اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر امیرالشعراء منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی کا یوم وفات ہے

 

امیر مینائی
——
(پیدائش: 21 فروری 1829ء- وفات: 13 اکتوبر 1900ء)
——
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
——
دبستان لکھنؤ کی خارجیت اور دبستان دہلی کی داخلیت کا حسین امتزاج پیش کرنے والے امیر مینای وہ قادر الکلام شاعر تھے جنہوں نے اپنے زمانہ میں اوراس کے بعد بھی اپنی شاعری کا لوہا منوایا ۔امیر کے کلام میں زبردست تنوع اور رنگارنگی ہے جو ان کے دادا استاد مصحفی کی یاد دلاتی ہے۔امیر، مصحفی کے شاگرد، اسیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔امیر کے مزاج میں مختلف،بلکہ متضاد میلانات کو ترکیب دینے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔زہد و تقوی کے ساتھ وارستگی، معشوق سے دل لگی کے ساتھ عشق حقیقی اور سوز و گداز کے ساتھ کیف و انبساط کی ترنگوں کو انہوں نے انتہائی خوبی سے اپنی غزل میں سمویا۔ ان کی شاعری میں اگر ایک طرف استادی نظر آتی ہے تو ساتھ ساتھ سچی شاعری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔امیر مینائی کی غزل مختلف رنگوں اور خوشبوؤں کے پھولوں کا اک حسیں گلدستہ ہے۔ہم ان کی شاعری کو نیرنگِ جمال سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
امیر مینائی کا نام امیر احمد تھا اور وہ نواب نصیر الدین حیدر کے عہد میں سن 1828 میں لکھنؤ میں پیدا ہوے۔ ان کے والد مولوی کرم احمد تھے اور دادا مشہور بزرگ مخدوم شاہ مینا کے حقیقی بھائی تھے۔اسی لئے وہ مینائی کہلائے۔ امیر مینائی نے شروع میں اپنے بڑے بھائی حافظ عنایت حسین اور اپنے والد سے تعلیم پائی اور اس کے بعد مفتی سعد اللہ مرادابادی سے فارسی عربی اور ادب میں مہارت حاصل کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : تمام ہو گئے ہم پہلی ہی نگاہ میں حیف
——
انہوں نے علمائے فرنگی محل سے بھی فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی لیکن ان کا اپنا کہنا ہے کہ علوم متداولہ کی تکمیل ان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ان کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرعروض تھے۔اس زمانہ میں لکھنو میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ آتش و ناسخ اور اس کے بعد انیس و دبیر کی معرکہ آرائیوں نے شاعری کے ماحول کو گرم کر رکھا تھا۔ رند،خلیل، صبا،نسیم، بحر اور رشک وغیرہ کی زمزمہ سنجیاں سن کر امیر کا شوق شاعری چمک اٹھا اور وہ جلد ہی لکھنؤ اور اس کے باہر مشہور ہو گئے۔ امیر کے کلام اور ان کے کمال کی تعریفیں سن کر1852 میں نواب واجد علی شاہ نے ان کو طلب کیا اور 200 روپے ماہانہ پر اپنے شہزادوں کی تعلیم کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ لیکن 1956 میں انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر لیا تو یہ نوکری جاتی رہی اور امیر گوشہ نشین ہو گئے۔ پھر اگلے ہی سال غدر کا ہنگامہ برپا ہوا جس میں ان کا گھر تباہ ہو گیا، اور ساتھ ہی ان کا پہلا مجموعہ بھی ضائع ہو گیا۔ تب امیر کاکوری چلے گئے اور وہاں ایک سال قیام کرنے کے بعد کانپور ہوتے ہوئے میر پور پہنچے جہاں ان کے خسر شیخ وحید الدین ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ ان کی سفارش پر نواب رامپور یوسف علی خاں ناظم نے ان کو طلب کیا اورعدالت دیوانی کے رکن اور مفتی شرع کی حیثیت سے ان کا تقرر کر دیا۔ اس کے بعد 1865 میں،جب نواب کلب علی خاں مسند نشین ہوے تو مطبع،خبر رسانی اور مصاحبت کے فرایض بھی ان کے ذمّہ ہو گئے۔ نواب نے 216 روپیہ ان کا وظیفہ مقرر کیا۔ انعامات اور دوسری سہولیات اس کے علاوہ تھیں۔
