آج معروف شاعرہ یاسمین حمید کا یومِ پیدائش ہے

(پیدائش 18 مارچ 1951)
——
یاسمین حمید ایک پاکستانی اردو شاعرہ ، مترجم اور ایک ماہر تعلیم ہیں۔
یاسمین حمید ایک تجربہ کار ماہر تعلیم، مترجم اور شاعرہ ہیں۔ ان کے پاس ادب ، فن اور تعلیم کے شعبوں میں 25 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں ‘رائٹر ان ریزیڈنس’ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ یاسمین حمید کی اردو میں پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہے اور ان کی ادبی شراکت ان کی شاعری کی پانچ کتابیں ہی ہیں۔ یہ کتابیں پانچ مختلف سالوں 1988 ، 1991 ، 1996 ، 2001 اور 2007 میں اردو میں شائع ہوئی تھیں۔ معاصر اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کرکے انہوں نے انگریزی ادب میں حصہ لیا ہے۔
یاسمین اکادمی ادبیات پاکستان کے پرچم تلے شائع ہونے والے پاکستانی ادب کے شمارے کی (انگریزی میں) ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ثقافتی / فیشن شو کے لئے انگریزی میں اسکرپٹ تحریر کیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کرکٹ کے فیسٹیول میں بھی اپنی خدمات پیش کیں اور انہوں نے 1995 میں لندن اور 1996 میں واشنگٹن میں اور 1996 میں پاکستان میں ورلڈ کپ کرکٹ کلچرل فیسٹیول میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اخبار روزنامہ ڈان میں "کتب اور مصنفین” کے نام سے ماہانہ کالم بھی لکھتی رہیں۔
یاسمین حمید ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ، لاہور میں لاہور الما اسکول کی مالک ہے ۔ مزید برآں ، اس نے پاکستان ٹیلی ویژن پر متعدد نامور پاکستانی ادبی شخصیات کا انٹرویو لیا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر شعری سمپوزیا میں وسیع پیمانے پر حصہ لیا ہے۔
——
تعلیم
——
ایم ایس سی: غذائیات
پنجاب یونیورسٹی– لاہور (1972)
بی ایس سی۔ :ہوم اکنامکس- ہوم اکنامکس کالج
پنجاب یونیورسٹی – لاہور(1970)
——
تخلیقات
——
یاسمین حمید نے شاعری کی پانچ کتابیں اردو میں شائع کیں:
1 پاس آئینہ
2 حصار بے در و دیوار
3 آدھا دن اور آدھی رات
4 فنا بھی ایک سراب
5 دوسری زندگی (نظمیں ، 1988–2001)
——
اعزازات
——
تمغہ امتیاز ( تمغہ) برائے ادبیات برائے حکومت پاکستان نے سنہ 2008
8 مارچ 2006 ، عالمی یوم خواتین کے موقع پر حکومت پنجاب ، پاکستان کی جانب سے فاطمہ جناح میڈل برائے ادب سے نوازا گیا
فنا بھی ایک سراب مجموعہ کے لئے احمد ندیم قاسمی ایوارڈ برائے شاعری (2001)
ہجرہ ایوارڈ ہجرہ سال 1417 (جون 1996 – مئی 1997)
علامہ اقبال ایوارڈ برائے مجموعہ ، آدھا دن اور آدھی رات ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کب میسر ہے ہمیں اپنا سہارا ہونا
——
صداقت و دیانت کی منفرد شاعری از امجد اسلام امجد
——
یاسمین حمید اپنے دور کے نمایاں غزل گو شعراء سے قطعی طور پر مختلف انداز میں سوچتی اور منفرد انداز میں اظہار کرتی ہیں ۔
یہ بات نہیں کہ وہ غیر حقیقی یا غیر زمینی موضوعات پر گفتگو کرتی ہے یہ تو اپنے عصر کی سچی عکاس اور جدید طرزِ احساس کی کھری نمائندہ ہے مگر وہ جو کچھ کہتی ہے اس ڈھب سے کہتی ہے کہ اسے کسی بھی دوسرے اہم شاعر کے مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
وہ خود ہی اپنی مثال ہے ۔ ادب کے وہ ناقدین اور قارئین جنہیں اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ جدید اردو غزل یک رنگ ہوتی جا رہی ہے اور سبھی نئے غزل گو قریب قریب ایک ہی انداز کی غزل کہنے لگے ہیں یاسمین حمید کی غزل پڑھیں گے تو انہیں اپنے نظریہ پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی ۔
