اردوئے معلیٰ

پاکیزہ افکار سے مملو شاعری
صاحبزادہ غلام بشیر نقشبندی (دربار مقدّسہ باولی شریف)
——
نعت کا لغوی معنی اوصاف بیان کرنا ہے پھر یہ لفظ خاتم النبین کے سا تھ اس طرح خاص ہوگیا کہ جب بھی نعت کا لفظ سامنے آتا ہے تو قلب و ذہن آپ کے حسن و جمال میں شیفتہ و فریفتہ ہو جاتے ہیں
نعت کا اصطلاحی مطلب آقاکریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی منظوم تعریف ہے۔نعت گوئی کی تاریخ کسی زمانے کے ساتھ محضوص نہیں البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا آپ کی آمد سے قبل بھی سابقہ آسمانی کتب میں آپ کے اوصافِ حمیدہ درج ہیں ۔ ربِ کائنات نے آپ کی شانیں بیان فرمائیں جو قرآنِ مجید اور دیگر آسمانی کتب میں موجود ہیں ۔
پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آپ کی نعتیں لکھیں ۔سِیدنا حیدر کرّار مولا علی کرم وجہہ الکریم فرماتے ہیں :
یَقُولُ ناَ عِتُہٗ لَمْ اَرَ قَبْلہٗ وَلاَ بَعدہٗ مثِلَہٗ (شمائل ترمذی)
ترجمہ :
لَم یاتِ نظیرُک فی نَظَرٍ
مثلِ تو نہ شُد پیدا جانا
حضرت عباس حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت حسان بن ثابت ، حضرت کعب بن زہیر حضرت اسد بن زنیم، حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہم سیدہ نساء العالمین حضرت خاتونِ جنت ؓام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ اور دیگر بہت سارے صحابہ وصحابیات شامل ہیں جنھیں نعت گوئی کا شرف و اعزاز حاصل ہے۔ حاٖٖفظ ابن البر نے 120مدح گو صحابہ حافظ ابن سید الناس نے 200 نعت گو صحابہ کے نام لکھے علامہ یوسف النبھانی نے 4 ضخیم جلدوں میں 34صحابہ کرام کے 461 اشعار جمع فرمائے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نعت کے پھول جو ہونٹوں پہ سجا دیتے ہیں
——
نعت صرف شاعری نہیں اور ہر شاعر اِس کا اہل نہیں صدیوں کی نعتیہ شاعری سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی نعت دل کی آواز بنی تو آہنگ مودبانہ اور مضامین حدودِ شریعت میں ہی رہے اور جب نعت کو صرف شاعری سمجھا گیا تو حدودِ شریعت پامال ہوئیں۔ حسُن کو بیان کرنے کے لئے ــ ’’ بیان کا حُسن ‘‘ ضروری ہے۔ شہِ خوباں کا حسُن بیان کرنے کے لئے ’’بیان کا حسُن ‘‘ فرض ہے۔
صحابہ کرام ؓ کو قربِ رسالت حاصل تھا اور قرب وارفتگی پیدا کرتا ہے مگر اُن کے اندر دین ایسا راسخ ہوچکا تھا کہ جذباتی بے ثباتی قریب نہیں آئی۔ صحابہ کرام کا ہر شعر میزانِ شریعت و محبت پہ پورا اترتا ہے رسول کے وصالِ پاک پر آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا ایک نعت لکھتی ہیں اور آخر میں فرماتی ہیں۔
لَوْ اَنَّ رَبَّ الْعَرْشِ اَبْقَاکَ بَیْنَنَا
سَعِدْنَا وَلٰکِنْ اَمْرَہٗ کَانَ مَاضِیاً
انتہائی دکھ اور کرب کے لمحات میں اللہ کے حکم پر سرِ تسلیم خم ہے۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا عقیدہ ؏
لَوْلَمْ تَکُنْ فِیہِ آیاتُ مُبّیِنَہ
کَانَتْ بَرِیھَتُہٗ تُغْنِیْ عَنِ الْخَیْر
اگر آپ دیگر معجرات نہ لے کر آتے تو آپ کا چہرہ پاک ہی منوالیتا کہ آپ نبی ہیں آپ کا رخِ روشن ہر دلیل سے بے نیاز کردیتا ۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؏
لَہٗ رَاحۃُٗ لَوْ أنَّ مِعْشَارَ جُوْدِھَا