کلب علی خان کے عہد میں اکثر فنوں کے با کمال رامپور میں جمع تھے۔شاعروں میں داغ،بحر،جلال قلق ،اسیر منیر،تسلیم اوج جیسے سخنور وہاں موجود تھے۔اس ماحول میں امیر مینائی کی شاعری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔کلب علی خان کے بعد مشتاق علی خاں اور حامد علی خاں نے ان کی ملازمت کو برقرار رکھا لیکن تنخواہ اور دیگر سہولیات میں بہت کمی ہو ہو گئی۔جب داغ نے رامپور سے حیدر آباد جا کر وہاں عروج پایا تو ان کی ترغیب پر امیر نے بھی خیراباد جانے کا ارادہ کیا۔1899 میں جب نظام کلکتہ سے دکن واپس جا رہے تھے تو داغ کی تحریک سے ان کی ملاقات نظام سے ہوی اور ان کا مدحیہ قصیدہ سن کر نظام بہت خوش ہوےاور ان کو حیدر آباد آنے کی دعوت دی۔1900 میں امیر بھوپال ہوتے ہوے حیدرآباد پہنچے لیکن جاتے ہی ایسے بیمار ہوئے کہ پھر نہ اٹھ سکے۔اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : اکرامِ نبی، الطافِ خدا، سبحان اللہ ماشاء اللہ
——
امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاکباز،عبادت گزار اور متّقی تھے۔درگاہ صابریہ کے سجّادہ نشین امیر شاہ صاحب سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔مزاج میں توکل،فقیری اور استغناء تھاجس نے تواضع اورانکسار کی صفات کو چمکا دیا تھا۔اس کے ساتھ ہی بیباکی اور خود داری،دوست نوازی، شفقت اور عیب پوشی میں بیمثال تھےمعاصر شعراء با لخصوص داغ سے دوستانہ مراسم تھے لیکن کسی قدر چشمک اور رقابت موجوود تھی۔
شعرائے متاخرین، میں امیر مینائی اک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ قصیدہ گوئی میں ان کی قدرت کلام مسلّم ہے جبکہ غزل میں ان کے کلام کا عام جوہر زبان کی سلاست، مضمون کی نزاکت اور شگفتہ بیانی ہے جس میں لکھنؤ کی مناسبت سے لوازم حسن کی رنگینی اور نسوانی خصوصیات کی جھلک موجود ہے۔ کلام سراسر ہموار ہے جس میں موزونیت، نازک خیالی، پختگی،مضموں آفرینی،تمثیل نگاری اور تصوف نے اک رنگا رنگ چمن کھلا دیا ہےمصحفی کی طرح زبان و عروض کے قواعد سے زرا نہیں ہٹتے اور مشّاقی کے زور میں دو غزلے اور سہ غزلے کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں حکیم عبد الحئی کہتے ہیں۔۔”وہ مسلم الثبوت استاد تھے،کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے دست و گریباں ہے،بندش کی چستی اور تراکیب کی درستی سے لفظوں کی خوبصوورتی پہلو بہ پہلو جوڑتے ہیں۔نازک خیالات اور بلند مضامین اس طرح پر باندھتے ہیں باریک نقّاشی پر فصاحت آئینہ کا کام دیتی ہے (گل رعنا)۔رام بابو سکسینہ کی رائے بھی قریب قریب یہی ہے۔ امیر کی غزل میں داغ کی سی برجستگی،شوخی اور صفائی نہیں لیکن پختگی، زبان دانی ، موزونی الفاظ اور رنگینیء مضامین کے اعتبار سے ان کی غزل اک گلدستہ ہوتی ہے۔ اپنے ہمعصر داغ کے مقابلہ میں ان کی شخصیت زیادہ پیچیدہ اور دائرہ عمل زیادہ وسیع ہےانہوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کے بہت سے شعر زباں زد خاص و عام ہیں۔ شاعری سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے ان کا یہ شعر۔۔” خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر*سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے” نہ سنا ہوگا۔
شاعری سے ہٹ کر امیر مینائی کو تحقیق کی زبان سے خاص دلچسپی تھی ۔ انہون نے اردومیں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشاندہی کی اور ان کو 300 صفحات کی اک کتاب میں جمع کیا۔ اس کتاب کا نام” سرمہء بصیرت” ہے۔ان کی کتاب "بہار ہند” اردو کے محاورات اور مصطلحات پر مشتمل ہے جن کی سند اشعار کے ذریعہ پیش کی گئی ہے اور جسے امیر اللغات کا نقش اوّل کہا جا سکتا ہے۔امیر اللغات ان کی نا مکمل لغت جس کی صرف دو جلدیں شائع ہو سکیں۔
شاعری میں امیر مینائی نے متعدد دیوان بشمول "غیرت بہار”، "مراۃ الغیب”،”گوہر انتخاب” اور "صنم خانہء عشق”مرتب کئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نعتیہ رباعیات امیر مینائی
——
آخر الذکر کو وہ اپنے سبھی مجموعوں سے بہتر خیال کرتے تھے۔مذہب اور اخلاق میں "محامد خاتم النبیین” میں ان کا نعتیہ کلام ہے۔انہوں نے چار مسدس۔ذکر شہ انبیاء،صبح اززل، شام ابد اور لیلتہ القدر کے عنوان سے لکھے۔ ۔نور تجلی اور ابر کرم ان کی دو مثنویاں اخلاق و معرفت کے موضوع پر ہیں۔ ان کے علاوہ نماز کے اسرار،زاد المعاد(دعائیں) اور خیابان آفرینش(نثر میں میلاد کی کتاب) ان کی یادگار ہیں.
——
منتخب کلام
——
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
——
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
——
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
——
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
——
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
——
اس شعر میں غضب کا چونچال ہے۔ یہی چونچال اردو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ آنکھیں دکھانا ذو معنی ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ صرف آنکھیں دکھاتے ہو یعنی محض آنکھوں کا نظارہ کراتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ صرف غصہ کرتے ہو کیونکہ آنکھیں دکھانا محاورہ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں جیسے گھور کر دیکھنا، ناراضگی کی نظر سے دیکھنا، گھرکی دینا، اشارہ و کنایہ کرنا، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرنا۔ مگر شعر میں جو طنزیہ پیرایہ دکھائی دیتا ہے اس کی مناسبت سے آنکھیں دکھانے کو گھرکی دینے یعنی غصے سے دیکھنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔
جوبن کے کئی معنی ہیں جیسے حسن و جمال، چڑھتی جوانی، عورت کا سینہ یعنی پستان۔ جب یہ کہا کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے تو مراد سینے سے ہی ہے کیونکہ جب آنکھ دکھائی تو ظاہر ہے کہ چہرہ بھی دکھایا اور جب آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو گویا چڑھتی جوانی کا نظارہ بھی ہوا۔ اگر کوئی چیز جو شاعر کی دانست میں اچھامال ہے اور جسے باندھ کے رکھا گیا ہے تو وہ محبوب کا سینہ ہی ہوسکتا ہے۔
اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم مجھے صرف غصے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور جو چیز دیکھنے کا میں متمنی ہوں اسے الگ سے باندھ کر رکھا ہے۔
——
فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا
——
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
——
باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے
چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے
——
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آ ہستہ آہستہ
سوال وصل پر ان کو ردو کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آ ہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
——
میری تربت پر اگر آئیے گا
عمر ِرفتہ کو بھی بُلوائیے گا
سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے دل سے اُتر جائیے گا
آئیے نزع میں بالیں پہ مری
کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا
وصل میں بوسہء لب دے کے کہا
مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا
ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا
بس، بہت پاؤں‌ نہ پھیلائیے گا
زہر کھانے کو کہا، تو، بولے
ہم جلا لیں گے جو مرجائیے گا
حسرتیں نزع میں‌بولیں مُجھ سے
چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا
آپ سنیئے تو کہانی دل کی
نیند آجائے گی سو جائیے گا
اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے،
بیٹھیئے ، جائیے گا، جائیے گا
کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے
اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا
ڈبڈبائے مرے آنسو، تو، کہا
روئیے گا تو ہنسے جائیے گا
رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا
آئیے بیٹھیئے، گھر جائیے گا
جس طرح عمر گزرتی ہے امیر
آپ بھی یونہیں گزر جائیے گا
——
یہ بھی پڑھیں : وہ کیسا سماں ہوگا کیسی وہ گھڑی ہوگی
——
چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
گُل رُخِ نازک، زلف ہے سنبل، آنکھ ہے نرگس، سیب زنخداں
حُسن سے تم ہو غیرتِ گلشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
ساقیِ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر، شیشہ ہے گردن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ، آفتِ جاں درپردہ لگاوٹ
چاہ کے تیور، پیار کی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
غمزہ اچکّا، عشوہ ہے ڈاکو، قہر ادائیں، سحر ہیں باتیں
چور نگاہیں، ناز ہے رہزن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
نور کا تن ہے، نور کے کپڑے، اس پر کیا زیور کی چمک ہے
چھلے، کنگن، اِکّے، جوشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
جمع کیا ضدّین کو تم نے، سختی ایسی، نرمی ایسی
موم بدن ہے، دل ہے آہن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
واہ امیرؔ، ایسا ہو کہنا، شعر ہیں یا معشوق کا گہنا
صاف ہے بندش، مضموں روشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
——
کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح
روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر
اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے
——
یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
الہٰی ہے دل جائے آرام غم
نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں
کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں
وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں
زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں
——
یہ بھی پڑھیں :  کرے حمدِ رِب ہے یہ کس کی زبان​
——
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے
آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق
دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
برق اگر گرمئ رفتار میں اچھی ہے امیرؔ
گرمی حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے
——
شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
اک جان ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
مہمان ادھر ہما ہے ادھر ہے سگ حبیب
اک مشت استخواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
درباں ہزار اس کے یہاں ایک نقد جاں
مال اس قدر کہاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
بلبل کو بھی ہے پھولوں کی گلچیں کو بھی طلب
حیران باغباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
سب چاہتے ہیں اس سے جو وعدہ وصال کا
کہتا ہے وہ زباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
شہزادی دخت رز کے ہزاروں ہیں خواست گار
چپ مرشد مغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
یاروں کو بھی ہے بوسے کی غیروں کو بھی طلب
ششدر وہ جان جاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
دل مجھ سے مانگتے ہیں ہزاروں حسیں امیرؔ
کتنا یہ ارمغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