اردوئے معلیٰ

Search

آج پاکستان کے معروف شاعر سید مبارک شاہ کا یومِ پیدائش ہے ۔

سید مبارک شاہ (پیدائش: یکم جنوری 1961ء – وفات: 27 جون 2015ء)
——
مکمل نام: سید محمد مبارک شاہ
تخلص: مبارک
تاریخِ پیدائش: یکم جنوری 1961
مقامِ پیدائش: ڈھلی ڈھگٹال، چکوال، پنجاب، پاکستان
تاریخِ وفات: 27 جون 2015
مقامِ وفات: راولپنڈی
تدفین: قبرستان ڈھیری حسن آباد، راولپنڈی
عمر: 55 سال
والد کا نام: سید محمد ولایت شاہ
تعلیمی سفر: ایم اے سیاسیات، سی ایس ایس
شعری وابستگی: جوانی سے
——
سید مبارک شاہ اردو شاعری کا ایک خوبصورت نام ہیں جنہوں نے اپنے اشعار سے شعر و ادب کے مداحوں کو متاثر کیا اور خوب داد وصول کی- وہ خصوصی طور پر خطہِ پوٹھوہار کے سر بر آوردہ اردو شاعروں میں شمار ہوۓ- اپنی مختصر زندگی میں انہوں نے لاجواب شاعری تخلیق کی اور اپنے فن کا خزانہ اپنی معروف کتابوں کی صورت میں پیچھے چھوڑ گئے-
سید مبارک شاہ کی پیدائش یکم جنوری 1961 کو چکوال کے قصبہ ڈھلی ڈھگٹال میں ہوئی- ان کے والد کا نام سید محمد ولایت شاہ تھا جن کا انتقال 2001 میں ہوا-
مبارک شاہ نے 1976 میں ایف جی ٹیکنیکل اسکول راولپنڈی سے میٹرک کیا- گورڈن کالج راولپنڈی سے 1978 میں انٹرمیڈیٹ اور 1980 میں بی اے کیا- اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1983 میں سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی- 1985 میں انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور اسی سال 25 اکتوبر کو انہوں نے شادی کی- ان کے ہاں ایک بیٹی اور دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی-
——
یہ بھی پڑھیں : شیر شاہ سید کا یوم پیدائش
——
مبارک شاہ 1984 میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر واپڈا میں تعینات ہوۓ اور 1986 میں سی ایس ایس کی بنیاد پر سول سروسز آف پاکستان میں شامل ہوۓ- پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں گریڈ 17 سے 20 تک مختلف مناصب پر کئی شہروں بشمول لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، واہ، تربیلا، کندیاں، گدوال وغیرہ میں خدمات سرانجام دیں- انہوں نے سعودیہ، برطانیہ، تھائی لینڈ اور فلپائن کے سفر کئے-
27 جون 2015 کو مبارک شاہ کا انتقال راولپنڈی میں ہوا- انھیں راولپنڈی میں ہی ڈھیری حسن آباد کے قبرستان میں دفن کیا گیا-
——
سید مبارک شاہ کی وفات پہ موقع پہ لکھا گیا عرفان شہزاد کا ایک مضمون
——
27 جون ،2015 کو یہ اطلاع ملی کہ نامورصوفی مزاج شاعر سید مبارک شاہ صاحب علالت کے باعث اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔ شاہ صاحب سے میری پہلی ملاقات دسمبر 2013 میں ان کے گھر، واقع لالہ زار ، راولپنڈی میں ہوئی۔ ان کی رہائش گاہ میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ، لیکن میں ان سے واقف نہ تھا۔ ان کی شاعری سے تعارف ایک شاعر دوست، شہباز رسول فائق کے توسط سے ہوا۔ ان کے اکثر اشعار نے مجھے چونکا کر بلکہ ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی شاعری میں مجھے اپنے دبے ، تلملاتے ہوئے خیالات اور جذبات کا پرتو نظر آیا۔ وہ جو میں سوچتے ہوئے بھی گھبراتا تھا وہ ان کے ہاں مسطور بلکہ منظوم مل رہا تھا ۔ ان کا شعر
——
بتا ان اہل ایماں کی سزا رکھی ہے کیا تو نے
خداوندا جو تجھ کو احتیاطا ً مان لیتے ہیں
——
تو میرا وردِ زبان بن گیا ۔ جس محفل میں بھی ہوتا میں یہ شعر اکثر اپنے احباب کو سناتا اور وہ سب داد دینے سے زیادہ سوچ میں پڑ جاتے اور یہی اس شعر کی کامیابی تھی۔ میری آشفتہ سری ان کے ان جیسے اشعار سے ہم آہنگ تھی:
——
ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسئہ طلب
