اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف مزاحیہ شاعر جناب انور مسعود کا یوم پیدائش ہے

انور مسعود——
(پیدائش: 8 نومبر 1935ء )
——
انور مسعود معروف شاعر ہیں، جو اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری کرتے ہیں۔ انور مسعود زیادہ تر مزاحیہ شاعری سے مشہور ہوئے۔
انور مسعود کی پیدائش 8 نومبر 1935ء گجرات، میں ہوئی اور بعد میں لاہور کی طرف ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر سے گجرات اپنے شہر کی طرف واپس آ گئے جہاں انہوں نے "زمیندارا کالج گجرات” میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ایم اے (فارسی) کی ڈگری اورینٹل کالج لاہور سے گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ وہ پنجاب کے مختلف کالجوں میں فارسی کے پروفیسر رہے۔
انور مسعود ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ مختلف زبانوں میں لکھ اور پڑھ سکتے ہیں
میلہ اکھیاں دا – پنجابی (پنجاب رائٹرز گلڈ انعام یافتہ)
شاخ تبسم – اردو
غنچہ پھر لگا کھلنے – اردو
میلی میلی دھوپ – اردو
قطعہ کلامی -(اردو قطعات)
فارسی ادب کے چند گوشے -(مقالے)
ہُن کیہ کریئے؟ -(پنجابی کلام) (ہجرہ انعام یافتہ)
تقریب (تعارفی مضامین۔ اُردو)
درپیش – (مزاحیہ اردو)
بات سے بات -(مضامین)
——
مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن پروفیسر انور مسعود از ذوالفقار احمد چیمہ
——
شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات متفق ہیں کہ مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن پروفیسر انور مسعود ہی ہیں ۔ وہ بلاشبہ ایکLiving Legend ہیں۔ صاحبِ علم و دانش، وسیع المطالعہ، جید اسکالر اور اعلیٰ پائے کے استاد۔ وہ اِس وقت ہماری تین بڑی زبانوں اردو، فارسی اور پنجابی (جوہمارے گراں بہا ادبی خزانے کی وارث ہیں) کے سب سے بڑے زندہ شاعرہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : علامہ اقبالؒ
——
پروفیسر صاحب بلاشبہ طنزیہ اورمزاحیہ شاعری کے ایسے ورلڈ چیمپئن ہیں کہ دُور دُور تک ان کا کوئی مَدِّ مقابل نظر نہیں آتا۔ مگر ان کی بے پناہ عوامی مقبولیّت کے باعث ان کی سنجیدہ شاعری وہ توجّہ حاصل نہیں کرسکی جس کی وہ حق دار تھی۔
دور ِ حاضر میں شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے خوش نصیب ہیں کہ انھیں پروفیسر انور مسعود کی صحبتیں میسر ہیں ، وہ جب چاہتے ہیں اُن سے مل سکتے ہیں اور ان کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں ۔میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں اسی بستی میں رہتا ہوں جہاں انور مسعود صاحب کا گھر ہے، تین سے چار منٹ میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جب بھی اُن سے مل کرلَوٹتا ہوں تو دامن میں بہت کچھ سمیٹ لاتا ہوں۔ میری اُن سے ارادت مندی کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ بہت بڑے تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنی فکر چراغِ مصطفوی سے روشن کی ہے ، وہ وطنِ عزیز سے ٹوٹ کر محبّت کرتے ہیں اور وہ بھی حضرتِ اقبالؒ کو مرشد مانتے ہیں۔ ایک وقت آئیگا جب شعر و ادب کے شائقین بزرگوں سے پوچھا کریں گے کہ ’’آپ نے انورمسعود صاحب کو دیکھا تھا ؟ آپ کبھی اُن سے ملے بھی تھے؟ان کی باتیں بھی سنی تھیں؟‘‘
