آج برصغیر کی بے باک صحافی،کالم نگار،ادیبہ،افسانہ نگار،ڈرامہ نگار اور شاعرہ زاہدہ حنا کا یومِ پیدائش ہے

( پیدائش: 5 اکتوبر 1946ء )
——
برصغیر کی بے باک کالم نگار ، ادیبہ ، افسانہ نگار اور شاعرہ زاہدہ حناؔ 05 اکتوبر 1946ء کو صوبہ بہار کے شہر سہسرام میں پیدا ہوئیں۔
زاہدہ حنا کے والد اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کروانا چاہتے تھے مگر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے وہ انہیں کسی اچھے سکول میں تعلیم نہ دلا سکے ۔ زاہدہ حنا کی رسم بسم اللہ کے بعد زاہدہ کو گھر میں آپ کے والد نے ُڑھانا شروع کیا ۔ چھ سال کی عمر میں انہیں ” مسدس حالی” ازبر کروا دی گئی ۔ آٹھ سال کی عمر میں انہیں ” شعر العجم” پڑھا دی گئی۔
معاشی حالات کی وجہ سے پہلی مرتبہ ان کا سکول میں داخلہ ساتویں کلاس میں ہوا تھا۔ بچپن ان کا بہت اداس اور صرف کتابیں پڑھتے ہی گزرا۔ بچپن سے ہی بہت ذہین تھیں۔
لکھنا انھوں نے نو برس کی عمر سے شروع کر دیا تھا 9 برس کی عمر میں انہوں نے پہلی کہانی لکھی تھی۔ مگر 13 سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی چھپی ۔ ٹیپو سلطان کے بارے میں ایک مضمون تھا اور اسے سال کا بہترین ایوارڈ بھی ملا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ناول نگار اور افسانہ نگار جیلانی بانو کا یوم پیدائش
——
سکول کے زمانے میں ہی مضمون نویسی پر تین سال لگاتار پہلا انعام ملتا رہا۔ بی اے تک ہی انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ باوجود کوشش کے ناگزیر حالات کی وجہ سے ایم اے نہ کر سکیں۔
شادی ان کی اکتوبر 1970ء میں معروف شاعر جونؔ ایلیا سے ہوئی۔ دونوں کی یہ پسند کی شادی تھی لیکن افسوس کہ کامیاب نہ ہو سکی۔1990 میں دونوں کی علیحدگی ہو گئی ۔
ان کے تین بچے ہیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ فنانہ اور سہانا بیٹیاں ہیں اور بیٹے کا نام زریون ہے۔
انھوں نے بہت مفلسی میں بھی وقت گزارہ ہے ان کی مفلسی کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک ریگولر بوتل ( سافٹ ڈرنک) بھی وہ کبھی کبھار تین حصون میں بچوں کو بانٹ کر دیتی تھیں۔ ان کی زندگی کی یہ کہانی ساڑھے پندرہ سال کی عمر سے شروع ہوئی تھی اور کئی سال مفلسی اور مشکلات کا سامنا کیا مگر ہمت نہیں ہاری اور سخت محنت کر کے نام کمایا اور عزت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔
1988 سے 2006 تک روزنامہ "جنگ ” میں لکھتی رہیں ۔ اس کے بعد سے اب تک روزنامہ ” ایکسپریس” سے وابستہ ہیں ۔ زاہدہ حنا پاکستان ، ہندوستان ، انگلستان ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مختلف موضوعات پر مقالے پڑھ چکی ہیں۔
کالم اب تک جو انہوں نے ہندی ، سندھی اور اردو زبان میں لکھے ہیں ان کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
ان کی اولین زندگی اسوقت شروع ہو گئی جب ان کا میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا۔ وہ ایک سکول میں بطور کیشئیر دو شفٹ کی تعیانت ہو گئیں اور انھیں دونوں شفٹوں کی تنخواہ 110 روپے ملتی تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعرہ ثمینہ راجا کا یوم پیدائش
——
اس کے بعد وہ اخبارِ خواتین میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر تعینات ہوئیں۔
وائس آف امریکہ میں انہوں نے 1968ء سے لے کر 1970ء تک کام کیا۔ بی بی سی کی اردو سروس میں 1987ء سے 1988ء تک کام کیا۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ
” لکھنے سے زیادہ مجھے پڑھنے کا شوق ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ کاش میں لکھنے والی نہ ہوتی بلکہ پڑھنے والی ہوتی”۔
موسیقی سننا پرانے کلاسیکی گانے سننا انہیں بہت پسند ہے اس کے علاوہ جب وہ پریشان ہوں یا کسی الجھن میں ہوں تو انہیں برتن دھونا اور کھانا پکانا پسند ہے۔ بقول ان کے ان دونوں سے انہیں بہت ذہنی سکون ملتا ہے۔
——
تصانیف
——
تتلیاں ڈھونڈنے والی
