اردوئے معلیٰ

آج معروف فلمی نغمہ نگار اور شاعر شکیل بدایونی کا یوم وفات ہے۔

شکیل بدایونی
(پیدائش: 3 اگست 1916ء – وفات: 20 اپریل 1970ء)
——
شکیل بدایونی : سوانحی حالات و ادبی خدمات از ڈاکٹر اطہر مسعود خان
——
اردو کی غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں کے لحاظ سے جن چند شاعروں نے نہ صرف برصغیر بلکہ دیگر ممالک میں بھی زبردست شہرت و ناموری حاصل کی ان میں شکیل بدایونی کا نام بھی شامل ہے۔ان کی ولادت ہندوستان کے معروف مردم خیز خطے بدایوں میں ہوئی۔وہ اپنی شاعری ، دلکش ترنم اور فلمی گیتوں کے باعث ہر دو خاص و عام میں مقبول تھے لیکن اس میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں کہ بدایوں جیسے عظیم شہر کے کئی دیگر عالمی شہرت یافتہ ادیبوں،شاعروں ،افسانہ نگاروں اور دیگر فنون کے ماہرین کی طرح شکیل بدایونی کو اردو کے ادبی تذکروں اور تاریخی و تحقیقی کتابوں میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل سکا جس کے وہ بجا طور پر مستحق و حقدار تھے۔آج شکیل بدایونی کے انتقال کے تقریباً پچاس سال بعد بھی ان سے متعلق وافر مقدار میں اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا مواد نہیں ملتا اور جو کچھ ملتا بھی ہے اس کو تلاش کرنے میں کافی جدوجہد اور محنت و جستجو کرنی پڑتی ہے ۔اللہ اللہ اللہ
شکیل بدایونی نے اپنی خود نوشت ’میری زندگی‘عنوان سے تحریر کی تھی ۔وہ اسے کافی عرصے تک لکھتے رہے تھے اور ۱۷؍اکتوبر ۱۹۶۹ ء کو اس کا آخری صفحہ تحریر کیا تھا۔اس سوانح میں انہوں نے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے ہر دور کے واقعات جیسے تعلیم ،اپنے استاد،شعروشاعری پر اپنے نظریات ،اپنی کتابوں کے نام ،خاندانی حالات ،بیٹیوں سے محبت ،غرض سبھی کچھ تحریر فرمایا تھا۔شکیل کی تاریخ پیدائش سے متعلق ضروری معلوم دیتا ہے کہ خود ان کی ہی تحریر سے رجوع کیا جائے ۔درج ذیل اقتباس میں انہوں نے مختصر طور پر اپنی تاریخ پیدائش،نام و تخلص اور خاندان کی بابت اس طرح لکھا ہے:
’’میری پیدائش جمعرات ۳؍اگست۱۹۱۶ء مطابق۳؍شوال ۱۳۳۴ھ کو مشہور شہر بدایوں میں ہوئی۔سنہ ہجری کے حساب سے میرا نام غفار احمد ہے لیکن گھر والوں نے شکیل احمد نام رکھ دیا،میرا تخلص شکیل ہے۔بچپن میں کچھ عرصے کے لیے صبا اور فروغ بھی تخلص کر چکا ہوں۔میرے والد کا نام مولوی جمیل احمد قادری سوختہ تھا جو بمبئی میں بیس سال خواجہ سنی مسجد کے خطیب رہے اور وہیں ان کا انتقال بہ عارضہ ذیا بطیس ۳۰؍جون ۱۹۳۹ء میں ہوا۔(میرے والد کا)سوختہ کوئی تخلص نہیں تھا بلکہ ہمارے خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت سراج الدین کا لقب تھا اور اسی نسبت سے خاندان کے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ سوختہ لکھا کرتے تھے۔اسی سوختہ خاندان میں میرے ایک بہت قریب کے رشتے دار تھے جن کا نام منشی مبارک علی تھا۔وہ الہ آباد کے آنند بھون میں سورگیہ موتی لال نہرو کے منشی تھے ۔ان کا تذکرہ پنڈت موتی لال نہرو نے اپنی سوانح حیات میں بھی کیا ہے۔‘‘
(’کچھ شکیل بدایونی کے بارے میں‘ہفتہ وار’ہماری زبان‘دہلی ،۸؍تا۱۴؍مارچ۲۰۰۱)
——
یہ بھی پڑھیں : شبنم شکیل کا یومِ پیدائش
——