جواب کیا دیا گیا ،سوال کر دیا گیا
ترا کرم ہے زندگی تو پھر وہ لوگ کون ہیں
کہ جن پہ یہ کرم ترا وبال کر دیا گیا
ہمیں تری عنائتوں سے ہیں بڑی شکائتیں
ہمیں ہمارا رزق بھی اچھال کر دیا گیا
——
اس شعر میں ‘ ہمارا رزق’ کہ کر شاہ صاحب نے انسانی خود داری کو کس ناز سے خدا کے مقابل مقابل لا کھڑا کیا ہے یہ ان کا ہی کمال ہے۔ جب یہ شعر پڑھا :
——
کتنے پہرے سوچ پر ہیں دوستو
اور پھر بھی سوچتا کوئی نہیں
تیرگی حدّ نظر تک تیرگی
اور پھر بھی دیکھتا کوئی نہیں
——
تومیں ان کی شاعری پر فریفتہ ہو گیا۔ شاہ صاحب سے ملاقات ناگزیر محسوس ہوئی۔ اگرچہ میں اہل فکرونظر سے ملاقاتوں کا اتنا خواہاں نہیں ہوں، اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ اہل فکرونظر کی فکرونظر ان کی شخصیت یا کردار سے ہم آہنگ بھی ہو۔ نیز مجھے شخصیت سے زیادہ اس کے کلام سے غرض ہوتی ہے۔ تاہم اپنے فکری مثنی کو پالینے کے بعد اس سے ملاقات کی یہ بے تابی فطری بات تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کو پہلا برقی پیغام بذریعہ موبائل فون ارسال کیا تھا۔ جس میں ،میں نے لکھا تھا کہ آپ کی شاعری مجھے قتل کیے دے رہی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ناموری کے لئے نہیں ، بلکہ اپنے اندر ہونے والی کشمکش کےاظہار کے لیے لکھنے پر مجبور ہیں۔ اس پر ان کا فون مجھے آیا اور مجھے ملاقات کی دعوت دی۔
——
یہ بھی پڑھیں : قیوم نظر کا یومِ پیدائش
——
سید مبارک شاہ سے مل کر میرا وہی حال ہوا جو رشید احمد صدیقی کا علامہ اقبال کو دیکھ کر ہوا تھا۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ گئی تھی۔ ان کی شاعری میں خدا سے جو شکوہ شکایت تھی اس سے مجھے لگا کہ وہ ایک پراگندہ حال، بےزار قسم کے، سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنے والے شاعر ہوں گے ،لیکن وہ نہات نفیس، سلجھے ہوئے انسان تھے ، جو ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔ تب ان کی شاعرانہ عظمت میرے دل میں دو چند ہو گئی ۔ خدا سے ان کا شکوہ ، ان کے ذاتی حالات کی بنا پر نہیں تھا، یہ وہ آفاقی ، انسانی درد تھا جو صرف ایک حساس دل میں قیام منظور کرتا ہے ، کہ
؏ ‘ہر ظرف کہاں ہے اس قابل بن جائے غمِ جاناں کا امیں
شاہ صاحب گویا ‘ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے’ کا عملی اور علمی نمونہ تھے۔
میں نے ان کو اپنے اندازے سے زیادہ گہرا پایا۔ ان کی ساری فکر کا محور خدا تھا۔ وہ اس پر گویا حق الیقین کے ساتھ ایمان رکھتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ بقول ان کے، وہ لڑتے بھی تھے، ناراض بھی ہوتے ، سرگوشیاں بھی کرتے، گلے بھی کرتے، گویا لا ملجاء من الله الا الیه والا حال تھا۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ کر چکا ہوں تو وہ نہایت خوش ہوئے۔ وہ سمجھے تھے کہ میں محض ادبی ذوق کی بنا پر ان کے پاس آیا تھا۔ لیکن علوم اسلامیہ سے میرے تعلق کا سن کر وہ کچھ مطمئن سے ہو گئے کہ میں ان کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا کیونکہ ان کی ساری شاعری قرآن اور تصوف سے کشید کی گئی تھی ۔ چناچہ وہ زیادہ گہرائی سے اپنی شاعری اور اس کے فکری ماخذات (یعنی قرآن اور تصوف خصوصا منصور حلاج) کی وضاحت مجھ سے کرنے لگے۔ اس کے علاہ وہ اپنے دیگر کاموں اور فکری مسائل کا ذکر بھی کرنے لگے۔ وہ ایک کتاب بھی لکھ رہے تھے جن میں اسلامی فقہی اور کلامی مسائل پر اپنی تحقیق لکھ رہے تھے۔ اس کتاب کے تناظر میں مجھے یاد ہے ان کا یہ فرمانا، ‘عرفان، میری اور تمہاری بہت لڑائی ہونے والی ہے’۔ اور میں نہایت مشتاق تھا کہ کب یہ ‘لڑائی ‘ ہوگی مگر افسوس کہ وہ لڑائی کبھی نہ ہوسکی۔
