اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر اور ادیب ظفر گورکھپوری کا یوم وفات ہے

ظفر گورکھپوری(پیدائش: 5 مئی 1935ء – وفات: 30 جولائی 2017ء)
——
ظفر گورکھپوری 5 مئی 1935ء میں ضلع گورکھپور کے ایک گاؤں بیدولی بابو میں پیدا ہوئے ،وہ بچپن میں ہی اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہو گئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے تھے۔
ظفر گورکھپوری کا پہلا شاعری کا مجموعہ 1949ء میں شائع ہوا جبکہ وہ 1953ء میں ترقی پسند تحریک میں شامل ہو گئے تھے، کہتے تھے ادب کو کسی مخصوص نظریے کی تشہیر کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ اسے ذات پات کے دائرے کا اسیر ہونا چاہیے، میں دونوں کے درمیان میں اپنی راہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہوں، شعر گوئی کی ابتدا نظم سے ہوئی تھی، دو دہائیوں سے کچھ زیادہ ہی عرصے تک نظمیں کہتے رہے پھر غزل کی طرف متوجہ ہوئے۔
ظفر گورکھپوری کی لکھی ہوئی غزلوں نے بھارت کے بڑے گلوکاروں کو لازوال شہرت بخشی۔
ظفر گورکھپوری ممبئی کے محکمہ تعلیم میں معلم کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے اور تین دہائیوں کی ملازمت کے بعد یکم جولائی 1993ء کو سبکدوش ہوئے اور اردوادب کی خدمت میں لگ گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : فراق گورکھپوری کا یوم وفات
——
ان کے اب تک کئی شعری مجموعے چھپ چکے ہیں، جن میں چند مشہور تصانیف میں سے یہ ہیں۔
سچائیاں (بچوں کی کہانیاں)
ناچ ری گڑیا (بچوں کی نظمیں)
زمین کے قریب (2001ء) شاعری
آر پار کا منظر
چراغ ِ چشم تر
گوکھرو کے پھول (شاعری)
وادیٔ سنگ (شاعری)
تیشہ (شاعری)
ہلکی،ٹھنڈی،تازہ ہوا (شاعری)
ظفر گورکھپوری 30 جولائی 2017ء کو بھارتی شہر ممبئی میں 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
——
ظفر گورکھپوری کا تخلیقی سیلِ رواں زندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے
تحریر : ضمیر کاظمی
——
ظفر گورکھپوری کا شعری سفر ان کے مجموعۂ کلام ’’تیشہ ‘‘( 1962ء )سے ’’ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘ (2009ء )تک نصف صدی پر محیط ہے ۔ اس دوران ان کے ۸؍ مجموعہ کلام شائع ہوئے ۔ جن کے خاطر خواہ پذیرائی ہوئی مگر ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’ گوکھر و کے پھول ‘‘ سنگ میل ثابت ہوا اور اس مجموعہ نے اردو ادب میں ان کا قد متعین کر دیا ۔ اس دوران اپنے عہد کے عظیم نمائندہ شاعر فراقؔ گورکھپوری ، علی سردار ؔ جعفری ، احمد ندیم قاسمی ؔ ، حمایت علی شاعر ؔ ، ظ انصاری، ؔعزیز قیسی ؔسے لیکر موجودہ عہد کے ڈاکٹر قمر رئیس اور ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی نے بھی ان کی شاعر انہ عظمتوں کا اعتراف کیا ہے انھیں شعری اسلوب کا ایک اہم شاعر تسلیم کیا ہے ۔ کسی بھی شاعر کے لئے اس سے بڑا تمغہ امتیاز اور کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے امریکہ ، سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے مشاعروں میں شرکت بھی کی ملک کے مختلف اردو اکیڈیمیوں نے انھیںیکے بعد دیگر ے بہت سے اعزازات سے نوازا ۔ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کا ریاستی ایوارڈ ، اور فراق سمان جیسے اعزاز بھی انھیں ملے ۔ظفر گورکھپوری کی تخلیقات ریاست ِمہاراشٹر میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت وفن پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے ۔ انھوں نے اپنے 50 سالہ شعری سفر کے مانوس اسلوب کو یکلخت ایک ایسا موڑ دیا ہے جو پڑھنے والوں کے لئے بڑا سنسنی خیز تجربہ ہے ۔ حالانکہ اسلوب کی یہ تبدیلی اردو ادب میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ناصر کاظمی ؔ ، افتخار عارفؔ اور جاں نثار اخترؔ بھی اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ۔ جنھوں نے عمر کے آخری حصے میں ایک نئے اسلوب کی بازیافت کی اور کامیاب بھی ہوئے ۔ ظفر گورکھپوری کے اس نئے مجموعے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے تخلیقی ابعاد نے اپنے عمود سے انحراف کر کے دفعتاً ارتفاعی راہ اختیار کر لی ہے ۔
پچھلے دہے کہ شعری ادب کا جائزہ لینے پر معلوم ہو تا ہے کہ اردو نظم میں نئی شاعری نے اپنی اہمیت کھودی ہے ۔ آج سے چالیس سال پہلے کے نظم گو شعراء کے نام آج بھی اردو ادب کے اُفق پر اسی طرح جگمگا رہے ہیں۔اس کہکشاں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے نظم گوئی گویا شہر افراسیاب ہو گئی ہے کہ پیچھے مڑ کے دیکھااور پتھر کے ہو گئے ۔ انگلیوں پر گنے جانے والے کچھ شعرا البتہ اس تاریکی کے خلاف منظم جہاد کر رہے ہیں ۔ مگر اکثر نظموں کا شعری مجموعہ اسلوب ابہار م ایمانیت اور پیچیدگی سے اس قدر بوجھل ہے کہ ان نظموں کو سر سری طور سے پڑھنا بھی ایک بیزار کن عمل ہے ، اس دوران جواں فکر شاعر جمال اویسی ؔ کا ایک ضخیم نظموں کا مجموعہ ’’ نظم نظم ‘‘ شائع تو ہوا ہے مگر ان کے فکری تخلیقی ، ہیئتی اور اسلوبی تجربات نے اسے بے معنی کر دیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ان نظموں کے متعلق لکھا ہے ’’ یہ نظمیں واقعات کو احساسات پر وارد ہونے والے ایک تجربہ کی نشاندہی کرتی ہیں شاید اسی لئے انھیں خیالات کے گنجینے سے زیادہ بے نام اور مبہم کیفیتوں کی روداد کے طور پر دیکھا جانا چاہئے‘‘ ۔
——
یہ بھی پڑھیں : یوسف ظفر کا یوم پیدائش
——
کچھ امیدیں عبدالاحدساز سے ان کی کامیاب نظموں ’’ نانی اماں ‘‘ ’’ عوج بن عنق‘‘’’ اور آخری دور کے انسان ‘‘کے بعد کی جارہی تھیں ۔مگر اس کے بعد وہ بھی جیسے ایک جگہ ٹھٹک سے گئے ہیں ۔ یہ انتہائی مایوس کن حالات ہیں۔ زبیر رضوی ؔ اور دیگراہم شخصیات نے کافی کوششیں کی کہ نئے شعرا نظم کی طرف متوجہ ہوں ۔ مگر یہ بھی صدابصحرا ثابت ہو ئیں ۔ نظم گوئی ایک ریاضت چاہتی ہے عمیق مطالعہ ، علمی تجربہ ، انہماک ، اور جذبوں کا سراغ پا نے کی شدید جستجو کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جب کہ غزل گوئی اتنی آسان ہے کہ معمولی سا اردو کا طالب علم بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد غزلیں کہہ لیتا ہے اور اردو کے کچھ تجارتی رسالوں میں شائع کرواکہ خوش ہو جا تا ہے ۔ایسے جاں گداز حا لات میں ظفر گورکھپوری کی غزلوں اور نظموں کے اس نئے مجموعہ نے کچھ روز ن واتو کئے ہیں ۔ جن سے ’’ ہلکی ٹھنڈی تازہ ہوا‘‘ کے جھونکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔
ناصر کاظمی ؔ، ابن انشا، احمد مشتاق، ظفر اقبال، محمد علوی ، شہریار ، ساقی فاروقی ، زیب غوری کے ہاتھوں غزل میں داخلی اورخارجی ہیئت میں خاصی تبدیلیاں ہو ئیں ہیں ۔ مگرگھوم پھر کے یہ صنف اپنے روایت کے دائرے میں ہی رہی ۔ اس لئے ایک حد تک ان سب کی غزل اپنے صنف کی روایتی شرطوں کو بھی پوراکرتی ہے ۔ غزل کی نئی شعریات وضع کر نے کی کوشش بیشک ہو ئی مگر یہ شعریات غزل کی پرانی شعریات پر خط تنسیخ نہیں کھینچتی زیادہ سے زیادہ یہ کہ بعض لسانی اور حسی عادتوں کی ترک کر نے پر زور دیتی ہے اور اس ضرورت کو یاد دلاتی ہے کہ نئی انسانی صورت حال اور تجربوں کی پس منظر میں انحصار کی سطحیں دریافت کی جائیں اور کچھ نئے راستے نکالے جائیں ‘‘۔
ظفر گورکھپوری کی نظمیں ’’ نمو‘‘’’ بہت کمزورہو تم ‘‘ اور ’’ زمین کا دکھ ‘‘ شمیم حنفی کی اس بحث کا مقدمہ معلوم ہو تی ہیں ’’ میرے بے شمار لمحے ’’ اور ’’Dead‘‘
مو ضوعاتی تنوع کے تناطر میں مدنی جدلیات اور شہری عذاب واذیت سے بھر پور نظمیں ہیں ۔ جن پر جواب سے زیادہ سوال حاوی ہیں ۔ ظفرؔ کی نظموں میں استعاراتی ابعاداور لسانی شگفتگی ایک نئی صف کا پتہ دیتی ہیں ۔نئی شاعری کے منظر نامہ پر ظفر کی تقریباً تمام نظمیں تفاہیم مدراج کی طرف قاری کو دعوت فکر ہی نہیں دیتیں بلکہ انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ ظفر ؔ کے اسلوب کی اس ندرت میں ان کے لسانی شعور کی بالید گی کا بڑا حصہ ہے جو ان کی فکر میں رچ بس گئی ہے ۔ شعریات کی افہام وتفہیم کے سلسلے میں یہی لسانی شعور کلیدی رول ادا کر تا ہے ۔اس سلسلے میں بہت مختصر تبصرہ نئی شاعری کے تناطر میں محترم صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے مضمون ’’انحراف کی شاعری ‘‘ میں کیا ہے ’’ جدید شاعر بہت اونچے مر مر یں مناروں پر بیٹھا ہے اور وہ مینارے اور بھی اونچے ہو تے جا رہے ہیں ۔ شاعری جب تک اس زبان کے بولنے والو ں کی (نقادوں اور شاعروں کی نہیں ) تہذیب کی جزو نہ بن جائے وہ عظمت سے محروم رہے گی ۔ ‘‘
زبان وادب پر یہ اہم تبصرہ ظفر گورکھپوری کے نئے اسلوب کا دیباچہ ہے جو اپنی عظمت کی تلاش میں نظریات کا اظہار کس شیریں سخنی سے کر تے ہیں ۔
بہت ہے کہنے کو پاس میرے
(کچھ اس قدر کہ لگے یہ عمر عزیز بھی کم )
زمیں پہ ہیں پاؤں
کھڑکیاں ذہن کی کھلی ہیں کہ ان سے تازہ ہو ائیں وہ چاہے مشرق ہو یا مغرب
میں آدمی کے دکھ اور سکھ کی دبیزمٹی سے پھوٹتا ہوں۔ ‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا ظفر علی خان کا یوم وفات
——
آج کے شکست وریخت کا عمل ، اقتدار کی اتھل پتھل ، صارفی عہد کی بے رحمی، ٹیکنا لوجی کی سپر یئر یٹی اور رفتہ رفتہ تمام تہذیبوں کی گمشد گی کسی سانحہ سے کم نہیں ہے ۔ ظفر گورکھپوری پورے عہد کو ایک لیبارٹری قرار دیتے ہیں ۔ ان کی نظم ’’ جانچ گھر‘‘ خوابوں کے ٹوٹنے اور بکھر نے کے عمل کا محاسبہ ہے ۔ ’’ میرے چراغوں کو دفن کردو ‘‘
Generration Gap پر ایک خوبصورت نظم ہے ۔ مگر نظم کا اختتام نظم کی فکری روانی سے انحراف کرتا ہوا لگتا ہے ۔نظم تو دراصل وہیں ختم ہو گئی تھی جہاں انھوں نے کہا تھاکہ ’’ آج کہ دنیا ؍ یہ وہ نہیں ہے کہ جس میں کھولی تھیں تم نے آنکھیں ۔ ”
ظفر گورکھپوری کا تخلیقی سیل رواںزندگی کے تمام مسائل سے الجھتا ہے ۔ انسانیت کی قدروں ، جنگوں اور فسادات سے نبردآزما ہو تا ہے نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرتا ہے جگہ جگہ سیاسی شعور ان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ان کا شعری اسلوب ایران کی تہذیبی اور لسانی بالا دستی سے ہٹ کر ہندوستانی معاشرے میں اپنی جگہ بنارہا ہے ۔ جو ایک خوش آئند امکان ہے ۔
——
منتخب کلام
——
دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے
اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے
——
ناوک جاں پیوستہ سے سینوں کی خلش تو زندہ ہے
پل پل درد کے اٹھنے سے کچھ جاتی تو ہے بیماروں میں
ہم نے کھائے زخم تو مَروہ کی شاخوں پر کچھ پھول کھلے
ہم آشفتہ سروں سے پہلے تھا ہی کیا گلزاروں میں
——
تا دور کہیں سایۂ قاتل نہیں ملتا
کچھ تیر مگر اب بھی رگِ جاں سے ملے ہیں
——
جو چیز ہے اپنی وہ بہرحال ہے اپنی
یہ درد یہ سوز غم و آلام کسے دوں ؟
ملتا نہیں کوئی دلِ پُرخوں کا طلب گار
یہ میکدۂ حافظ و خیام کسے دوں ؟
——
یوں ہی تو زمانے کے نشانے پہ نہیں ہم
کچھ بھی نہ کیا ، ایسا نہیں ، کچھ تو کیا ہے
——
تھا کلہاڑی کا زخم برگد پر
چھاؤں اپنے لہو میں لت پت تھی
——
میں اس جہاں میں ظفرؔ مسخرے کا آنسو تھا
دکھائی کس طرح دیتا تماش بینوں کو
——
گھر کو پہنچے تھے ظفرؔ صاحب کہ زخمی ہو گئے
منتظر آنکھوں نے ایسا کھینچ کر مارا سوال
——
دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے
اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے
اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے
لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے
نیزے پہ رکھ کے اور مرا سر بلند کر
دنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے
دل میں ترے خیال کی بنتی ہے اک دھنک
سورج سا آئینے سے گزرتا دکھائی دے
چل زندگی کی جوت جگائے عجب نہیں
لاشوں کے درمیاں کوئی رستہ دکھائی دے
کیا کم ہے کہ وجود کے سناٹے میں ظفرؔ
اک درد کی صدا ہے کہ زندہ دکھائی دے
——
سلسلے کے بعد کوئی سلسلہ روشن کریں
اک دیا جب ساتھ چھوڑے دوسرا روشن کریں
اس طرح تو اور بھی کچھ بوجھ ہو جائے گی رات
کچھ کہیں کوئی چراغ واقعہ روشن کریں
جانے والے ساتھ اپنے لے گئے اپنے چراغ
آنے والے لوگ اپنا راستہ روشن کریں
جلتی بجھتی روشنی کا کھیل بچوں کو دکھائیں
شمع رکھیں ہاتھ میں گھر میں ہوا روشن کریں
آگہی دانش دعا جذبہ عقیدہ فلسفہ
اتنی قبریں ہائے کس کس پر دیا روشن کریں
شام یادوں سے معطر ہے منور ہے ظفرؔ
آج خوشبو کے وضو سے دست و پا روشن کریں
——
بدن کجلا گیا تو دل کی تابانی سے نکلوں گا
میں سورج بن کے اک دن اپنی پیشانی سے نکلوں گا
نظر آ جاؤں گا میں آنسوؤں میں جب بھی روؤگے
مجھے مٹی کیا تم نے تو میں پانی سے نکلوں گا
تم آنکھوں سے مجھے جاں کے سفر کی مت اجازت دو
اگر اترا لہو میں پھر نہ آسانی سے نکلوں گا
میں ایسا خوبصورت رنگ ہوں دیوار کا اپنی
اگر نکلا تو گھر والوں کی نادانی سے نکلوں گا
ضمیر وقت میں پیوست ہوں میں پھانس کی صورت
زمانہ کیا سمجھتا ہے کہ آسانی سے نکلوں گا
یہی اک شے ہے جو تنہا کبھی ہونے نہیں دیتی
ظفرؔ مر جاؤں گا جس دن پریشانی سے نکلوں گا
——
چاند کوئی افسانہ نہیں
——
اب تو علم کی پروازیں
اور ہی قصے کہتی ہیں
باجی اب تو مت بولو
چاند میں پریاں رہتی ہیں
چاند نہ اپنا ماموں ہے
اور نہ دیس وہ پریوں کا
چاند میں کوئی بڑھیا ہے
اور نہ بڑھیا کا چرخا
صدیوں صدیوں کھوج کے بعد
اب ہم نے یہ جانا ہے
چاند کوئی افسانہ نہیں
ایک حقیقی دنیا ہے
سردی گرمی دونوں تیز
آکسیجن کا نام نہیں
چٹانیں ہیں کھائیاں ہیں
دھرتی سا آرام نہیں
ہو جائے گا پر اک روز
جی لینا آسان وہاں
اپنے جینے کا ساماں
کر لے گا انسان وہاں
علم و ہنر کی دھارائیں
پیچھے کو کب بہتی ہیں
باجی اب تو مت بولو
چاند میں پریاں رہتی ہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