شکیل بدایونی اسم با مسمٰی تھے۔وہ نہایت حسین و جمیل اور دلکش خط و خال کے مالک تھے۔ دل آویزی اور دل نشینی ان کی شخصیت کا ایک حصہ تھی۔وہ مخاطب کو پہلی ہی نظر میں متاثر کرنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ڈاکٹر عرفان عباسی نے نہایت دلکش پیرائے میں شکیل بدایونی کا خاکہ اس طرح کھینچا ہے:
’’اوسط قد،اکہرا مضبوط جسم،داڑھی مونچھ سے محروم ،متین و سنجیدہ،بھرا بھرا چہرہ،دل آویز خدوخال،چوڑا ماتھا،متوسط ذہین آنکھیں،چھوٹی ناک، قدرے موٹے ہونٹ،ننگے سر،سر پر انگریزی قطع کے تیل کنگھی سے سنوارے بال،نرم اور پرخلوص لہجہ،عمدہ کپڑے کی نہایت موزوں شیروانی اور پائجامے میں ملبوس شکیل بدایونی بحیثیت انسان خوش طبع،انسان دوست،شریف النفس،خوش گلو،خوش شکل،خوش پوشاک اور خوش اخلاق۔‘‘
(تذکرہ شعرائے اترپردیش،جلد اول،مطبوعہ:۱۹۸۲ ء)
شکیل بدایونی نے ابتداء میں اردو،فارسی ،انگریزی اور عربی کی تعلیم مولوی عبدالغفار ،مولوی عبدالرحمٰن (کچھ کتابوں میں حبیب الرحمٰن نام بھی دیا ہوا ہے)،بابو رام چندر وغیرہ معروف استادوں سے حاصل کی ۔اس کے بعد ان کو بدایوں کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل کرایا گیاجہاں سے انہوں نے ۱۹۲۸ء میں درجہ ۶ پاس کیا۔اس سے قبل وہ قرآن عظیم بھی پڑھ چکے تھے۔ان کے والد چونکہ ایک عرصے سے بمبئی میں مقیم تھے اس لیے وہ ان کے پاس بمبئی چلے گئے،جہاں ان کی تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ تو جاری نہ رہا لیکن وہاں انہوں نے کچھ عرصہ سکنڈری اور پاپولر اسکول میں دیگر مضامین کے علاوہ انگریزی کی بھی تعلیم حاصل کی ۔بمبئی میں شکیل کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کے والد نے انہیںایک نہایت قریبی اور عزیز دوست کے سپرد کر دیا تھا۔اس سلسلہ میں شکیل نے واضح الفاظ میں اپنی خود نوشت میں درج ذیل جملے تحریر فرمائے ہیں:
’’بدایوں میں میرے گھر کے قریب چاہ نونی کے سامنے ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو اب کراچی میں مقیم ہیں ان کا نام یعقوب حسین ہے ۔نعت و منقبت کے بڑے شاعر اور عالم دین ہیں ان کا تخلص ضیاء القادری ہے ۔وہ میرے والد کے سب سے زیادہ عزیز دوست تھے ۔جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں میرے والد بمبئی میں رہا کرتے تھے اسی لیے میری تعلیم و تربیت ان ہی کے زیر سرپرستی ہوئی۔‘‘
۱۹۳۲ء میں وہ بدایوں واپس آگئے اور مذکورہ بالا اسکول میں ان کا دوبارہ داخلہ کرایا گیا جہاں سے انہوں نے ۱۹۳۶ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد تعلیم کے سلسلے کو مزید جاری رکھتے ہوئے ۱۹۳۷ ء میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹۴۲ء میں بی۔ اے کی سند بھی حاصل کی ۔اس سال انہیں سرکاری ملازمت بھی مل گئی اور وہ مستقل طور پر دہلی میں رہنے لگے۔
وہ تقریباًچار سال سرکاری محکمہ سپلائی میں کلرک اور کلرک انچارج کی حیثیت سے کام کرتے رہے لیکن اس درمیان ان کی شہرت ملک بھر میں پھیل چکی تھی اور وہ کل ہند پیمانے کے بڑے بڑے مشاعرے پڑھنے لگے تھے ۔شکیل کی غزلوں نے ملک بھر میں دھوم مچا رکھی تھی جس سے فلم انڈسٹری بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی اور ان کے دوست فلم پروڈیوسر ڈاکٹر عبدالرشید کاردار کی فرمائش بلکہ بے حد اور پیہم اصرار پر شکیل نے سرکاری ۶۰ روپے ماہانہ کی نوکری چھوڑ کر ۴۰۰ روپے ماہانہ کے مشاہرہ پر بمبئی جانا اور وہاں رہ کر فلمی گیت لکھنا منظور کر لیا۔اس طرح ان کی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز ۳؍جون ۱۹۴۶ء کو ہوا۔
شکیل کی شادی ۱۹ برس کی عمر میں ۱۹۳۵ء میں مولوی قیصر حسین کی صاحبزادی سلمیٰ سے ہو گئی تھی جن سے ان کی کئی اولادیں ہوئیں۔ان کے نام اس طرح ہیں-رضیہ،صفیہ،نجمہ ،جاوید اور طارق۔
——
یہ بھی پڑھیں : شبنم شکیل کا یومِ وفات
——
مولانا یعقوب حسین ضیا ء القادری ،نعت و منقبت اور تصوف کے استاد شاعر تھے۔شکیل کے والد کے قریبی دوستوں میں شامل تھے اور شکیل کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ان کا زبردست ہاتھ رہا تھااس لیے ان کے فیض صحبت کا اثر تھا کہ شکیل میں بھی شاعری کا جو فطری ذوق تھا اس کو جلا ملی اور انہوں نے اپنی پہلی غزل ۱۳ برس کی عمر میں ۱۹۲۹ء میں کہی جو اس دور کے بمبئی کے مقامی اخبار’شان ہند‘میں ۱۹۳۰ء میں شائع ہوئی۔شکیل نے چونکہ شرف تلمذ مولانا ضیاء القادری سے حاصل کیا تھا اس لیے ان کی ابتدائی غزلوں میں تغزل اور روایتی شاعری کے ساتھ تصوف کا پرتو بھی صاف نظر آتا ہے۔
علی گڑھ میں داخلہ کے بعدان کے مطالعہ کا ذوق پروان چڑھا ۔وہاں کی شعری فضا ،ادبی ماحول اور آئے دن کی شعری محفلوں کی وجہ سے ان کا حلقۂ شعری اور حلقۂ احباب وسیع ہوتا گیا۔ملک بھر کے شعراء سے ان کا ربط ضبط بڑھنے لگا انہیںایسے شعراء سے بھی ملنے کا موقع ملا جن سے وہ بے حد متاثر تھے اور جن کی شاعری کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ وہ جگر مرادآبادی کے ایک عزیز شاگرد راز مرادآبادی کے توسط سے جگر صاحب سے بھی نیاز حاصل کرنے گئے اور ان کے طرز شاعری خصوصاً رنگ تغزل سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس کے علاو ہ علامہ سیماب اکبر آبادی، بہزاد لکھنوی، نوح ناروی،روش صدیقی،خمار بارہ بنکوی،شوق گلاؤٹی،جام نوائی وغیرہ معروف شعراء کا فیض صحبت بھی شکیل کو حاصل رہا جس سے ان کے ذوق شعری میں ترقی ہوئی ،ان کے کلام میں نکھار آیا اور تجربات و مشاہدات کی دنیا وسیع ہوئی جس کا اثر بجا طور پر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتا ہے۔
کتنے ہی شعراء تھے جو عروس البلادبمبئی پہنچ کر اور فلمی دنیا سے وابستہ ہو کر اپنی شاعری کا وہ مزاج برقرار نہ رکھ سکے جو ان کی شاعری کی پہچان اور علامت تھا لیکن شکیل کا معاملہ جدا تھا ۔انہوں نے مقبول عام اور سدا بہار گیت لکھنے کے علاوہ اعلیٰ معیار کی غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں۔انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور اپنے تخلیقی معیار کو دولت کے حصول پر قربان نہیں کیا اور کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ان کے شعری سرمایہ میں غزلیں،قطعات،سلام،نظمیں،حمد،نعت ،گیت وغیرہ کئی چیزیں شامل ہیں۔
فلمی گیتوں میں بھی شکیل نے قلم کے خوب خوب جوہر دکھائے ۔انہوں نے گیت لکھنے کی ابتدا کی تو ایسے شاندار گیت لکھے کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا گھر اور گلی و کوچہ ہو جہاں شکیل کے نغموں نے لوگوں کو مسحور اور جھومنے کے لیے مجبور نہ کر دیا ہو بلکہ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگاکہ ان کے درد بھرے اور رومانی جذبات سے لبریز نغمے آج بھی لوگوں کو جھومنے اور رومانی و خیالی دنیا میں پہنچا دینے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔
شکیل کا شعری ذوق فطری تھا لیکن ان کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ابتدا میں ادبی و شعری ماحول بھی ایسا نصیب ہوا جس سے ان کی ذات و شخصیت میں چھپے ہوئے جوہر جلد ہی نمایاں ہو گئے ۔انہوں نے ذاتی تجربات و مشاہدات کو ایسا شعری پیکر عطا کیا کہ لوگوں کو ان کا غم اور دردوالم اپنا محسوس ہونے لگا۔انہوں نے زندگی سے جڑے ہوئے جذبات اور مسائل کی نمائندگی کی اور اپنی فکر اور اپنے شعری رجحان کی بابت فرمایا:
——
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں
——
وہ اپنی شاعری کے بارے میں یہ بھی کہتے تھے:’’میں نے اپنی شاعری میں قدیم و جدید دونوں رنگوں کا امتزاج پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
خدا نے ان کو دلکش ترنم سے نوازا تھااس لیے وہ مشاعروں میں خوب دادوتحسین حاصل کرتے رہے۔ان کا شمار اردو کے ان شعرا میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی شہرت و ترقی کی منزلوں کو چھو لیا تھا۔انہیں ایک یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ ان کی شاعری اور ان کے گیتوں نے ان لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا جو اردو سے ناواقف اور ناآشنا تھے۔ان کی زبان کی چاشنی اور نغمگی لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دیتی تھی اور ان کی شاعری کی تاثیردل ودماغ پر آج بھی اسی طرح اثر انداز ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : تاج سعید کا یوم پیدائش
——
غزل کے بارے میں شکیل کا نظریہ بڑا واضح اور دو ٹوک تھا۔وہ کہتے ہیں:
’’عموماً غزل کے شعراء کا نظریۂ شاعری مبہم اور غزل کی شاعری میں مقصدیت کا عنصر بہت کم ہوتا ہے لیکن جدید غزل گو شعراء نے اس روایت سے انحراف کرکے ثابت کر دکھایا ہے کہ غزل کو مقصدی شاعری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔میں جدید غزل کا قائل ہوتے ہوئے بھی روایت کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔روایت اور تجربے کے تال میل ہی سے غزل کا رنگ روپ نکھر سکتا ہے۔میں ترقی پسند ہوں نہ رجعت پسند، بس شاعر ہوں۔‘‘
انسان کی قسمت اگر ساتھ دے تو اسے وہ چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں جو اس کی شہرت،ترقی اور ناموری میں ممدومعاون بنتی ہیں ۔شکیل کو بھی کئی ایسی چیزیں حاصل تھیں جن سے ان کی کامیابی کی راہیں ہموار اور استوار ہوتی گئیں۔ان میں بدایوں جیسے شہر کی علم و ادب سے معمور فضا ،گھر کا شعری و ادبی ماحول،علی گڑھ کی تعلیم ،اردو کے معروف استادوں اور علمائے ادب کا فیض صحبت ،مشہور و مقبول شعراء کی ہم نشینی باذوق سامعین و قارئین اور مخلصین کا حلقہ وغیرہ ۔
اس کے علاوہ ذہانت و فطانت بھی ان کے اندر موجود تھی۔اس لیے کامیابیوں کو ان کے قدم چومنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور اس طرح شکیل نے اپنی زندگی میں وہ شہرت پائی جس کی تمنا ہر شاعر کے دل میں ہوتی ہے۔ان کی زندگی میں ہی اعلیٰ پیمانے پر ان کے کئی یادگار جشن بھی منائے گئے۔