اگر انھیں شعروادب کا سب بڑا ایوارڈ دیا جائے تو یہ اس ایوارڈ کی عزّت افزائی ہو گی۔ اگر ابھی تک نہیں دیا گیا تو یہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ انور مسعود صاحب کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش کے کلام کا اردو ترجمہ ہی ایک ادبی معجزے سے کم نہ ہے۔ دوضخیم جلدوں پر مشتمل اُنکی یہ کتاب حکومتِ پنجاب نے چھاپی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ملک کی ہر لائبریری میں ہونی چاہیے اس کے علاوہ ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ ان کی ایسی کتاب ہے جو فارسی ادب اور شاعری پر ان کی مکمل دسترس کی مظہر ہے۔
انورمسعود صاحب اردو اور پنجابی شاعری کی پندرہ سے زیادہ کتابیں تخلیق کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’میلہ اکھیاںدا‘ کے پچھتر ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جو ہمارے ملک میں ایک حیرت انگیز ریکارڈ ہے۔ ’قطعہ کلامی‘ اور ’بازیافت‘کے بھی درجنوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ان کے طنزیہ اور مزاحیہ کلام اور قطعوں میں ایک Message ہوتاہے، عام آدمی تو صرف مسکرا کر یا قہقہہ لگا کر خاموش ہو جاتا ہے مگر دردِ دل رکھنے والے حضرات ان کے پیغام کی روح کو سمجھ کر مسکرانے کے بعد ملول اور دل گرفتہ ہوجاتے ہیں ، ؏ قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے وہ خود کہتے ہیں ۔
——
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انورؔ قہقہے تیرے
کوئی دیوارِ گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے
——
کئی بڑے شاعر حسنِ ادائیگی سے محروم ہونے کی وجہ سے مشاعروں میں پِٹ جاتے ہیں۔ خود فیضؔ صاحب کا شعرپڑھنے کا انداز بڑا دھیما اور غیر متاثر کن تھا مگر انورمسعود صاحب کو قدرت نے ادائیگی میں جوملکہ عطا کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ شعر سنانے کا انداز اتنا دلکش ہے کہ پورا مجمع سمٹ کر ان کی مُٹھی میں آ جاتا ہے۔ دیگر خصوصیات کے علاوہ قدرت نے انھیں بلا کاحافظہ عطا کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ایمان کا نشان ہیں سلمان فارسی
——
بڑے بڑے شاعر مشاعروں میں کاغذ اور ڈائری سامنے رکھ کر اپنا کلام سناتے ہیں مگر انور مسعود صاحب مشاعروں اور محفلوں میں بیسیوں نظمیں اور غزلیں کسی کاغذ پر نظر ڈالے بغیر سنا ڈالتے ہیں اور مشاعرے لُوٹ کر لے جاتے ہیں۔وہ جس مشاعرے میں موجود ہوں ، وہاں ہر شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے انور مسعود صاحب کے فوری بعد نہ بلایا جائے۔
غالباً 2004 کی بات ہے جب ہم نے اولڈ راویئنز کے زیرِ اہتمام شگفتہ نثر کے شہنشاہ مشتاق یوسفی صاحب اور طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن انور مسعود صاحب کے ساتھ مشترکہ طور پر شام منانے کا اہتمام کیا۔ تقریب اسلام آباد کلب میں منعقد ہوئی۔ ہال میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اتنے ہی کھڑے تھے۔ پہلے یوسفی صاحب اپنی تحریروں کے اقتباس سناتے رہے اور سامعین کے قہقہے گونجتے رہے۔ رات گیارہ بجے کھانے کا وقفہ کیا گیا۔
کھانے کے بعد جب انور مسعود صاحب کو مائیک سنبھالنے کی دعوت دی گئی اسوقت رات کے بارہ بج چکے تھے، مگر ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے سامعین کو غور سے دیکھا مگر کہیں کوئی تھکاوٹ یا اکتاہٹ نظر نہ آئی، رات ڈیڑھ بجے بھی حاضرین و سامعین اپنی تالیوں اور قہقہوں سے بھر پور داد دے رہے تھے کہ کلب کی انتظامیہ نے آ کر ہاتھ باندھ لیے اس لیے تقریب کا اختتام کرنا پڑا۔ تقریب کے بعد بہت سے خواتین وحضرات یہ کہتے سنے گئے کہ آدھی رات کے بعد اسطرح مجمعے کو سنبھالنا بلکہ مُٹھّی میں لے لینا صرف انور مسعود صاحب کا ہی کمال ہے۔ یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔
شائد لوگ اپنے دکھ اور تلخیاں اپنے قہقہوں میں چھپا نا چاہتے ہیں یا کچھ دیر کے لیے زندگی کی تلخیوں کو بھول جانا چاہتے ہیں اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ ہنسنا اور قہقہے لگانا چاہتے ہیں اورکوئی سنجیدہ بات سننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگرانور مسعود صاحب کی سنجیدہ شاعری بھی کمال کی ہے۔
ان کے چند سنجیدہ شعر ملاخطہ فرمائیں ۔
——
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
——
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیّاروں میں
——
کوئی ہو جائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے
مولوی پھر نہ بنا دے اسے کافر بابا
——
فارسی زبان میں کہے گئے ان کے چند اشعار ملاخطہ فرمائیں۔
——
بسے دارم اُطاقِ خواب انور
ولیکن خواب ور دیدہ ندارم
——
یہ بھی پڑھیں : سراج الدین خان آرزو
——
(انور تیرے پاس بہت سے بیڈروم ہیں لیکن تیری آنکھیں نیند سے محروم ہیں )
——
جزبہ فندیدن برایم چارۂ دیگر نماند
سخت مشکل بود انورؔ درد پنہاں داشتن
(ہنسنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا۔ انور میرے لیے درد چھپا نا مشکل ہو گیا تھا)
——
تخلیقِ شعرچسِت فقط کربِ انتخاب
مُشتے گہر گرفتن و دریا گذاشتن
(تخلیقِ شعر کربِ انتخاب کا نام ہے، مُٹّھی بھر موتی لینا اور دریا کو چھوڑ دینا)
——
ان کے طنزیہ اور مزاحیہ قطعات میں بڑی کاٹ ہوتی ہے وہ معاشرے کی تاریکیوں اور لوگوں کی منفی سوچوں کو بڑے موثّرانداز میں بے نقاب کرتے ہیں۔ ایک قطعہ دیکھیں۔
——
اس عید پہ قربان کیا میں نے جو دُنبہ
اس نیک عمل کا میرے مولامجھے پھل دے
یارب میں نہیں اور کسی چیز کا طالب
جتنا بھی ثواب اس کا ہے ڈالر میں بدل دے
——
ان کا ایک تازہ قطعہ ہے
——
بڑے عاجز ہیں تخت و تاج والے
کوئی قیصر نہ کو ئی جَم بڑا ہے
چلوچل کر یہ امریکا سے پوچھیں
کورونا یا کہ ایٹم بم بڑا ہے
——
پنجابی زبان پراُنکی دسترس ملاخط فرمائیں وہ ’خواب‘ میں دیکھتے ہیں کہ جنت میں حور یں اُنکی بہت آؤ بھگت کر رہی ہیں۔اس خدمت خاطر کی وجہ انھیں آخر میں معلوم ہوتی ہے۔
——
ڈِٹّھی میں اک حُور مرے وَل پَیلاں پاندی آوے
اِک نظر مستانی جس دی لکھ بُھلیکھے پاوے
ایڈی سوہنی چھیل چھبیلی جھاتی پاندے ڈریے،
بدل اوہدیاں زُلفاں اگے آکھن پانی بھریے،
——
دوسرے مصرع میں مشابہت اور حُسنِ بیان کمال کا ہے۔
——
اوہ چھنّاں اُس آن کے میرے ہوٹھاں نال لگایا،
ہابَڑ ہابَڑ پِین لگا میں ورہیاں دا ترسایا
میں پُچھیا نی حُورو اَڑیو کاہنوں کھِڑ کھِڑ ہَسّو
میری ایڈی خدمت خاطر، وِچلی گل تے دَسّو
آکھن لگیاں بیبا ایڈا پردہ کاہنوں پاناں
جنت وچ الیکشن ہونائے، ووٹ اسانوں پاناں
——
’نُسخہ‘ ان کی ایسی شاہکار نظم ہے جسکے ہر مصرعے پر قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ملاخطہ فرمائیں۔
——
اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا
ناسازیء مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد
کرنے لگے وہ پھر میرا طبی معائنہ
اک وقفہء خموشیء صبر آزما کے بعد
ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چُکے شمار
بولے وہ اپنے پیڈ پر کچھ لکھ لِکھا کے بعد
ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں
سمجھا ہوں میں تفکّرِ بے انتہا کے بعد
لکھا ہے ایک نسخہء اکسیر و بے بدل
دربارِ ایزدی میں شفا کی دُعا کے بعد
لیجیے نمازِ فجر سے پہلے یہ کیپسول
کھائیں یہ گولیاں بھی نمازِ عشاء کے بعد
سیرپ کی ایک ڈوز بھی لیجیے نہار منہ
