اردوئے معلیٰ

Search

آج پاکستان کے نامور خطاط، شاعر ،عالم دین اور معروف روحانی شخصیت علامہ سید نفیس الحسینی نفیس رقم کا یوم پیدائش ہے۔

علامہ سید نفیس الحسینی نفیس رقم(پیدائش: 11 مارچ 1933ء – وفات: 5 فروری 2008ء)
——
سید نفیس الحسینی کا اصل نام سید انور حسین تھا اور وہ 11 مارچ 1933ء کو ضلع سیالکوٹ موضع گھوڑیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے والد سید محمد اشرف علی سید القلم اور حکیم سید نیک عالم سے خطاطی کے رموز سیکھے۔ 1951ء میں آپ مستقلاً لاہور منتقل ہوگئے اور بہت جلد عالم اسلام کے نامور خطاطوں میں شمار ہونے لگے۔آپ نے خط نستعلیق میں خط نفیسی کے نام سے ایک خط بھی ایجاد کیا تھا۔ آپ کو خانہ کعبہ، مینار پاکستان، اسلامک سمٹ مینار، عجائب گھر لاہور اور ایوان اقبال میں خطاطی کا موقع ملا۔ آپ نستعلیق کے علاوہ ثلث، نسخ، دیوانی، رقعہ، اعجاز اور کوفی خطوط پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ علامہ سید نفیس الحسینی ایک بلند پایہ صوفی بزرگ اور شیخ طریقت بھی تھے اور مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کے خلیفہ مجاز تھے۔ حکومت پاکستان نے آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔
5فروری 2008ء کو علامہ سید نفیس الحسینی نفیس رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے اور لاہور ہی میں اپنی بناکردہ خانقاہ حضرت سید احمد شہید میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ ، ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: مولانا مجیب الرحمن انقلابی
——
اسلامی فن خطاطی کے امام جنہیں مکۃ المکرمہ کی مسجد الحرام کے ایک دروازے پر خطاطی کی سعادت بھی حاصل ہوئی
قرآنی آیات اور درود شریف کی خطاطی کے علاوہ آپؒ نے کلام اقبالؒ پر بھی خوبصورت خطاطی کی
گزشتہ 60برسوں میں برصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ فن خطاطی کو آپ ؒ سے ہی سیکھا گیا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اطہر نفیس کا یوم وفات
——
عالم اسلام کی عظیم اصلاحی وروحانی شخصیت اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر اسلامی فن خطاطی کے امام اور حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ جیسے لوگ روز روزپیدا نہیں ہوا کرتے ایسے فرشتہ صفت لوگ عطیہ خدا وندی ہوتے ہیں جو لوگوں کے مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہوئے ان کو شرک دبدعت اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں میں توحید، عشق رسالت، عظمت صحابہؓ اور حُبِّ اہلِ بیتؓ کی شمعیں روشن کر کے ان کیلئے ہدایت اور جنت کی طرف راہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ 1933ء میں گھوڑیالہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اصل نام انور حسین لیکن عالم اسلام میں نفیس الحسینی شاہ کے نام سے مشہور ہوئے آپؒ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے قریبی قصبہ بھوپالہ کے ہائی سکول میں حاصل کی۔ 1947ء میں اپنے ماموں فاضل دیوبند حضرت مولانا سید محمد اسلمؒ کے پاس فیصل آباد آتے ہیں اور پھر آپ نے ایف اے تک تعلیم فیصل آباد میں ہی حاصل کی اگرچہ فن خطاطی آپکو ورثہ میں ملی لیکن آپؒ نے فن خطاطی کا باقاعدہ آغاز دوران تعلیم ہی 1948ء میں کیا۔ آپؒ نے فن خطاطی اپنے والد ”سید القلم“ سید محمد اشرف علیؒ سے حاصل کی جو خط ”نسخ“ کے ماہر اور قرآن مجید کی خطاطی میں مہارت اور شہرت رکھتے تھے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ کی تاریخی لائبریری میں دیگر نادر و نایاب ہزاروں کتابوں کے علاوہ اپنے والد گرامی سید محمد اشرف علیؒ کے ہاتھ سے لکھا ہوا مکمل قرآن کا نادر نسخہ بھی موجود ہے جو بڑے شوق سے اکابرین و علماء کو اپنی لائبریری کا دورہ کراتے ہوئے دکھاتے……
1952ء میں آپؒ لاہو رتشریف لائے اور میکلوڈ روڈ میں آغا شورش کشمیری مرحوم کی چٹان بلڈنگ میں اپنا دفتر قائم کیا، قاضی محمد سلمان منصور پوری ؒ کی سیرت پر شہرہ آفاق کتاب ”رحمۃ اللعالمین“ کی کتابت سے اپنے فن کاباقاعدہ آغاز کیا……آپ نے جن کتابوں کی مکمل کتابت کی ان میں سب سے زیادہ ”دیوانِ غالب“ کو شہرت ملی۔
آپؒ نے ”خط نستعلیق“ میں جو مہارت اور خاص مقام حاصل کیا اس میں آپؒ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپؒ اپنے فن کے خود اُستاد اور امام تھے۔ خطاطی کی دنیا میں آپ ”نفیس رقم“ کے نام مشہور ہیں۔ آپؒ نے خط نسخ اور خط نستعلیق کے علاوہ خط کوفی، خط ثلث، خط رقع اور خط اعجازہ میں بھی فن پارے تخلیق کئے۔
حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ کو مکۃ المکرمہ کی مسجد الحرام کے ایک دروازے پر خطاطی کی سعادت بھی حاصل ہوئی جو کہ ایک یاد گار اور شاہکار فن خطاطی کا نمونہ ہے، قرآنی آیات اور درود شریف کی خطاطی کے علاوہ آپؒ نے کلام اقبالؒ پر بھی خوبصورت خطاطی کی اورمنتخب کلام اقبال ایوانِ اقبال لاہور کیلئے کینوس کی تقریباً پچاس شیٹوں پر خط نستعلیق جلی میں علامہ اقبالؒ کے اشعار لکھے جو بعد میں نفائس اقبال کے عنوان سے کتابی شکل میں خطاطی کے فن پارے شائع ہوچکے ہیں۔ آپؒ نے بے شمار دینی و اسلامی کتابوں کے ٹائٹل تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب یوینورسٹی مجلس ترقی ادب، مرکزی اُردو بورڈ، اقبال کیڈمی، مرکزی تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور، مجلس نشریات اسلام اور مکتبہ سید احمد شہیدؒ اردو بازار لاہور سمیت کئی علمی و ادبی اداروں کے ہزاروں ٹائٹل آپؒ نے تیار کئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور صوفی حضرت واصف علی واصفؒ کا یوم پیدائش
——
پتھروں پر حضرت سید نفیس الحسینیؒ کی بہترین خطاطی لاہور میں مسجد صلاح الدین ٹمبر مارکیٹ، مسجد علیؓ موہنی روڈ اور مسجد فیض الاسلام گنپت روڈ لاہور شامل ہیں جبکہ دارالعلوم عثمانیہ رسول پارک اچھرہ لاہور کی مسجد میں پتھروں پر پورے ملک میں سب سے زیادہ حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ کی فن خطاطی کے نمونے پائے جاتے ہیں، مسجد الحرام خانہ کعبہ کے علاوہ مینار پاکستان، سمٹ مینار (شاہراہئ قائد اعظم) ایوان اقبال اور عجائب گھر میں بھی حضرت نفیس الحسینی شاہؒ کے عظیم فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 60برسوں میں برصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ فن خطاطی کو آپ ؒ سے ہی سیکھا گیا ہے۔
