اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر اور ادیب سلام سندیلوی کا یوم پیدائش ہے

سلام سندیلوی(پیدائش: 25 فروری 1919ء – وفات: 2000 ء )
——
سلام سندیلوی ایک اچھے شاعر اور تنقید کے طور پر معروف ہیں۔
سلام سندیلوی کی پیدائش 25 فروری 1919 کو سندیلہ میں ہوئی۔ اردو ادبیات کی اعلی تعلیم حاصل کی اور گورکھپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔
’ساغر ومینا‘ ’نکہت نور‘ اور ’مشک و کافور‘ کے نام سے شاعری کے مجموعے شائع ہوئے۔
اس کے علاوہ بچوں کے لئے لکھی گئیں ان کی نظمیں ’تتلیاں‘ کے نام سے کتابی صورت میں منظرعام پر آئیں۔
سلام سندیلوی کی تنقیدی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ انہوں نے بے شمار ادبی وتنقیدی موضوعات پر مضامین لکھے۔ علمی اور نظریاتی تنقید کے بہت سے پیچیدہ مسائل پر بے حد شفاف تنقیدی زبان میں اظہار خٰیال کیا۔ انہوں نے تاریخ گورکھپور کا فارسی زبان سے ترجمہ بھی کیا۔ ’قید حیات‘ کے نام سے اپنی خودنوشت لکھی
——
یہ بھی پڑھیں :
——
سلام سندیلوی کی شاعری از آل احمد سرور ، بحوالہ : ساغر و مینا
——
سلامؔ نے ایک درمندانہ اور گداز طبیعت پائی ہے ۔ ان کے اشعار میں سوز و گداز بھی ہے اور درد و اثر بھی ۔ وہ محبت اور زندگی دونوں کے رنج و راحت سے آشنا ہیں ۔ ان کی شاعری میں اسی وجہ سے خلوص بھی ہے اور تاثیر بھی ۔
ان کے لہجہ میں ایک افسردگی ہے جیسے زمانہ کی تلخیوں سے ان کا دل بجھ گیا ہو ۔ جیسے زندگی ، مسرت ، رقص و سرشاری سے کوئی شے کم ہو گئی ہو ۔ سلامؔ کے یہاں قنوطیت اور الم پسندی نہیں ہے ۔ دردمندی اور احساسِ غم ہے ۔ اُن کا غم اپنے زخموں کو کریدنے سے لذت یاب نہیں ہوتا ۔
وہ کائنات کے زخموں کو دیکھتے ہیں اور عوام کے درد کی ٹیس اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے دور کے رحجانات کو سمجھا ہے اور ایک حد تک جذب بھی کیا ہے ۔
اُن کے یہاں جوشؔ ، احسان دانشؔ اور جگرؔ کی بھی جھلک ملتی ہے ۔
ان کا مشاہدہ تیز اور ان کی مصوری کامیاب ہے ۔
فطرت اور انسانیت دونوں کے وہ ادا شناس ہیں ۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان کا احساس شعریت میں ڈھل جاتا ہے ۔ ان کی تشبیہیں اور ترکیبیں شگفتہ ، رواں اور مترنم ہیں ۔
ان کی نظموں میں "زنجیریں ” , ” زندگی کی بھیک ” ، ” افسردگی ” اور ” دھندلکے ” مجھے پسند آئیں ۔ خصوصاََ آخری نظم سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ خونِ جگر کی رنگینی کے ساتھ فکر و نظر بھی پیدا کر رہے ہیں ۔
ان کی شاعری میں ہمیں سچے تجربات مل جاتے ہیں ۔ مگر ابھی یہ تجربات سب کے سب اہم اور معنی خیز نہیں ہو سکتے ۔
ابھی کائنات اور انسانیت پر وہ ایمان نہیں لائے ۔ وہ ایمان جو روشنی اور گرمی پیدا کرتا ہے ۔ اور ایک لطیف افسردگی کی بجائے رقص اور مستی کا پیامبر ہوتا ہے ۔
سلامؔ کی دردمندی اور خلوص ، ان کے احساس کی شعریت اور تغزل کی لطافت سے امید ہوتی ہے کہ وہ اس روشن مستقبل کی طرف ضرور گامزن ہوں گے ۔
——
منتخب کلام
——
شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کر لیا
غم اُس کا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
——
ہزار رنگ سے سج کر بہار آتی ہے
مگر چمن کی فسردہ دلی نہیں جاتی
——
اچھا کیا جو زیرِ لحد جا کے سو رہے
آسودگانِ خاک سے جا کر کہے کوئی
——
ساقی میں اپنے بخت پہ قانع تو ہوں مگر
اتنی بھی کم نہ دے کہ مری شب بسر نہ ہو
