اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر جلی امروہوی کا یوم وفات ہے ۔

جلی امروہوی(پیدائش: 4 جولائی 1922ء – وفات: 12 اگست 2013ء)
——
یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ولیؔ دکنی سے لے کر شکیبؔ جلالی تک جس شاعر کے دیوان کو پڑھتا ہوں تو یہی نظر آتا ہے کہ ہر شاعر اپنے زمانے کے معاشرے سے خوش نہیں ہے ۔
معاشرہ تو آدم سے آج تک ایک ہی نہج پہ قائم ہے البتہ خوشی اور غم کے معیار میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ درج ذیل اشعار پڑھیے اور شاعر کی نفسیات کا اندازہ لگائیے :
——
جہاں سے اُٹھ گئے افسوس ایثار و وفا والے
برائے آدمی اب جان کھونا کون دیکھے گا
——
خواہشاتِ دہر نے ڈالا عجب قحطِ رجال
ڈھونڈ کر لاؤں کہاں سے آدمیت کے مزے
——
سنگ بن جاتا اگر میں بھی برائے عشرت
زندگی پھر تو گزرتی بڑے آرام کے ساتھ
——
اس کشاکش کی زد میں ہے دنیا
کون کس کا غلام ہو جائے
——
ناؤ طوفاں میں ہے لیکن ناخدا باہم دگر
پنجہ کش ہیں اپنا اپنا قد بڑھانے کے لیے
——
دل میں خارِ دشمنی ہے لب پہ حرفِ دوستی
کیا اسی طرزِ دو رنگی کا محبت نام ہے
——
ان تمام اشعار کے خالق جلی امروہوی ہیں ۔ جلی امروہوی اپنے سن و سال اور منکسر المزاجی کی وجہ سے اپنے عہد سے جنگ کرنے کے قابل نہیں مگر انہیں گوارا نہیں کہ انسانیت کو کوئی قتل کر دے اور وہ دور سے فقط نظارہ کرتے رہیں ۔
انہیں یہ بھی پسند نہیں کہ لوگ منافقت کی زندگی بسر کریں اور جب قوم کی کشتی طوفان میں گھری ہو تو کشتی کے ناخدا اپنا قد بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہوں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : عظیم امروہوی کا یومِ پیدائش
——
جلی امروہوی 1922 ء میں امروہہ کے مردم خیز خطے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد قاضی سید علی حسن عاجزؔ ، چچا سید ولی حسن ولیؔ اور برادر قاضی سید سخی حسن عارفؔ کہنہ مشق شاعر تھے ۔
امروہہ کے اس عہد کی فضا شعر و شاعری کے نغموں سے گونج رہی تھی ، ایسے ادبی اور شاعرانہ ماحول میں جلی امروہوی نے آنکھ کھولی ۔
کثرتِ مطالعہ میں جوانی کا دور گزرا اور تحصیلِ علم کے ساتھ ساتھ ہر رنگ کے اشعار کہنے لگے ۔
قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آ گئے اور شعبۂ تعلیم میں 22 سال گزار کر ریٹائرڈ ہو گئے ۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تجربات میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ مختلف طبائع اور مختلف افکار رکھنے والوں سے واسطہ پڑا ۔
گردشِ وقت کے ساتھ ساتھ گردشِ حالات کا مطالعہ فنکاری کی منزل کے قریب تر ہوتا گیا ۔
قدیم خیالات اور جدید احساسات کے ٹکراؤ سے نظر میں وسعت پیدا ہوئی اور اشعار میں ایسے رنگ کے خیالات بھی منظم ہونے لگے جن کا کامل تعلق عہدِ جدید سے ہے ۔
میں شاعری میں جدید و قدیم کا نہیں بلکہ حُسن کا قائل ہوں ۔ شعر کی شعریت اور اس کا حُسن کسی خاص صدی یا مخصوص عہد سے وابستہ نہیں بلکہ وہ جہاں بھی ہو گا اپنے حُسن سے شاعری کے دل و دماغ کو شکار کر لے گا ۔
جلی امروہوی کی شاعری جدید اسلوب سے زیادہ قدیم محورِ فکر سے قریب معلوم ہوتی ہے ۔ انہیں اس بات کا علم ہے کہ جدت روایت کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے ۔
اسی لیے انہوں نے اپنا معنوی رشتہ متاخرین کے مقابلے میں متقدمین سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہ کہنا کہ وہ روایتی یا قدامت پسند شاعر ہیں اس لیے غلط ہے کہ ان کے دیوان میں زندہ روایتیں بھی ہیں اور جدید اسلوب بھی ۔
انہوں نے اعلیٰ افکار کو سہل اور آسان لفظوں میں پیش کیا ہے ۔ جلی امروہوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے موقع اور محل کی مناسبت سے ایسے الفاظ اور ایسی تراکیب استعمال کی ہیں جو قلب و ذہن پر وجدانی اثرات مرتب کرتے ہیں ۔
——
آپ آتے ہیں تو آ جائیں مگر یہ شرط ہے
مجھ سے برگشتہ نہ ہو جائیں مری تنہائیاں
——
اِس طرف میں اشک افشاں ، اُس طرف وہ اشکبار
یہ تھے اُلفت کی ملاقاتوں میں اُلفت کے مزے
——
فراقِ دورِ گلستاں ہے پُرکشش کتنا
قفس میں ڈھونڈ رہا ہوں میں آشیانے کو
——
دل میں اک درد اٹھا ، آنکھ سے چھلکے آنسو
میں تو لینے بھی نہ پایا تھا ترا نام ابھی
——
تو نے دولت سے ناپ کر مجھ کو
قیمتِ آدمی گھٹائی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : رئیس امروہوی کا یوم پیدائش
——
جلی امروہوی کے کلام میں بڑی پختگی پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے غزلیں اور غزلوں کے اشعار بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیے ہیں ۔
شاعر کے لیے یہ عجیب مشکل ہے کہ اگر وہ اشعار میں اپنا دکھ درد بیان کرے تو تاثیر میں کمی رہ جاتی ہے اس لیے وہ الفاظ کو تشبیہوں اور استعاروں میں پیش کر کے آپ بیتی کو جگ بیتی بناتا ہے ۔
جلی امروہوی نے اپنے باطنی کرب کو خارجی ماحول سے منسلک کر کے اس خوبی سے دل کی حکایت بیان کی ہے کہ ہر پڑھنے والا اسے اپنی کہانی سمجھتا ہے ۔
——
دیکھی جو زر و سیم کے جلووں کی تجلی
ہوش ایسے اُڑے اپنے کہ کچھ بھی نہ رہا یاد
——
بن جاؤ اس کے واسطے تم سایۂ شجر
جو بیکسی کی دھوپ میں جلتا دکھائی دے
——
اے رند ! کج کلاہوں کی جانب نظر نہ کر
یہ دیکھ کون چاکِ گریباں ہے آج کل
——
جلی امروہوی نے عالمگیر صداقت کے نمونے بھی پیش کیے ہیں ۔ اس قسم کے اشعار کے لیے بڑے غور و فکر اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح کے اشعار اگر آورد کے ذیل میں آ جائیں تو شعر کی شعریت مجروح ہو جاتی ہے ۔
——
زمانہ کس لیے دیکھے مرے ٹوٹے ہوئے دل کو
کوئی انساں شکستہ آئینہ دیکھا نہیں کرتا
——
اگر عزت سے جینا ہے تو آدابِ وفا سیکھو
کہ بے بنیاد مستحکم عمارت ہو نہیں سکتی
——
جلیؔ اشکوں سے دل کا حال ظاہر ہو نہیں سکتا
تڑپ موجوں کی ساحل کو کہاں معلوم ہوتی ہے
——
میر تقی میرؔ نے کہا تھا کہ میرؔ کے سرہانے ذرا آہستہ گفتگو کرو اس لیے کہ وہ جانے کب سے رو رہا تھا اور اب اسے روتے روتے نیند آ گئی ہے ۔ جلی امروہوی کسی کو بات کرنے سے منع نہیں کرتے بلکہ غم میں رجائی پہلو نکال کر کہتے ہیں کہ فرطِ غم کی وجہ سے آنسو بہے اور انہی آنسوؤں کے بہنے سے اس قدر آرام نصیب ہوا کہ اسے نیند آ گئی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : عظیم امروہوی کا یومِ وفات
——
آخرش فرطِ مصائب پر جلیؔ
روتے روتے سو گیا آرام سے
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
طشتِ سُخن میں لایا ہوں میں بھی سجا کے پھول
اے ربِ دو جہاں تری حمد و ثنا کے پھول
یہ کہکشاں ، کواکب و خورشید و ماہتاب
ہیں جلوہ ریز قدرتِ ربِ عُلا کے پھول
جتنے چُنے ہیں لفظ تری حمد کے لیے
یہ سب ہیں تیرے گلشنِ لُطف و عطا کے پھول
سوسن ، گُلاب ، سُنبل و ریحان و نسترن
ہر باغ میں کِھلے ہیں یہ تیری سخا کے پھول
یہ دشت و کوہسار نہیں ہیں زمین پر
بکھرے ہوئے ہیں مالکِ ارض و سما کے پھول
عرفانِ حق کے واسطے اُم الکتاب ہیں
پیہم مہک رہے ہیں کلامِ خدا کے پھول
تیرے کرم سے بہرِ ہدایت جہان میں
نکہت فشا ہیں گُلشنِ خیر الورا کے پھول
چشمِ جلیؔ یہ کب ہیں ترے اشکِ انفعال
دامن میں عطر بیز ہیں اُسکی عطا کے پھول
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
آپ کا حُسنِ تصور لطف فرماتا رہا
میں مدینے کی طرف آتا رہا جاتا رہا
اِس طرف پڑھتا رہا میں جھوم کر نعتِ رسول
اُس طرف دریائے رحمت جوش میں آتا رہا
لوگ تیری راہ میں کانٹے بچھاتے ہی رہے
پھر بھی تُو لطف و کرم کے پھول برساتا رہا
آستانے سے ترے ملتی ہے راہِ مستقیم
تیرے در سے جو بھی بھٹکا ٹھوکریں کھاتا رہا
چلتے چلتے رُک گئی تھیں دو جہاں کی گردشیں
پر بُراقِ مصطفیٰ پرواز فرماتا رہا
پرچمِ لطفِ نبی تھا دم بدم سایہ فگن
ہر تلاطم یوں مری کشتی سے کتراتا رہا
دو جہاں کا بادشہ اور بوریے پہ بیٹھ کر
عرش کی باتیں زمیں والوں کو بتلاتا رہا
سُوئے یثرب کاروانِ شوق جاتا دیکھ کر
دیر تک اشکِ جلیؔ پلکوں پہ تھراتا رہا
——
وہ پھول سلامت ہیں نہ وہ شاخِ نشیمن
ہم جا کے چمن کس سے ملاقات کرینگے
——
چمن میں ہم نہیں ایسی بہار کے قائل
ہے ایک پھول تو کانٹے ہزار کیا کہنا
——
برہم مزاج صحنِ گلستاں ہے آج کل
جو پھول ہے وہ شعلہ بداماں ہے آج کل
——
وہ جو آئے تو خیر مقدم کو
دیدہ و دل میں روشنی اُتری
——
اوجِ دنیا تو حقیقت میں ہے بے سُود مگر
آدمیت جو نکھارے وہ کمال اچھا ہے
——
آدمی سے آدمیت کب کی رخصت ہو چکی
اب تو باقی رہ گئیں اس کی فقط پرچھائیاں
——
اس کشاکش کی زد میں ہے دنیا