راہ میں اجل ہے
عورت: زندگی کا زنداں
باطل فنا ظاہر فنا
زبان کے زخم
عورت، آزمائش کی نصف صدی
ضمیر کی آواز
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
رقص بسمل ہے
درد کا شجر
درد آشوب
اس کے علاہ ان کی کہانیوں کے تراجم بہت ہوئے
زاہدہ حنا کی کتابوں کو انگریزی میں فیض احمد فیض، ثمینہ رحمان اور محمد عمر میمن ترجمہ کر چکے ہیں
——
ڈرامے اور سیریل
——
انہوں نے ٹیلیویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ’’زرد پتوں کا بن‘‘ بہت مقبول ہوا یہ ان کا پہلا ڈرامہ تھا۔
سیریل۔ "پرستار اور۔ "دوسری دنیا ” بھی بہت مقبول ہوئی
——
اعزازت
——
ایوارڈ ملنے کا سلسلہ انہیں آٹھویں کلاس سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
پہلا ایوارڈ انہیں کاسمو پولیٹن گرلز سکول سے ملا ۔ صحافت سے جب وابستہ ہوئیں تو انہیں فیضؔ احمد فیضؔ ایوارڈ ملا، ستور ایوارڈ ، ساغر صدیقی ایوارڈ ملا اس کے علاوہ سب سے بڑا ایوارڈ سارک لیٹریری ایوارڈ ملا۔
۔ 2006ء میں اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انہوں نے ملک میں ملٹری حکومت ہونے کی وجہ سے احتجاجاً یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعرہ پروین فنا سید کا یوم پیدائش
——
بعد ازاں ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد جب 14 اگست 2011 میں انہیں یہی اعزاز دوبارہ عطا کیا گیا تو وہ انکار نہ کر سکیں۔
——
منتخب کلام
——
کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں
——
جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں
دل کسی طور مانتا بھی نہیں
کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں
درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے
میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں
ہر تمنا سراب بنتی رہی
ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں
ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی
اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں
دل کو اب تک یقین آ نہ سکا
یوں نہیں ہے کہ وہ ملا بھی نہیں
وقت اتنا گزر چکا ہے حناؔ
جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں
——
افسانہ ” رانا سلیم سنگھ ” سے اقتباس
——
وحشت میرے اندر بھنور ڈالنے لگتی ہے۔ میں ادھر ادھر نگاہ ڈالتا ہوں۔ میری اسٹڈی کے فرش پر دیوار تا دیوار سفید قالین ہے جس پر کرمان شاہی غالیچے بچھے ہیں۔ یہ غالیچے میں نے جنگ زدہ کابل کے کوچہ مرغاں کی ایک تنگ اور نیم تاریک دکان سے خریدے تھے۔ میں گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوں، سامنے برف کی ڈلیوں سے بھری ہوئی چاندی کی بالٹی ہے، شراب ہے، بھنے ہوئے نمکین کاجو اور بادام ہیں، سنکے ہوئے گوشت کے پارچے ہیں۔ نظراس سے آگے جاتی ہے تو ٹیک ووڈ (Teak Wood) کی دیوار گیر الماریاں ہیں۔ ان کے پیچھے وہ سیف ہے جس میں ڈالر اور پونڈ کی گڈیاں ہیں۔ دوسری قیمتی اشیاء ہیں۔ اس کی بنائی ہوئی ’’بنی ٹھنی‘‘ ہے جسے میں شدید خواہش کے باوجود اپنے گھر کی کسی دیوار پر آویزاں کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ یہ ان الماریوں کا باطن ہے اور ان کے ظاہر میں قیمتی کتابیں سجی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے جمع کئے ہوئے نوادرات ہیں، سب سے اوپر کسی خطاط کا ایک شاہکار ہے اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ میری نگاہیں الماری کے اس طاقچے تک آئی ہیں جس میں مہاتما بدھ کا وہ مجسمہ ہے جسے Fasting Buddha کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تیاگ اور تپسیا نے کپل وستو شہزادے کا بدن گھلا دیا ہے، گنی جا سکتی ہیں۔ پیٹ پیٹھ سے جالگا ہے اس کی دھنسی ہوئی اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں گھبراکر کسی اور شے کو دیکھنے لگتا ہوں۔ اس کی آنکھیں بھی میرے وجود کو حرف حرف پڑھتی تھیں اور مجھے اس کی آنکھوں سے بھی ڈر لگتا تھا پھر بھی دل اس کی طرف کھنچتا تھا۔