عَلَی البَرِّ کَانَ البرُّ اَنْدَی مِنَ البَحْرِ
——
یہ بھی پڑھیں : سرکارِ مدینہ کی ہر اک بات سے پہلے
——
ترجمہ: آپ کے جود و کرم کا دسواں حصہ بھی خشکی پر آجائے تو وہ سمندر سے زیادہ فیاض ہوجائے گا۔
عہدِ صحابہ سےآج تک نعت گوئی کا حسین سلسلہ کہیں بھی ماند نہیں ہوا ہر نئی صبح نئی روشنی لاتی ہے اُس وقت حضرت حسان بن ثابت ؓ جیسے اجلّہ صحابہ آپ کی عظمت و شان کا خطبہ پڑھ رہے تھے اور آج آپ کے روشن ضمیر خوش نصیب اُمتی نعت گوئی میں مصروفِ عمل ہیں
برِصغیر میں مسلمانوں کی آمد ہوئی تو عربی ،ترکی اور فارسی نےمقامی بولیوں کے ساتھ مل کر ایک نئے لسانی اظہار کو جنم دیا۔جو بعد میں اردو کے نام سے موسوم ہوا۔
نعت عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گسیو دراز (وفات 1422ء )کے اشعار کو اردو میں ابتدائی نعت کہا جاسکتا ہے ۔بعض محققین نے خواجہ فخر الدین نظامی(وفات 1435ء) کی مثنوی’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کو اولین مستند مجموعۂ نعت قرار دیا ہے۔ صوفیانہ کلام نعت کا اہم اثاثہ ہے کتب شاہی سلطنت کے فرمانروا محمد قلی قطب شاہ( وفات 1612
ء) نے سب سے پہلے غزل کی ہیئت میں نعت لکھی۔ غلام قادر شاہ کی نعتیہ غزل کا شعر ہے۔
——
سب بیچ ظہور محمد کا
سب دیکھو نور محمد کا
——
پھر اُردو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے علامہ فضل حق خیر آبادی، کرامت علی مشہدی اور سید کفایت علی کافیؔ کے نام سب سے معتبر ہیں۔ سید کفایت علی کافیؔ کی یہ نعت تو شہرتِ دوام حاصل کر چکی ہے جو آپ نے تختہ دار کی طرف جاتے ہوئے پڑھی۔
——
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حسن رہ جائے گا
——
اگر ملکِ سخن کے فرمانروا کو دیکھنا ہو تو ’’ حدائقِ بخشش‘‘ اُٹھا لیں۔ ایک ایک لفظ شریعت کے مطابق اور زبان کوثر و تسلیم سے دھلی ہوئی ہے۔
——
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہوسکّے بٹھا دیئے ہیں
——
جنگِ آزادی سے قیامِ پاکستان تک کے دور میں عظیم المرتبت ہستیوں نے نعتیہ کلام سے امت میں جذباتِ ایمانی کو زندہ رکھا بلکہ نعت کے ذریعے دنیا میں احیائے اسلام کی تحریک کو زندہ کیا۔پیغامِ حضرتِ اقبالؒ بھی یہی ہے۔
——
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
——
جنگِ آزادی سے قیامِ پاکستان تک کا دور بتاتا ہے کہ نعت کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کر کے معاشرے میں عظیم انقلاب بپا کیا جاسکتا ہے۔تحریکِ پاکستان کے دور میں جلسوں میں نعتیہ کلام پڑھا جاتا رہا۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوئی لمحہ کبھی لمحات سے کٹ کر آئے
——
قیامِ پاکستان کے بعد نعت کے ارتقاء کی رفتار تیز ہوگئی۔اُردو میں نعت گوئی کی تاریخ لکھنا مقصود نہیں ورنہ ان تمام شخصیات کے اسمائے گرامی لکھتا جنھوں نے فروغِ نعت میں اہم کردار ادا کیا۔ہاں اتنا ضرورکہتا ہوں۔
——
جو دل سے مدحتِ خیرالانام کرتے ہیں
انھیں ادب سے فرشتے سلام کرتے ہیں
——
اس وقت میرے سامنے محبّی فی اللہ محمد شکیل نقشبندی صاحب کا نعتیہ کلام ’’نور لمحات‘‘ موجود ہے۔ ان کے اظہارِ محبت میں وارفتگی ہے مگر پابندِ آداب ہے اور یہی میزانِ نعت ہے۔ خوبصورت الفاظ، دلکش استعارات، دل نشیں مضامین و مفاہیم کا ایک گلدستہ ہے جس کا نام ’’ نور لمحات‘‘ ہےاس میں دلوں کو چھو جانے اور ایمان کو تازہ کر دینے والی نعتیں موجود ہیں۔ رنگینیِ سخن میں کلام کے اندر عجب رس بھر دیا ہے۔موزونیت و معنویت، پاکیزگیِٔ افکار اور عشق کی بہار جوبن پر نظر آتی ہے۔ یہ شعر آورد نہیں محض عطا ہے
——
قلزمِ نور ہے پیشانی مبارک یہ بجا
نقشِ نعلین کو بھی رشکِ آفتاب لکھو
——
اور یہ مصرعہ تو وجد آفریں ہے۔
——
’’ہر حسن کی دستار ہے نعلین پہ قرباں‘‘
——
یہ مقطع اظہار حقیقت بھی ہے کمالِ ادب بھی۔
——
دست بستہ ہوا ہر حرف یہ کہہ کے شکیلؔ
کون کر سکتا ہے آقا تیرے معیار کی بات
——
میں مصروفیات کی بنا پر ’’ نور لمحات‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کر سکا بہر حال جس قدر نور نور صفحات دیکھ سکا ہوں اُن سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ دعا قبول ہو گئی ہے۔
——
مولاشکیلؔ کو بھی سوز و ہنر عطا ہو
نعتِ نبی سے یہ بھی دل کے دیے جلائے
——
میری دعا ہے کہ فیاضِ ازل مزید توفیقات عطا فرمائے نور نوازی کا سلسلہ جاری رہے اور دل اُس حسین و لطیف جذبۂ عشق کو پا لے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے۔
——
سانسیں پڑھیں درود اور دھڑکنیں سلام
حاصل مجھے وہ لذتِ عشقِ رسول ہو
——
تقریظ
غضنفر جاود چشتی
——
’’نور لمحات‘‘ میرے شہر گجرات کے رہنے والے ایک عاشقِ رسول عزت مآب جناب محمد شکیل نقشبندی کا پہلا مجموعۂ نعت ہے۔ آپ ایک انتہائی خوبصورت سوچ کے مالک ہیں۔ پر اُمید ہوں کہ شاعرِ دربارِ رسالت کی یہ کاوش ربِ کائنات کے حضور ضرور شرفِ باریابی حاصل کرے گی۔
نعت اس لحاظ سے معتبر صنفِ سخن ہے کہ اس کے تمام معیار رسولِ کریم کے سامنے مقرر فرمائے گئے۔ عہدِ نبوی کے ایک سخنور حضرت کعبؓ کے نعتیہ شعر میں ’’من سیوف الہند‘‘‘ کے بجائے آپ نے ’’من سیوف اللہ‘‘ کی خوبصورت تبدیلی فرما کر اپنے اللہ سے بے مثال اور لامحدود نسبت کو پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت ابوطالب نے اپنے ایک شعر میں نعت کا کیا ہی خوبصورت مضمون باندھا ہے۔
ترجمہ: ’’ وہ روشن و تابناک چہرے والے ہیں جن کے وسیلے سے بادلوں سے پانی مانگا جائے۔‘‘
عربی میں نعتیہ شاعری کا آغاز تو دورِ رسالت میں ہی ہوگیا تھا لیکن ہمارے ہاں اردو شاعری کی شروعات بارہویں صدی ہجری میں ہوئی۔ ولی دکنی نے حمد، نعت منقبت کے اسلوب وضح کیے اور یہ کام آج تک جاری ہے
——
یہ بھی پڑھیں : سر نہیں جھکتا ہے نہ جھکے، دل جان سے جھکتا لگتا ہے
——
سلسلۂ نعت ویسے بھی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ سچ ہے کہ آپ کی ذاتِ گرامی ہر زمانے کا نور اور جانوں کا سکون ہے۔ آپ کے دم سے ہی نبضِ حیات میں حرارت ہے۔
تمام معروف اور غیر معروف شعراء آپ کے اخلاقِ حسنہ، معجزات، فصاحت و بلاغت، عظمتِ کردار اور شانِ شفاعت کا ذکر اپنے اپنے الفاظ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑے ہی سوہنےانداز میں کرتے رہے ہیں۔
