آج برصغیر پاک و ہند کے نامور اردو ڈرامہ نگار و معروف لیجنڈ اور انڈین شیکسپیئر کا خطاب پانے والے آغا حشر کاشمیری کا یوم وفات ہے۔

——
آغا محمد حشر ابن آغا غنی شاہ بنارس میں 1879ء میں پیدا ہوئے تعلیم و تربیت بنارس میں ہوئی۔ آپ کے والد مذہبی معاملات میں قدامت پسند تھے۔ اس لیے آغا حشر کاشمیری ابتدا میں انگریزی تعلیم سے محروم رہے۔ دینیات کی تعلیم مولوی عبد الصمد سے حاصل کی اور سولہ پارے حفظ کیے۔
آغا حشر کاشمیری موزوں طبیعت رکھتے تھے۔ چھوٹی عمر میں شعر کہنے لگے اور فائز بنارسی کو کلام دکھانے لگے۔ مہدی حسن احسن لکھنوی مشہور ڈراما نویس سے جھڑپ ہوجانے پر ڈراما نگاری کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ 1897ء میں آپ کا پہلا ڈراما (آفتاب محبت) کے نام سے شائع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ آغا حشر نے انیس سال کی عمر میں ڈراما نگاری میں نام پیدا کر لیا تھا تاہم وہ آگے چل کر اردو زبان کے شیکسپئر کہلائے۔ آغا حشر نے انگریزی زبان سیکھی اور شیکسپئر اور دیگر غیر ملکی ڈراما نویسیوں کے ڈرامے پڑھے اور بعض کا اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی لکھیں۔ 1935ء میں لاہور میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔
آغا حشر کاشمیری نے بے شمار ڈرامے لکھے جن میں خواب ہستی، رستم و سہراب، مرید اشک، اسیر حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا، سفید خون بہت مشہور ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : محمد احسن فاروقی کا یوم پیدائش
——
ان کی مقبولیت کی وجوہات کو چراغ حسن حسرت نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
’ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیئٹر ہی تھیئٹر تھا۔ اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے، احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب ناٹک کی لنکا کے باون گزے تھے، لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہآغا حشر کاشمیری سے پہلے اس فن کی قدر بھی کیا تھی؟ بچارے ڈراماٹسٹ تھیئٹر کے منشی کہلاتے تھے۔‘
زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ آغا حشر کو ہندوستان کے شیکسپیئر کا خطاب دے دیا گیا۔ انھیں خود بھی یہ لقب پسند تھا، چنانچہ انھوں نے جب 1912 میں اپنی ڈراما کمپنی کا آغاز کیا تو اس کا نام انڈین شیکسپیئر تھیئٹریکل کمپنی رکھا۔
شیکسپیئر کے تراجم کے علاوہ حشر نے جو دوسرے ڈرامے لکھے ان میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ کو بےحد مقبولیت حاصل ہوئی۔
——
ہندوستانی شیکسپیئر آغا حشر از ظفر سید
——
(شیکسپیئر کی 400 سالہ برسی کے موقعے پر لکھی جانے والی خصوصی تحریر۔)
روح: ہوشیار، جلدی نہ کر، ذرا دم لے، پہلے شخص سے قسم لے۔
جہانگیر: امدادِ ربانی، اللہ اللہ، جہانگیر کے حال پر یہ مہربانی۔ کیوں بھائی، یہ آواز پہچانی؟
اختر: زمین کے نیچے سے کوئی کلام کرتا ہے۔
جہانگیر: قسم کھلانے کا یہ انتظام کرتا ہے۔
یہ مکالمہ آغا حشر کے ایک ڈرامے سے لیا گیا ہے جو شیکسپیئر کے ’ہیملٹ‘ کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ہے۔ ایسے ہی تراجم نے حشر کو وہ شہرت بخشی کہ وہ ہندوستان کے شیکسپیئر کہلانے لگے۔
