امجد علی شاہ (1801-1847) کے شاہزادہ ولی عہد مرزا سلیمان قدر کے اتالیق کی خدمت پر مامور ہوئے۔
صفی کی ابتدائی تعلیم 5 برس کی عمر میں بسم اللہ سے ہوئی۔ ابتدا میں فارسی اور عربی درسیات مولوی احمد علی اور چچا سید حسین سے جو ایک نامور حکیم تھے، حاصل کیں۔ کاکوری کے مولوی شمس الدین سے بھی استفادہ کیا۔ اپنے چچا سے اصول طب سیکھا لیکن اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنے کا شوق ہوا۔ کیننگ کالیجیٹ لکھنؤ سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1879 میں لال اسکول اور پھر کیننگ کالج کی برانچ میں انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے، پھر 1871 میں اترپردیش گورنمنٹ کے محکمہ دیوانی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر ملازم ہوئے اور اس سلسلے میں رائے بریلی، سلطانپور اور پرتاپ گڑھ وغیرہ میں قیام کرنا پڑا مگر ملازمت کا زیادہ تر حصہ لکھنؤ میں ہی گزرا اور یہیں سے 1917 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدو ش ہونے کے بعد عرصے تک آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ مئی 1940 میں سو روپے ماہوار کا وظیفہ نواب رامپور نے مقرر کیا جو تاعمر جاری رہا۔
——
یہ بھی پڑھیں : زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
——
صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا اور پھر دھیرے دھیرے اس فن میں اتنی ترقی کی کہ تمام اصناف سخن پر قدرت حاصل کرلی۔ صفی کی شاعری 1877 سے 1950 تک آٹھ دور سے گزری اور انھوں نے 1877 سے لے کر اپنی آخری عمر تک لکھنؤ کی بزم ادب کو اپنے فن اور وجود سے رونق بخشی۔
ڈاکٹر عبدالوحید ’جدید شعرا اردو‘ میں صفی کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ صفی کی ذات ان مبارک ہستیوں میں سے تھی جنھوں نے لکھنؤ کی اردو شاعری کا رخ بدلا اور غزل کے لیے نئی عمارت تیار کی۔ انھیں شعرگوئی کا شوق بچپن سے تھا لیکن کسی سے اصلاح نہیں لی۔ انھوں نے اپنے ہی وجدان و ذوق شعر کی رہنمائی میں اس فن کی ترقی کی اور ترقی بھی ایسی کہ بہت جلد صفی کا شمار لکھنؤ کے ممتاز شعرا میں ہونے لگا۔‘‘
صفی کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے ایک عام آدمی کی فہم اور لیاقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت ہی سادہ اور شیریں الفاظ میں اشعار کو پیش کیا اور اس کی خوبصورتی کو کسی بھی طرح سے کم نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے یہاں ان کی شاعری کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس سلسلے میں کسی استاد سے مدد نہیں لی۔ اس بات کا تحریری ثبوت کہیں سے نہیں ملتا کہ وہ کسی کے شاگرد تھے۔ شوکت تھانوی (1904-1963) نے بھی انھیں تلمیذ الرحمن کہا ہے لیکن مرزا جعفر حسین ادیب کا کہنا ہے کہ صفی لکھنوی نے علی میاں کامل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیاتھا لیکن شہرت حاصل کرنے کے بعد ان کی شاگردی سے انکار کردیا۔
اس زمانے میں شعرا اپنے کلام کی اصلاح کسی نہ کسی سے ضرور کرایا کرتے تھے۔ صفی کی شاعری میں ایک خاص قسم کی ندرت اور اصلاحی لب و لہجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی نظموں میں قومی درد پایا جاتا ہے۔ صفی کو اردو اور فارسی زبانوں پر مکمل طور پر عبور حاصل تھا اور اردو محاوروں کا وہ برمحل استعمال کرتے تھے۔ شاعری کا کوئی میدان ایسا نہیں ہے جس میں صفی نے طبع آزمائی نہ کی ہو لیکن افسوس ہے کہ خانوادہ صفی میں کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو میدانِ شاعری میں ان کی جانشینی کا فخر حاصل کرسکے۔