وہ قرآن مجید کا مطالعہ بہت کرتے تھے ، قرآن مجید اور منصور حلا ج کا کلام ہی تھا جن سے وہ اپنی فکرکبھی کشید کرتے تو کبھی اپنا جگر کشید کر کے دیکھتے کہ آیا قرآن اور کلامِ حلّاج ان کے ان خیالات کی موافقت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس ملاقات میں وہ اپنی شاعری اور قرآن کی آیت سے ان کی تطبیق مجھے دکھاتے اور سمجھاتے رہے۔ ان کی شاعری کا تیسرا حوالہ علامہ اقبال کا کلام تھا، جس سے وہ بہت متاثر تھے۔
اگلی ملاقات میں انہوں نے اپنی شاعری اور منصور حلاج کے دیوان سے اس کی مناسبت اور مطابقت مجھے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ منصور حلّاج کا کلام ان کو بہت بعد میں کسی دوست کے توسط سے ملا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حلاج کا کلام پڑھ کر ان کو شدید حیرت ہوئی تھی کیونکہ منصور اور شاہ صاحب کے کلام میں توارد کثرت سے تھا۔ انہوں نے اس کے شواہد مجھے دکھائے کہ کس کس جگہ منصور اور ان کے کلام میں توارد ہوا، انہوں نے منصور حلاج کے کلام میں وہ تمام مقامات نشان زد کیے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی پوری کی پوری نظمیں منصور حلاج کے کسی ایک مربوط کلام کا توارد معلوم ہوتی تھیں۔ یہ امر میرے لیے بھی باعثِ حیرت تھا۔ حلاج اور شاہ صاحب کے کلام کے توارد پر تحقیقی کام ہونا چاہیے۔منصور حلاج کے ساتھ ان کے اس تعلق کا سارا خلاصہ ان کی نظم ‘ زمانے کی تاریخ شاہد رہے گی’ میں آ گیا ہے۔ اور یہ نظم بھی شاہکار ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خادم رزمی کا یوم وفات
——
ان کو arthritis کا مرض لاحق تھا ۔ جس سے وہ سخت تکلیف کا شکار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ۔ تاہم وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں تھے ا انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ راتوں کو تہجد میں خدا سے شکوہ ، دعا اور مناجات کرتے تھے۔ خدا سے ان کے مضبوط تعلق اور ان کی روحانی طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ شاید یہی تھا۔ انہیں احساس تھا کہ موت بہت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کو موت سے ذرا بھی وحشت نہیں تھی۔ بڑے اطمینان سے کہتے کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اسی لیے شاید وہ تھوڑے وقت میں پہت کچھ بولتے تھے جیسے دل و دماغ کی ساری دولت اس تہی دست دنیا میں جلد سے جلد لٹا کر جانا چاہتے ہوں۔ موت کے بارے میں تو ان کی بے نیازی کا یہ حال تھا کہ لکھتے ہیں:
——
اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس داستانِ عمر کا اب اختتام کر
——
نیز
——
یہ ہر دن تھوڑا تھوڑا کر کے مرنے کا تکلف کیا
یہ کام اک روز بہتر ہے کہ سارا کر لیا جائے
——
اور
——
جادہ شوق مسافت دیکھتا ہی رہ گیا
سانحہ یہ ہے کہ منزل راستے میں آ گئی
——
انہوں نے اپنی کتابوں پر کسی بڑے شاعر یا ادیب سے تقریظ نہیں لکھوائی۔ انہیں یہ پسند نہیں تھا کہ وہ اپنی پراڈکٹ کی پبلیسٹی کے لیے کسی بڑی شخصیت سے مارکٹنگ کروایئں۔ یہ بات ان کے بڑے پن کی عکاس ہے ۔ ان کی کتاب پر پیش لفظ لکھا تو محترم سلطان ناصر صاحب نے۔ اور وہی اس کے مستحق بھی تھے۔ سلطان ناصر صاحب ، نے وہ مقدمہ لکھ کر شاہ صاحب کی شاعری کے تعارف کا حق ادا کر دیا۔ ایسا فنا فی الممدوح مقدمہ میں نے فقط مولانا تقی عثمانی صاحب کا ان کے بھائی ذکی کیفی کے کلیات ‘کیفیات’ میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سلطان ناصر کا پڑھا۔
