اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہنامہ "افکار” کے مدیر صہبا لکھنوی کا یومِ وفات ہے

 

صہبا لکھنوی (پیدائش: 25 دسمبر، 1919ء- وفات: 30 مارچ، 2002ء)
——
صہبا لکھنوی کا اصل نام سید شرافت علی تھا۔ ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا
وہ 25 دسمبر 1919ء کو ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے بھوپال، لکھنؤ اور بمبئی سے تعلیمی مدارج طے کئے اور 1945ء میں بھوپال سے ماہنامہ افکار کا اجرا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور یہاں 1951ء میں افکار کا دوبارہ اجرا کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی ان کی وفات تک جاری رہی اور یہ رسالہ مسلسل 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شائع ہوتا رہا۔
صہبا لکھنوی مرحوم ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے۔ان کی اولین شناخت شاعری تھی اور ’’مہ پارے ‘‘ کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ شائع بھی ہوا۔شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید، تحقیق، سفر نامہ نگاری، ترتیب و تدوین وغیرہ کے شعبوں میں بھی ان کی مہارت قابل داد ہے۔ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے نام سے ۱۹۷۶ میں چھپنے والی تحقیقی کتاب پر انہیں اکیڈمی پاکستان نے انعام سے نوازا۔ یہ کتاب اقبال اکیڈمی نے چھاپی۔اور یہ اکیڈمی پاکستان سے انعام پانے والی پہلی کتاب تھی۔صہبا کی یہ ہر شناخت اپنی جگہ۔۔۔ لیکن یہ تمام ان کی شخصیت کے دبے دبے پہلو ہیں۔اور ان کے نام اور کام کی پہچان ’’افکار‘‘ بن کر رہ گیا۔ صہبا کا نام لیتے ہی ہمارے ذہن میں مدیر افکار کا خیال آتا ہے۔خود صہبا نے اپنے لیے جس حوالے کو پسند کیا اور اپنی پہچان بنایا وہ افکار کی ادارت ہی ہے۔ افکار کی اشاعت کا آغاز مارچ ۱۹۴۶ میں بھوپال سے ہوا۔اس کے نگران سید قمر الحسن تھے۔جبکہ ادارے میں کوثر چاند پوری، صہبا لکھنوی اور رشدی شامل تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعراور گیت نگار ، صہبا اختر کا یوم پیدائش
——
اشاریہ افکار مارچ ۲۰۰۲ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد افکار کی ادارت میں صرف صہبا رہ گئے۔ اور ساتویں شمارے سے مدیر صہبا لکھنوی شائع ہونے لگا۔اس وقت سے ۲۰۰۲ میں اپنے انتقال تک صہبا کی یہ شناخت قائم رہی۔نصف صدی سے زائد افکار کے لیے صہبا کی خدمات ایک ناقابل فراموش واقعہ ہیں۔اور اب ادب کے قاری کے ذہن سے ان کی یہ شناخت محو کرنا آسان نہیں۔ بطور مدیر افکار صہبا نے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔افکار ہمیشہ ہاتھ کی کتابت کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔خوشنویسی اور کتابت کا تعلق بہت پرانا ہے۔وقت کی رفتار نے اب یہ فن کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کمپیوٹر کی سہولت کے بعد بعض دوست اعتراض بھی کرتے تھے لیکن افکار اپنی روایت کو نبھاتا ہوا خوش نویسی کے فن کا قدر دان رہا۔ افکار کی پروف ریڈنگ پر صہبا خصوصی توجہ دیتے تھے۔کاتب کی غلطی سے جو لطیفے معرض وجود میں آتے ہیں، افکار ہمیشہ ان سے پاک رہا۔