صفی لکھنوی نے لکھنؤ کے شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی اور ان کا یہی انفرادی پہلوان کی شخصیت کا ایک دلکش سبب بنا۔ مولانا حسرت موہانی (1875-19515) انھیں مصلح طرز لکھنؤ کہا کرتے تھے۔
صفی تحت اللفظ اور ترنم دونوں لہجوں میں اشعار پڑھتے تھے۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انجمن بہار ادب کا انھیں صدر بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ان کی مثنوی ’تنظیم الحیات‘ شاعری کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی جس پر ہندوستانی اکادمی الہ آباد نے 500 روپے کا انعام بھی عطا کیا تھا۔ انھیں کئی بار طلائی تمغے بھی پیش کیے گئے۔ قومی نظموں کے اعتراف میں انھیں ’لسان القوم‘ کا لقب دیا گیا۔ صفی کی شاعری روایتی شاعری سے بالکل الگ تھی۔ انھوں نے روایتی غزلوں کے بجائے نظم لکھنے کو زیادہ ترجیح دی۔ حب الوطنی سے متعلق ان کی نظمیں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ ان کی نظموں کے مطالعے سے اس زمانہ کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی حالات کا اندازہ ہوتا ہے۔ نظموں کے علاوہ انھوں نے قصیدے، سلام، نوحہ، مثنوی اور رباعی بھی لکھیں۔ صفی کی شاعری کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ لکھنؤ کی شاعری میں ایک نمایاں تبدیلی لانے کے خواہش مند تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے صاحب طرز شاعر ‘شاعر لکھنوی’ کا یوم وفات
——
ڈاکٹر عبدالوحید صدیقی صفی کی شاعری کودو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اوّل غزلیات، دوم: منظومات۔ ان کے الفاظ میں:
’’جہاں تک غزل کا تعلق ہے صفی نے لکھنؤ کے بجائے شعرا دہلی کی اتباع کی۔ بڑی صفائی اور پرزور انداز میں نظم کرنے کا انھیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ بیان کی سادگی وہ جوہر ہے جس نے صفی کی غزل کو امتیازی شان عطا کی۔ انھیں اہل زبان ہونے کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ سادہ و سلیس زبان میں روزمرہ کی چاشنی دے کر انھوں نے اپنی شاعری میں چار چاند لگا دیے۔ وہ محاورات و تشبیہات کو برمحل اور خوبصورت تراکیب کے ساتھ پیش کرتے تھے اور ترکیبوں کو مصرعوں کے سانچے میں ڈھالنے کا فن انھیں خوب آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے کے بعد کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ شعر میں قصداً لائی گئی ہیں۔ صفی نے مغربی خیالات کو اردو زبان میں پیش کرکے نہ صرف ندرت سے کام لیا بلکہ اردو ادب میں خیالات کا اضافہ بھی کیا۔ وہ عصر حاضر کے مختلف مسائل کو اپنی غزلوں میں اس خوبصورتی سے نظم کرتے ہیں کہ ان میں اجنبیت کا احساس باقی نہیں رہتا اور نہ ہی وہ غزل کی زبان و بیان پر بار محسوس ہوتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے رقیبوں کا ذکر اپنے اشعار میں نہیں کرتے اور نہ ہی شیخ و برہمن پر طنز کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی غزل میں عصرحاضر کے مذاق سے بڑی حد تک مناسبت پیدا ہوگئی ہے۔ غزلیات کی تمام خصوصیات سے متصف ہونے کے باوجود صفی کا طبعی رجحان نظموں پر ہی تھا۔ انھوں نے اپنی نظموں میں دلکشی کو برقرار رکھنے کی حی الامکان کوشش کی۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ان کی نظمیں پڑھنے والوں پر بار محسوس نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شگفتگی بیان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔‘‘