——
نہ جانے زیر لحد ہوں گی کتنی تکلیفیں
کہ گل زمیں سے جو آئے تو دلفگار آئے
——
یوں عشق کے شرارے پنہاں ہیں آدمی میں
جیسے کہ آتشِ گُل سمٹی ہوئی کلی میں
——
زلفیں مچل کے روئے حسیں پر یہ کہتی ہیں
آیاتِ کفر بھی ہیں خدا کی کتاب میں
——
وہاں نہ ساقی و شاعر ، نہ مطرب و میکش
ہے کتنی خلد بھی ویراں ، کسی کو کیا معلوم
ہمیشہ دور کے جلوے فریب دیتے ہیں
ہے ورنہ چاند بیاباں ، کسی کو کیا معلوم
——
بہت امید تھی منزل پہ جا کر چین پائیں گے
مگر منزل پہ جب پہونچے تو نظمِ کارواں بدلا
——
سلام ہوتا ہے اللہ کا قبول کرو
تمہیں سلامؔ تمہارے سلام کہتے ہیں
——
جو دل میں آگ تھی آںکھوں میں پانی ہوتی جاتی ہے
زہے قسمت ، محبت نقشِ ثانی ہوتی جاتی ہے
کلی کچھ سوچ کر کہتی نہیں ہے داستانِ غم
مگر تشریح شبنم کی زبانی ہوتی جاتی ہے
ابھی بادل نہیں اُٹھے ، ابھی پانی نہیں برسا
ابھی کیوں کم یہ اشکوں کی روانی ہوتی جاتی ہے
نگاہوں میں شراب و کیف ، ہونٹوں میں گل و غنچہ
بہارِ حسنِ دو عالم جوانی ہوتی جاتی ہے
کہاں صبحِ چمن تاریک تھی میری نگاہوں میں
کہاں شامِ قفس بھی اب سہانی ہوتی جاتی ہے
ستاروں کی بجھے شمعوں کو اے ضو بخشنے والے
ادھر بھی ختم اک شمع جوانی ہوتی جاتی ہے
ہزاروں چلمنوں میں رخ چھپا کر بیٹھنے والے
فضا دنیا کی اب ارغوانی ہوتی جاتی ہے
سلامؔ ایسی ہو اب لغزش کہ نکلیں بزم دنیا سے
کہانی خلد و آدم کی پرانی ہوتی جاتی ہے
——
طرب‌ آفریں ہے کتنا سر شام یہ نظارا
ترے ہونٹ پر شفق ہے مری آنکھ میں ستارا
کیا میں نے جب کسی کے رخ و زلف سے کنارا
کبھی صبح نے صدا دی کبھی شام نے پکارا
گل و غنچہ اصل میں ہیں تری گفتگو کی شکلیں
کبھی کھل کے بات کہہ دی کبھی کر دیا اشارا
ترا نام لے کے جاگے تجھے یاد کر کے سوئے
یوں ہی ساری عمر کاٹی یوں ہی کر لیا گزارا
تجھے باغباں ہے خطرہ اسی برق کی چمک سے
کبھی تو نے یہ نہ سوچا کہ ہے گل بھی اک شرارا
یہ عدم وجود کیا ہے ترا ناز ہے مصور
کسی نقش کو مٹایا کسی نقش کو ابھارا
بھلا ہم سلامؔ آخر نہ اسیر ہوں گے کب تک
کہ جہاں ہے دام ان کا وہیں آشیاں ہمارا
——
تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے
محسوس ہوا ایسا ہم چاند سے ٹکرائے
برکھا کا یہ موسم بھی کس درجہ سہانا ہے
آہوں کی ادھر بدلی زلفوں کے ادھر سائے
آگاہ نہ تھے پہلے ہم عشق کی راہوں سے
پھولوں کے اشاروں پر کانٹوں میں چلے آئے
ہونٹوں کے تبسم پر سو بجلیاں رقصاں ہیں
بکھراتے ہیں وہ شعلے دامن کوئی پھیلائے
آلام زمانہ سے بدلا ہوں میں کس حد تک
میں اپنے کو پہچانوں آئینہ کوئی لائے
اے دوست مجھے تجھ سے اک دور کی نسبت ہے
تاریک مری راتیں گیسو ترے کجلائے
یہ گل بھی ہیں داغ دل ہے فرق سلامؔ اتنا
——
کچھ رہ گئے گلشن میں کچھ دل میں چلے آئے
بوئے گل باد صبا لائی بہت دیر کے بعد
میرے گلشن میں بہار آئی بہت دیر کے بعد
چھپ گیا چاند تو جلووں کی تمنا ابھری
آرزوؤں نے لی انگڑائی بہت دیر کے بعد
نرگسی آنکھوں میں یہ اشک ندامت توبہ
موج مے شیشوں میں لہرائی بہت دیر کے بعد
صحن گلشن میں حسیں پھول کھلے تھے کب سے
ہم ہوئے خود ہی تماشائی بہت دیر کے بعد
مہر و شبنم میں ملاقات ہوئی وقت سحر
زندگی موت سے ٹکرائی بہت دیر کے بعد
مئے گل بٹ گئی آسودہ لبوں میں پہلے
تشنہ کاموں میں شراب آئی بہت دیر کے بعد
ذہن بھٹکا کیا دشت غم دوراں میں سلامؔ
شب غم نیند مجھے آئی بہت دیر کے بعد
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات