اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر شاہین عباس کا یوم پیدائش ہے

شاہین عباس
(پیدائش: 29 نومبر 1965ء )
——
خدا کے دن از نوید صادق
——
پیکٹ کھلا اور شاہین عباس کا مجموعہ کلام ”خدا کے دن“ ہمارے سامنے تھا۔ یہ کیا نام ہوا؟ اس کے پیچھے کیا بات ہے؟ عام بات، عام کام۔۔۔ وہ تو خیر ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ شاہین کی فطرت میں نہیں۔ لیکن یہ نام ؟؟ میرے خدا! ”خدا کے دن“ اس نام کی تعبیر میں کتنے دن گزر گئے۔
اور وہ شعر جس سے یہ نام اخذ کیا گیا ،کیا بھلا شعر ہے لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے، شاید اسی لئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شاہین کی شاعری سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔اس میں قصور سر کا ہی گنا جائے گا، شاہین کی شاعری کا نہیں کہ وہ شریف انسان تو شاعری میں پلا بڑھا ہے۔ شاعری اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔یہ دعویٰ تو خیر ہمارے عہد میں کتنے ہی لوگوں کو ہے لیکن تھوڑا برائے نام اور تھوڑا بناوٹی۔ بال بڑھا لئے، حلیہ اوٹ پٹانگ کر لیا، شاعری اور اساتذہء شعر پر ایک دو اعتراضات داغ دیے اور سمجھے کہ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہو لی۔ یہ دعوے، یہ اوٹ پٹانگ دعوے اخباروں میں پڑھتے، مجلسوں میں سنتے لطف بھی آتا ہے کہ ہم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے جو ہوئے۔ اُدھر کسی کی پگڑی اچھلی اور اِدھر یار لوگوں کی باچھیں پھٹنے کو آ گئیں۔
یہ اوٹ پٹانگ باتیں ہمارا موضوع نہیں لیکن کیا کیا جائے کہ بات سے بات نکل آتی ہے اور ضبط لازم ہوتے ہوئے بھی ہو نہیں پاتا۔شاہین عباس ایک شاعر ہے، اچھا شاعر ہے، منفرد شاعر ہے،ایک عرصے سے یہ باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے ، ہم یہ دعوے کیوں کر رہے ہیں؟؟ اس پر کبھی ہم نے شاید غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔نفسا نفسی کا عالم ہے۔جی !یہ میرا آپ کا کام بھی نہیں۔ یہ تو نقادوں کا کام ہے کہ اس کے کلام کی ابعاد دریافت کریں ۔ وہ جو سب کو اچھا لگتا ہے، اس کا اچھا پن بیان کیا جائے، اس کی خامیاں سامنے لائی جائیں۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ نقاد بوڑھے ہو لیے، اب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو کہنا تھا، جو کرنا تھا وہ کر چکے۔
——
یہ بھی پڑھیں : بزمِ رسولِ پاک سجانے کا وقت ہے
——
اب نیا شاعر اپنا نقاد اپنے ساتھ لے کر آئے۔ بات جچتی ہے لیکن نیا نقاد کہاں سے آئے گا۔میں آپ سب نقاد ہیں۔ لیکن ضرورت حوصلے کی ہے اور نیا نقاد یعنی میں اور آپ ابھی اپنے اندر اتنا حوصلہ پیدا ہی نہیں کر پائے کہ شاہین عباس جیسے توانا شاعر پر کُھل کر بات کر سکیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو شاہین خود ہے کہ بحیثیت انسان وہ جتنا سادہ اور عام روشا ہے،بطور شاعر اتنا ہی گنجلک۔ اب اس کتاب کے نام کو ہی لے لیجئے ”خدا کے دن“۔ ایک منٹ ذرا اس شعر کو بھی تو دیکھ لیں
——
ایک لکیر شام کی، کہتی تھی درمیاں کی بات
خلقِ خدا کا ایک دن، باقی ہیں سب خدا کے دن
——
بات کدھر سے کدھر جا نکلی۔تو بھائی بات یہ ہے کہ یہ سیدھا سادا،دھان پان سا انسان اپنے اندر جس شاعر کو لیے پھرتا ہے وہ عام قاری کا شاعر نہیں ہے۔اس کو نہ صرف اپنا نقاد خود پیدا کرنا ہو گا، بلکہ اپنی سطح کے قاری بھی دریافت کرنا ہوں گے۔ لیکن میرے اس دعوے کو کوئی غلط رُخ نہ دیا جائے۔ مرزا نوشہ نے کہا تھا
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
یہ مرزا غالب کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ لوگ لاکھ اعتراض جڑتے رہیں ادھر پروا کس کو ہے۔ آخر کو کیا ہوا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج غالب فہمی اپنے عروج پر ہے اور اُس وقت کے” معانی نہ ڈھونڈ پانے والوں “جیسے آج ”ماہرِ غالبیات“ کہانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس کے شاعر، ادیب چونکا دینے والی فضا کی تخلیق میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی انوکھی بات، کوئی ایسا تجربہ کہ سننے والے ایک دم عش عش کر اٹھیں۔لیکن مطمحِ نظر چوں کہ محض قاری کو ہکا بکا کر دینا ہوتا ہے، شاعر کے ہاں ایک سطحی پن در آتا ہے۔ اور یہی سطحی پن لمحوں، دنوں یا زیادہ سے زیادہ مہینوں میں اس کی تخلیق کی عمر کا تعین کر دیتا ہے۔ اور یوں ہم چند مشاعروں، کچھ ادبی جریدوں، اور ایک آدھ مجموعہ کلام کے بعد ان شعرا کے ناموں سے بھی نامانوس ہو جاتے ہیں۔تخلیقی گہرائی کا فقدان ان حضرات کو لے ڈوبتا ہے۔واہ واہ تو ذوق کے کلام پر ہوئی لیکن ابدی حیات غالب کے حصے آئی۔
شاہین عباس کے چار شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک،”اسلوب سے مفہوم تک“ آگے کا سفر شاہین عباس کا وتیرہ رہا۔”خواب میرا لباس“ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ سرسری نظر بیچ کے دو مجموعوں پر ڈالیے اور ”خدا کے دن“، یہاں تک آتے آتے شاعر کن دشوار گھاٹیوں سے ہو آیا ہے اس کا اندازہ کوئی تخلیق کار ذہن ہی لگا سکتا ہے۔
ذاتی واردات، خالص ذاتی مشاہدہ، اپنا تجربہ اور گہرا غور وخوض شاہین عباس کی غزل کے بنیادی عناصر ہیں۔ اس کے ہاں ہمیں سنی سنائی باتیں نہیں ملتیں۔سطحی پن نہیں ہے۔ہر چیز ایک خاص ترتیب، خاص سلیقے سے پیش کی گئی ہے کہ اس کے پیچھے ایک جاں کاہ ریاضت ہے۔ ہر چیز کو اپنی تجربہ گاہ سے گزارا گیا ہے۔جہاں اس کا مشاہدہ ،تجربہ اور فکر اس کی عمل انگیز طبیعت کی کٹھالی میں پک کر ایک آمیزے کا روپ دھارتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : چرواہا
——
اور جب یہ آمیزہ ہمارے دل و دماغ پر دستک دیتا ہے تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ کچھ ہے جو بالکل نیا ہے، خالصتاً شاہین کا ہے۔
——
پہلے تو مٹی کا اور پانی کا اندازہ ہوا
پھر کہیں اپنی پریشانی کا اندازہ ہوا
عمر بھر ہم نے فنا کے تجربے خو د پر کئے
عمر بھر میں عالمِ فانی کا اندازہ ہوا
تیرے ہاتھوں جل اُٹھے ہم، تیرے ہاتھوں جل بجھے
ہوتے ہوتے آگ اور پانی کا اندازہ ہوا
——
اپنی آوازوں کو چپ رہ کر سنا
تب کہیں جا کر یہ ز یر و بم بنے ​
——
شاہین اپنی تاریخ، اپنے ادب اور اپنی مٹی سے جڑا ہوا انسان ہے۔ اس نے غزل کی روایت کے جملہ التزامات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اِسے جدید حسیت سے آشکارا کیا ہے۔ اس کے ہاں معاملات محبت کے ساتھ ساتھ، معاشی، معاشرتی اور سماجی سچائیوں اور درپیش صورتِ حال پر گہری نظر ملتی ہے۔معاشرے میں جاری و ساری ناانصافی، زوال، اور اقدار کی برہمی پر اس کے ہاں شدید لیکن قدرے سنبھلا ہوا رویہ ملتا ہے۔ جھنجھلاہٹ کہیں بھی اس کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن پائی۔محبت اورمعاشرتی معاملات پر قلم اٹھاتے ہوئے اکثر تخلیق کار جلد بازی اور سطحی پن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ فوری ردِعمل ان کی تخلیق کا حسن چھین لے جاتا ہے۔ لیکن شاہین کو کوئی جلدی نہیں ۔ وہ تو معاملات کی تہہ تک جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اور خوبی، خرابی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کی جڑ تک پہنچ کر اصل حقائق سے روشناس کراتا ہے۔
——
میری آنکھوں کا تسلسل تری آنکھیں ہی نہ ہوں
تیری آنکھوں میں بھی روتا نظر آیا ہے کوئی
——
خاک پر خاک اُڑا ئی ہے ، محبت کی ہے
شہر کو شہر کی تعمیر سے پہچانا ہے
——
یوں جو دروازے بج رہے ہیں یہاں
گھر سے اُٹھّا ہے بے گھری کا شور
تم نے کیا بات کاٹ دی تھی مری
گھر میں آتا رہا گلی کا شور
سننے والوں میں اِتنا پردہ ہے
کوئی سنتا نہیں کسی کا شور
——
رات کے ٹوٹتے تاروں میں ہمیں رکھا گیا
ہمیں پرکھا گیا گرتے ہوئے معیاروں پر
داستاں میں جہاں اک دائمی دن ہو تا تھا
اب وہاں شام اُتر آتی ہے کرداروں پر
——
خواب کو خوش نما بناتے ہوئے
رات گزری دِیا بناتے ہوئے
شہر کے شہر کر دئے مسمار
اپنا خلوت کدہ بناتے ہوئے
——
بازار میں اجنبی ہوں یعنی
پھولوں کی دکان دیکھتا ہوں
——
بھرتے بھرتے بھرے گا وقت کے ساتھ
دامنِ داستان ہے سائیں
گھر کہیں بھی نہیں ، کوئی بھی نہیں
سب گلی کا گمان ہے سائیں
——
آخر در و دیوار کے آنسو نکل آئے
ہم کو نظر آتی ہی نہ تھی گھر کی اداسی
——
