اردوئے معلیٰ

آج ممتاز مرثیہ گو شاعر پروفیسر سردار نقوی کا یوم پیدائش ہے

پروفیسر سردار نقوی(پیدائش:21 مارچ، 1941ء – وفات: 5 فروری، 2001ء )
——
نام سید سردار محمد ، تخلص سردارؔ ، امروہہ سادات کے نقوی سادات گھرانے کے فرد ، والد کا اسمِ گرامی سید انوار محمد نقوی ۔ والدہ گرامی ، فرذق ہند شمیم امروہوی کی دختر مدینہ خاتون کی پوتی ہیں ۔
تعلیم بی ایس سی آنرز ، ایم ایس سی جیالوجی( کراچی یونیورسٹی ) ، تقسیمِ ملک کے بعد کم عمری میں کراچی آ گئے ۔ بی ایس سی آنرز ( کراچی یونیورسٹی ) ایم ایس سی ( ریاض ) کی اسناد حاصل کیں ۔ ابتدائی ملازمت جیالوجیکل سروے میں کی ۔ بعد ازاں شعبۂ تدریس میں آ گئے اور پروفیسر کے منصب تک پہنچے۔
شاعری کی ابتدا 1957 ء (بعمر 16 برس ) میں ہوئی ۔ ابتدا ہی میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے اور انسانی دکھ و آلام سے رشتے استوار ہوتے گئے ۔
کہتے ہیں عشقِ حقیقی تک پہنچنے کے لیے عشقِ مجازی کی خاردار وادی سے گزرنا پڑتا ہے ۔ شاید یہی تھیوری لذتِ الم حاصل کرنے کی بھی ہے کہ غمِ جاوداں سے رشتے استوار کرنے کے لیے عام دکھوں کو محسوس کرنا پڑتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک انسانی دکھوں سے رشتہ استوار کر دیتی ہے ۔
دل روشن اور آنکھ بینا ہو تو انسان دکھوں کی کربلا تک پہنچ جاتا ہے ۔ سردار نقوی عشق کی اس پرخار وادی سے گزر کر عشقِ حقیقی تک پہنچے ، فنا نصیب ممدوح سے بقا نصیب فنا تک رسائی ہوئی تو کہہ اٹھے :
——
عقل مسلم ہو تو ہادی کی ثنا کرتی ہے
——
سردار نقوی ڈی جے کالج کراچی میں لیکچرار ہونے سے قبل گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں تھے لہٰذا پاکستان میں اردو مرثیہ کی ترویج و ارتقاء کو جب بھی شمار کیا گیا کوئٹہ میں فروغِ مرثیہ کا سہرا اثر جلیلی اور سردار نقوی کے سر باندھا گیا ۔
اس کے بعد اُن کا نام کراچی سے وابستہ ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : حشمت اللہ لودھی کا یومِ وفات
——
کراچی 1971 ء میں انہوں نے ایک مرثیہ کہا جو بہت مقبول ہوا :
——
بخشی گئی ہے چشمِ حقیقت نگر مجھے
——
اُن کا ایک اور مرثیہ جو 1975 ء میں کہا :
——
جب سجدۂ یقیں تہہِ خنجر ادا ہوا
——
کلاسیکی روایت اور جدید فکر کے امتزاج کا نمائندہ مرثیہ ہے ۔ سردار نقوی اگرچہ مرثیے کی کلاسیکی روایات کے پاسدار تھے مگر ترقی پسند سوچ نے انہیں سلیقہ اور ہنر مندی سکھائی کہ کلاسیکی فریم ورک میں نئی فکر اور نئی سوچ کو کیسے پیش کیا جاتا ہے ۔
یہ امتزاجِ رنگ و نکہت سردار نقوی کی پہچان بنا البتہ بین نگاری کے معاملے میں انہوں نے طرزِ قدیم کو اپنایا۔
حضورِ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد ماحول کی عکاسی سردار نقوی نے دو بند میں کی ہے ۔
——
حد سے فزوں جو ظلمتِ نفس بشر ہوئی
پہلوئے آمنہ سے سحر جلوہ گر ہوئی
اب جس کی کوئی شام نہیں ، وہ سحر ہوئی
خوش کیوں نہ ہو خلیلؑ ، دعا بارور ہوئی
اُبھرا جو آفتاب اندھیرے ہوا ہوئے
ابلیس سے خود اس کے پجاری خفا ہوئے