شکیل کی غزلوں کے کئی اشعار نے ایسی شہرت پائی کہ وہ عوام میں مقبولیت کے باعث ضرب المثل کے درجے تک پہنچ گئے ۔ملک میں شعروادب سے کم سے کم ادبی ذوق رکھنے والا بھی کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جس نے شکیل کا یہ شعر نہ پڑھا ہو:
——
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
——
ان کی غزلوں اور نظموں کے بہت سے اشعار اس قدر مقبول و معروف ہوئے کہ گویا زبان زد خاص و عام ہو گئے:
——
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق کے ہر گام پہ رونا آیا
——
میں ہر غم سے الجھتا جا رہا ہوں اس توقع پر
کوئی ان میں سے شاید زندگی کو راس آجائے
——
یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں
ناحق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۂ فطرت کا دعویٰ
آنکھوں میں نہیں ہے بے تابی دیدار کی باتیں کرتے ہیں
یہ اہل قلم،یہ اہل ہنر ،دیکھو تو شکیل ان سب کے جگر
فاقوں سے ہیں دل مرجھائے ہوئے دلدار کی باتیں کرتے ہیں
——
شکیل نے اپنی فطری شاعری اور فلمی شاعری کے فرق کو واضح کرتے ہوئے بڑے دل چسپ انداز میں اظہار رائے کیا ہے:
’’ہر چند کہ فلمی دنیا میں شامل ہونے اور ادبی ماحول سے دور رہنے کے بعد ایک فطری شاعر کا ذوق لطیف مجروح ہونا چاہیے۔پھر بھی میںیہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے حتی الامکان علمی فراست پر فلمی حماقت کو مسلط نہ ہونے دیا۔فلمی ماحول نے میری شاعری پر یہ اثر ڈالا کہ میں ذاتی طور پر تو شاعر تھا ہی لیکن پیشے کے لحاظ سے بھی شاعر ہو گیا اور اس طرح میری مشق سخن بڑھ گئی…اس ماحول میں رہ کر میں نے جو غزلیں کہی ہیں ان کو ادبی حلقوں نے کافی سراہا ہے اور عوام نے بھی، کیونکہ آسان الفاظ میں بڑی بات کہنے کا سلیقہ میں نے فلمی دنیا میں آکر سیکھا۔‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : اے شہ انس و جاں جمال جمیل
——
شکیل نے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جیسے حمداورنعت، سلام اورغزل،نظم وقطعہ وگیت وغیرہ کے ذریعہ انہوں نے اپنے دل کی بات عوام و خواص تک پہنچائی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج کا ہر طبقہ ان کے کلام سے محظوظ اور مسرور ہوا۔ان کی حمدونعت میں قلبی و روحانی خلوص اور جوش و جذبہ بڑی شدت سے نمایاں ہے۔ایک حمد میں وہ پردگار عالم سے اپنی محبت کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں:
——
یہ زمیں آسماں، تیرے صدقے
میں ہی کیا، دو جہاں تیرے صدقے
ہر نفس ہر خیال تجھ پہ نثار
ہر نظر، ہر زباں تیرے صدقے
نقش ہے لوح دل پر تیرا کلام
رحمت جاوداں تیرے صدقے
——
حمد شریف کی طرح ان کی مقدس نعتوںکا بھی ہر مصرعہ حضور پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہے۔یہاں بطور نمونہ دو اشعار پیش کیے جاتے ہیں:
——
موت ہی نہ آجائے کاش ایسے جینے سے
عاشق نبی ہوکر دور ہوں مدینے سے
آنکھ بند کرتے ہی ہم تو اے شکیل اکثر
چل دئیے مدینے کو آگئے مدینے سے
——
شکیل کو ایک نہایت مشکل فن یعنی مادۂ تاریخ نکالنے پر بھی قدرت حاصل تھی لیکن انہوں نے اس طرف بہت کم توجہ دی ۔بہرحال بطور نمونہ ذیل میں اقبال کی وفات پر شکیل کا مادۂ تاریخ پیش کیا جاتا ہے:
——
تاریخ انتقال رقم کیجیے شکیل
بدر کمال و عزت و اقبال اٹھ گیا
——۔۔ ۱۳۵۷ھ——۔۔۔۔
——