کون کس کا غلام ہو جائے
——
میں منزلِ بقا کا مسافر ہوں اس لیے
راس آئے گی یہاں کی نہ آب و ہوا مجھے
——
چلتے چلتے زندگی کی راہ میں ہر موڑ پر
مجھ کو تازہ حوصلہ دیتی رہیں پسپائیاں
——
یہ کرشمہ ہے ترا ہمتِ طوفان پسند
ہر تلاطم میں کنارا نظر آتا ہے مجھے
——
ستم کے بعد یہ پابندیٔ آہ و فغاں کیسی
یقیناََ آہِ مظلوماں گراں معلوم ہوتی ہے
——
تابِ نظارگی نہیں مجھ کو
پردۂ در گرا کے بات کرو
——
براے حُسن ، بے شک پردہ داری بھی بڑی شے ہے
مرے نزدیک آ کر مجھ سے چُھپ جاؤ تو آ جانا
——
خبر ہوتی تو کیوں جاتا چمن میں لے کے اس دل کو
کہ غنچوں کے چٹکنے کی صدا تکلیف دیتی ہے
——
یہاں کسی سے مزاجِ فغاں نہیں ملتا
زمیں ملے تو ملے آسماں نہیں ملتا
ہزار سعیِ مسلسل بقدرِ شوق سہی
مکاں تو ملتے رہے لامکاں نہیں ملتا
ہمیں کو حیف نہیں ذوقِ دید و شوقِ نظر
وہ کس جگہ نہیں ملتا کہاں نہیں ملتا
مذاقِ درد پسندیِ دل ملول نہ ہو
کمی ہے غم کی کہاں ، کہاں نہیں ملتا
فراق و وصل تو جذبِ طلب پہ ہے موقوف
قفس کی قید میں کب آشیاں نہیں ملتا
چراغِ دردِ محبت ! ذرا بڑھا دے لَو
کہ میری زیست کو میرا نشاں نہیں ملتا
ہمیشہ جس میں رہا ہو بہار کا موسم
مجھے تو ایسا کوئی گلستاں نہیں ملتا
وہ کیا ملے گا ؟ نہاں ہو جو لاکھ پردوں میں
کہ خود جلیؔ کو بھی اپنا نام و نشاں نہیں ملتا
——
دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے
میں یہ سمجھا کہ نوازش سے پکارا تم نے
کیا حقیقت میں غم عشق سے مانوس ہوئے
یا یوں ہی پوچھ لیا حال ہمارا تم نے
میرے مکتوب محبت مجھے واپس دے کر
کر لی تو ہے یہ محبت بھی گوارا تم نے
نسبتاً آج حجابوں میں اضافہ کیسا
غالباً جان لیا دل کا اشارا تم نے
دور ماضی کے حسیں گیت سنا کر اکثر
اور بھی درد محبت کو نکھارا تم نے
رفتہ رفتہ نہ بھڑک جائے وہ شعلہ بن کر
رکھ دیا ہے جو مرے دل میں شرارہ تم نے
حیف صد حیف کہ دنیائے طرب میں کھو کر
کر لیا درد کے ماروں سے کنارا تم نے
اشک کہتے ہیں کہ پڑھ پڑھ کے جلیؔ کی غزلیں
دل میں محسوس کیا درد کا دھارا تم نے
——
چھپ گیا سورج یہ کہہ کر شام سے
لے سبق دنیا مرے انجام سے
روح کو ہم نے ہزاروں دکھ دئے
نفس کو رکھا بڑے آرام سے
ایک بازیچہ سمجھ کر اہل دل
کھیلتے ہیں گردش ایام سے
سوچئے ہر زاویے سے دہر میں
کیسے گزرے زندگی آرام سے
کر دیا ساقی نے ساغر چور چور
چھین کر اک رند تشنہ کام سے
کون در پر رہ گیا دم توڑ کر
دیکھتے تو تم اتر کر بام سے
ہو گیا برہم نظام میکدہ
ایک آواز شکست جام سے
آخرش فرط مصائب پر جلیؔ
روتے روتے سو گیا آرام سے
——
حوالہ جات
——
تحریر : شہرِ سخن کی دریافت از وحید الحسن ہاشمی ( لاہور )
کتاب : شہرِ سخن ، مصنف : جلی امروہوی شائع شدہ : 2001 ، صفحہ نمبر 9 تا 17
شعری انتخاب از شہرِ سُخن ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