صفی کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ بہت زیادہ موجزن تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں جو قومی نظمیں کہی ہیں۔ ان میں اس کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ ان کی یہ نظمیں سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہیں۔ ان میں وہ نظمیں قابل ذکر ہیں جن میں شہروں کے تاریخی مقامات کا بیان اور معروف عمارتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں الہ آباد، بمبئی اور جونپور وغیرہ پر ان کی نظمیں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ’تتلی‘ پر بھی ان کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی۔ مذکورہ مقامات کا ذکر کرتے وقت ان میں اتنی لطافت اور دلکشی پیدا ہوگئی ہے کہ ان کی ہوبہو تصویر سامنے آجاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالوحید مزید لکھتے ہیں:
’’ان طولانی نظموں کی بدمزگی دور کرنے کے لیے جہاں کہیں تغزل کا رنگ پیدا کیا ہے وہاں پڑھنے یا سننے والے کی زبان سے بے ساختہ تحسین کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ بعض جگہ انھوں نے ایسے مواقع پر مزاح سے بھی کام لیا ہے اس طرح کہ نظموں کی متانت و سنجیدگی کو ٹھیس نہیں لگنے پائی اور شگفتگی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
صفی چونکہ طبِّ یونانی سے بھی شُدبُد رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی ایک طویل نظم میں طب یونانی کے ماضی کی داستان پر پراثر انداز میں روشنی ڈالی ہے اور طب ویدک سے اسے ہم آہنگ بتایا ہے۔ یہ نظم ویدک اور یونانی کانفرنس میں پڑھی گئی تھی۔
صفی لکھنوی کو قطعات تاریخ پر بھی مہارت حاصل تھی۔ کس حروف کے عدد لینے ہیں اور کس کے نہیں اس کے بارے میں اکثر ان سے سوالات پوچھے جاتے تھے۔ اس کے بارے میں اپنے خطوط میں انھوں نے اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس طرح علم موسیقی پر بھی انھیں دسترس حاصل تھی۔ اس کا اظہار بھی انھوں نے اپنے بعض خطوط میں کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے صاحب طرز شاعر ‘شاعر لکھنوی’ کا یوم پیدائش
——
لکھنؤ کے مشہور شاعر عزیز لکھنوی (1882-1935) کے استاد ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل ہے۔ حالانکہ بعض اہل علم نے اس سے اختلاف ظاہر کیا ہے لیکن صفی لکھنوی نے نظم اور نثر دونوں میں واضح طور پر لکھا ہے کہ عزیزان کے شاگرد تھے۔ ڈاکٹر مسعود حسن رضوی ردولوی نے اپنی کتاب میں بعض دلائل سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عزیز کا صفی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔
پروفیسرولی الحق انصاری (وفات 29 جنوری 2013) صفی لکھنوی اور ان کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’عہدملا کے ابتدائی دور کے معاصرین میں صفی لکھنوی اور چکبست لکھنوی وہ حضرات ہیں جنھوں نے شعوری یا غیرشعوری طور سے حالی کا نظریہ شعر قبول کیا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حالات بھی کچھ ایسے ہوچکے تھے کہ تنگنائے غزل سے باہر آکر انھیں اپنے خیالات کے اظہار کرنے کے لیے نظموں کا سہارا لینا پڑا۔ چکبست وطنی شاعر تھے اور صفی ملی….. چکبست، صفی، عزیز اور مرزا ہادی رسوا وغیرہ نے غزل کے مضامین میں وسعت اور تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ میں یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ یہی حضرات تھے جنھوں نے حسرت، فانی اور اصغر سے بھی پہلے غزل کو معنوی آہنگ بخشا اور لطافت زبان کے ساتھ ساتھ روشن خیالی اور ندرت اظہار کو بھی غزل کا لازمی جز بنا دیا۔ چکبست کی شاعری اگر جذبہ وطنیت کی آئینہ دار ہے تو ان کے معاصر صفی کی شاعری پاکیزہ عشق کی کیفیتوں اور ملی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔‘‘
تصانیف اور علمی آثار
صفی لکھنوی صاحب تصنیف و تالیف شاعر تھے۔ انھوں نے شعر و ادب پر بڑا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ زائر حسین کاظمی نے اترپردیش اردو اکادمی کی خواہش پر کلام صفی کا ایک مختصر مگر جامع انتخاب مرتب کیا ہے۔ صفی لکھنوی نے باقاعدہ ملی نظمیں 1917 میں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد کہنا شروع کیں۔ ان نظموں میں قومی عناصر کے ساتھ ساتھ ملکی اور سیاسی عناصر بھی شامل ہیں۔ نظموں کا ایک حصہ ’لخت جگر‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ صفی کی ایک مثنوی ’تنظیم الحیات‘ ہے جو اکانومی آف ہیومن لائف کی جانب سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے فارسی کلام کا مجموعہ اور کافی تعداد میں متفرق نظمیں اور ایک دیوان بھی طبع ہوچکا ہے۔ عظیم شاعرہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو (1879-1949) کی نظم ’شب شہادت عظمیٰ‘ کا ترجمہ بھی صفی کے قلم کارہین ہے۔
عمر خیام (1048-1131) کی 1236 فارسی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی صفی نے کیا تھا جس کا مسودّہ رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔
(1) انتخابِ کلام صفی: 128 صفحات پر مشتمل یہ صفی کی غزلوں کا مجموعہ ہے جسے سید زائر حسین کاظمی نے مرتب کیا ہے۔ اس میں حروف تہجی کے اعتبار سے غزلوں کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1983 میں اترپردیش اردو اکادمی سے شائع ہوئی ہے۔
(2) آہنگ حجازی: 10 صفحات پر مشتمل یہ ایک نظم ہے جسے جلسہ بنائے شیعہ کالج میں 24 اپریل 1916 میں پڑھا گیا۔ یہ مطبع گلشن فیض بہ اہتمام واجد حسین عرف کلن سے شائع ہوچکا ہے۔
(3) جواہر مہرہ: یہ 34 صفحات پر مشتمل صفی لکھنوی کی ایک نظم ہے جو جلسہ آل انڈیا شیعہ کانفرنس 1908 میں پڑھی گئی اور گلشن فیض مولوی گنج لکھنؤ کے نظیر پریس سے شائع ہوئی۔
(4) دیوانِ صفی مع خلاصہ مقدمات: 204 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ممتاز حسین جونپوری کی ادارت میں 1952 میں شائع ہوئی جس میں صفی کی شاعری اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا ہے۔ اس میں ممتاز حسین جونپوری کے علاوہ مرزا جعفر علی خاں، سید کلب، عباس نقوی، علامہ اختر تلہری، سید احتشام حسین اور سید شہنشاہ حسین کے مقدمات شامل ہیں۔