شکیل نے اپنے نغموں سے جس طرح لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کیا اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے درد،نائک،میلہ،انوکھی ادا،دل لگی دلاری چاندنی رات جادو،داستان،بابل،آن،دیدار،بیجو باورا،اڑن کھٹولہ،امر،شباب،مدر انڈیا،سو ہنی مہیوال،کوہ نور،پردیس،چودھویں کا چاند،گھونگھٹ اور مغل اعظم جیسی عظیم الشان فلموں کے بے حد خوب صورت نغمے لکھے۔
یہ نغمے آج بھی بے حد مقبول ہیں اور جنہیںشاید کسی بھی دور میں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔مغل اعظم کے ریلیز ہونے کے بہت بعد تک شکیل کے نغموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی چائے کے ہوٹل پر بھی ریڈیو میں وہ نغمے گونجتے تو لوگوں کی بھیڑ وہاں جمع ہو جاتی ۔لتا کی آواز،نوشاد کا سنگیت اور شکیل کے نغمے جو غضب نہ ڈھاتے کم تھا:
——
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
گھڑی بھر کو ترے نزدیک آکر ہم بھی دیکھیں گے
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
ترے قدموں میں سر اپنا جھکا کر ہم بھی دیکھیں گے
بہاریں آج پیغام محبت لے کے آئی ہیں
بڑی مدت میں امیدوں کی کلیاں مسکرائی ہیں
غم دل سے ذرا دامن بچا کر ہم بھی دیکھیں گے
——
شکیل نے غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی خاصی تعداد میں کہی ہیںاور ان میں کئی طرح کی نظمیں شامل ہیں، تاثراتی بھی اور موضوعاتی بھی ۔انہوں نے کئی مشاہیر ادب کے انتقال پر بھی تعزیتی قطعے اور نظمیں کہیں۔ان کی ایک نظم کا عنوان ’یاد ایامے‘ ہے۔اس کے چند اشعاراس طرح ہیں:
——
آغاز محبت میں اکثر وہ دور بھی آیا کرتے تھے
میں ان میں سمایا کرتا تھا وہ مجھ میں سمایا کرتے تھے
جب جوروستم کے چہرے پر تھا لطف و عنایت کا غازہ
جب دل کو بھی کرنا مشکل تھا جذبات دروں کا اندازہ
جب پھول سے نازک دل پہ مرے تھا زخم نظر تازہ تازہ
اک بات تبسم فرما کر سو بار ہنسایا کرتے تھے
——
شکیل نے شہید کربلا سید الشہداء عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار اپنے سلاموں میں اس طرح کیا ہے:
——
سلام ان پر شہید کربلا کہتے ہیں سب جن کو
ضیائے قلب و عین مصطفی کہتے ہیں سب جن کو
جنہوں نے جان دے کر کر دیا اسلام کو زندہ
ہے جن کی یاد سے اب تک خدا کا نام تابندہ
——
شکیل کے کلام میں کئی قطعات بھی ملتے ہیںجو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ذیل میں ان کے دو قطعات پیش کیے جاتے ہیں:
——
جو ایک نظر کی جنبش سے سب دل کی بستی لوٹ گیا
وہ جس سے آنکھیں چار ہوئیں اور ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا
دل اس کا بھی ہے میرا بھی،ہے فرق شکیل اتنا لیکن
وہ پتھر ہے جو ثابت ہے ،یہ شیشہ تھا جو ٹوٹ گیا
——
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
یوں دیجیے فریب محبت کہ عمر بھر
میں زندگی کو یاد کروں زندگی مجھے
——
شکیل کو ۱۹۶۴ء میں ذیا بطیس (شوگر)اور تپ دق جیسے موذی امراض نے آگھیرا تھا اور کئی سال کی بیماری کے بعد آخر ۲۰؍اپریل۱۹۷۰ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ان کی وفات شاعری اور فلم دونوں کے لیے سانحۂ عظیم تھی۔شکیل کی وفات پر ملک بھر میں رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔متعدد تعزیتی نشستیں ہوئیں ۔شعراء نے خراج عقیدت پیش کیا ۔ان کی وفات پر کئی رسائل و جرائد نے خاص نمبر اور خصوصی گوشے شائع کیے۔ان میںہماری آوازبدایوں،گل کدہ سہسوان اور صبح امید بمبئی کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔
شکیل سے متعلق جو کتاب ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی وہ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی کتاب’شکیل بدایونی کی رومانی شاعری‘تھی۔ڈاکٹر عرفان عباسی نے ’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘کی پہلی جلد میں پانچ صفحات پر مشتمل شکیل کا ایک جامع خاکہ مع نمونہ کلام تحریر فرمایا۔یہ کتاب ۱۹۸۲ ء میں شائع ہوئی تھی۔ڈاکٹر یوسف حسین نے ’اردو غزل ‘میں شکیل کا تعارف نمونہ کلام کے ساتھ پیش کیا۔نریش کمار شاد کا لیا ہوا شکیل کا ایک انٹرویو ۱۹۶۵ء میں ماہنامہ’پاسبان‘چنڈی گڑھ میں شائع ہوا۔طالب دہلوی کی ’یہ تھی دلی‘اور بال مکند عرش ملسیانی کی ’ہست وبود‘میں بھی شکیل کا تذکرہ موجود ہے۔
شکیل کے کئی شعری مجموعے دہلی،لکھنؤ ،بمبئی،لاہور،کراچی وغیرہ شہروں سے شائع ہوئے جن کی تفصیلات پیش کرنے سے قبل ضروری معلوم دیتا ہے کہ خود شکیل بدایونی کے الفاظ ان کی خود نوشت سے پیش کر دیے جائیں۔اس تحریر سے ان کی کتابوں کی اشاعت سے متعلق ضروری معلومات حاصل ہوتی ہیں۔شکیل اپنی خود نوشت میں تحریر فرماتے ہیں:
——
یہ بھی پڑھیں : محشر بدایونی کا یومِ پیدائش
——
’’میرا پہلا مجموعہ کلام ’رعنائیاں‘۱۹۴۴ ء میں دہلی کے عزیزیہ کتب خانہ کے مالک مولوی سمیع اللہ قاسمی مرحوم نے شائع کیا ۔اس کے بعد یہی مجموعہ اور ایک نیا مجموعہ کلام ’صنم و حرم‘بمبئی کے تاج آفس بک ڈپو نے شائع کیا ۔یہ مجموعے کتابی سائز میںہیں ۔میرے نعتیہ کلام کا مجموعہ’نغمۂ فردوس‘بھی مکتبہ سلطانی بمبئی نے شائع کیا۔میرے دو اور مجموعہ ہائے کلام ’رنگینیاں‘اور ’شبستاں‘نیا ادارہ لاہور نے بڑے سائز میں اور ٹائپ کے حروف میں شائع کیے۔میرا ایک ضخیم مجموعہ ’کلیات شکیل‘کے نام سے اعوان پبلشرز کراچی نے میری اجازت کے بغیر شائع کیا ۔میرے مندرجہ ذیل انتخاب کلام پنجابی پستک بھنڈار دہلی نے گاہ بگاہ شائع کیے۔ان کے نام یہ ہیں جو پاکٹ سائز میں شائع ہوئے:رعنائیاں،رنگینیاں،صنم و حرم،دور کوئی گائے اور نثر میں شکیل الرحمٰن کی لکھی ہوئی کتاب ’شکیل بدایونی کی رومانی شاعری‘جو کتابی سائز اور پاکٹ سائز دونوں میں شائع ہوئی۔آج سے ڈیڑھ سال قبل لکھنؤ کے مکتبہ دین و ادب نے میرا نعتیہ کلام’نغمۂ فردوس‘شائع کیا۔میری غزلوں کے کچھ مجموعے ہندی میں بھی شائع کیے گئے ہیں جو پاکٹ سائز میں ہیں۔ان ہندی کتابوں کے علاوہ میر اایک مجموعہ کلام ’شکیل بدایونی اور ان کی شاعری‘ہندی میں راج پال اینڈ سنز دہلی نے بھی کتابی سائز میں شائع کیا ہے۔‘‘
مولوی یوسف حسین قادری نے بھی شکیل بدایونی کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’زیبائیاں‘۱۹۸۶ء میں کراچی سے شائع کیا تھا۔یہ مجموعہ محض ۱۲۸ صفحات پر مشتمل تھا اور اس میں شکیل کا بیشتر وہ کلام شامل تھا جو اس سے پہلے کسی شعری مجموعہ یا انتخاب میں شائع نہیں ہوا تھا۔اسی ادارہ نے ۱۹۸۷ء میں شکیل کے نعتیہ مجموعہ کلام ’نغمۂ فردوس ‘ کو بھی شائع کیا تھا۔ رام پوررضا لائبریری میں بھی شکیل کی کئی کتابیں موجود ہیں ۔:
شکیل بدایونی کی شاعری کی ایک خاص بات اس کی مسرت آگیں کیفیت اور حسن کا اظہار ہے ۔ان کی شاعری میں نہ گریہ و زاری ہے ،نہ شکوہ و شکایت،نہ رومانی شاعروں کی طرح خیال آرائی اور نہ تصور آفرینی و الفاظ کا زور ۔ان کی شاعری ایسی عشقیہ شاعری ہے جس میں شاعر کے محسوسات ،جذبات اور تجربات سب کے عکس دکھائی دیتے ہیں۔
——
منتخب کلام
——
چھپ کر نگاہِ شوق سے دل میں پناہ لی
دل میں نہ چھپ سکے تو رگِ جاں میں آ گئے
——
جلوے سما ہی جائیں گے آئے تو کوئے دوست
دامن سے بچ کے جائے گی گردِ سفر کہاں
——
لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے
محبت آئینہ ہو چکی تھی ، وجودِ بزمِ جہاں سے پہلے
——
روشنی سایۂ ظلمات سے آگے نہ بڑھی
زندگی شمع کی اک رات سے آگے نہ بڑھی
اپنی ہستی کا بھی انسان کو عرفاں نہ ہوا
خاک پھر خاک تھی اوقات سے آگے نہ بڑھی
——
پنہاں ہے قہقہوں میں صدائے شکستِ دل
دنیا اسی کا نام ہے پروردگار ! کیا ؟
——
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم
——
ہنوز گردشِ دورِ حیات باقی ہے
گزار لیجیے تھوڑی سی رات باقی ہے
——
ہنستی قضا مری ، مجھے مایوس دیکھ کر
اچھا ہوا کہ میں ترے در تک پہنچ گیا
——
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائر نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
جو نقاب رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جان ہستی
جو زبان پر نہ آئے جو کلام تک نہ پہنچے
——
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
——
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
مرا کفر حاصل زہد ہے مرا زہد حاصل کفر ہے
مری بندگی وہ ہے بندگی جو رہین دیر و حرم نہیں
مجھے راس آئیں خدا کرے یہی اشتباہ کی ساعتیں
انہیں اعتبار وفا تو ہے مجھے اعتبار ستم نہیں
وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
نہ وہ شان جبر شباب ہے نہ وہ رنگ قہر عتاب ہے
دل بے قرار پہ ان دنوں ہے ستم یہی کہ ستم نہیں
نہ فنا مری نہ بقا مری مجھے اے شکیلؔ نہ ڈھونڈھئے
میں کسی کا حسن خیال ہوں مرا کچھ وجود و عدم نہیں
——
تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے
بے تابئ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے
آنکھوں میں چھلکتے ہیں آنسو دل چپکے چپکے روتا ہے
وہ بات ہمارے بس کی نہ تھی جس بات کی ہمت کر بیٹھے
غم ہم نے خوشی سے مول لیا اس پر بھی ہوئی یہ نادانی
جب دل کی امیدیں ٹوٹ گئیں قسمت سے شکایت کر بیٹھے
——
رقاصۂ حیات سے
——
پھولوں پہ رقص اور نہ بہاروں پہ رقص کر
گلزار ہست و بود میں خاروں پہ رقص کر
ہو کر جمود گلشن جنت سے بے نیاز
دوزخ کے بے پناہ شراروں پہ رقص کر
شمع سحر فسون تبسم، حیات گل
فطرت کے ان عجیب نظاروں پہ رقص کر
تنظیم کائنات جنوں کی ہنسی اڑا
اجڑے ہوئے چمن کی بہاروں پہ رقص کر
سہمی ہوئی صدائے دل ناتواں نہ سن
بہکی ہوئی نظر کے اشاروں پر رقص کر
جو مر کے جی رہے تھے تجھے ان سے کیا غرض
تو اپنے عاشقوں کے مزاروں پہ رقص کر
ہر ہر ادا ہو روح کی گہرائیوں میں گم
یوں رنگ و بو کی راہ گزاروں پہ رقص کر
تو اپنی دھن میں مست ہے تجھ کو بتائے کون
تیری زمیں فلک ہے ستاروں پر رقص کر
اس طرح رقص کر کہ سراپا اثر ہو تو
کوئی نظر اٹھائے تو پیش نظر ہو تو
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات