اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر آفتاب حسین کا یومِ پیدائش ہے

آفتاب حسین(پیدائش: 6 جون 1962ء )
——
آفتاب حسین پاکستان کے شہر تلہ گنگ ، چکوال میں 6 جون 1962 کو پیدا ہوئے ۔
آفتاب حسین اُن گنے چنے شعرا میں سے ایک ہے جن کےہاں موضوع اور اظہار کے درمیان ایک خاص طرح کا توازن دکھائی دیتا ہے ۔
اُس کی شاعری پر غور کریں ۔ اس کا بنیادی مسئلہ تلاش کریں تو ڈور کا سرا آسانی سے ہاتھ نہیں آتا ۔
کہیں وہ اداس ہے تو کہیں بیزار ۔ کہیں وہ عشق میں مبتلا دکھائی دیتا ہے تو کہیں اہلِ عشق سے لاتعلق ۔ کہیں اس کے ہاں زندگی کی طرف وارفتگی اور تعلق سے بڑھنے کا رویہ دکھائی دیتا ہے تو کہیں موت کی وادیاں اسے بلانے لگتی ہیں ۔
کہیں وہ اپنے معروض سے تعلق محسوس کرنے لگتا ہے تو کہیں مغائرت اور بیگانگی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔
اور یہی اس عہد میں ہر جینے والے کا تجربہ ہے ۔
آفتاب حسین کا تعلق اس نسل سے ہے جو معاشی اور معاشرتی زوال سے گزری ۔ مارشل لائی نظام کی تمام تر سختیوں اور ترقی کے نام نہاد عمل کے پیدا کردہ بحران کی زد میں آئی ۔ اس نسل نے پوری شدت سے فرد کی نفی کا تجربہ کیا ۔
اس لیے اپنے دیگر ہم عصروں کی طرح وہ بھی واضح ہونا چاہتا ہے ، سمت کا تعین کرنا چاہتا ہے ، اپنے عصر کے سوالات کو سمجھنا اور ان سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے ۔
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر مسئلے کے حل کا حصۃ نہیں بنے تو خود مسئلے کا حصہ بن جائے گا ۔
وہ بھٹک رہا ہے لیکن یقین کی منزلوں کی جانب رواں دواں ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مہتاب و آفتاب نہ ان کی ضیا سے ہے
——
بھٹک رہا ہوں اِدھر اُدھر ، اور یہ سوچتا ہوں
ہزار رستے گماں کے بھی ہیں ، یقیں سے پہلے
——
ہم سے پہلی نسل کے شاعر اداس تھے ، وہ یاد کے سہارے زندگی گزارتے تھے ۔ بے چراغ بستی میں کھوئے ہوئے کو ڈھونڈا کرتے تھے ۔ ان کے پاس چھوڑی ہوئی جگہوں کی یادیں اور خواب تھے ۔
لیکن ہماری تو زندگی ہی کہیں کھو گئی ہے ۔ اسے کہاں تلاش کیا جائے ؟
سو آفتاب حسین بھی ڈھونڈتا ہے اس زندگی کو ۔ اپنے خارج میں اپنے داخل میں ۔ اپنے خوابوں اور ٹوٹی ہوئی نیند میں ۔ اس کے پاس واحد سہارا اپنی ذات ہے کہ اس کے علاوہ سب حوالے مٹ چکے ہیں یا کمزور پڑ گئے ہیں ۔
انہی سوالات کا سامنا کرتے ہوئے کہیں وہ ذات کے صحرا کو پار کرنے لگتا ہے اور کہیں اسے اپنی رھگزر کسی کے ہاتھوں غبار ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔
وہ بے ٹھکانہ محسوس کرتا ہے ۔
——
یہ دل کی راہ چمکتی تھی آئنے کی طرح
گزر گیا وہ اِسے بھی غبار کرتے ہوئے
——
کھلا ہوا ہوں تیرے شاخچوں پر
اگرچہ میں بہار میں نہیں ہوں
——
ایسے عالم میں اسے خواب غنیمت لگتے ہیں اور اپنی موجودگی کا واحد جواز :
——
نگاہ کے لیے اک خواب بھی غنیمت ہے
وہ تیرگی ہے کہ یہ روشنی بھی غنیمت ہے
——
آفتاب حسین کی غزل میں موت کا بیان بھی ملتا ہے ۔ اس کے ہاں موت ایک ازلی ابدی سچائی اور اس سے وابستہ ملال کا اظہار کرتی ہے ۔
——
تو کیا اجل سب حسین منظر اُجاڑ دے گی
یہ پھول چہرے ، یہ ماہ پارے نہیں رہیں گے
——
