آج معروف شاعر سکندر علی وجد کا یومِ وفات ہے۔

——
نام سکندر علی اور تخلص وجد تھا۔
22 جنوری 1913ء کو ویجاپور، ضلع اورنگ آباد(حیدرآباد ،دکن) میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہوئی اور وہیں ۱۹۳۰ء میں شاعری کا آغاز ہوا۔
۱۹۳۵ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔
۱۹۳۸ء میں حیدرآباد سول سروس کے امتحان میں کام یاب رہے۔
۱۹۳۸ء سے ۱۹۳۹ء تک عدالتی کام کی ٹریننگ کے سلسلے میں سیتا پور(یوپی) میں رہے۔ بعد ازاں اورنگ آباد میں اسپیثل آفیسر، ڈیپارٹمنٹل انکوائریز رہے۔
۱۶؍ جون ۱۹۸۳ء کو اورنگ آباد میں وفات پاگئے۔
’’لہو ترنگ‘‘ کے نام سے ان کی شاعری کی کتاب چھپ گئی ہے۔
’’بیاض مریم‘‘ بھی ان کا شعری مجموعہ ہے
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اور ادیب گویا جہان آبادی کا یوم پیدائش
——
اقتباس از سکندر علی وجد شاعر و شخص ، مصنف اختر جہاں
شائع شدہ 1991 ، متفرق صفحات
——
ابتدا میں سکندر علی وجد اقبالؔ سے بڑی حد تک متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔ دوسرے شعرا کی نسبت ان کی غزلوں میں اقبالؔ کا وہی رنگ نکھرا ہوا ملتا ہے جو بانگِ درا کی غزلیات میں پایا جاتا ہے ۔
چھوٹی بڑی بحروں میں مترنم و مسلسل تغزل سے بھر پور غزلیں وہی اپروچ رکھتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وجدؔ خود کو اقبالؔ کے پیروؤں میں شامل کرنا چاہتے تھے ۔
نظرؔ حیدر آبادی اپنی تصنیف ” اقبال اور حیدر آباد ” میں اس طرح تحریر فرما ہیں :
” اقبال کی شاعری سے وہ (وجد ) اس درجہ متاثر رہے ہیں کہ اقبالؔ کو اگر ان کا روحانی مرشد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ”
چند اشعار جو اقبال کی ترنگ میں رنگے ہوئے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
——
عجب آرزو ہے انوکھی طلب ہے
تجھی سے تجھے مانگنا چاہتا ہوں
——
تھوڑی سی خودی سے گر لے کام
خود شمع پھرے آ کر گردِ پروانہ
——
نگاہِ منتظر آفتاب تازہ ہے
عروس صبح ستاروں کی سوگوار نہیں
——
سکندر علی وجد نے غزل کو سدا بہار صنف کہا ہے جو ہر وقت ہر ماحول اور ہر معاشرے میں حیات و کائنات کا ساتھ دیتی ہے ۔
ہر ظرف میں ڈھلتی اور ہر رنگ سے ہم آہنگ ہوتی ہے ۔
ہر قسم کے فکر و فن کو آغوش میں لیتی ہے ۔ چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :
——
آتش کدۂ دل سے رواں موجِ سخن ہے
ہر شعر شرارہ ہے مرے خونِ جگر کا
——
جب سے حرفِ وفا دل پہ نازل ہوا
شاعری زندگی کی زباں بن گئی
——
فکر کی آگ میں بنتا ہے سخن
حرف پر سوزِ دعا ہو جیسے
ہر غزل میں یہی محسوس ہوا
میں نے کچھ ان سے کہا ہو جیسے
——
سکندر علی وجد کی غزلوں میں سادگی اور پرکاری دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں سادگی بھی ایسی کہ جس پر ہزار تکلف نثار ہو جائے ، ابہام و ابلاغ کے مسائل گویا ہے ہی نہیں ۔ دھیمے سروں اور مترنم بحروں اور سیدھی سادی عام فہم زبان میں تخیلات کو متغزل کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے ان کے اکثر اشعار سہل ممتنع کے زمرے میں آتے ہیں ۔
——
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
——
میں ہی بے بس نہیں دل کے ہاتھوں
تو بھی مجبور نظر آتا ہے
——
رازِ حقیقت کون بتائے
کھو جاتا ہے پانے والا
——
موت کتنی ہی شاندار سہی
زندگی کا مگر جواب نہیں
——
سخت حالات کے اندھیرے میں
وقت سے زور آزمائی ہے
——
وجد کے تقریباََ ہر عہد کی غزل رومانیت کی لذیذ چاشنی سے معمور ہے ۔ جن میں حسن و عشق کے علاوہ فطرت کی عکاسی بھی ملتی ہے ۔
ان کی غزلیات میں جہاں کلاسیکیت کا رنگ گہرا ہے وہاں بیشتر منظومات رومانیت کی آئینہ دار ہیں ۔
ان کا رومانی شعور کلاسیکیت کے جلو میں پروان چڑھتا ہے ۔
ان کی شاعری میں فطرت کی عکاسی جابجا یوں ملتی ہے کہ انہیں شاعرِ فطرت سے موسوم کیا جا سکتا ہے :
——
مسکراتے ہیں پھول کانٹوں میں
ہائے کیا طرزِ دلربائی ہے
——
کہیں موسمِ بہاراں ، کہیں زندگی غزل خواں
ترے حسن کی بدولت ، مرے شعر کے اثر سے