”اصل“ کی تلاش ہر دور میں انسانی فطرت کا خاصہ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں تفتیش کا مادہ رکھ چھوڑا ہے۔حقیقتِ حال تک رسائی کے لیے ہر دور میں شعرا، ادیب، دانشور، فلاسفہ اپنے اپنے مسلک اور طریقہ کار کے مطابق مصروف کار رہے ہیں۔اس سلسے میں دو مکتبہ ہائے فکر ہمیشہ معروف و مقبول رہے ہیں۔ ایک تصوف یا وجدان اور دوسرا عقلیت یا معقولیت۔ وجدانی کہتے ہیں کہ حقیقت مادی تصورات اور علم کے ذریعے ہماری آگاہی میں نہیں آ سکتی۔ اور عقلیت پرست طبقہ دوسرے سرے پر کھڑا نظر آتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ وفات
——
شاہین نے کمال یہ کر دکھایا ہے کہ وجدان اور عقلیت دونوں کو شانہ بہ شانہ لے کر چلا ہے۔ اور جہاں جیسے جو ممکن ہوا، کر دکھایا۔ وہ سوال اٹھاتا ہے، وہی صدیوں پرانے سوالات، لیکن پیرایہ اظہار اور اندازبیان اسے دوسروں سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔
——
کبھی حیراں، کبھی ویراں ، تو کبھی شاد آباد
میں خلل ڈالتا آیا ہوں جہاں میں ایسا
——
حاشیے کے دونوں جانب نام ہیں ، اور صرف نام
یہ جو خالی ہے جگہ ، یہ بھی کسی کا نام ہے
——
میں سیڑھیاں چڑھتا چلا جاتا ہوں کہ جالوں
اوپر کی وہ تنہائی ، وہ اوپر کی اداسی
——
شہر میں داخلے کی شرط ، جسم نہیں تھا ، روح تھی
جسم کا جسم رکھ دیا ،سر سے کہیں اتار کر
——
رات اک دہلیز ایسی آ گئی تھی خواب میں
رات کچھ کچھ اپنی پیشانی کا اندازہ ہوا
——
کوئی تو بات ہے کہ دن آج بھی ختم ہو گیا
یوں ہی یہ رات ہے رواں ، پھر بھی رواں یونہی نہیں
——
سمتوں کا اِس قدر خیال ؟ سمتوں کا اِس قدر ملال؟
چاروں کے بیچ بیٹھ کر ، چاروں کا غم کیا گیا
——
ہمیں توآتے جاتے ہی ملا ہے جب بھی دیکھا ہے
یہ روزانہ کا جھونکا کیا پتہ کتنا پرانا ہے
——
شاہین کا اصل مسئلہ” خدا“ نہیں” انسان“ ہے ۔ اسے انسان سے دل چسپی ہے۔ اپنے جیسے جیتے جاگتے انسان سے۔ اس انسان کے معمولات سے، اس کے شب و روز سے، اس انسان کی خوشیاں، اس کے دکھ سکھ اس کی شاعری کا موضوع ہیں۔ عہدِ حاضر کا انسان جن نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، شاہین کے ہاں ان کا انتہائی مخلصانہ تجزیہ ملتا ہے۔ اس انسان کی حقیقت کیا ہے، اور حیثیت کیا؟ یہی وہ چیزیں ہیں جو اس کے شب و روز کا وظیفہ ہیں۔
——
ایک شکن وصال کی ، ایک شکن فراق کی
سِلوٹیں پڑ گئیں ہیں دو ، جامۂ دستیاب میں
——
اب جو گھر اِن پہ گرا ہے تو کُھلے ہیں ، ورنہ
یہ مکیں ، لگتا نہیں تھا ، کہ مکاں والے ہیں
——
مٹی کو عذاب ہو رہا ہے
تعمیر مری تمام کیجئے
پتھر ہے، کلام جانتا ہے
اس شخص کو ہم کلام کیجئے
——
لوگ ہم جیسے بھی کچھ دیر گوارا کیے جائیں
ایک نام ایک ندا پر جو گزارا کیے جائیں
——
شہر کا ماجرا نہ پوچھ، شہر تو یوں ہوا کہ بس!
گھر میں کوئی گلی ہوئی، جیسے گلی میں گھر ہوا
گم شدہ شخص تھا سو میں پایا گیا وہیں کہیں
خواب کی لو جہاں پڑی، خاک کا رخ جدھر ہوا
——
yeats نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وقت کے علاوہ اس کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ وقت، خصوصاً گزرتا وقت شاہین عباس کا مسئلہ بھی ہے لیکن شاہین عباس نے وقت کو دشمن کی شکل میں پیش کرنے کی بجائے ایک منصف اور جاری و ساری قوت کے طور پر ابھارا ہے۔انسان اپنے معاملات میں اس قدر الجھ کر رہ جاتا ہے کہ وہ گزرتے وقت سے قطعی بے خبر ہو کر رہ جاتا ہے۔ رواں دواں وقت کے تقاضے اس کے دھیان کی قرطاس پر اپنی جگہ نہیں بنا پاتے اور جس وقت اسے اپنی اس کوتاہی کا احساس ہوتاہے، منظر بدل چکا ہوتا ہے۔ بہت کچھ پیچھے رہ جاتا ہے۔اور انسان پچھتاوے اور مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
بعدازاں یہی پچھتاوا اور مایوسی اس کے مسائل کے بنیادی مآخذ ٹھہرتے ہیں۔ ماضی اسکے دھیان میں گونجے لگتا ہے۔
——
پانی یہاں سے چل دیا ، تجھ کو پکارتا ہوا
بیٹھا اب اپنے حوض پر ، پانی کا انتظار کر
——
ایک گھیرا وقت کا ہے دوسرا نا وقت کا
خود نگر ! کچھ اپنی نگرانی کا اندازہ ہو ا؟
——
آج گئے دنوں کے ساتھ ، اپنی گلی میں کیا گئے
بند تھا در ، خفا ہوا ، خالی تھا گھر ، برس پڑا
——
انگلیا ں خاک میں اب پھیر رہے ہیں افسوس
بات نمٹا نہ سکے لوح و قلم ہوتے ہوئے
——
گلی کی ساری تصویروں میں جیسے جان پڑ جاتی
یہ آوازہ ، بُرا کیا تھا ، اگر آواز ہو سکتا
——
یہ دن اور رات جس جانب اُڑے جاتے ہیں صدیوں سے
کہیں رُکتے ، تو میں بھی شاملِ پرواز ہو سکتا
——
چلتے پانی کا کیا کیا جائے
اِس کہانی کا کیا کیا جائے
——
پانی پہ مذاق بن گئے ہم
کشتی میں نہ تھی جگہ ہماری
——
یہ وقت کا آخری ورق ہے
اور یہ بھی کہیں اُلٹ نہ جائے
——
ہم تھے کہ رات دن کے داغ ، جیسے صدی صدی کے باغ
یعنی گزرتے وقت کا ، ہم پہ بہت اثر ہوا
——
عجب کیا وقت کا یہ آخری پھیرا ہو یاں پر
گلی کوچے اب اِس رہ گیر سے تنگ آ گئے ہیں
——
ظفر اقبال نے ”وابستہ کے دیباچے میں شاہین عباس کو کرافٹ کا آدمی قرار دیا ہے۔ ہم اس بات سے کلیتاً اتفاق کرتے ہیں لیکن اس میں اس قدر اضافہ کرنا چاہیں گے کہ شاہین محض کرافٹ نہیں، بلکہ فکر اور گہرا شعور رکھنے والا انسان بھی ہے۔ اس کے خیالات ، احساسات،اس کے موضوعات کا تنوع اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتے ہیں۔اس پر یہ کہ اس کی ہاں اپنے موضوعات کی پیش کش کا جو انداز سامنے آتا ہے وہ انتہائی دلکش اور انوکھا ہے۔وہ اپنی سحرکار پیکر تراشی اور نادرہ کار استعارہ سازی، نئے تلازموں، نئے اظہاری سانچوں اور خوش آہنگ تراکیب کے ذریعے مفاہیم اور اسلوب کے نئے جہان دریافت کرتا چلا جا رہا ہے۔شاہین عباس کی شاعری ہر لحاظ سے ایک نئے عہد میں ایک نئے انسان کی شاعری ہے جس کے مسائل اگلوں سے مختلف ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ پیدائش
——
شاہین عباس کا تخلیقی سفر جاری ہے۔”خدا کے دن“ میں درج تجربات اس بات کی گواہی کو بہت ہیں کہ ایک جہانِ معنی اس کے سامنے ہے، جس پر اس کی گرفت دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
——
کچھ اضافہ کیا ہے کچھ ترمیم
خود کو اک واقعہ بنا دیا ہے
——
یہ جو ہم کچھ کہتے کہتے کچھ بھی کہ پاتے نہیں
زندگی شاید اِسی پیغمبری کا نام ہے
——
منتخب کلام
——
پہلے تو مٹی کا اور پانی کا اندازہ ہوا
پھر کہیں اپنی پریشانی کا اندازہ ہوا
اے محبت تیرے دُکھ سے دوستی آساں نہ تھی
تجھ سا ہو کر تیری ویرانی کا اندازہ ہوا
عمر بھر ہم نے فنا کے تجربے خو د پر کئے
عمر بھر میں عالمِ فانی کا اندازہ ہوا
اک زمانے تک بدن بِن خواب بِن آداب تھے
پھر اچانک اپنی عریانی کا اندازہ ہو ا
تیرے ہاتھوں جل اُٹھے ہم، تیرے ہاتھوں جل بجھے
ہوتے ہوتے آگ اور پانی کا اندازہ ہو ا
لوگ میری بند آنکھوں میں سے گزرے ، تب اِ نہیں
اپنی اپنی خواب سامانی کا اندازہ ہوا
ایک گھیرا وقت کا ہے دوسرا نا وقت کا
خود نگر ! کچھ اپنی نگرانی کا اندازہ ہو ا؟
صورتیں بگڑ یں تو اپنی حالتوں میں آئے ہم
آئنہ ٹوٹا تو حیرانی کا اندازہ ہوا
رات اک دہلیز ایسی آ گئی تھی خواب میں
رات کچھ کچھ اپنی پیشانی کا اندازہ ہوا
——
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
ہمیں اُن حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا ، آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ ، جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اِتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ، ہم ہیں ، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی ، موجودگی ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
کہ جس شے پر نظر پڑتی، وہی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے ، جانتے ہیں
کہ دن کیسے ہوا ، جب رات بھی ہوتی نہیں تھی
——
کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں
پھر بھی یہ خوف سا ہے کہ سب دیکھتا ہوں میں
آنکھیں تمھارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا
اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں
آہٹ عقب سے آئی اور آگے نکل گئی
جو پہلے دیکھنا تھا وہ اب دیکھتا ہوں میں
یہ وقت بھی بتاتا ہے آدابِ وقت بھی
اس ٹوٹتے ستارے کو جب دیکھتا ہوں میں
!اب یاں سے کون دے مری چشمِ طلب کو داد
جس فاصلے سے بابِ طلب دیکھتا ہوں میں
!ان پتلیوں کا قرض چکاتا ہوں کیا کروں
بس دل سے دل ملاتا ہوں جب دیکھتا ہوں میں
!ناکامِ عشق ہوں سو مرا دیکھنا بھی دیکھ
کم دیکھتا ہوں اور غضب دیکھتا ہوں میں
———-
سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو
یہ طاقِ چشم اب اِتنا بھی کیا خراب نہ ہو
ہر آنے والا اِسی طرح سے تجھے چاہے
مری بنائی ہوئی یہ فضا خراب نہ ہو
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو
ہم اِس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ
کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ہو
میں اپنی شرط پہ آیا تھا اِس خرابے میں
سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو
مری خرابی کو یکجا کرو کہیں نہ کہیں
مرا معاملہ اب جا بہ جا خراب نہ ہو
میں لَو پکڑتا ہوں ، اور ہاتھ کھینچ لیتا ہوں
مرے گزرنے سے پردہ ترا خراب نہ ہو
خراب ہوں بھلے اِس اشتہا میں ہم اور تم
پر ایک دوسرے کا ذائقہ خراب نہ ہو
بہت حجاب زمیں سے بھی ، آسماں سے بھی
اے ابتدا کے خراب ، انتہا خراب نہ ہو
تم اِس نواحِ خرابہ میں آتے جاتے ہو
یہ میرا خطِ خرابی ، ذرا خراب نہ ہو
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