آغا حشر کاشمیری نے یہ ڈراما ایک پارسی تھیئٹر کمپنی کے لیے لکھا تھا۔ انگریزوں کی دیکھا دیکھی شروع ہونے والے پارسی تھیئٹر نے نہ صرف برصغیر کی ثقافت پر انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ آج وہ بالی وڈ کے نام سے اپنی ارتقائی شکل میں دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتا ہے۔
یہ تھیئٹر صحیح معنی میں گنگاجمنی تہذیب کی علامت تھا اور اس کے اداکاروں، ہدایت کاروں، مصنفوں، موسیقاروں اور فنکاروں میں پارسی، ہندو، مسلمان، عیسائی، حتیٰ کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے مل کر کام کرتے تھے اور اس تھیئٹر کی زبان وہی تھی جو سارے ہندوستان کی سانجھی بولی تھی، یعنی ہندوستانی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر وزیر آغا کا یومِ وفات
——
پارسی تھیئٹر نے یوں تو بہت سے طبع زاد ڈرامے بھی لکھوائے لیکن شیکسپیئر بالکل سامنے موجود تھا، اس لیے جلد ہی ان کے ڈراموں کے تراجم ہونا شروع ہو گئے۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ایک پارسی نوشیروان جی مہروان جی ’آرام‘ نے ہیملٹ کو ’خونِ ناحق‘ کے نام سے اردو چولا پہنا کر شیکسپیئر کا سب سے پہلا اردو ترجمہ کیا۔
اس کے بعد یکے بعد دیگرے شیکسپیئر کے کئی تراجم ہوئے، تاہم ان ڈراموں میں عظیم انگریزی ڈراما نگار کے ہاں پائی جانے والی پیچیدہ نفسیاتی اور فلسفیانہ گہرائی کو نظرانداز کر کے ان کی بجائے سستے رومانوی مناظر، رقص و موسیقی کی بھرمار، اور پھکڑ پن کی حدوں کو چھوتی ہوئی مزاح نگاری پیش کی جاتی تھی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان ڈراموں کے ناظرین زیادہ تر عام لوگ ہوا کرتے تھے جو سستی تفریح حاصل کرنے کے لیے تھیئٹر کا رخ کرتے تھے۔
اس دور میں ڈراما کمپنیاں شہر شہر کے دورے کر کے اپنے ڈرامے پیش کرتیں جن میں عوامی ذوق کی تسکین کے لیے گانوں کی بھرمار ہوا کرتی۔ حتیٰ کہ جب کوئی گانا تماشائیوں کو پسند آ جاتا تو وہ اصرار کر کے اسے دوبارہ بھی گوا لیتے۔
اس دوران آغا حشر کاشمیری نے تھیئٹر کی دنیا میں قدم رکھا اور آتے ہی اپنے ہی ایک ڈرامے کے کردار سیزر کی طرح سب پر چھا گئے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شیکسپیئر کی روح کو اپنانے میں مکمل طور پر کامیاب رہے، البتہ ان کے پاس ڈرامائی آہنگ برتنے کا قدرتی ملکہ، فنی مہارت اور پلاٹ کی بنت کا ہنر موجود تھا جو شیکسپیئر کو ڈھالنے میں بہت کام آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے کاؤس جی تھیئٹر کمپنی کے لیے ’بزمِ فانی‘ (رومیو جولیٹ)، ’مارِ آستین‘ (اوتھیلو)، ’مریدِ شک‘ (ونٹرز ٹیل)، ’شہیدِ ناز‘ (کنگ جان) اور اردشیر دادا بھائی کے لیے ’سفید خون‘(میژر فار میژر) اور ’خوابِ ہستی‘ (میکبیتھ) تحریر کیے جو اس قدر مقبول ہوئے کہ آغا حشر کا نام ہندوستان کے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : چونکا دینے والے لہجے کے شاعر آنِس معین کے ادبی سفر کی داستان
——
آغا حشر کاشمیری یکم اپریل 1879 کو بنارس میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم تو زیادہ نہیں پائی لیکن مطالعے کے شوق کی ایک مثال منٹو کی زبانی سن لیجیے:
’اتنے میں پان آ گئے جو اخبار کے کاغذ میں لپٹے ہوئے تھے۔ نوکر اندر چلا تو آغا صاحب نے کہا ’کاغذ پھینکنا، نہیں سنبھال کے رکھنا۔‘ میں نے ایک دم حیرت سے پوچھا: ’آپ اس کاغذ کو کیا کریں گے آغا صاحب؟‘
آغا صاحب نے جواب دیا ’پڑھوں گا۔ چھپے ہوئے کاغذ کا کوئی بھی ٹکڑا جو مجھے ملا ہے، میں نے ضرور پڑھا ہے۔‘
حشر نے شیکسپیئر کو ہوبہو منتقل نہیں کیا بلکہ انھیں ہندوستانی معاشرت کا چولا پہنا دیا، جس کے لیے کرداروں کے نام بھی ہندوستانی رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی بار شیکسپیئر کے المیہ ڈراموں کا انجام بھی بدل کر طربیہ کر دیا ہے۔
آغا حشر کاشمیری نے مشہور گلوکارہ مختار بیگم سے آخری شادی کی تھی۔ منٹو نے اپنے خاکے میں اسے آخری عمر کا عشق قرار دیا تاہم مختار بیگم کہتی ہیں: ’میں جب ان کی زندگی میں داخل ہو گئی تو انھوں نے بتایا کہ میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھتا رہا ۔ تمھارے ملنے سے شعر بن گیا ہوں، میری نامکمل زندگی کے ساتھ ساتھ تم نے میری شاعری کو بھی مکمل کر دیا ہے۔ اب میری تحریر اس قدر بلندی پر جا پہنچی ہے کہ مجھے کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔‘
ڈراما نگار ہونے کے ساتھ ساتھ آغا حشر کاشمیری قادر الکلام شاعر بھی تھے، حتیٰ کہ مشاعروں میں علامہ اقبال بھی ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ حشر کی کئی غزلیں آج بھی شوق سے گائی اور سنی جاتی ہیں:
——
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
——
یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں؟
——
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
——
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب سے اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
——
ہندوستان کے اس شیکسپیئر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو لاہور میں ہوا۔
——
منتخب کلام
——
یہ میری شاعری اے حشرؔ شرحِ دردِ الفت ہے
وہی سمجھیں گے اس کو جو زبانِ دل سمجھتے ہیں
——
بھری ہو آگ سینے میں تو شعر گرم پیدا ہو
کہ شاعر وہ شجر ہے حشرؔ جلتا ہے تو پھلتا ہے
——
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
——
بہا جاتا ہے تن گھل گھل کے اشکوں کی روانی میں
گرے کٹ کٹ کے دریا کا کنارہ جیسے پانی میں
——
دل کے آئینے میں تصویریں جڑی ہیں حسن کی
جس طرف کو میں چلا ساتھ اک پری خانہ چلا
——
یہ تو مئے انگور ہے کیا بات ہے اس کی
تو زہر بھی ہاتھوں سے پلائے تو مزا دے
——
جس راہ میں ہیں ٹھوکریں وہ راہ اے انساں نہ چل
جرم و گنہ کے بوجھ سے ورنہ گرے گا منہ کے بل
——
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب سے اٹھتے ہیں ، جو جانا دور ہوتا ہے
ہماری زندگانی حشرؔ مٹی کا کھلونا ہے
اجل کی ایک ٹھوکر سے جو چکنا چور ہوتا ہے
——
صاحبِ تاج گئے ، مفلس و محتاج گئے
ہم بھی جاتے ہیں اگر کل نہ گئے آج گئے
——
اچھا ہے کسی طرح کٹے بھی شبِ فرقت
اے دل میں تجھے ، تو مجھے الزام دئیے جا
ڈر ہے کہ کہیں سعی کی طاقت بھی نہ لے لے