بدلا مزاجِ زیست ، بدلنے لگی فضا
روشن ہوئے چراغ اندھیروں کا دم گھٹا
باغِ عمل میں چلنے لگی عدل کی ہوا
منزل کی سمت راہ نے عزمِ سفر کیا
کانٹے ہٹائے ، راہ کو ہموار کر دیا
فتنوں کی آگ کو گل و گلزار کر دیا
——
انکا ایک اور مرثیہ
——
ظلم خود ہار گیا اپنی لڑائی آخر
ہو گئی حق کے سر و تن میں جدائی آخر
——
سردار نقوی کے اس مرثیے میں نبیِ کریم کے وصال کے بعد سے لے کر خلافتِ جناب امیر ، عالم اسلام کے بدلے ہوئے تیور ، حسینؑ کا ان حالات کو دیکھنا ، یزید کی طرف سے بیعت کا اصرار ، حسینؑ کا انکار ، کربلا کا سفر ، کربلا کی جنگ ، شہادت ، بعد شہادت اور انجام کار حسینؑ کی شہادت تک تاریخ کا سفر ، حالات کے وقوع پذیر ہونے کے مطابق نظم کیا گیا ہے جسے ان واقعات کی منظوم اور مسلسل تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے ۔
یہ احتیاط کہ تاریخ کی کوئی کڑی کم نہ ہو جائے یا مفروضہ واقعات نظم کے قالب میں آ کر تاریخ نہ بن جائیں سردار نقوی کی مرثیہ گوئی کا خاصہ ہے ۔
پروفیسر سردار نقوی کی وفات کے بعد ان کے فرزند سید سہیل مہدی کو ان کے شعری ذخیرے سے قلمی نسخوں کی تلاش و ترتیب کے نتیجے میں ان کے 36 غیر مطبوعہ مراثی دستیاب ہوئے ۔
رثائی ادب کراچی نے مرثیہ نگاری پر سردار نقوی کے کئی اہم تنقیدی مضامین شائع کیے ہیں جو اسی خزانے سے حاصل کیے گئے ہیں اور ان کے پانچ غیر مطبوعہ مراثی شائع کیے ہیں ۔
جن میں ان کا پہلا مرثیہ بھی شامل ہے جس کا سنہ تصنیف 1969 ء ہے ۔
——
ہر چند خضرِ راہ ہے انسان کا شعور
نمرودِ جہل سے ہے نبرد آزما شعور
فرعونِ ظلم کے ہے مقابل عصا شعور
لیکن ہے صیدِ نادکِ بیم درجا ، شعور
قبلہ نما ہے قبلۂ اہلِ نظر نہیں
ہے ہمسفر ضرور مگر راہبر نہیں
——
سردار نقوی اس مرثیے میں جوشؔ کے ہم نوا نظر آتے ہیں ۔ جوشؔ نے کہا تھا :
——
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دمبدم
دشتِ ثبات و عزم ہے دشتِ بلا و غم
صبرِ مسیح و جرأتِ سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی رگوں میں آتشِ بدر و حنین ہے
اس سورما کا اسمِ گرامی حسینؑ ہے
——
اسی آواز کو جب سردار نقوی نے سنا تو پکار اٹھے
——
آتی ہے کربلا سے یہ آواز دم بدم
تفسیر عہد و گردشِ ادوار کی قسم
تاریخ ہے صدائے حسینی کا زیر و بم
انساں سے آج بھی ہے مخاطب وہ باکرم
ترویج ہو رہی ہے پیامِ حسینؑ کی
آواز آ رہی ہے امام حسینؑ کی
——
یہ حوالہ جوشؔ اور سردار نقوی کے تقابل کے لیے نہیں بلکہ دو بڑے لوگوں کے ایک ہی طرح سوچنے کے مقولے کی عملی تفسیر ہے ۔
سردار نقوی نے ریڈیو پاکستان کے لیے علمی , ادبی اور مذہبی موضوعات پر بے شمار تقریریں بھی لکھی ہیں ۔ اُن کے مرثیے کے گہرے مطالعے کے پس منظر میں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مرثیوں کے تمام موضوعات کا پورا پورا حق ادا کیا ہے ۔
——
منتخب کلام
——
نعتیہ اشعار
——
مدینے کو جو جنت کہہ رہا ہوں
حقیقت ہے حقیقت کہہ رہا ہوں
میری آواز سنتے ہیں فرشتے
کہ میں نعتِ رسالت کہہ رہا ہوں
کہاں میں اورکہاں نعتِ پیمبر (ص)
بحدِ استطاعت کہہ رہا ہوں
——
غزل
——
رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا
میں تو ماضی کو فقط آئینہ دِکھلاتا رہا
دُھوم تھی جس کے تکّلم کی، وہی جانِ سُخن
جب حدیثِ دِل کی بات آئی تو ہکلاتا رہا
پیاس صحرا کے مُقدّر میں جو تھی، سو اب بھی ہے
ابر برسا بھی تو، بس دریا کو چھلکاتا رہا
بڑھ کے جو آغوش میں لے لے، کوئی ایسا بھی ہو
جو شجر تھا راہ میں، بس ہاتھ پھیلاتا رہا
رات پھر جلتا رہا تنہائیوں کی دُھوپ میں
رات بھر زُلفوں کی چھاؤں کا خیال آتا رہا
خلق پتّھرمارنے آئی تو وہ بھی ساتھ تھے
میں خطائیں جن کی اپنے نام لِکھواتا رہا
——
منتخب مرثیہ
——
ذکرِ شبیرؑ ہے آسان یہی مشکل ہے
کیسے لکھے کوئی قرآن بڑی مشکل ہے
فکرِ شبیرؑ کا عرفان ابھی مشکل ہے
سوچے جس رخ سے بھی انسان نئی مشکل ہے
سرحدِ ذکر جو عرفان کی سرحد ٹھہرے
ذکرِ فرزندِ علیؑ ذکرِ محمد ٹھہرے