تو نے اسے دیکھنے والے کبھی دیکھا ہی نہیں
پھیلتے جاتے ہیں سائے ترے اندر کیا کیا
——
کفِ درد سے ، غمِ کائنات کی گرد سے
وہی مٹ رہا ہے جو نقش سا ہے نگاہ میں
——
وہ موت پر غور کرتا ہے ، اس پر ملول ہوتا ہے لیکن اس ملال سے اس نے زندگی تخلیق کی ہے ۔ اور زندگی کی قوت سے موت کے ہاتھ جھٹکنے کی خواہش کی ہے ۔
——
روشن ہوں کس ابد کے اُفق پر میں آفتاب
لرزاں ہے دستِ بادِ فنا میرے سامنے
——
ازلی ابدی اقدار پر توجہ دیتے ہوئے اس نے اپنے گرد و پیش سے آںکھیں بند نہیں کیں ۔ کہ کوئی بھی ذمہ دار تخلیق کار اپنے معروض سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔ وہ اپنے سامنے موجود زندگی کو دیکھتا ہے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ، اس پر رائے زنی کرتا ہے ، اس سے پیار کرتا ہے اور اُسے جھٹک دیتا ہے ۔
وہ دل برداشتہ ہے کہ حالات کا دھارا اسے قدم نہیں جمانے دیتا ۔
——
تھی لیکن اس قدر بھی نہ تھی مضطرب حیات
فرصت نہیں کہ کیجیے سعیِ گناہ تک
——
روز بنیاد اٹھاتا ہوں نئی
روز سیلاب بہا کر لے جائے
——
پھر ایک گہری اداسی اس کے شعروں میں راہ پاتی ہے ۔ ایک ایسے مسافر کی اداسی جو قافلے کے ساتھ چلتے چلتے کہیں کھو گیا ہے ۔ جس کے سامنے منزلیں معدوم اور راستے گم ہو چکے ہیں ۔
——
اک زمانہ تھا کہ اک دنیا مرے ہمراہ تھی
اور اب دیکھوں تو رستہ بھی نگاہوں میں نہیں
——
لیکن اس دل شکن صورت حال میں بھی آفتاب حسین نے اپنے دل کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیا ۔ وہ اندر سے مضبوط اور بہادر آدمی ہے ۔ لیکن ایک مہذب انسان کی طرح اپنی بے خوفی سے ڈر بھی جاتا ہے ۔
——
خود اپنے ہاتھ کی ہیبت سے کانپ جاتا ہوں
کبھی کبھی کسی دشمن پہ وار کرتے ہوئے
——
کہیں کہیں اس نے موضوع نبھانے کے لیے خالص روایتی انداز کا بھی سہارا لیا ہے ۔ اور قدیم زبان کی چاشنی سے پرانے کلاسیکل شعرا کی یاد دلائی ہے ۔ لیکن یہاں بھی اس کی انفرادیت صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔
——
عمرِ رفتہ کے نشاں ڈھونڈتا ہوں
آپ کو کوئی پتا ہو صاحب
تم کہ نفرت کی نظر سے دیکھتے ہو
اے تمہارا بھی بھلا ہو صاحب
——
اس کی شاعری میں ابلاغ مسئلہ نہیں بنتا ۔ اس کے شعر کی ایک پرت فوراََ کھل جاتی ہے لیکن اس کے اشعار میں ایک پہلو دار معنویت بھی موجود ہے ۔
وہ ایک خاص معیار سے نیچے نہیں اترتا ۔
اس کے اشعار میں سادگی ہے ، پرکاری ہے ، مصرعوں کی ترشی ہوئی شکلیں ہیں ، تلازمہ کاری ہے ، شگفتگی اور برجستگی ہے ۔ اس نے نہایت سادگی سے ایسے رواں دواں اشعار تخلیق کیے ہیں جنہیں تا دیر یاد رکھا اور خود کلامی کے انداز میں دہرایا جا سکتا ہے ۔
——
منتخب کلام
——
عجیب خواب تھا جس نے مجھے خراب کیا
مری گرفت میں آ کر نکل گئی دنیا
——
کبھی فلک پر کسی ستارے سے جا ملوں گا
میں کب تلک یوں پڑا رہوں گا تری زمین پر
——
گرچہ پتوار ٹوٹے ہیں کشتی کے ، پر آس ٹوٹی نہیں
کوئی جھونکا ہی شاید ہمیں لے چلے ساحلوں کی طرف
——
ہمہ وقت اپنی شبیہہ کے ہوں میں روبرو
کوئی اشک ہے کہ یہ آئنہ ہے نگاہ میں
——
میں حرف بن کے تری روح میں اُتر جاؤں
مرا سخن تری محفل میں باریاب تو ہو
——
اک روشنی کا تار ہے اور ٹوٹتا نہیں