(5) دیوانجی: یہ 624 صفحات پر مشتمل ظریف لکھنوی کا کلیات ہے جسے صفی نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب 1949 میں صفدر پریس کیننگ اسٹریٹ لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کے حصہ اوّل میں غزلیات، حصہ دوم میں متفرق اشعار اور حصہ سوم میں منظومات شامل ہیں۔
(6) صحیفۃ القوم: 208 صفحات پر مشتمل یہ صفی کی نظموں کا مجموعہ ہے جو 1907 سے اپریل 1916 تک شیعہ کانفرنس اور شیعہ کالج سے متعلق ہے جسے خود صفی لکھنوی نے مرتب کیا ہے۔ یہ مطبع میتھو ڈسٹ پرنٹنگ ہاؤس لکھنؤ سے شائع ہوا ہے۔
(7) صحیفہ: یہ 186 صفحات پر مشتمل صفی لکھنوی کی یاد میں سید زائر حسین کاظمی کا مرتب کردہ تنقیدی مضامین و نظموں کا مجموعہ ہے جو سرفراز پریس لکھنؤ سے دسمبر 1974 میں شائع ہوچکا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر، مؤرخ اور محقق محمد باقر شمس کا یوم پیدائش
——
(8) لخت جگر: یہ 367 صفحات پر مشتمل نظموں کا مجموعہ ہے جو آل انڈیا شیعہ کانفرنس اور اس کی ادارت سے متعلق ہے۔ اسے صفی لکھنوی نے مرتب کیا ہے اور نظامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوچکا ہے۔
(9) مکاتیب صفی: یہ 177 صفحات پر مشتمل صفی کے خطوط کا مجموعہ ہے جسے سید زائر حسین کاظمی نے مرتب کیا ہے اور یہ سرفراز پریس لکھنؤ سے 1988 میں شائع ہوچکا ہے۔
(10) منظومات صفی (حصہ اوّل): یہ 162 صفحا ت پر مشتمل صفی لکھنوی کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے سید زائر حسین نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب اترپردیش اردو اکادمی سے مارچ 1977 میں شائع ہوچکی ہے۔
نمونہ کلام: ذیل کے سطور میں صفی کے اشعار کو بطور نمونہ نقل کیا جارہا ہے جو صفی لکھنوی کی قادرالکلامی اور الفاظ کے بہترین استعمال کی مہارت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے
——
ہم نشینی غیر کی اس بزم میں کام آگئی
ہم تک بھی ایک جام شراب آہی گیا
——
کل ہم آئینہ میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے
کاروان عمر رفتہ کے نشاں دیکھا کیے
زور ہی کیا تھا جفائے باغباں دیکھا کیے
آشیاں اجڑا کیا ہم ناتواں دیکھا کیے
——
میری لاش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
——
کوئی زہر پی بھی لیتا تو وہ دل لگی سمجھتے
کوئی جان دے بھی دیتا تو نہ اعتبار ہوتا
——
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
یہ شکوے دل کی بے تابیوں سے
ہر انجام میں رنگ آغاز دینا
——
دیکھ لوں دور سے تصویر شباب رفتہ
رخ ادھر بھی کبھی اے عمر گریزاں کرنا
دم تعبیر صد افسوس نہ سمجھے یہ صفی
گھر کا آباد ہی کرنا تو ہے ویراں کرنا
——
الٰہی زندگی کیا، موت کیا، بیمار ہجراں کی
پریشاں خواب وہ، تعبیر یہ خواب پریشاں کی
——
وہ کیوں درپردہ میرے چاک پیراہن پہ ہنستے ہیں
ذرا آئینہ لانا دیکھ لوں صورت گریباں کی
صفی حکم رہائی مل چکا پھر کیوں توقف ہے
مگر زنداں سے کنجی کھوگئی ہے قفل زنداں کی
——
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے
——
بناوٹ ہو تو ایسی ہو کہ جس سے سادگی ٹپکے
زیادہ ہو تو اصلی حسن چھپ جاتا ہے زیور سے
——
دیکھے بغیر حال یہ ہے اضطراب کا
کیا جانے کیا ہو پردہ جو اٹھے نقاب کا
——
غم نقد حیات لوٹنے کو ہے
یہ رشتۂ عمر ٹوٹنے کو ہے
پیری میں کمر جھکی تو کیا دم کا قیام
اب تیر کماں سے چھوٹنے کو ہے
——
مولانا ماہرالقادری(1907-1978) نے ماہنامہ ’فاران‘ کراچی اپریل 1951 کے شمارے میں صفی لکھنوی کے بارے میں مندرجہ ذیل الفاظ سے اپنی تعزیت کا اظہار کیا تھا:
15’’حضرت صفی لکھنوی نغزگو شاعر ہی نہیں مستند استاد بھی تھے۔ ان کے شعر زبان کے لیے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صفی کے دم سے سچ تو یہ ہے کہ لکھنؤ کی عزت قائم تھی151 اور یہ میں نے ’قائم تھی’ کیا کہا اب بھی قائم ہے کہ صفی دنیا سے چلے گئے مگر ان کا کلام زندہ ہے۔‘‘
——
حواشی
——
1دیباچہ انتخاب کلام صفی، ص 9
2جدید شعراء اردو، ص 257
3دیباچہ انتخاب کلام صفی، ص 1 تا 9
4جدید شعرا ء اردو، ص 257
5دیباچہ انتخاب کلام صفی، ص 7
7جدید شعراء اردو، ص 257
8ایضاً، ص 258
9ایضاً، ص 263 تا 265
10نقوش خطوط نمبر جلد سوم ص 338
11عزیز لکھنوی، حیات اور کارنامے، ص 88
13بوستانِ عقیدت۔کربلا اور غیرمسلم شعراء، ص 112
14دیباچہ انتخاب کلام صفی، ص 8
15یادرفتگاں، حصہ اوّل، ص 373
——
کتابیات
——
(1) انتخابِ کلام صفی، مرتبہ: سید زائر حسین کاظمی، اترپردیش اردو اکادمی، 1983
(2) بوستانِ عقیدت (کربلا اور غیرمسلم شعرا)، مرتبہ: نور احمد میرٹھی، بزم اردو لائبریری، ادارہ فکر نو، کراچی 2007
(3) جدید شعراء اردو، چیف اڈیٹر، ڈاکٹر عبدالوحید، فیروز سنز پرنٹر پبلشر سیلرز اینڈاسٹیشنر
(4) عزیز لکھنوی۔ حیات اور کارنامے، طبع اوّل، ڈاکٹر مسعود حسن رضوی ردولوی، نظامی پریس، وکٹوریہ اسٹریٹ، لکھنؤ، 1984
(5) مکاتیب صفی، مرتبہ: سید زائر حسین کاظمی، سرفراز پریس لکھنؤ، 1988
(6) یادرفتگاں، جلد اوّل، ماہرالقادری، مکتبہ نشان راہ، نئی دہلی، 1985
——
منتخب کلام
——
ضعف میں کرتا ہوں کب قطع مسافت پاؤں سے
نکلی جاتی ہے زمین راہِ غربت پاؤں سے
——
راہِ خدا میں نفسِ حریفانہ ساتھ ہے
ہشیار اک ذرا سگِ دیوانہ ساتھ ہے
——
کس قدر اچھا ہے نور اس کا خود مستور ہے
جلوہ گر دل کے قریب آنکھوں سے دور ہے
——
وہ اور کچھ نہ سہی لطف انتظار تو ہے
کہ غیر کو ترے وعدے کا اعتبار تو ہے
——
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوۓ عالم نکلتا ہے
شبِ فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے
——
وہاں بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
یہاں رگ رگ سے کھنچ کھنچ کر ہمارا دم نکلتا ہے
——
انتظار مرگ میں پیری نفس بردوش ہے
کوئی دم میں اب چراغِ زندگی خاموش ہے
——
جو بڑھے حدِ طریقت سے وہ تھک جائیں گے
کفر و ایماں کے دو راہے پہ بھٹک جائیں گے
——
محشر میں جا کے آخر کیا داد خواہ کرتے
کہتا اسی کی ایسی جس کو گواہ کرتے
——
بھلا حصولِ تمنا کی جستجو کیا ہے
جو زندگی میں بر آۓ وہ آرزو کیا ہے
——
وہ بزم دیکیۓ طرب افزا کہیں جسے
ٹوٹا ہے دل ہی ساز تمنا کہیں جسے
یہ دل ہو خون شرح تمنا کہیں جسے
ٹپکے وہ قطرہ آنکھ سے دریا کہیں جسے
——
مر بھی گۓ ہم اور نہ ان تک خبر گئی
اے آہِ واپسیں یہ بتا تو کدھر گئی
——
کہاں تک تھی خوشی کے ساتھ وابستگی غم کی
ذرا شیرازہ بندی دیکھیۓ اجزاۓ عالم کی
——
الٰہی زندگی کیا ، موت کیا بیمار ہجراں کی
پریشاں خواب وہ ، تعبیر یہ خوابِ پریشاں کی
——
دیکھیۓ کیوں کوئی تربت ہو گی
دیکھ کر اور ندامت ہو گی
——
جب تک کہ دل میں دل ہے تری آرزو ہے
شل ہوں جو تھک کے پاؤں غمِ جستجو رہے
——
دکھاۓ گا درِ صیاد شاید اسماں مجھکو
قفس معلوم ہوتا ہے چمن میں آشیاں مجھکو
——
جا کے جن تازہ مزاروں پہ چراغاں کرنا
ایک ٹوٹی ہوئی تربت پہ بھی احساں کرنا
——
پتا میرا بتا دے کاش بڑھ کر آرزو میری
مری ناکامیوں کو دیکھتی ہے جستجو میری
——
سوادۓ زلیخا کی تصویر نظر آئی
پاۓ مہِ کنعاں کی زنجیر نظر آئی
فرقتِ میں مہِ نَو کی تنویر نظر آئی
محوِ خم ابر کو شمشیر نظر آئی
——
دل میں سکت نہ بوند لہو کی جگر ہے
نالے کی سادگی کہ فریبِ اثر میں ہے
——
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا
نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا
کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا
دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے
صفی ٹوٹ کر دل کا آواز دینا
——
دیدۂ اشکبار کیا کہنا
واہ ابرِ بہار کیا کہنا
حال جنت کا سن چکے واعظ
اب اسے بار بار کیا کہنا
اُڑ کے پہنچا کسی کے دامن تک
آج میرا غبار کیا کہنا
درد نے خوب دل کا ساتھ دیا
واہ رے غم گسار کیا کہنا
دل سے یادِ وطن صفیؔ نہ گئی
اے غریب الدیار کیا کہنا
——
جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو
ٹھہرو ٹھہرو دل تو ٹھہرے مجھ کو ہوش میں آنے دو
پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو
بادل گرجا بجلی چمکی روئی شبنم پھول ہنسے
مرغ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو
ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
موج صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو
کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گمنام صفیؔ
نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقش لحد مٹ جانے دو
——
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے
اس انقلاب کی بھی کوئی حد ہے دوستو
نا آشنا سمجھتے ہیں اب آشنا مجھے
کشتی پہنچ سکے گی یہ تا ساحل مراد
دھوکا نہ دے خدا کے لیے نا خدا مجھے
وہ طول عمر جس میں نہ ہو لطف زندگی
مل جائے مثل خضر تو کیا فائدہ مجھے
دوں تیرا ساتھ عمر رواں کس طریق سے
آنکھیں دکھا رہے ہیں ترے نقش پا مجھے
تخلیق کائنات کو سوچا کیا مگر
کچھ ابتدا ملی نہ صفیؔ انتہا مجھے
——
کوئی آباد منزل ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
بہ حسرت سوئے چرخ فتنہ ساماں دیکھ لیتے ہیں
نظر حسن آشنا ٹھہری وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جب آنکھیں بند کیں تصویر جاناں دیکھ لیتے ہیں
شب وعدہ ہمیشہ سے یہی معمول ہے اپنا
سحر تک راہ شوخ سست پیماں دیکھ لیتے ہیں
خدا نے دی ہیں جن روشن دلوں کو دوربیں نظریں
سواد کفر میں وہ نور ایماں دیکھ لیتے ہیں
دل بیتاب کا اصرار مانع شرم رسوائی
بچا کر سب کی نظریں سوئے جاناں دیکھ لیتے ہیں
وہ خود سر سے قدم تک ڈوب جاتے ہیں پسینے میں
بھری محفل میں جو ان کو پشیماں دیکھ لیتے ہیں
ٹپک پڑتے ہیں شبنم کی طرح بے اختیار آنسو
چمن میں جب کبھی گل ہائے خنداں دیکھ لیتے ہیں
نگاہ ناز کی مستانہ یہ نشتر زنی کیسی
بوقت فصد رگ زن بھی رگ جاں دیکھ لیتے ہیں
اسیران ستم کے پاسبانوں پر ہیں تاکیدیں
بدلتے ہیں جو پہرا قفل زنداں دیکھ لیتے ہیں
صفیؔ رہتے ہیں جان و دل فدا کرنے پہ آمادہ
مگر اس وقت جب انساں کو انساں دیکھ لیتے ہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