پھر ٹیبلٹ یہ کھائیے پہلی غذا کے بعد
لینی ہے آپ کو یہ دوا، اِس دوا سے قبل
کھانی ہے آپ کو یہ دوا، اِس دوا کے بعد
ان سے خلل پذیر اگر ہو نظامِ ہضم
پھر مکسچر یہ پیجئے اِس اِبتلا کے بعد
لازم ہے پھر جناب یہ انجکشنوں کا کورس
اُٹھیں نہ ہاتھ آپکے گر اِس دوا کے بعد
پھر چند روز کھائیں یہ ننھی سی ٹیبلٹ
کُھجلی اُٹھے بدن میں اگر اِس دوا کے بعد
تجویز کر دیے ہیں وٹامن بھی چند ایک
یہ بھی ضرور کھائیے ان ادویہ کے بعد
چھ ماہ تک دوائیں مسلسل یہ لیجیے
پھر یاد کیجیے گا حصُولِ شفا کے بعد
اک وہم تھا کہ دل میں میرے رینگنے لگا
اُن کے بیانِ نسخہء صحت فزا کے بعد
کیمسٹ کی دکان بنے گا شکم مرا
ترسیلِ ادویہ کی اِس انتہا کے بعد
میں نے کہا کہ آپ مجھے پھر ملیں گے کب
روزِ جزا سے قبل یا روزِ جزا کے بعد
——
اردو اور فارسی ادب کے نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ پروفیسر انور مسعود کی کتا ب ’’فارسی ادب کے چند گوشے‘‘ اتنا بڑا علمی اور تحقیقی سرمایہ ہے کہ صرف یہ تخلیق انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
اس کتاب میں ایران کی مشہور باغی اور بیباک شاعرہ فروغِ فرخّ زاد، علامّہ دہخدا، عِشقیؔ، خیامؔ اور اقبالؒ کی فارسی شاعری اور ایرانی معاشرے پر ان کے اثرات کے بارے میں بڑے اعلیٰ معیار کے تحقیقی مقالے اور مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
اگرچہ اردو اور پنجابی کی مزاحیہ شاعری کا ذخیرہ بڑا وسیع ہے، مگر انورمسعود صاحب جیسی شگفتگی، شائستگی اور گہرائی کہیں اور نہیں ملتی ۔ تخلیقی میدان میں انھوں نے کئی ریکارڈ قائم کیے ہیں، حالیہ ریکارڈ یہ ہے کہ ان کی کتاب ’میلہ اکھیاں دا‘ کا پچھترواں ایڈیشن بک کارنر جہلم نے انتہائی خوبصورت انداز میں شایع کیا ہے۔ ان کی اعلیٰ پائے کی علمی اور تحقیقی کتاب ’فارسی ادب کے چند گوشے‘ کے بارے میں کچھ معروف صاحبانِ علم ودانش نے بھی اپنے خیالات تحریر کیے ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب اصغر لکھتے ہیں ’’تقریباً ربع صدی پیشتر مصنف آسمانِ فارسی پر ایک درخشندہ ستارہ بن کر نمودار ہوا اور اس کے زیرِ نظر مقالات کی چمک دمک نے اربابِ دانش اور اصحابِ بینش کی نظروں کو خیرہ کر دیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’ پروفیسر انور مسعود کو پہلی بار میں نے دبئی کے اُس عالمی مشاعر ے میں دیکھا اور سنا جو میری صدارت میں ہورہا تھا۔ کلام سنا تو اچھا لگا، پڑھنے کا ایسا دلکش انداز کہ ہر لفظ سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ سامعین کی بے ساختہ داد سے سارا پنڈال گونج اٹھا اور واہ واہ سبحان اللہ کی داد سے چھتیں اڑ گئیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور نقاد منظور حسین شور کا یوم وفات
——
ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ موصوف صرف شاعر ہی نہیں ہیں صاحبِ علم بھی ہیں ۔ وسیع المطالعہ، لفظوں کے پارکھ اور فارسی ادب کے استاد۔ فارسی ایسے بولتے ہیں جیسے شعر سنا رہے ہوں ۔ آج دنیا بھرمیں ان کی مانگ ہے اور وہ مشاعروں کی جان ہیں ۔ جدید و قدیم فارسی ادب پر ایسی نظر کہ کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ خوش مزاج ، خوش نظر اور خوش فکر‘‘۔
ڈاکٹر توصیف تبسم کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ’’یہ کام صرف وہی شخص کر سکتا تھا جو نہ صرف اردو اور فارسی کی تاریخ اور ان کے ادبی مزاج کا نقطہ شناس ہو بلکہ بحیثیت شاعر، ان زبانوں کے شعروادب کے رموزکا کامل ادراک بھی رکھتا ہو۔‘‘
پروفیسر مشکور احسن لکھتے ہیں کہ ’’ آج انور مسعود کی شہرت پاکستان کی حدود سے نکل کر مغرب اور شرقِ اوسط تک پھیل چکی ہے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ خیام ، ایک مطالعہ ‘‘میں انورمسعود نے اس عظیم فلسفی ، شاعر اور سائنس داں کے بارے میں تحقیق و تراجم کی تفصیل بہت دلکش انداز میں فراہم کی ہے اس سے عمر خیام کی عالمی شُہرت اور مقبولیت کا اندازہ ہو تا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ رباعیات میں خیام کی بے تاب روح تشکک اور قنوطیت سے نڈھال ہے اور بے بسی کے عالم میں غمِ دنیا کو ساغرو پیمانہ میں ڈبو دینے کی دعوت دیتی ہے۔اس کا یہ پیغام جدید ذہن اور مغربی مزاج کو بہت راس آیا ہے۔
اس کتاب میں جدید فارسی شاعری اور ایرانی معاشرے پرا قبالؒ کے اثرات پر بھی ایک معلومات افزاء مضمون ہے جسکا آغاز وہ اقبالؒ کے مشہور مصرعے ’دیدہ ام ازروزنِ دیوارِ زندانِ شما‘سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اقبالؒ کا پیغام شاہی استبداد کے لیے پیغامِ مرگ اور جابرانہ نظام کے لیے اعلانِ بغاوت تھا۔ انھوں نے یہ بھی درست کہا کہ ’’ایران کو اقبالؒ کے پہچاننے میں بہت دیر لگی‘‘۔
ایران کے سپریم لیڈر جناب علی خامینائی خود اس بات کا اعترات کر تے ہیں کہ ’’ اقبالؒ کی پہچان میں ہم تاخیر کے مرتکب ہوئے ہیں‘‘۔ پروفیسر انور مسعود لکھتے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے بھی بعض نامور ادیب، شاعراور مذہبی اسکالر اقبالؒ کی عظمت کے قائل ہوچکے تھے اور علمی سطح پر اقبالؒ شناسی کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا، رفتہ رفتہ ایرانی عوام بھی اس کے کلام کی جاذبیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور بقولِ فیضؔ
——
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
——
1976 میں انور مسعوصاحب جدید فارسی کی تحصیل کے لیے پاکستانی اساتذہ کے ایک وفد کے سربراہ کے طور پر ایران گئے اور وہاں چار مہینے قیام کیا جہاں انھیں فارسی کے معروف شعراء اور ادباء سے ملنے کا موقع ملتا رہا۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ فارسی شاعری کے آسمان پر اقبالؒ کا ظہور ایک نرالی شان وشوکت اور جلال کے ساتھ ہوا۔ اس نے اپنی غیرمعمولی قوتِّ اظہار سے اعلان کیا کہ
——
زمانہ کہنہ بتان راہزار بار آراست
من ازحرم نگز شتم کہ پختہ بنیاد است
(زمانے نے پرانے بتوں کو کئی بار سجایا ہے۔ میں نے حرم کو نہیں چھوڑا اس لیے کہ اس کی بنیاد پختہ ہے)
——
آج بھی ایرانی اقبالؒ کو اقبالِ ما(ہمارا اقبال) کہتے ہیں ۔ اور وہ انھیں کہتا ہے
——
حلقہ گردِمن زنیداے پیکرانِ آب و گل
آتشے در سینہ دارم ازنیاگانِ شما
(اے مٹی کی مورتیو!میرے گرد حلقہ بنا لو میرے سینے میں وہ آگ جل رہی جو تمہارے بزرگوں نے روشن کی تھی)
——
پروفیسر صاحب نے اس مضمون میں کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ، ’’ قیامِ ایران کے دوران ایک دن میں تہران کے ایک شاپنگ سینٹر میں ایک دکان پر ٹھہر گیا، وہاں ایک ایرانی نے مجھ سے پوچھا آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟میں نے اسے بتایا میں پاکستانی ہوں۔
یہ سنتے ہی اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ وہ میرے ہاتھ چومنے لگا اور جذبات سے بھر ائی ہوئی آواز میں کہنے لگا، ’’آپ اقبالؒ کے ہم وطن ہیں۔ میں اقبالؒ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا کہ اس کے ایک شعر نے میری زندگی بدل ڈالی ہے‘‘پھر وہ مجھے بڑے اصرار کے ساتھ اپنے گھر لے گیا اس کے ڈرائینگ روم میں جو چیز سب سے نمایاں تھی وہ ایک خوبصورت فریم میں لکھا ہوا اقبالؒ کا وہی شعر تھا جس نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔
——
مازندہ ازانیم کہ آرام نگیریم
موجیم کہ آسودگی ماعدمِ ماست
(ہم تو زندہ اس لیے ہیں کہ آرام نہیں کرتے۔ ہم موج کی طرح ہیں ، ٹھہر گئے تو مر گئے)
——
اسی کتاب میں وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ‘‘ ہمارے استاد آقائے صابری تھے ۔ انھوں نے اقبالؒ کا نام تو سن رکھا تھا لیکن اس کے کلام سے آگاہ نہ تھے میں نے ان کی خدمت میں ایران کا چھپا ہوا ’’کلیاتِ اقبالؔ‘‘ کا ایک نسخہ پیش کیا اور اس میں سے چند شعر سنائے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ان کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا ’’اقبال آدم را منقلب میکند‘‘ یعنی اقبالؒ تو انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔
تہران یونیورسٹی میں ایک معروف دانشور آقائے غلام حسین صالحی علا می نے ایک محفل میں کہا کہ میں نے 1960 میں اقبالؒ کے شعر ی مجموعے کسی سے امانتاً لیے اور ان کے مطالعے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اقبالؒ ایک قلزم ِ ذوق وعرفان ہے۔ مجھے اس کے افکار نے اپنا شیفتہ و شیدا بنا لیا ہے۔ بیشک وہ سرزمینِ مشر ق کا رجلِ عظیم ہے‘‘۔
انور مسعود صاحب لکھتے ہیں ’’ ایران میں اقبالؒ شناسی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے خواجہ عبدالحمید عرفانی اور ایران کے سیدغلام رضا سعیدی کا تذکرہ بے حد ضروری ہے ۔ غلام رضا سعیدی اقبالؒ کے عاشق اور پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے وہ اپنی کتاب ’’اقبال شناسی‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں ،
’’اگرانگریز شیکسپیئر پر فخر کریں، فرانسیسی وکٹر ہیوگو پراتِرائیں اور جرمن گوئٹے پر ناز کریں تو تمام مسلمانوں کو خصوصاً ایران اور پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اقبالؒ پر فخر کریں‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : ہمارے آقا، ہمارے رہبر حضور انور حضور انور
——
ڈاکٹر علی شر یعتی جدید ایران کے ایک زبردست اسکالر،ماہرِ عمرانیات اور مغربی فکرو فلسفہ سے گہری آگاہی رکھنے والی شخصیت تھے ۔ فکری سطح پر ایران میں اقبالؒ شناسی کے سلسلے میں ان کی خدمات بڑی قابلِ قدر ہیں، ان کی کتاب ’ماواقبالؔ‘زبردست اہمیت کی حامل ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر جناب علی خامنہ ای نے تہران میں منعقد ہونے والی اقبال کا نگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میں اقبالؒ کا دیرینہ مرید ہوں ۔ میں نے اپنی ذہنی زندگی اقبالؒ کے ساتھ گذاری ہے۔ وہ ایران میں ایک معجزے کا منتظر تھا۔ ہمارے معاشرے میں اس کی آرزو پوری ہوئی ہے، میدانِ عمل میں ہم نے اس کے پیغامِ خودی کو زندہ کیا ہے ۔ اس کا ہم پر عظیم احسان ہے ۔آج اقبالؒ زندہ ہوتا تو یہ دیکھ کر کتنا خوش ہوتا کہ ہم نے اپنے خیموں سے غیروں کی طنابیں کاٹ دی ہیں اور ہماری قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے‘‘۔
جناب علی خامنہ ای نے مزید فرمایا ’’اقبالؒ کو عظیم شاعراور مصلح کہہ دینے سے اس کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ مجھے کوئی تعبیر(Expression) نہیں ملتی جو اس کی شخصیت کے سارے پہلوؤں کو سمیٹ سکے۔ وہ تاریخ اسلام کی بڑی برگزیدہ ،ممتاز اور عظیم شخصیت ہے۔ وہ اتنا ہوشمند تھا کہ استعمار کی سیاستِ خبیثہ کی رگ رگ کو پہچانتا تھا۔ جب برصغیر میں مسلمانوں کو اپنا مستقبل انتہائی تاریک نظر آرہا تھا اور اس تاریکی نے سارے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ، اقبالؒ نے اس وقت اپنی مشعل روشن کی۔ اسوقت سارا عالمِ اسلام جس احساس سے خالی تھا اقبالؒ نے وہی درس دیا کہ مسلمان اپنی خودی کو پہچانیں یعنی اسلامی اقدار کی طرف لوٹ آئیں‘‘۔
جہاں تک اقبالؒ کے ہمعصر اور بعد کے ایرانی شعرا کا تعلق ہے تو عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ایرانی شاعر ملک الشعرا محمّد تقی بہار علامّہ اقبالؒ کے فکروفن سے متاثر ہونیوالوں میں سب سے بڑھ کر تھے۔ جو خراجِ تحسین و حیرت انھوں نے اقبالؒ کے حضور پیش کیا ہے وہ پاکستان میں بھی زباں زدِ عام ہے۔
——
عصرِ حاضر خاصہئِ اقبال گشت
واحدے کز صد ہزاران برگذشت
(یہ دور تواقبالؒ کا ہے ۔ وہ اکیلا سیکڑوں اور ہزاروں کو پیچھے چھوڑ گیا )
——
پروفیسر انور مسعود کا وجود ہمارے ملک اور قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہے ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں بہت اچھی صحت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائیں ، ان کی شاخِ تخیل اسی طرح سرسبزو شاداب رہے ا ور پھولوں اور پھلوں سے بھری رہے تاکہ عوام الناس علم و دانش کے ان پھولوں اور پھلوں سے اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں ۔ اور یہ بھی کہ ہر بُد ھ کو میرے کالم پر اُنکی مشفقانہ کال مجھے تادیر موصول ہوتی رہے اور حوصلہ بڑھاتی رہے۔ آمین
——
منتخب کلام
——
وہاں زیر بحث آتے خط و خال و خوئے خوباں
غم عشق پر جو انورؔ کوئی سیمینار ہوتا
——
آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
——
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا
——
میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں
——
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
——
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں
——
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
——
اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی
——
اج کیہ پکائیے !
چوہدری: اَج کیہِ پکائیے دس تیرا کیہِ خیال اے
رحماں: میں کیہِ خیال دساں میری کیہِ مجال اے ​
چوہدری: رحمیاں چل اَج فیر چسکے ای لا لئیے
لبَھ جان چنگیاں تے بھنڈیاں پکا لئیے ​
رحماں: واہ واتُساں بُجھیاں نیں دلا دیاں چوریاں
میرا وی ایہہ دل سی پکائیے اج توریاں ​
لُونواں والی بھِنڈی ہووے پوٹا پوٹا لمی ہووے
ہولی تو کچُور ہووے سوہنی ہووے کولی ہووے ​
وچ ہووے بکرے دے پُٹھ دیاں بوٹیاں
نال ہون چھنڈیاں تندورر دیاں روٹیاں ​
مکھنے دا پیڑا ہووے لسی دا پیالہ
بھِنڈیاں دے نخرے تے گرم مصالحہ ہووے ​
بھنڈیاں بنانا وی تو کوئی کوئی جاندا
رنھناں پکانا وی تےکوئی کوئی جاندا ​
اُٹھاں فیر چوہدری پھڑاں میں تیاریاں
بھنڈیاں بناواں اج رج کے کراریاں ​
چوہدری: رحمیاں ہزار ہون مزیدار بھنڈیاں
ہوندیاں نے کُجھ ذرا لیس دار بھِنڈیاں ​
رحماں: دفع کرو چوہدری جی سبزیاں دی تھوڑ اے
سانوں ایہہ لسُوڑیاں پکان دی کی لوڑ اے ​
بندہ کاہنوں بھنِڈیاں دی لیس دی ہواڑ لَئے
ایہدے نالوں پَولی دی سریش بھانویں چاہڑلَئے ​
چوہدری : فیر کیہ خیال اے تیرا جھڑی نہ منا لَئیے
جے تو آکھیں رحمیاں کریلے نہ پکا لئَیے ​
رحماں: ریس اے کوئی چوہدری جی آپ دے خیال دی
جمی اے کوئی سبزی کریلیاں دے نال دی ​
ڈِ ھڈ وچ اِنج جویں لو لگ پئی اے
تساں گل کیتی اے تے رال واگ پئی اے ​
سچ پچھو چوہدری جی ایہو میری را اے
مینوں وی چروکناں کریلیاں دا چاء اے ​
چوہدری جی ہووے جے کریلا چنگا پلیاں
وچ ہووے قیمہ اُتے دھاگہ ہووے ولیا ​
گنڈھیاں ٹماٹراں دے نال ہووے تُنیاں
فیر ہووے گھر دے گھہیو وچ بھُنیا ​
فیر کوئی چوہدری جی اُوس دا سواد اے
پُر وی پکایا سی تُساں نوں یاد اے ​
چوہدری : ہوربیبا مینوں ایہدی مینوں ہر گل بھاؤندی
رحمیاں کریلیاں وچ کوڑ ذرا ہوندی اے ​
رحماں: دفع کرو زہر تے چریتا مینوں لگدا ئے
نِم تے دھریک دا بھراں مینوں لگدائے ​
پلے پلے دنداں جیِبھ پئی سکدی
کھا مر لئی تے تریہہ نیں مکدی ​
تُمے دیاں گولیا کریلیاں تو پھکیاں
اینہاں نالوں چاہڑ لو کونین دیاں ٹکیاں ​
چوہدری: رحمیاں فیر انج کر تُوں کوئی راء دے
پُچھیں تے بتاؤنواں دا وی اپنا سواد اے ​
رحماں: رب تہاڈا بھلا کرے کِڈی سوہنی گل اے
ایہو جیئے ذائقے والا ہور کہیڑا پھل اے ​
کالے کالے لشکدے تے گول مول چاہڑ لو
چوہدری جی لون تے وتاؤں چًول چاہڑ لوں ​
چوہدری: رحمیاں پکانے نوں تے جی بڑ کردائے
بُھٹیاں دی گرمی تو جی ذرا ڈر دائے ​
رحماں: سچ اے جی چوہدری جی ڈھڈ کاہنوں بالنا
کھان والی چیز اے کوئی وینگناں دا سالنا ​
بھٹھیاں دے ڈک وچ سُٹنے ضرور نے
کاہنوں پَے بھخائے ، ساڈے ڈھڈ کوئی تندور نیں ​
دفع کروبھٹھیاں نوں بَھٹھے کاہنوں ساڑیئے
حبشیاں نوں چوہدری جی گھر کاہنوں واڑئیے ​
کالیاں دے نال کاہنوں مارئیے اُڈاریاں
ساڈیاں تےہیں امریکہ نال یاریاں ​
چوھدری : وَدھ وَدھ بولناایں ایویں بڑبولیا
سبزیاں توں جا تُوں سیاستاں نوں پھولیا ​
دوجے دی وی سُن کجھ دوجے نوں وی کہن دے
حکومتاں دی گل توں حکومتاں تے رہن دے ​
چنگا فیر بُجھ میرا کی خیال اے ؟
رحماں: بُجھ لئی چوہدری جی چھولیاں دی دال ایں​
——
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفل تھے اُس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میّسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصتِ کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہے مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رھا تھا میں اظہارِ مدعا کرتے
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سُو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے
——
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے گوشوارے ترے
مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
بہت کام جس نے سنوارے ترے
مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں
حسابی کتابی اشارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے استعارے ترے
تو اربوں کی کھربوں کی باتیں کرے
عدد کون اتنے شمارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے
ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
یونہی چل رہے ہیں ادارے ترے
——
پجیرو بھی کھڑی ھے اب تو ان کی کار کے پیچھے
عظیم الشان بنگلہ بھی ھے سبزہ زار کے پیچھے
کہاں جچتی ھے دیسی گھاس اب گھوڑوں کی نظروں میں
کہ سر پٹ‌ دوڑتے پھرتے ہیں وہ معیار کے پیچھے
عجب دیوار اک دیکھی ھے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار کے آگے ، نہ کچھ دیوار کے پیچھے
تعاقب یا پولِس کرتی ھے یا از راہِ مجبوری
کوئی گلزار پھرتا ھے کسی گلنار کے پیچھے
سرہانے سے یہ کیوں اٹھے ، وہ دنیا سے نہیں اٹھتا
مسیحا ہاتھ دھو کر پڑ‌گیا ھے بیمار کے پیچھے
ہوا خواہان سرکاری تو بس پھرتے ہی رہتے ہیں
کوئی سرکار کے اگے کوئی سرکار کے پیچھے
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ھے ترے اشعار کے پیچھے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