——
وہ چہرہ منور وہ آنکھیں شرابی
شب ماہ میں پھول جیسے کنول کے
——
وجدؔ کی غزلیں لفاظی یا قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی کی دلیل ہیں ۔ چنانچہ غزلوں میں فلسفے کے پیچیدہ مسائل کو وجدؔ نے سادہ اور سلیس زبان میں جس خوبی سے پیش کیا ہے وہ اپنا جواب آپ ہے ۔
——
ایک ہی ذات ہے موجود ، زماں ہے نہ مکاں
دیکھنے کو یہ طلسمِ مہ و سال اچھا ہے
——
جہاں حد ہے احساس اور آگہی کی
وہاں تک خودی ہے وہاں تک خدا ہے
——
علم نے یوں تو بہت عقدۂ مشکل کھولے
راز گنجینۂ فطرت کے نہاں اور بھی ہیں
——
منتخب کلام
——
خدا شاہد ہے میرے بھولنے والے بہ جز تیرے
مجھے تخلیق عالم رائیگاں معلوم ہوتی ہے
——
اہل ہمت کو بلاؤں پہ ہنسی آتی ہے
ننگ ہستی ہے مصیبت میں پریشاں ہونا
——
دل کی بستی عجیب بستی ہے
یہ اجڑنے کے بعد بستی ہے
——
تمیز خواب و حقیقت ہے شرط بیداری
خیال عظمت ماضی کو چھوڑ حال کو دیکھ
——
بہار آئے تو خود ہی لالہ و نرگس بتا دیں گے
خزاں کے دور میں دل کش گلستانوں پہ کیا گزری
——
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
——
صبا نے دیر تک چوما ہے شاید
چمن میں عارضِ گل پر نمی ہے
——
نشانِ شمعِ محفل ہے نہ خاکِ اہلِ محفل ہے
سحر اب پوچھتی ہے رات پروانوں پہ کیا گزری
——
ساحل سے موج روٹھ کر واپس چلی گئی
دیوانہ وار دولتِ طوفاں لیے ہوئے
——
زمانے کو فرصت نہیں گفتگو کی
عروسِ سخن پر اشاروں کے دن ہیں
——
کہیں فکرِ دنیا ، کہیں فکرِ عقبیٰ
کہاں آ گئے میکدے سے نکل کر
——
ترے آتے ہی سب دنیا جواں معلوم ہوتی ہے
خزاں رشک بہار جادواں معلوم ہوتی ہے
جنون سجدہ ریزی کا یہ عالم ہے معاذ اللہ
ہر اک چوکھٹ ترا ہی آستاں معلوم ہوتی ہے
اسے ہر اہل دل پہروں مزے لے لے کے سنتا ہے
مری بپتا حدیث دلبراں معلوم ہوتی ہے
کٹے ہیں دن بلاؤں کے سہارے جن اسیروں کے
انہیں بجلی بھی شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے
مآل زندگانی کی حقیقت کھل گئی جب سے
کسک دل کی متاع دو جہاں معلوم ہوتی ہے
خیال عیش کی پرچھائیں سے بھی دل لرزتا ہے
نگاہ حسن اب کیوں مہرباں معلوم ہوتی ہے
خدا شاید ہے میرے بھولنے والے بجز تیرے
مجھے تخلیق عالم رائیگاں معلوم ہوتی ہے
کسی کی جستجو میں وجدؔ اس منزل پہ پہنچا ہوں
جہاں منزل بھی گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نبی کے دم سے ہی یہ ہست و بود قائم ہیں
——
جب وہ مسرور نظر آتا ہے
ہر طرف نور نظر آتا ہے
میں تو مے خوار ہوں تو کیوں ساقی
نشے میں چور نظر آتا ہے
قرب سے ہاتھ اٹھایا میں نے
تو بڑی دور نظر آتا ہے
میں ہی تنہا نہیں دل کے ہاتھوں
تو بھی مجبور نظر آتا ہے
خاکساری کو چھپانے کے لئے
وجدؔ مغرور نظر آتا ہے
——
جن کی آنکھوں میں تھا سرور غزل
ان غزالوں کی یاد آتی ہے
سادگی لا جواب تھی جن کی
ان سوالوں کی یاد آتی ہے
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
وجدؔ لطف سخن مبارک ہو
با کمالوں کی یاد آتی ہے
——
بیابانوں پہ زندانوں پہ ویرانوں پہ کیا گزری
جہان ہوش میں آئے تو دیوانوں پہ کیا گزری
دکھاؤں تجھ کو منظر کیا گلوں کی پائمالی کا
چمن سے پوچھ لے نوخیز ارمانوں پہ کیا گزری
بہار آئے تو خود ہی لالہ و نرگس بتا دیں گے
خزاں کے دور میں دل کش گلستانوں پہ کیا گزری
نشان شمع محفل ہے نہ خاک اہل محفل ہے
سحر اب پوچھتی ہے رات پروانوں پہ کیا گزری
ہمارا ہی سفینہ تیرے طوفانوں کا باعث تھا
ہمارے ڈوبنے کے بعد طوفانوں پہ کیا گزری
میں اکثر سوچتا ہوں وجدؔ ان کی مہربانی سے
یہ کچھ گزری ہے اپنوں پر تو بیگانوں پہ کیا گزری
——
حسیں یادوں سے خلوت انجمن ہے
خموشی نغمہ زار صد سخن ہے
نگار گل بدن گل پیرہن ہے
دھنک رقصاں چمن اندر چمن ہے
مری دیوانگی پر ہنسنے والو
یہاں فرزانگی دیوانہ پن ہے
مبارک رہرو راہ تمنا
وطن غربت میں ہے غربت وطن ہے
ڈرا سکتے نہیں خونیں اندھیرے
نگاہ بے دلاں ظلمت شکن ہے
خوشی ارزاں ہے بازار جہاں میں
بہائے غم متاع جان و تن ہے
ازل سے وجدؔ ہر قطرے کے دل میں
قیامت خیز طوفاں موجزن ہے