محمد شکیل نقشبندی بھی ان خوش نصیب نعت نگاروں کی صف میں بڑے ادب سے سرجھکائے کھڑے نظر آتے ہیں جنھوں نے انتہائی مختصر عرصے میں بڑے سلیقے اور اہتمام کے ساتھ نعت کے مشکل اور نازک میدان میں قدم رکھا لیکن وہ اپنے قارئین کو یہ گمان نہیں ہونے دیتے کہ یہ ان کا پہلا مجموعۂ نعت ہے۔ ان کی رفتار میں اعتدال اور مضامین میں پختگی ہے۔ ان کا اسلوب اور لحن دونوں ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ شاعرانہ کمالِ فن دکھانے کے بجائے انھوں نے سادہ بیانی اور خالص وارداتِ قلبی سے کام لیا ہے۔ حرف حرف سوز و گداز، عجز و اخلاص اور عقیدت و محبت کی خوشبو بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔ استغاثہ کا کیا ہی عمدہ اظہار ہے۔
——
بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو
تم والیِء کونین ہو تم نازِ بشر ہو
غم کے ماروں کے لیے کیا مداوا ڈھونڈا ؏
جب بھی گھیرا ہے دکھوں نے تو ثناخوانی کی
بہرِ تسکین دردوں کی فراوانی کی
——
اور عظمتِ نعت کے حوالے سے کیا ہی خوبصورت فکر انگیز پیغام ہے ؏
——
ہے نعت قدم بوسیِء سرکارِ دو عالم
یہ حسنِ سخن کا کوئی میداں تو نہیں ہے
——
یہ نعتیہ اشعار بھی ان کی کیفیاتِ قلبی کا خوبصورت اظہار ہیں
——
نور لمحات میں اب عشق سویرا ہوگا
دل کی بستی میں فقط آپ کا ڈیرا ہوگا
بزمِ سرکار میں دیکھی ہے حقیقت یہ شکیل
جتنا جھک جائے کوئی اتنا وڈیرا ہوگا
——
اور ان کا یہ شعر جہاں ان کی فکری وسعتوں کی عکاسی ہے وہیں حضور کے انسانیت پر جو احسانات ہیں ان کو دلکش خراجِ تحسین بھی ہے۔
——
تہذیب و تمدن کے یہ منشور و عنایات
اے محسنِ انساں ترے افکار پہ واری
——
میری دعا ہے ربّ ِ کائنات ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین
——
’’نور لمحات ‘‘پر ایک نظر
یعقوب پرواز
——
غالب نے کہا تھا ؏
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
——
میری نظر میں پورے نعتیہ ادب میں اس سے بڑا شعر نہیں کہا گیا۔ دلیل اس دعویٰ کی یہ ہے کہ جو ذات اپنے ممدوح کی شان و عظمت کما حقہ جانتی ہو وہی اس کی مدحت کا حق ادا کر سکتی ہے اور یہی بات غالب نے مندرجہ بالا شعر میں کہی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز تو اسی لمحے ہو گیا تھا جب خالقِ کائنات نے ارواحِ انبیا سے عہد لیا تھا کہ تمہارے ہوتے میرے محبوب کی تشریف آوری کی صورت میں تمہیں ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ہوگی۔ یہاں سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی موجودگی میں خالقِ کائنات نے پہلی نعت کہی۔
سورۂ احزاب میں ارشاد ہوا، بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی علیہ سلام پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ سورہ حجرات میں حضور کی تعظیم کے آداب سکھائے گئے کہ اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو مبادا تمہارے اعمال ضائع کر دئیے جائیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا بے شک اللہ نے آپ کو شاہد،مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے تو یہ سارے قرینے نعت ہی کے ہیں۔ بلکہ جامع الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ کتاب مقدس آپ پر اتاری گئی تو لا محالہ آپ کی نعت ٹھہری۔
نعت کی اہمیت جاننے کے لیے یہ کہنا کافی ہے کہ اس کا آغاز حیاتِ طیبہ میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ صحابہ کرام میں سے نعت گوئی کا شرف حضرت علی، کعب بن مالک، کعب بن زہیر، عبداللہ بن رواحہ کے حصے میں آیا اور حضرت حسان بن ثابت کو تو شاعر ِدربارِ رسول ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
نعتیہ شاعری کا ذکر امام شرف الدین بوصیری ؒ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ان کا تصنیف کردہ قصیدہ "بردہ شریف” نعتیہ ادب کا شہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
نعت گوئی کا یہ سلسلہ ازل سےجاری ہے اور و رفعنا لک ذکرک کے سرمدی اور نورانی نغمات ابد تک گونجتے رہیں گے۔
محمد شکیل نقشبندی خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے نعت گوئی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے قلیل مدت میں ایک نعتیہ مجموعہ نہ صرف مرتب کر لیا ہے بلکہ اس کی اشاعت کا شرف بھی حاصل کر رہے ہیں۔ محمد شکیل نقشبندی سے برسوں کی شناسائی ہے لیکن انہوں نے اس حقیقت کو پردۂ اخفا میں رکھا کہ وہ نعت سے وابستہ ہیں۔ اب ان کا مسودہ نعت "نور لمحات” دیکھنے کا موقع ملا تو حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات نے ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کر دی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہجر کے روح فرسا یہ لمحات ہیں، جاں پریشاں ہے، اشکوں کی برسات ہے
——
محمد شکیل نقشبندی کی نعت کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سرکارِ دو عالم کی سیرت کا بہ نظرِ عمیق مطالعہ کر رکھا ہے اور میرے خیال میں اس کے بغیر نعت کہی بھی نہیں جا سکتی اور قلم کے بہکنے کا اندیشہ رہتا یے۔ نعت گوئی ایک مشکل فن ہے جو ہر کس و ناکس کا مقدر نہیں بنتا۔ یہ سعادت سرکارِ مدینہ سے والہانہ محبت و شیفتگی کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ مقامِ شکر ہے کہ محمد شکیل نقشبندی نے نعت نگاری میں جذبۂ عشقِ رسول سے خوب خوب کام لیا ہے اور قارئین پر ایک سرشاری کی کیفیت طاری کر دی ہے۔
محمد شکیل نقشبندی نے اصحاب اربعہ اور اہل بیت عظام کے مناقب بھی لکھے ہیں اور ان نفوس قدسیہ سے اپنی فطری وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ محمد شکیل نقشبندی نے اپنے پیر و مرشد حضرت غلام بشیر نقشبندی آستانہء عالیہ باولی شریف کی منقبت بھی شاملِ کتاب کی ہے جس کا ہر شعر مرشد سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی ان کی یہ کاوش اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول و منظور فرمائے اور اسےعاشقان نعت کے قلوب کو منور کرنے کا ذریعہ بنائے
——
اظہارِ تشکر
محمد شکیل نقشبندی
——
کروڑ ہا شکر اس خالقِ کائنات کا جس کی عظمت لا محدود ہے اور قصور جس کی بخششوں کو کم نہیں کرتے۔ درودوسلام کے بے انتہا نذرانے حضور رحمۃ اللعالمین کی پاک بارگاہ میں جن کا وجودکائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ سلامِ عقیدت و محبت میرے کریم مرشدِ رفعت نواز قبلہ پیر صاحبزادہ غلام بشیر نقشبندی صاحب (سجادہ نشین آستانہ عالیہ باولی شریف) کی بارگاہِ کرم میں جنھوں نے میرے دل میں عشقِ سرکار کی ایسی شمع جلائی کہ پھر کبھی اس کی حرارت کم ہوئی نہ روشنائی۔ آپ کی نظرِ کرم جہاں میرے لیے نعت نگاری کے آغازِ سفرکا باعث بنی وہیں اس کے سفرِ ارتقاء میں میری رہنما اور مشعلِراہ بھی رہی۔
آپ کے آستانہ عالیہ مرکزِ روحانیت باولی شریف سے جو حضور کی مدحت کا لنگر بٹ رہا ہے میرے دامنِِ فکر میں اتنی وسعت نہ تھی کہ اس سب کو سمیٹتا مگر آپ کے وجودِ کرم کے سامنے کاسۂ گدائی لیے ہمیشہ کے لیےمیرا جسم اور روح مؤدب کھڑے ہیں کیونکہ ؏
——
بٹ رہا ہے قریہ قریہ با ولی کا فیضِ عام
ہو رہی ہے بیعتِ عشقِ محمد صبح و شام
مجھ سے احقر کو ملا مدحت نگاری کا شرف
اس عطا پر مرشدِ والا کرم میرا سلام
——
نعت نگاری کے حوالے سے میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ میں نے کوشش کی ہے کہ نعت لکھتے وقت اپنی اوقات اور عظمتِ بارگاہِ رسالت دونوں پہ نظر رہے۔ عشقِ سرکار کا کوئی جذبہ یا کیفیت مجھے قرآن و شریعت کی پابندیوں سے غافل نہ کرے۔ ہر ہر لفظ کا محاسبہ بھی ہو اور ہر نعت حضور کی محبت میں اضافے کا باعث بنے۔ اللہ کریم مری اس کاوش کو قبول فرمائے۔
مرے اندر نعت کی تحریک پیدا کرنے والی دو شخصیات کو آج بالخصوص خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں سب سے پہلے تو اس صدی کے عظیم نعت نگار سلطانِ نعت جناب ریاض حسین چودھری جن سے مل کر اور جن کے کلام پڑھ کر میرے اندر نعت کی وسعتوں اور عظمتوں نے جنم لیا اور دوسرے عظیم بزرگ فنائے عشقِ آقا حاجی محمد نواز صاحب مدنی ہیں جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ حضور کی محبت اور نعت کی سرشاری میں گزرتا۔ ان دونوں ہستیوں نے مجھ نا چیز کے ساتھ کمال شفقت فرمائی۔ اللہ کریم ان دونوں مرحومین کے درجات کو ہر لمحہ بلندیاں عطا فرمانے۔
اس نعتیہ مجموعہ کی اشاعت کے حوالے سے انتہائی شکر گزار ہوں اپنے خاندان کے انتہائی محترم بزرگ اور عزیز مداحِِ حبیب جناب یعقوب پروازؔ اور میرے شہرِ گجرات کے نامور نعت گو شاعر غضنفر جاود چشتی صاحب کا جنھوں نے قدم قدم پہ میری رہنمائی بھی کی اور فنی حوالے سے میری مدد بھی فرمائی۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے انتہائی محترم بھائی عاشقِ مدینہ حاجی عمران ظفر صاحب عطاری سابقہ ایم پی اے گجرات کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے زندگی کے ہر موڑ پر میری پذیرائی اور کتاب کی اشاعت کے حوالے سے ہر طرح سے میری معاونت فرمائی۔ اللہ انھیں اجرِ جزیل عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ اپنے محترم دوست محمد شہزاد شفیق صاحب نقشبندی خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ شرقپور شریف کی محبتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اس کاوش کے لیے میری بھرپور حوصلہ افزائی فرمائی۔
میں اس موقع پر اپنی پیاری بہنوں اور بھائیوں عامر شہزاد صاحب اور محمد جمیل صاحب کی دعاؤں کا بھی شکر گزار ہوں اللہ کریم میرے لیے دعا گو ہر شخص کو دونوں جہانوں کی عزتیں اور میرے والدین۔ آباء و اجداد کو مغفرتِ کاملہ اور بلندیٔ درجات عطا فرمائے۔
حضور سیّدِ عالمین کی بارگاہِ بے کس پناہ میں التجا ہے کہ مجھے اور میری نسلوں کو اپنی محبت و اطاعت ابد آباد تک عطا فرما دیں۔
——
مجھ احقرِ اعظم کو عطا نعت ہوئی ہے
کیوں نہ ہو شکیلؔ احمدِ مختار پہ واری
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