اس سلسلے میں سارا کمال صہبا کی ذات کا تھا صہبا کی ادارت کا ایک اور بڑا کمال افکار کی اشاعت میں تسلسل اور پابندی رہا۔افکار ناقابل یقین حد تک پابندی اور تسلسل سے شائع ہوتا رہا۔رسالے کے لیے مواد کی فراہمی سے لے کر اشاعت و تقسیم تک کے مراحل وسائل کی بھر پور دستیابی کے باوجود کافی دشوار ہیں لیکن وسائل کی کمیابی کے باوجود صہبا کی ادارت میں افکار ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مستقل خریداروں کے ہاتھ میں ہوتا۔یہ پابندی اور تسلسل مختصر عرصے کے لیے تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن طویل عرصے تک اس تسلسل کو ممکن بنانا ایک معجزے سے کم نہیں۔ رسالے کی ترتیب میں بھی صہبا کی ادارت میں مہارت کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ قد آور اور نامور شخصیات کے ہمراہ نئے اور نو آموز تخلیق کاروں کی تخلیقات افکار میں پہلو بہ پہلو شائع ہوتی رہیں۔افکار کے پرانے رفیقوں کو اس بات کا اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی کہ جن نئے تخلیق کاروں کو افکار نے متعارف کروایا وہ بعد میں علم و ادب کے میدان میں کار ہائے نمایاں سر انجام دینے والے ثابت ہوئے۔ٹیلنٹ کی شناخت کا جیسا ملکہ صہبا لکھنوی میں تھا بہت کم مدیروں میں پایا جاتا ہے۔نجانے کتنے ادبی سورج جو آج آسمان ادب پر چمک رہے ہیں ، افکار کے انہی صفحات سے طلوع ہوئے۔ صہبا کی ادارت میں افکار نئے ادبی رجحانات اور تازہ تر ادبی و شعر ی تحریکوں کا نمائندہ رہا۔ ’’ زندہ افکار، زندہ دوستوں اور صحت مند رجحانات کا علم بردار ماہنامہ‘‘ ان کا سلوگن رہا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں افکار نے اسے پوری تقویت دی۔لیکن اس میں کسی سیاسی مسلک یا ذاتی منفعت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔صہبا کی وفات تک یہ اعلان اس کی پیشانی پر واضح اور نمایاں لفظوں میں موجود ہے کہ یہ نئے ادب کا ترجمان رسالہ ہے۔ افکار اور صہبا کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ افکار نے زندہ شاعروں اور ادیبوں کی بھر پور انداز میں تحسین کی۔اور یاد گار نمبر شائع کیے۔یہ خاص نمبر ان شاعروں اور ادیبوں پر ابتدائی انتقاد کا نمونہ قرار پائے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے صاحب طرز شاعر ‘شاعر لکھنوی’ کا یوم وفات
——
اور وقت نے ان کی عظمت کو ان کے بعد بھی تسلیم کیا۔ اس سلسلے میں جوش، فیض، اور ندیم نمبر خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے علاوہ بھی صہبا کی ادارت میں افکار کی مرتب کردہ خاص اشاعتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔صہبا کی ادارت کے اس پہلو کو ہر کس و ناکس نے سراہا ہے۔اور کسی قسم کے مفاد، تعصب یا جانبداری کا الزام نہیں لگایا۔ صہبا کی ادارت کا سب سے بڑا کمال ان کی پیشہ ورانہ دیانت داری اور ادب سے ان کی بے لوث محبت ہے۔ فی زمانہ ادبی جرائد اور اخبارات کی اشاعت کا فوری مقصد ناشر کی ادبی خدمات کی تشہیر اور شخصیت کی نمود و نمائش ہے۔اس طرز عمل کو مطعون قرار دے دینا بھی میرے خیال میں سو فی صد جائز نہیں۔