حضرت سید نفیس الحسینی ؒ نے کئی ممالک کے دورے کئے ایران اور مصر میں فن خطاطی کے بین الاقوامی مقابلہ میں جج کی حیثیت سے شرکت کی۔ پاکستان کی طرف سے پاکستان کے تمام خطاطوں میں پہلا پرائڈ آف پر فارمنس ایوارڈ اور میڈل 1980ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی نمائش خطاطی میں اول انعام، 1982 ء میں پاکستان پبلک ریلیشنز سوسائٹی کے زیر اہتمام قرآنی خطاطی کی کل پاکستان نمائش میں بھی آپ کو اوّل انعام دیا گیا۔
حضرت سید نفیس شاہؒ فن خطاطی کے امام کے علاوہ شعر وشاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ آپ ؒ کو حضور، اہل بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ والہانہ عشق و محبت تھی جس کا اظہار آپؒ کے شاعری کلام میں موجود ہے۔ آپ کی اسی شعری سخن کے منتخب کلام ”برگ گل“ کے عنوان سے اہل ذوق میں مقبولِ عام ہے۔ حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ کو اللہ تعالیٰ نے محبوبیت و مقبولیت سے خوب نوازا تھا جو بھی آپ کی محفل میں آتا، آپ کی روح پرور شخصیت، اخلاص وللٰہیت سے متاثر ہوتا، آپؒ کے دست حق پر بیعت کرتے ہوئے اپنے ویران دل کو آباد کر کے انہی کا ہو کر رہ جاتا۔ پوری دنیا میں آپ ؒ کے لاکھوں مرید ہیں۔ آپؒ عاشق رسول، محب اہل بیتؓ وصحابہ کرامؓ، علم و عمل،زہد و تقویٰ کے پیکر اور مرجع خلائق تھے۔ آپ ؒ اپنی محفلوں میں اہل بیتؓ کے روشن تذکرے اس والہانہ انداز اور محبت سے کرتے کہ ان کو سننے والا بھی ان کی محبت سے سر شار ہو جاتا آپؒ اہل بیت ؓ اور صحابہ کرامؓ پر کتابیں تحریر کرنے اور ان کی ناموس کے تحفظ کیلئے کام کرنے والوں کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت فرماتے، اہلِ حق کی تمام دینی و مذہبی جماعتوں اور دینی مدارس کی سرپرستی کرتے……
چار شخصیات سے بہت زیادہ متأثر تھے اور اکثر ان کا ذکر اپنی محفل میں کرتے رہتے۔ (۱) امام زین العابدینؒ کے بیٹے حضرت زید بن علیؒ۔ (۲) حضرت گیسو دارزؒ۔ (۳) حضرت سید احمد شہیدؒ(۴)اور اپنے شیخ و مرشد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ۔ حضرت نفیس الحسینی ؒ کے حکم پر آپ ؒ کے خلیفہ مجازاور جامعہ اشرفیہ کے استاذ الحدیث مولانا محمد یوسف خان صاحب مدظلہٗ نے امام زین العابدین ؒ کے بیٹے حضرت زید بن علیؒ کی شخصیت پر کتاب بھی تحریر کی۔ جبکہ حضرت گیسو دراز ؒکی آٹھویں صدی ہجری میں تحریر کردہ ”تفسیر الملتقط“ جو کہ برطانیہ لائبریری میں محفوظ ہے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحبؒ نے اس کی فوٹو کاپی حاصل کر کے اس کے اصل عکس کو خوبصورت انداز میں شائع کراکر اسلاف کی تحریر کو اصل رنگ میں زندہ کیا اور اس کیلئے حضرت سید نفیس الحسینی ؒ نے خود دو مرتبہ برطانیہ کا سفر کیا۔ اسی طرح آپؒ سید احمد شہیدؒ کی شخصیت اور ان کے جہادی کارناموں سے بہت متأثر تھے اسی نسبت سے آپؒ نے سگیاں پل کے قریب لاہور میں اپنی خانقاہ کا نام بھی سید احمد شہید ؒ رکھا……آپؒ نے سید احمد شہید ؒ کی”آپ بیتی“ وقائع سید احمد شہیدؒ کی کتاب کی نایاب کاپی حاصل کر کے انتہائی خوبصورت انداز میں اُس کے اصل عکس شائع کر کے اہل حق کیلئے ایک مستند اور نادر مواد مہیا کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : بھر دو داماں ہمارے آپ کی چوکھٹ پہ آئے ہیں
——
آپؒ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے آخری خلیفہ تھے جہاں آپ کے لاکھوں لوگ مرید و عقیدت مند ہیں وہاں آپ کے تقریباً 120 کے قریب نامور خلفاء بھی موجود ہیں جن کو آپ نے با ضابطہ خلیفہ مجاز بنایا۔
ملک کے دیگر دینی اداروں کی طرح جامعہ اشرفیہ لاہور سے آپ کو خاص تعلق اور محبت تھی جامعہ اشرفیہ کے مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی مدظلہٗ مشوروں او ردعاؤں کیلئے آپ کی خانقاہ میں اکثر حاضر رہتے۔ جبکہ راقم الحروف (مجیب الرحمن انقلابی) کے ساتھ بھی خصوصی شفقت فرماتے وفات سے چند روز قبل انٹرنیشنل ختم نبوت مو ء ومنٹ کے سابق مرکزی امیر حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ کے ہمراہ عیادت کیلئے خانقاہ سید احمد شہید ؒ پر حاضر ہوا تو حضرت نفیس شاہ ؒ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اپنی دعاؤں اور شفقت و محبت سے خوب نوازا……
آخر کاراسلامی فن خطاطی کا یہ امام، عالم اسلام کی عظیم روحانی شخصیت، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز، کان کی تکلیف اور علالت کے بعد 5فروری 2008ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ نماز جنازہ عتیق سٹیڈیم متصل بادشاہی مسجد لاہور میں ادا کی گئی جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے ملک بھر سے شرکت کی۔ نمازہ جنازہ سید جاوید حسین شاہ صاحب نے پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو خانقاہ سید احمد شہیدؒنزد سگیاں پل کے ساتھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
——
یہ بھی پڑھیں : رہبر راہ ہدایت، حضرت نواب شاہ
——
منتخب کلام
——
وہ عشق جس کی آگ بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپشِ انتظار کا
——
کیوں شکوۂ غم اے دلِ ناشاد کرے ہے
اک غم ہی تو ہے جو تجھے آباد کرے ہے
دل محوِ محبت ہے اسے کچھ نہیں پرواہ
آباد کرے کوئی کہ برباد کرے ہے
——
ساقی تری نظر پہ مری زندگی نثار
تیرے فیوض رُوکشِ پنجاب ہو گئے
ضرب المثل تھیں جن کی بلا نوشیاں نفیسؔ
ساقی کے دردِ جام سے سیراب ہو گئے
——
یہ التجا ہے کہ روزِ محشر گناہگاروں پہ بھی نظر ہو
شفیعِ اُمت کو ہم غریبوں کی چشمِ تر کا سلام پہنچے
——
یہی بات کہنے کو جی چاہتا ہے
مدینے میں رہنے کو جی چاہتا ہے
——
سراپائے اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
——
اے رسول امیں، خاتم المرسلیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب، اے تو عالی نسب، اے تو والا حسب
دودمانِ قریشی کے دُرِثمین، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
بزم کونین پہلے سجائی گئی، پھر تری ذات منظر پر لائی گئی
سید االاولیں، سید الآخریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا، اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
"سدرۃ ُالمنتہیٰ” رہگزر میں تری ، "قابَ قوسین” گردِ سفر میں تری
تو ہے حق کے قریں، حق ہے تیرے قریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
مصطفےٰ مجتبےٰ، تیری مدح وثنا، میرے بس میں ، دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں، کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی، ہیں یہ صدیق، فاروق، عثمان ، علی
شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں، سرورِ دلبراں دلبرِ عاشقاں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
——
آرزو
یہی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے
مدینے میں مرنے کو جی چاہتا ہے
یہ کس جانِ جاناں کا فیض نظر ہے
کہ جی سے گزرنے کو جی چاہتا ہے
بگڑنے ہی میں عمر گزری ہے ساری
خدایا! سنورنے کو جی چاہتا ہے
——
اداس راہیں
طریق ہجرت سے متاثر ہو کر
حرم سے طیبہ کو آنے والے! تجھے نگاہیں ترس رہی ہیں
جدھر جدھر سے گزر کے آئے! اداس راہیں ترس رہی ہیں
رسول اطہر جہاں بھی ٹھیرے ، وہ منزلیں یاد کر رہی ہیں
جبینِ اقدس جہاں جھکی ہے، وہ سجدہ گاہیں ترس رہی ہیں
جو نور افشاں تھیں لحظہ لحظہ ، حضور انور کے دم قدم سے
وہ جلوہ گاہیں تڑپ رہی ہیں ، وہ بارگاہیں ترس رہی ہیں
صبائے بطحا غموں‌سے پر ہے، فضائے اقصیٰ بھی دکھ بھری ہے
اب ایک مدت سےحال یہ ہے، اثر کو آہیں ترس رہی ہیں
خیال فرما کہ چشم عالم تری ہی جانب لگی ہوئی ہے
نگاہ فرما، کہ ساری امت کی میٹھی چاہیں ترس رہی ہیں
نفیس کیسا یہ وقت آیا، سلوک و احساں کے سلسلوں پر
جہاں مشائخ کی رونقیں تھیں، وہ خانقاہیں ترس رہی ہیں
——
شہیدان بالا کوٹ
شہادت گاہِ بالاکوٹ سے واپسی پر
قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر
وہ پہنچے بارگاہ ِ حق میں کتنے سرخرو ہو کر
فرشتے آسماں سے ان کے استقبال کو اترے
چلے ان کے جلو میں باادب، باآبرو ہو کر
جہانِ رنگ و بو سے ماورا ہے منزل جاناں
وہ گزرے اس جہاں سے بے نیاز رنگ و بو ہو کر
جہاد فی سبیل اللہ نصب العین تھا ان کا
شہادت کو ترستے تھے سرپا آرزو ہو کر
وہ رہباں شب کو ہوتے تھے تو فرساں دن میں رہتے تھے
صحابہ کے چلے نقش قدم پر ہوبہو ہو کر
مجاپد سر کٹانے کے لیے بے چین رہتا ہے
کہ سر افرازہوتا ہے وہ خنجر در گلو ہو کر
سرمیداں بھی استقبال قبلہ وہ نہیں بھولے
کیا جام شہادت نوش انھوں نے قبلہ رو ہو کر
زمین و آسماں ایسے ہی جانبازوں پہ روتے ہیں
سحاب غم برستا ہے شہیدوں کا لہو ہو کر
شہیدوں کے لہو سے ارض ِ بالاکوت مشکیں ہے
نسیمِ صبح آتی ہے ادھر سے مشکببو ہو کر
نفیس ان عاشقان پاک طینت کی حیات و موت
رہے گی نقش دہر اسلامیوں کی آبرو ہو کر
——
اے دوست جب سے وقفِ خرابات ہو گئی
عمرِ عزیز کتنی خوش اوقات ہو گئی
ساقی نے اپنی ذات میں مجھ کو سمو لیا
میری حیات مستِ مئے ذات ہو گئی
دل پر پڑا پرتوِ حسن و جمالِ دوست
جاری زباں پہ حمد و مناجات ہو گئی
صبحِ ازل چلا تھا میں اُن کی تلاش میں
شامِ ابد کے بعد ملاقات ہو گئی
پَو پھٹ رہی تھی محوِ نظارہ تھے ہم مگر
سورج کے انتظار ہی میں رات ہو گئی
فکرِ سلیم ، ذوقِ نظر ، ہمتِ بلند
ہر چیز نذرِ گردشِ حالات ہو گئی
اربابِ ہوش اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
جوشِ جنوں میں مجھ سے کوئی بات ہو گئی
شعر و سخن میں اب وہ کہاں فکر و آگہی
اب شاعری ہجومِ خیالات ہو گئی
جب بھی نفیسؔ آئی ہے اُس جانِ جاں کی یاد
روئی کچھ ایسے آنکھ کہ برسات ہو گئی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