میرے دلِ خراب سے اُس کی نگاہ تک
——
دکانِ دل بڑھاتے ہیں ، حسابِ بیش و کم کر لو
ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے
——
ایک ہی منظر دیکھ رہا ہوں ، اِس بے انت خرابے میں
ایک ہی صورت جھانک رہی ہے صدیوں کی ویرانی سے
——
رات اُس حسنِ دلآرام کی چھب تھی کوئی
تو نے دیکھی نہیں کل رات غضب تھی کوئی
——
میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں
گزر رہا ہوں ابھی رہگزر بناتے ہوئے
——
جہاں بھی کوئی ذرا ہنس کے بات کرتا ہے
میں اپنے زخم نمودار کرنے لگتا ہوں
——
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا
میں جب چلوں گا تو ریگزاروں میں الفتوں کے کنول کھلیں گے
ہزار تم میرے راستوں میں محبتوں کے سراب لکھنا
فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا
وہ میری خواہش کی لوح تشنہ پہ زندگی کے سوال ابھرنا
وہ اس کا حرف کرم سے اپنے قبولیت کے جواب لکھنا
گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا
——
تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے
اگرچہ ایک زمانہ ہے دیکھنے کے لیے
کوئی نہیں جو ورائے نظر بھی دیکھ سکے
ہر ایک نے اسے دیکھا ہے دیکھنے کے لیے
بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے
ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو
تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے
گزر رہا ہے جو چہرے پہ ہاتھ رکھے ہوئے
یہ دل اسی کو ترستا ہے دیکھنے کے لیے
نہیں ہے تاب نظارہ ہی آفتابؔ حسین
وگرنہ دہر میں کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے
——
مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے
کہیں کیا سلسلہ دل کا کہاں پر جا نکلتا ہے
مژہ تک آتا جاتا ہے بدن کا سب لہو کھنچ کر
کبھی کیا اس طرح بھی یاد کا کانٹا نکلتا ہے
دکان دل بڑھاتے ہیں حساب بیش و کم کر لو
ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے
ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی
ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے
میان شہر ہیں یا آئنوں کے روبرو ہیں ہم
جسے بھی دیکھتے ہیں کچھ ہمیں جیسا نکلتا ہے
یہ دل کیوں ڈوب جاتا ہے اسی سے پوچھ لوں گا میں
ستارہ شام ہجراں کا ادھر بھی آ نکلتا ہے
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
——
فصیل شہر تمنا میں در بناتے ہوئے
یہ کون دل میں در آیا ہے گھر بناتے ہوئے
نشیب چشم تماشا بنا گیا مجھ کو
کہیں بلندی ایام پر بناتے ہوئے
میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں
گزر رہا ہوں ابھی رہ گزر بناتے ہوئے
کسے خبر ہے کہ کتنے نجوم ٹوٹ گرے
شب سیاہ سے رنگ سحر بناتے ہوئے
پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے
کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے
مگر یہ دل مرا یہ طائر بہشت مرا
اتر ہی آیا کہیں مستقر بناتے ہوئے
دلوں کے باب میں کیا دخل آفتاب حسینؔ
سو بات پھیل گئی مختصر بناتے ہوئے
——
حوالہ جات
——
اقتباسات از ابرار احمد کتاب : مطلع ، مصنف: آفتاب حسین
شائع شدہ 1999 ء ، صفحہ نمبر 15 تا 28
شعری انتخاب ، مطلع ۔ متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