لیکن صہبا نے افکار کو کبھی بطور آلہ استعمال نہیں کیا۔ایک تخلیق کار ہوتے ہوئے بھی انہوں نے افکار کو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کیا۔یہی نہیں بلکہ اپنے تخلیقی مرتبے کے نقصان پر افکار کی ادارت کا فریضہ سر انجام دیا۔صہبا کی ادارت کا یہ اعزا ز ہے کہ انہوں نے افکار کو کبھی ادبی گروہ بندی، ذاتی تشہیر، سرکاری منصب یا اعزاز کے حصول کے لیے کسی زینے یا آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ان کی دلچسپی اور لگن (commitment) ادب کے ساتھ تھی اور وہ تمام عمر ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف رہے۔اس پیشہ ورانہ دیانت داری کے سبب افکار ہمیشہ انفرادی وقار اور متانت کا حامل ادبی جریدہ رہا۔ میری دعا ہے کہ صہبا کے روشن کیے ہوئے افکار کو ان کے احباب صہبا کے راستے پر چلتے ہوئے روشن رکھ سکیں۔جب تک افکار زندہ رہے گا ، ہر اشاعت کے ساتھ صہبا کی یاد بھی تازہ ہو گی۔اور اپنی قوم کے نابغہ افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں کہ ہم ان کی یاد کو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال لیں۔
——
تصانیف
——
ارمغانِ مجنوں (بہ اشتراک شبنم رومانی)
منٹو ایک کتاب
غالب ایک صدی
برطانیہ میں اُردو
زیرِ آسماں (شعری مجموعہ)
خاکے
اقبال اور بھوپال
رئیس امروہوی – فن و شخصیت
مجاز ایک آہنگ
میرے خوابوں کی سر زمیں (مشرقی پاکستان کا سفرنامہ)
ماہ پارے (شعری مجموعہ)
——
ایک خط از شہرت بخاری
——
صہبا لکھنوی اور افکار دو نہیں ایک ہی ہیں ۔ اگر یہ عرض کیا جائے کہ صہبا لکھنوی نے اردو ادب کی پاکستان میں اتنی اور ایسی بے لوث خدمت کی ہے کہ اس وقت کوئی دوسرا پرچہ اس کے مقابل نہیں تو بے جا نہ ہو گا ۔
میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ ہی خوشامد میرا شیوہ ہے ۔ الحمد للہ ۔
لہٰذا بے دھڑک یہ عرض کر سکتا ہوں کہ متعدد پرچے مجھے نوازتے ہیں مگر افکار کا انتظار کرنا گویا میری عادت ہے ۔
اسی طرح جس طرح نیاز صاحب مرحوم کے زمانے میں لکھنؤ والے نگار کا کیا کرتا تھا ۔
اللہ ! کیا پرچہ تھا اور کیا اس کے مدیرِ محترم ۔ مواد سے قطع نظر تاریخ کی پابندی بھی دلربا تھی ۔
یہ خصوصیت کسی زمانے میں ادبی دنیا ( لاہور ) اور کسی زمانے میں ادب لطیف میں تھی ۔
نیاز صاحب اور چوہدری برکت علی اور مولانا صلاح الدین مرحوم کے ساتھ بہت سی چیزیں مرحوم ہو گئیں ۔
بہت سی خوبیاں بھی نہیں رہیں لیکن نیاز صاحب کے ہم وطن یعنی نگار اور افکار ( ہم قافیہ ) ابھی تک دل نشیں ہیں ۔
خدا کرے کہ افکار جو اپنی وضع کا ایک ہی ہے تادیر سلامت رہے اور صہبا لکھنوی کا سایہ اس کے سر پر قائم رہے ۔ آمین
——
شہرت بخاری بحوالہ کتاب : صہبا لکھنوی ، شخصیت اور ادبی خدمات
——
یہ بھی پڑھیں : نعت کی بزمِ ادب میں آج صہبا میں بھی ہوں
——
وفات
——
صہبا لکھنوی 30 مارچ، 2002ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے
———-
منتخب کلام
——
تنہائی کا کرب سہنے والو
تنہائی انجمن تو دیکھو
——
موج موج طوفاں ہے موج موج ساحل ہے
کتنے ڈوب جاتے ہیں کتنے بچ نکلتے ہیں
——
کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