یاسمین حمید کے ہاں جذبہ و فکر کا اتنا وفور ہے کہ وہ خود اس طرح کے اعترافات کرنے پہ مجبور ہو جاتی ہے ۔
——
کئی نقطے پسِ ابلاغ ہوں گے
بہت کچھ چُھپ گیا ہے دائرے میں
——
میں اسے حرف میں محبوس نہیں کر سکتی
جس تخیل سے مری ذات میں ہے پھیلاؤ
——
یاسمین کی صرف ایک غزل کے حوالے سے اس کے منشورِ فن کو یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں موسم خشک میں بھی خوشبو کا تصور جاری رہتا ہے ۔
وہ پسِ نقش بھی ایک نقش بنائے رکھنے کا عزم رکھتی ہے اور زندگی کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر تیز ہوا کی وجہ سے رہ گزر پر چراغ نہ جل سکیں تو گھروں کے اندر تو چراغوں کو جلائے رکھنا چاہیے ۔
یوں وہ نفی کے مقابلے میں اثبات کی شاعرہ ہے ۔ اور اثبات نے اس کے ہاں متنوع رنگوں میں اظہار پایا ہے ۔
——
موت کا انتظار کرنا ہے
زندگی سے بھی پیار کرنا ہے
——
میں نے ملبے کو ہٹا کر دیکھا
ایک اک خواب مرا زندہ ہے
——
لکھوں کھیتوں کے جل جانے کا قصہ
تو بار آور رتوں کو ساتھ لکھوں
——
اور یاسمین کا یہ ناقابلِ شکست اثبات اس وقت تو واضح طور پر ایک فاتح کی شان اختیار کر لیتا ہے جب وہ کہتی ہے :
——
کیسے پت جھڑ کے ہاتھ آئے گی
شاخِ گل جو شجر کے اندر ہے
——
یہ شجر کے اندر ، مستقبل میں پھوٹ نکلنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی شاخِ گل ، یاسمین کے فن کی بلیغ علامت ہے ۔ اس اثبات و اعتماد نے اسے کارگاہِ حیات کے کسی مرحلے پر بھی مایوس نہیں ہونے دیا ۔
یقیناَ وہ اداس بھی ہوتی ہے کہ قدم قدم پر اپنے معیاروں کی پامالی دیکھ دیکھ کر اداس ہو جانا ہر صاحبِ شعور انسان کا مقدر ہے ۔
مگر اداسی مایوسی کے ہم معنی نہیں ۔ یاسمین کے کلام میں مایوسی کی لہریں مستقلاََ چلتی رہتی ہیں ۔
——
نہ جواب ہوں کسی بات کا ، نہ سوال ہوں
قفط ایک حیرتِ مستقل کی مثال ہوں
——
مگر یہ حیرت عارضی ثابت ہوتی ہے جب وہ کہتی ہے :
——
مری آنکھیں گواہی دے رہی ہیں
کسی امید کے آزار میں ہوں
——
اس ” امید کے آزار” سے مجھے غالبؔ یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا :
——
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار ، تمنا کہیں جسے
——
غالب کا یہی ” افسونِ انتظار ” یاسمین کا ” امید کا آزار ” ہے ۔ اس امید کو یاسمین کا وہ اعتماد اور اثبات کہنا چاہیے جو اس کے فن کا جلی عنوان ہے ۔
سچائی کا کوئی بھی علمبردار اپنے عصر ، اپنی قوم ، اپنے ماحول سے کترا کر نکل جانے کا قائل نہیں ہوتا ۔ وہ جب اپنی ذات کی گہرائیوں کی سچائیاں بیان کرتا ہے تو دوسری بے شمار سچائیوں کی علمبرداری سے دست کش نہیں ہو جاتا بلکہ اپنے آس پاس کی معاشرتی اور سیاسی صورت حال بھی اس کی حق گوئی کا موضوع بنتی ہے ۔ یاسمین بھی خلوص اور دیانت کے ساتھ اپنے ماحول کی سچی ترجمانی کرتی ہے اور کہیں کہیں واشگاف انداز میں چِلا اٹھتی ہے :
——
یہ بے حسی ہے کہ ہے انتہائے خوئے علم
نگر نگر ہے لہو ، اور کوئی ملول نہیں
——
مگر خود اس کا مؤقف کتنا مبارک ہے :
——
چُننے کو راستے کے سب پتھر
اک سفر بار بار کرنا ہے
——
بار بار سفر کرنے کا یہ عزم دراصل امید کا وہی آزار ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۔ سفر کا یہ طلسم یاسمین کے ہاں متعدد مقام پر مسحور کرتا ہے اور میری نظر میں یاسمین کا یہ شعر سفر کے اس استعارے کا اوجِ کمال ہے :
——
سمندر ڈھونڈتا دریا کا پانی
زمیں پر حسن بوتا جا رہا ہے
——
میری ان تصریحات سے قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ سچائی اور خلوص کی اس شاعری میں شاید تغزل غائب ہو گیا ہے حالانکہ حق بات یہ ہے کہ یاسمین نے یہ سب سچائیاں تغزل کے ہی دلآویز لہجے میں بیان کی ہیں ۔ غزل کا ایک شعر دیکھیے :
——
کھٹکتی ہے مجھے وہ دوسروں میں
تمہاری بات جو اچھی لگی تھی
——
میرے رائے میں اس موضوع کا کوئی شعر اردو اور فارسی غزل میں موجود نہیں ہے ۔ اگر موجود ہے تو میں اپنے مطالعے کی کمی کا اعتراف کر لیتا ہوں ۔
محبت کی اس طرح کی شدت تغزل کی جان ہوتی ہے ۔ چند اور شعر دیکھیے :
——
ساری سمتیں مجھے ایک سی ہو گئیں
راستہ بھولنا آج اچھا لگا
——
مجھے بے مائیگی کا دکھ نہیں تھا
اندھیرے میں دیا جلنے سے پہلے
——
میں اپنے دل کے دروازے پر بیٹھی سوچتی تھی
اسے باہر سے بھیڑوں یا پھر اندر لوٹ جاؤں
——
منتقل ہوتے رہیں گے ایک اک کر کے مکیں
اور مٹی کا گھروندا دیکھتا رہ جائے گا
——
جس نے پھول چُنے ہیں میرے صحرا سے
میری آںکھوں کو اپنی بینائی دے
——
یہ عُقدہ تو بلندی پر کُھلے گا
زمیں اوپر ہے نیچے آسماں ہے
——
ان چند اشعار سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ یاسمین ایک بااسلوب شاعرہ ہے اور اس کا یہ اسلوب اپنے دور کے ہم سِن شعراء کے تناظر میں صد فی صد منفرد ہے ۔ پھر اس کی شاعری میں مسائلِ ذات و کائنات کے بارے میں فکر تآمل کی جو رَو مسلسل رواں رہتی ہے اس نے یاسمین کی انفرادیت کو مزید مضبوط کر دیا ہے ۔
یاسمین نے نظمیں بھی کہی ہیں ۔ ” عقدہ ” ، ” کیوں ” ، ” کشف ” ، ” صرف” اور اسی طرح کی دوسری نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ ، خود یاسمین کے الفاظ کے مطابق اس نے خود کو بطور شاعر قدرے دیر سے دریافت کیا ، مگر یہ تاخیر ان معنوں میں اس کے فن کے لیے مفید ثابت ہوئی کہ جب اس نے شعر کہنا شروع کیا تو اس کے مشاہدات میں گہرائی اور خیالات میں پختگی آ چکی تھی ۔ یاسمین کی غزلوں کے علاوہ اس کی نظمیں بھی اس بات کی شاہد ہیں ۔
اگرچہ وہ بنیادی طور پہ غزل کی شاعرہ ہے اور غزل بھی جدید تر ، اور ساتھ ہی بھرپور اور گمبھیر ، وہ غزل جس میں دھوپ ، تناور پیڑوں کے سائے سے ڈرتی ہے اور جلتے ہوئے کھیتوں کی مٹی سے نئی فصل اگانے کے عزائم پرورش پاتے ہیں اور مہکاروں میں رنگ جھلکتے ہیں اور رنگوں سے خوشبو آتی ہے ۔
——
احمد ندیم قاسمی از حصار بے در و دیوار
صفحہ نمبر 7 تا 10
——
منتخب کلام
——
رسائی کا قرینہ آنکھ میں ہے
زہے قسمت مدینہ آنکھ میں ہے
میں تیرے شہر کی جانب رواں ہوں
سرِ دریا سفینہ آنکھ میں ہے
——
سوچتی رہتی ہوں تا دیر کسی رستے کو
پھر وہ رستہ چلا جاتا ہے مدینے کی طرف
——
آج کی رات کا ہر خوف ہے مجھ سے منسوب
آج کی رات کوئی دوسرا بیدار نہیں
اپنے ماحول سے مانوس نہیں ہیں اب تک
ہم کسی اور کہانی کے تو کردار نہیں
——
میرے فن کی نمود ہے جس سے
مجھ کو اُس کرب نے سنبھالا ہے
میں تو زندہ وہاں پہ بھی رہتی
مجھ کو ملبے سے کیوں نکالا ہے
——
کیوں ڈھونڈنے نکلے ہیں نئے غم کا خزینہ
جب دل وہی درد کی دولت بھی وہی ہے
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
——
میری آواز تو کھو بیٹھی رسائی اپنی
تم بتاؤ کہ مجھے تم نے پکارا کتنا
——
تمہارے حکم کی تعمیل کیسے ہو
سمندر دشت میں تبدیل کیسے ہو
تجھے بویا گیا تھا بہتے پانی میں
گلِ ہستی ، تری تکمیل کیسے ہو
——
ستارے توڑ کے لانا مجھے نہیں آتا
تمہارے ہاتھ پر برگِ گلاب رکھ دوں گی
مری بساط سے اُلجھا اگر غرور مرا
دیا جلا کے سرِ آفتاب رکھ دوں گی
——
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
——
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
——
ذرا دھیمی ہو تو خوشبو بھی بھلی لگتی ہے
آنکھ کو رنگ بھی سارے نہیں اچھے لگتے
——
کبھی کبھی تو کچھ بھی کر لیں
جادو چل جانا ہوتا ہے
ایک جگہ ہوتی ہے جہاں پر
سر کے بل جانا ہوتا ہے
——
کنارے پر کھڑی ہوں اور کنارے ڈھونڈتی ہوں
سحر کی روشنی میں چاند تارے ڈھونڈتی ہوں
——
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مجھ کو میرا خالق
بنانا چاہتا ہے یا مٹانا چاہتا ہے
——
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی
نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص
خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف
اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی
جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے
خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی
یہ ہوا تو کہ ہر اک شے کی کشش ماند پڑی
مگر اس موڑ پہ آنے میں بہت دیر لگی
——
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
اور ڈوبتے لمحات کی صورت بھی وہی ہے
الفاظ بھی لکھے ہیں وہی نوک قلم نے
اوراق پہ پھیلی ہوئی رنگت بھی وہی ہے
کیوں اس کا سراپا نہ ہوا نقش بہ دیوار
جب میں بھی وہی ہوں مری حیرت بھی وہی ہے
کیوں برف سی پڑتی ہے کہیں شہر دروں پر
جب مژدۂ خورشید میں حدت بھی وہی ہے
کیوں ڈھونڈنے نکلے ہیں نئے غم کا خزینہ
جب دل بھی وہی درد کی دولت بھی وہی ہے
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
تا عمر نگاہوں کے لیے ایک سا منظر
سائے کی طرح سائے کی قیمت بھی وہی ہے
——
تعلق کے بہاؤ کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے
مرے گہرے سمندر تیری وحشت کا کنارہ کس جگہ ہے
بتا اے روز و شب کی بے ثباتی میں توازن رکھنے والے
جسے کل ٹوٹنا ہے آج وہ روشن ستارہ کس جگہ ہے
بتا سرسبز کھیتوں سے گزرنے والے بے آواز دریا
اچانک پیچ کھا کر رخ بدلنے کا اشارہ کس جگہ ہے
بشارت جس کے ہونے کی مجھے پہلے قدم پر دی گئی تھی
وہ گہرے ابر کا سایہ مسافت کا سہارا کس جگہ ہے
سفر کرنا ہے اور اندھا مسافر سوچتا ہے کس سے پوچھے
سر ہستی اندھیرے راستوں کا گوشوارہ کس جگہ ہے
نہ سطح آب پر ہے اور نہ تہ میں اس کے ہیں آثار کوئی
بتا اے بحر غم کاغذ کی کشتی کو اتارا کس جگہ ہے
——
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
اور ڈوبتے لمحات کی صورت بھی وہی ہے
الفاظ بھی لکھے ہیں وہی نوک قلم نے
اوراق پہ پھیلی ہوئی رنگت بھی وہی ہے
کیوں اس کا سراپا نہ ہوا نقش بہ دیوار
جب میں بھی وہی ہوں مری حیرت بھی وہی ہے
کیوں برف سی پڑتی ہے کہیں شہر دروں پر
جب مژدۂ خورشید میں حدت بھی وہی ہے
کیوں ڈھونڈنے نکلے ہیں نئے غم کا خزینہ
جب دل بھی وہی درد کی دولت بھی وہی ہے
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
تا عمر نگاہوں کے لیے ایک سا منظر
سائے کی طرح سائے کی قیمت بھی وہی ہے
——
نظم : محبت درد دیتی ہے
——
میں ہمیشہ سوچتی تھی
آنسو اور درد
ہمیں نفرتوں سے ہی ملتے ہیں
اگر نفرتیں نہ ہوں
تو یہ آنسو بھی نہ ہوں
اور درد بھی نہ ہو
مگر جب
اس کی محبت کا
چاہت کا
اور اعتبار کا موسم بیتا
تب آنکھیں کھلیں
احساس ہوا
کہ درد صرف نفرتوں میں ہی
نہیں ہوتا
محبت بھی انسان کو
سراپا درد بنا دیتی ہے
محبت درد دیتی ہے