میری کوشش تھی اور ان کی تمنا بھی تھی کہ ان پر کوئی اچھا تحقیقی کام ہو جائے۔ ان پر ایک تحقیقی کام پہلے ہو چکا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی شریکِ حیات ، ڈاکٹر صائمہ نذیر، جو کہ نمل کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ، سے کہہ رکھا تھا کہ شاہ صاحب پر کسی قابل طالبِ علم سےکام کروانا ہے۔ حال ہی میں ان کی شاعری پر ایک مقالہ منظور ہوا تھا۔ جس میں ان کے حسبِ خواہش ترمیم بھی کردی گئی تھی مگر افسوس وہ اس کاوش کو شرمندہ تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی اپنے خالق سے جا ملے۔ شاہ صاحب ایک بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کلام اردو ادب کا اہم اثاثہ ہے ، اور اس کا ادراک جتنا جلد ہو جائے اتنا اچھا ہے ۔ شاہ صاحب کو یقین تھا اور مجھے بھی ہے کہ:
——
یہ بھی پڑھیں : افضل گوہر راؤ کا یومِ پیدائش
——
آسماں تک جائے گی خوشبو مرے افکار کی
جب تعفّن جسم کا زیرِ زمیں ہو جائے گا
——
منتخب کلام
——
اٹھا کر حبس لے جائے جو سارا میرے سینے سے
کوئی جھونکا محمد مصطفیٰ تیرے مدینے سے
——
آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا
پِھرتا ہے زمانے میں خُدا بھیس بدل کے
——
یہ شرط ہے دستک ہو اگر دستِ یقیں سے
در چھوڑ کے دیوار بھی کھل جائے کہیں سے
——
کس سے گلا کروں کہ خدا بھی مری طرح
خود محوِ انتظار ہے یومِ حساب کا
——
آنکھوں میں خواب رکھ کے ترے آسمان کے
سونے لگا ہوں دیکھ میں دھرتی کو تان کے
——
جاگیے، دیوار جاں کو چاٹیے، سو جائیے
عمر کی یکسانیت سے زندگی اکتاگئی
——
قریۂ ہجر میں ملتے ہوئے لوگو، سوچو
جانے کب، کون، کہاں، کس سے جدا ہوجائے
——
دیکھوں تو ہیں نگاہ میں دنیا کے ہفت رنگ
سوچوں تو کوئی سامنے تیرے سوا نہیں
——
واعظ! تری حکائت قہر خدا، بجا
لیکن خداگواہ کہ دل مانتا نہیں
——
شہر غزل کو شہر خموشاں نہ جانیے
آواز اس میں گھومتی پھرتی ہے میر کی
——
تمہارے ساتھ دیکھی تھی وگرنہ زندگی ہم کو
نہ تب محسوس ہوتی تھی نہ اب محسوس ہوتی ہے
——
نظروں کا یہ دھوکا بھی غنیمت ہے وگرنہ
افلاک کے اس پار بھی ایسا ہی خلا ہے
——
اپنی اذاں تو کوئی مؤذن نہ سن سکا
کانوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے بولتا رھا
——
آسماں تک جائے گی خوشبو مرے افکار کی
جب تعفّن جسم کا زیرِ زمیں ہو جائے گا
——
اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس داستانِ عمر کا اب اختتام کر
——
یہ کیسی ہوسناک قناعت ہے خدایا !
جو تارکِ دنیا ہے وہ فردوس طلب ہے
——
جیسے کسی کو خواب میں میں ڈھونڈھتا رہا
دلدل میں دھنس گیا تھا مگر بھاگتا رہا
بے چین رات کروٹیں لیتی تھیں بار بار
لگتا ہے میرے ساتھ خدا جاگتا رہا
اپنی اذاں تو کوئی مؤذن نہ سن سکا
کانوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے بولتا رہا
ساعت دعا کی آئی تو حسب نصیب میں
خالی ہتھیلیوں کو عبث گھورتا رہا
اس کی نظر کے سنگ سے میں آئنہ مثال
ٹوٹا تو ٹوٹ کر بھی اسے دیکھتا رہا
انساں کسی بھی دور میں مشرک نہ تھا کبھی
پتھر کے نام پر بھی تجھے پوجتا رہا
——
وہ جو مبتلا ہے محبتوں کے عذاب میں
کوئی پھوٹتا ہوا آبلہ ہے حباب میں
مرا عشق شرط وصال سے رہے متصل
نہیں دیکھنا مجھے خواب شب شب خواب میں
جو کشید کرنے کا حوصلہ ہے تو کیجئے
کہ ہزار طرح کی راحتیں ہیں عذاب میں
یہ طواف کعبہ یہ بوسہ سنگ سیاہ کا
یہ تلاش اب بھی ہے پتھروں کے حجاب میں
بڑی لذتیں ہیں گناہ میں جو نہ کیجئے
جو نہ پیجئے تو عجب نشہ ہے شراب میں
سبھی عذر ہائے گناہ جب ہوئے مسترد
تو دلیل کیسی دفاع کار ثواب میں
——
تحریر : عرفان شہزاد ، بحوالہ فیس بک صفحہ
شعری انتخاب از کُلیاتِ سید مبارک شاہ ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