منزلیں نہیں یارو راستے بدلتے ہیں
——
کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں
عزم زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں
——
زنداں کی شب ، نظر کے اُجالے ، خیال دوست
یک جا ہوئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی
محویتِ حکایتِ دوراں نہ پوچھیے
کب دن ہوا خبر نہیں ، کب رات ہو گئی
——
عرش والوں سے کہو ہم تو زمیں والے ہیں
ہم نے ذروں سے ہی خورشید بنا ڈالے ہیں
اور ہوں گے کہ جنہیں ہو گی خدائی کی طلب
ہم تو انسان ہیں ، انسان کے رکھوالے ہیں
——
ایک وہ خوشبوئے بدن ، ایک وہ موجِ دلبری
پہلوئے یار سے اٹھی ، پہلوئے یار تک گئی
باغِ حیات رنگ رنگ ، چہرۂ گُل بجھا بجھا
گردِ سفر اُڑی اُڑی ، روئے نگار تک گئی
——
سازِ ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا
آج تک دنیائے دل فردوسِ زار نغمہ ہے
——
کتنے دیپ بجھتے ہیں کتنے دیپ جلتے ہیں
عزم زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں
کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
منزلیں نہیں یارو راستے بدلتے ہیں
موج موج طوفاں ہے موج موج ساحل ہے
کتنے ڈوب جاتے ہیں کتنے بچ نکلتے ہیں
مہر‌‌ و ماہ و انجم بھی اب اسیر گیتی ہیں
فکر نو کی عظمت سے روز و شب بدلتے ہیں
بحر و بر کے سینے بھی زیست کے سفینے بھی
تیرگی نگلتے ہیں روشنی اگلتے ہیں
اک بہار آتی ہے اک بہار جاتی ہے
غنچے مسکراتے ہیں پھول ہاتھ ملتے ہیں
——
ساز ہستی چھیڑ کر یہ کون پنہاں ہو گیا
آج تک دنیائے دل فردوس زار نغمہ ہے
دے رہی ہے جنبش لب دعوت لطف و کرم
ایک ہلکا سا تبسم پردہ دار نغمہ ہے
لڑ گئی تھیں رات نظریں چشم ساقی سے مری
دیکھتا ہوں جس کو سیراب خمار نغمہ ہے
خم کہیں ساغر کہیں مطرب کہیں صہباؔ کہیں
کون ہے جو مائل بے پردہ دار نغمہ ہے
——
بے حرف و نوا سخن تو دیکھو
خوابوں کا ادھوراپن تو دیکھو
لفظوں میں سمٹ سکا نہ پیکر
انسان کا عجز فن تو دیکھو
چہرے کے نقوش بولتے ہیں
تصویر کا بانکپن تو دیکھو
دامن کو بہار چھو گئی ہے
جلتا ہوا پیرہن تو دیکھو
جنگل کا سکوت کہہ رہا ہے
شہروں میں بسی گھٹن تو دیکھو
صدیوں سے لہو میں تر ہے دامن
تاریخ کا پیرہن تو دیکھو
——
تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی
خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی
چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی
کتنی معصوم ضدیں ہیں ترے دیوانوں کی
شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی
جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی
نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل
خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی
مست صہبائے محبت ہے ازل سے صہباؔ
اس کو شیشہ کی ضرورت ہے نہ پیمانوں کی
——
روشنی کے لیے

پھول کھلتے رہے
زخم رستے رہے
چاند ہنستا رہا
دل سلگتا رہا
ساز بجتے رہے شمع جلتی رہی
زندگی دوش غم پر سسکتی رہی
پھول سے خار تک
قید سے دار تک
زینت رنگ و بو
آدمی کا لہو
شام سے صبح تک روشنی کے لیے
جھلملاتے رہے روشنی کے لئے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