قسمت کو دعا کوششِ ناکام دئیے جا
——
تم ستم کرتے رہے اور ہم ستم دیکھا کیے
خانماں برباد ہو کے رنج و غم دیکھا کیے
سر ہوئے تیغِ عداوت سے قلم دیکھا کیے
تم نے کیں لاکھوں جفائیں اور ہم دیکھا کیے
——
حشرؔ یہ کالی گھٹائیں اور توبہ کا خیال
تم یہیں بیٹھے رہو میں سوئے میخانہ چلا
——
جو خزاں ہوئی وہ بہار ہوں ، جو اُتر گیا وہ خمار ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں ، جو اُجڑ گیا وہ دیار ہوں
میں کہاں رہوں میں کہاں بسوں ، یہ یہ مجھ سے خوش ہ وہ مجھ سے خوش
میں زمین کی پیٹھ کا بوجھ ہوں ، میں فلک کے دل کا غبار ہوں
مرا حال قابلِ دید ہے ، نہ تو یاس ہے نہ امید ہے
نہ گلہ گزار خزاں ہوں میں ، نہ سپاس سنج بہار ہوں
کوئی زندگی ہے یہ زندگی ، نہ ہنسی رہی نہ خوشی رہی
مری گُھٹ کے حسرتیں مر گئیں ، انہی حسرتوں کا مزار ہوں
وہ ہنسی کے دن وہ خوشی کے دن ، گئے حشرؔ یاد سی رہ گئی
کبھی جامِ بادۂ ناب تھا ، مگر اب میں اُس کا اُتار ہوں
——
اُن کے تیور وہی ہیں اتنی دل آزاری کے بعد
آج تو میں رو دیا احساسِ ناچاری کے بعد
آبرو کے مدعی تھے جان کے دشمن نہ تھے
دشمنوں کی قدر جانی آپ کی یاری کے بعد
رو چکا اے دل جواں مرگی پہ اپنی صبر کر
صبر ہی کرنا پڑے گا نالہ و زاری کے بعد
عشق کی توہین ہے درمانِ الفت کی تلاش
کہہ گئے چپکے سے یہ بھی میری غم خواری کے بعد
پیچھے پیچھے حشرؔ ہے آگے فریبِ آرزو
پھر چلا اُس کی گلی میں اس قدر خواری کے بعد
——
اک قیامت روز ہے بیمارِ الفت کے لیے
کیسے مانوں دن مقرر ہے قیامت کے لیے
اس لیے کرتا ہے سجدے عشق تیری یاد کو
اک خدا بھی چاہیے دنیائے الفت کے لیے
کیوں خفا ہوتے ہو میں آیا ہوں اتنا پوچھنے
کیا سزا تجویز کی ہے جرمِ الفت کے لیے
اے خوشا قسمت ، نگاہِ ناز گر کر لے قبول
لائے ہیں نذرِ وفا اک بے مروت کے لیے
——
غریبوں کا بھی کوئی آسرا ہوتا تو کیا ہوتا
بتِ کافر ہمارا بھی خدا ہوتا تو کیا ہوتا
کوئی لذت نہیں ہے پھر بھی دنیا جان دیتی ہے
خداوندا محبت میں مزا ہوتا تو کیا ہوتا
جب اتنی بے وفائی پر اسے دل پیار کرتا ہے
جو یارب وہ ستمگر باوفا ہوتا تو کیا ہوتا
سنا ہے حشرؔ وہ ذکرِ وفائے غیر کرتے تھے
جو میں بھی بیچ میں کچھ بول اٹھا ہوتا تو کیا ہوتا
——
جس دن سے بے مروت تو جلوہ گر نہیں ہے
دنیائے عاشقی میں شب ہے ، سحر نہیں ہے
بیمارِ غم نہ ہو گا اچھا تسلیوں سے
اچھی دوا تھی لیکن اب کارگر نہیں ہے
مستی میں حسن اس کا ، نشے میں ہے جوانی
وہ کیا مری خبر لے جسے اپنی خبر نہیں ہے
اے حشرؔ دیں گی دھوکا ظالم کی مست آنکھیں
ہو آشنا وفا سے ، یہ وہ نظر نہیں ہے
——
تم کیا ہر ایک مجھ سے بیزار ہے جہاں میں
عنوانِ بے کسی ہوں دنیا کی داستاں میں
سجدے نہیں ہیں ہمدم جھک جھک کے پڑھ رہا ہوں
لکھی ہے میری قسمت اس سنگِ آستاں میں
کافر تری زباں ہے قدرت کا شعرِ رنگیں
ورنہ کہاں سے آیا جادو ترے بیاں میں
اے حشرؔ ہو مبارک ، ہے آج وصل کی شب
اک چاند ہے بغل میں ، اک چاند آسماں میں
——
سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر
اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
——
شعری انتخاب از آغا حشر کاشمیری ، حیات اور کارنامے
مصنفہ : مسز شمیم ملک ، متفرق صٖفحات
پیشکش : اردوئے معلیٰ