مبتدا عظمتِ انساں ہے خبر ہے شبیرؑ
نور ہے یعنی محمد سا بشر ہے شبیرؑ
سورۂ فجر کی میزانِ سحر ہے شبیرؑ
ذہنِ انساں میں اجالوں کا سفر ہے شبیرؑ
کاروانِ بشریت کی یہی منزل ہے
کربلا آج بھی ماضی نہیں مستقبل ہے

جب ہوئی سیدِ لولاک سے خالی دنیا
بن گئی دین سے دنیا کی سوالی دنیا
جہل نے ظلم کے سانچوں میں جو ڈھالی دنیا
بیتِ حیدر میں سمٹ آئی مثالی دنیا
یہ وہ دنیا تھی جو ہر ظلم سہے جاتی تھی
کشتیٔ نوح تھی ، طوفاں میں بہے جاتی تھی

جرم کے بوجھ تلے دب کے حکومت کا ضمیر
تھا مصر عدل بنے ، ظلم کی طاقت کا اسیر
مجتمع ظلم کے مرکز پہ تھا انبوہِ کثیر
مرکزِ عدل پہ شبیرؑ تھے ، تنہا شبیرؑ
مرکزِ عدل سے بیعت پہ جو اصرار رہا
جیسا اصرار رہا ، ویسا ہی انکار رہا

باب اصرار کھلا تھا کہ کھلا بابِ عمل
دل میں انگڑائیاں لینے لگا ارمانِ اجل
دیکھ کر سبطِ پیمبر کے ارداے کو اٹل
شام کو بڑھ کر مدینے نے صدا دی کہ سنبھل
خیر اور شر میں تعاون کو کوئی طور نہیں
یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے یہ کوئی اور نہیں

طاقتِ شر کا وہ اصرار ، وہ انکار کی شان
وہ مدینے کا سفر اور وہ سفر کا سامان
تربتِ جد پہ نواسے کا صریحی اعلان
اب اگر زندگیٔ حق کا یہی ہے عنوان
رنگ تصویرِ شہادت میں لہو سے بھر دو
آؤ تلوارو میرے جسم کے ٹکڑے کر دو
——
تحریر : سید عاشور کاظمی از اردو مرثیہ کا سفر اور بیسویں صدی کے مرثیہ نگار
صفحہ نمبر : 911 تا 916
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات