آج نامور شاعر جون ایلیا کا یوم وفات ہے

(پیدائش: 14 دسمبر 1931ء – وفات: 8 نومبر 2002ء)
——
جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔
——
سوانح
——
جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پر کی۔ انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں:
"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
——
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
——
جون ایلیا اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔
ان کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : بتا رہی ہیں ضیائیں یہاں سے گزرے ہیں
——
وہ ابتدائی مسلم دور کی تاریخ ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے جس وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح تھے۔
جون ایلیا کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری سٹیج ڈرامے کی مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔
ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔ چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لیے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون ایلیا کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں کچھ مہارت حاصل کر لی تھی۔”
——
پاکستان آمد
——
اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی نصیب ہوئی۔
جون ایلیا کی کتاب شاید کا ان کی تصویر والا سرورق
جون ایلیا ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔
جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے۔ لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہيں۔
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکيں۔
——
ازدواجی زندگی
——
جون ایلیا ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا اپنے انداز کی ایک ترقی پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : آخری حد پہ اک جنون کے ساتھ
——
وہ پژمردہ ہو گئے اور انہوں نے شراب نوشی شروع کر دی۔
——
وفات
——
جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
——
تخلیقات
——
شاید، 1991۔
یعنی، 2003۔
گمان، 2004۔
لیکن، 2006۔
گویا، 2008۔
راموز2016۔
فرنود، 2012۔ (نثر)
——
جون ایلیا کی زبانی
——
میں دو آبہء گنگ و جمن کے حلات خیز، رمزیت آمیز اور دل انگیز شہر امروہہ میں پیدا ہوا ۔امروہے میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آ رہی ہے کہ،امروہہ شہر تخت ہے، گزران یاں کی سخت ہے ، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے،۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سید اسمٰعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی صدیقی ، نسیم امروہوی ، رئیس امروہوی ،سید محمد تقی ،سید صادقین احمد ، محمد علی صدیقی اور اقبال صدیقی نے امروہہ چھوڑ کر اپنے آپ کو کم بخت محسوس کیا تھا یا نہیں مگر میں نے ، بہرحال وہ ایک مشرق رویہ مکان تھا ۔
اس کا طرہ دالان آخرِ شب سے آفتاب کا مراقبہ کیا کرتا تھا۔ اُس مکان میں رات دن روشنی طبع اور روشنائی کی روشنی پھیلی رہتی تھی۔ شعر و ادب کا سلسلہ ہمارے یہاں کئی پشتوں سے چلا آ رہا ہے ۔ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے ۔ سید نفیس حسن وسیمؔ ، سید انیس حسن بلالؔ ( بھائی کمال امروہی کے والد) سید وحید حسن رمزؔ اور بابا ۔ بابا کے والد سید نصیر حسن نصیرؔ بھی شاعر تھے ۔ وہ صرف مسمط کہتے تھے۔ بابا کے دادا سید امیر حسن امیرؔ اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک صاحب طرز نثر نگار بھی تھے ۔ سید امیر حسن کے دادا سید سلطان احمد ۔ میر تقی تمام میرؔ کے ارشدِ تلامذہ سید عبدالرسول نثارؔ اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔ ہمارے محلے کے جدِ اعلٰی سید ابدال محمد انہیں دلی سے اپنے ساتھ امروہہ لے آۓ تھے ۔ انہوں نے اپنی باقی زندگی ہمارے قدیم دیوان خانے میں گزاری اور ہمارے جدِ اعلٰی مقبرے کے مغربی جانب دفن ہوۓ۔
مصحفی ہفتے عشرے بعد ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔
جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری ، تاریخ ، مذاہب عالم ، علمِ ہئیت اور فلسفے کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا ۔ اس تمام سرگرمی کا مرکز ہمارے بابا علامہ سید شفیق ایلیا تھے۔ وہ کئی علوم کے جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے یعنی عربی ، انگریزی ، فارسی ، عبرانی اور سنسکرت ۔ وہ صبح سے شام تک لکھتے رہتے تھے اور تقریباۤ اس یقین کے ساتھ کہ ان کا لکھا چھپے گا نہیں ۔ علم ہئیت سے انہیں خاص شغف تھا ۔ ہئیت کے مسائل سے متعلق رصد گاہِ گرینچ انگلستان کے علامء اور ماہرین ، بٹرینڈرسل اور جنوبی ایشیا کی ایک رصد گاہ کے ڈائریکٹر نرسیان سے ان کی خط و کتابت ہوتی رہتی تھی ۔ وہ تصنیف و تالیف کے دلسچپ مشقت سے 54 ، 55 برس تک محظوظ ہوتے رہے۔
وہ قلم ہی کے نہیں، موقلم کے بھی آدمی تھے ۔ ہئیت کے نقشوں کے علاوہ انیوں نے امام حسینؑ کے سفر کربلا کی منزلوں اور کربلا کے میدانِ واقعہ کے نقشے بھی بناۓ تھے ۔ ان نقشوں میں تاریخ اور مقاتل کے سیکڑوں حوالے پیش کیے گۓ ہیں ۔ مشہور مصور اقبال مہدی جو میرا بھتیجا ہوتا ہے، موقلم کے فن میں بابا کا واحد وارث ہے ۔ بابا نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے موقلم اور دوسری چیزیں للن (اقبال مہدی) ہی کو دی تھیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : کردار
——
دانتے کے بعد بابا شاید وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے کائنات کی نواحی اور ضواحی سے معاملت رکھنے کا فنی ثبوت فراہم کیا تھا۔ انہوں نے جنت اور جہنم کا ایک نقشہ بنایا تھا۔اس نقشے میں انہوں نے اپنے وجود کے باطنِ باطن اور کامنِ کامن کے جمال و جلال کو کمال احساس آگینی کے ساتھ پیش کیا تھا ۔ انہوں نے جنت میں اپنی ذات ذات اور صفاتِ صفات کے تمام رؤف اور عطوف رنگ کھپا دیۓ ہیں ۔ اب رہا جہنم ، تو جہنم میں انہوں نے بے حد جارحانہ ، سفاکانہ اور بینائی سوز رنگ استعمال کیے ہیں اور ان کی تدریجات اور ان تدریجات کی طولی و عرضی اضافتوں کے ذریعے نقشے میں ایک عجب شدیدیت پیدا کر دی ہے۔ان کے تمام جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کبھی ایک بار بھی غصہ نہیں کیا ۔ مگر میرا خیال ہے کہ انہوں نے زندگی میں ایک بار ضرور غصہ کیا تھا اور وہ جہنم کا غصہ تھا۔یہ دو بعدی جہنم اُن کے ارتیاتی ۔ لا ادری اور زندیق بیٹے جون ایلیا کے حق میں سہ بعدی ہو گیا ہے اور وہ اس جہنم کے درکِ اسفل میں جل رہا ہے ۔ بھڑک رہا ہے ۔ دہک رہا ہے مگر راکھ نہیں ہو پاتا۔
بابا امروہے کی مسلمان اشرافیہ کے افراد کی اکثریت کے برعکس نسلی برتری اور طبقاتی تفریق کے سخت مخالف تھے ۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا ۔ وہ اپنے استعمال کی بنیادی اور ناگزیر اشیاء کو بھی ذاتی ملکیت میں شمار نہیں کرتے تھے ،” میرا بستر ، میری چادر، میرا تکیہ ، میرا بکس ، میری الماری” اس نوع کے مفاہیم ذہن میں رکھنا اور انہیں زبان پر لانا وہ سخت غیر مہذب اور غیر شریف ہونے کی علامت سمجھتے تھے ۔مذکورہ الفاظ کے برعکس جو الفاظ انکی زبان سے تقریباۤ روزانہ سنے جاتے تھے وہ تھے ۔ ہماری زمین، ہمارا شمسی نظام اور ہماری کہکشاں ۔وہ سیاسی آدمی نہیں تھے ، ایک عالم اور شاعر تھے ۔ اگر وہ سیاسی آدمی ہوتے تو کیمونسٹ ہوتے۔
عطارد ، مریخ ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا ہمارے گھر میں اتنا ذکر ہوتا تھا جیسے یہ سیارے ہمارے افرادِ خانہ میں شامل ہوں ۔ "یوری نس” اس زمانے میں نیا نیا دریافت ہوا تھا ۔ بابا اس عزیز القدر کے بارے میں اتنی باتیں کرتے تھے کہ اماں کو اس سے چڑ ہو گئی تھی ۔ بابا کو زمین کی حرکت کے مسئلے کے سوا زمین کے کسی بھی مسئلے اور معاملے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں بچپن میں بے آرامی کے ساتھ اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ زندگی کے بارے میں بابا کا یہ رویہ ہمارے گھر کو تباہ و برباد تو نہیں کر دے گا ۔ میں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا تھا ۔ میں نے سال ہا سال بعد اسی کیفیت میں بابا کی ایک ہجو کہی ۔ اس کا پہلا بند مجھے یاد رہ گیا
——
زبان و ذہن کا بخیہ ، زدہ زدہ جامہ
پھٹی ہوئی ہے دُلائی بنے ہیں علامہ
وہ مسئلے ہیں کہ مفہومِ زندگی گم ہے
ہے کس کو فہم کا یارا جنابِ فہامہ
——
موسمِ گرما کی ایک سہ پہر تھی، میرے لڑکپن کا زمانہ تھا ۔ بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گۓ ۔ نہ جانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہو گیا ۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہو کر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا ۔ بتایۓ بابا! کیا وعدہ؟؟
انہوں نے کہا ” یہ کہ تم بڑے ہو کر میری کتابیں ضرور چھپواؤ گے”
میں نے کہا بابا میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب بڑا ہو جاؤں تو آپ کی کتابیں ضرور ضرور چھپواؤں گا۔
مگر میں بابا سے کیا ہوا یہ وعدہ پورا نہیں کر سکا ۔ اور میرے بابا کی تقریباۤ تصنیفات ضائع ہو گئیں ۔ بس چند متفرق مسودے رہ گۓ ہیں ۔ یہی میرا وہ احساسِ جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔
——
جس طرح بابا چار بھائی تھے ، اسی طرح ہم بھی چار بھائی تھے ۔ رئیس امروہوی ، سید محمد تقی ، سید محمد عباس اور میں بڑے بھائی ہمارے بابا اور اماں کی پھلواری کا سب سے بڑا اور سب سے خوش رنگ پھول تھے ۔ وہ پھول گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ قاتل شاید ان کا مرتبہ شناس تھا اسی لیے اُس نے ان کے دماغ کا اپنا ہدف قرار دیا ۔ بھائی دماغ ہی تو تھے اور کیا تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : بخت جب کرب کے سائے میں ڈھلا ہو بابا
——
میرے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں بھائی کی شاعری عروج پر تھی ۔ وہ روحانی اور انقلابی نظمیں کہا کرتے تھے۔ وہ شاعری کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے ۔ انہیں غیر معمولی ذہین اور حسین کہہ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے بارے میں کچھ نہ کہا گیا ہو ۔ جب وہ عرفیؔ کے حسن اور اس کی قادر الکلامی کا ذکر کرتے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے خود عرفیؔ اپنا ذکر کر رہا ہو۔
منجھلے بھایئ سید محمد تقی بھی اُسی زمانے میں شاعری کرتے تھے لیکن ان کا اصل میدان فلسفہ تھا ۔ میں نے ان سے زیادہ مطالعہ کرنے والا آدمی آج تک نہیں دیکھا ۔ وہ ایک متجر عالم ہیں ۔ میرے یہ دونوں بھائی اس زمانے میں وطن پرست کیمونسٹ تھے اور کھدر کے کپڑے پہنتے تھے ۔ اگر میں بھی اس وقت سنِ بلوغ کو پہنچ گیا ہوتا تو وطن پرست کیمونسٹ ہوتا ۔ میرے سنجھلے بھائی سید محمد عباس بم بنانے کی ترکیب سیکھنے کے لی بے تاب رہا کرتے تھے تا کہ سرکاری عمارتیں بم سے اڑا سکیں۔وہ مجھے ہندوستانی انقلابیوں کے قصے سنیایا کرتے تھے ۔ مجھے انگریز سامراج سے نفرت دلانے میں سب سے اہم کردار انہوں نے ہی ادا کیا ۔ میں نے اپنے بھائیوں سے جتنا سیکھا ہے ، اس کا شاید ہی کسی کو اندازہ ہو۔
میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا ۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے پیش آۓ ۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دو چار ہوا ، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا ۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا؏
——
چاہ میں اس کی طمانچے کھاۓ ہیں
دیکھ لو سُرخی مرے رخسار کی
——
جس دن پہلا حادثہ پیش آیا تھا ، وہ دن نہ ہفتے کے دنوں میں سے کوئی ایک دن تھا اور نہ مہینوں کے دنوں میں سے کوئی ایک دن ۔ وہ دن تو سال کے تیس سو پینسٹھ دنوں کے علاوہ ہی کوئی دن تھا۔۔وہ تاریخ اور تقویم کا کوئی دن نہیں تھا ۔ بلکہ زمانِ مطلق یا دہر کا کوئی دن تھا
——
اگر زمانِ مطلق یا دہر کا کویئ دن فرض کیا جا سکتا ہو تو ۔۔۔۔۔ میں نے اظہارِ محبت کا جو طریقہ تھا وہ انتہائی عجیب و غریب تھا ۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ اگر وہ سامنے سے آ رہی ہوتی تو میں اس کی طرف منہ پھیر لیتا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اے لڑکی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، اصل بات یہ ہے کہ میں اظہارِ محبت کو انتہائی ذلیل کام سمجھتا تھا اور اپنے اچھے دنوں میں ، میں نے یہ ذلیل کام کبھی نہیں کیا ۔
پلوٹینس نے ایک جگہ لکھا ہے : مجھے اس بات پر بہت ندامت ہے کہ میں جسم میں ہو کر پایا جاتا ہوں ۔۔ میں بھی اُس زمانے میں اسی احمقانہ انداز میں سوچا کرتا تھا ۔ میں نے اپنی افلاطونی محبت کی جو ہیکل تعمیر کی تھی، اس میں ہر طرف لوبان اور دوسرے بخورات کی خوشبو مہکتی رہتی تھی ۔
ایک دن کا ذکر ہے وہ لڑکی ہمارے گھر آئی ۔ میں اُس وقت کھانا کھا رہا تھا ۔ میں نے اسے دیکھتے ہی فوراۤ نگل لیا ، محبوبہ کے سامنے لقمہ چبانے کا عمل مجھے انتہائی ناشائستہ ، غیر جمالیاتی اور بیہودہ محسوس ہوا تھا ۔ میں اکثر یہ سوچ کر شرمندہ ہو جایا کرتا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر کبھی کبھی سوچتی ہو گی کہ میرے جسم میں، مجھ ایسے لطیف لڑکے کے جسم میں بھی معدے جیسی کثیف اور غیر رومانی چیز پائی جاتی ہے۔ اگرآپ تاریخ کے کسی ہیرو کا یا کسی دیوی کا مجسمہ دیکھ کر یہ سوچیں کہ زندگی میں اس شخصیت کے جسم میں معدہ بھی ہو گا اور انتڑیاں بھی تو آپ کے ذہن کو دھچکا لگے گا کہ نہیں ؟
میں نے اس زمانے میں اپنے گھر میں نہ جانے کس سے کچھ اشعار سنے تھے ۔ ان اشعار نے میرے پورے عہد نوجوانی میں ایک موثر مگر سخت منفی کردار ادا کیا اور مجے کئی برس تک کے لیے راہ سے بے راہ رکھا ، وہ اشعار یہ تھے:
——
میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوئی
خون کے چھاپے لگے دیوار پر
——
مرتے دم تک رساؔ رہا خاموش
جاں گئی راز داریاں نہ گئیں
——
ہم ان سے نزع میں کچھ منفعل ہیں
پسینہ موت کا کیسا جبیں پر
——
تھوکتا ہوں جو لہو ، بوئے حنا آتی ہے
جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سل ہے مجھے
——
ان اشعار میں عاشق ایک ایسا نوجوان نظر آتا ہے جس نے تپ دق میں خونن تھوک کر جان دی ہو۔ مجھے تپ دق کی بیماری بہت جمالیاتی، شاعرانہ ، ہیروانہ اور انقلابی محسوس ہوتی تھی ۔ عام طور پر ذہین اور مفکر قسم کے انقلابی نوجوان اپنی شدتِ احساس اور بے بند بار زندگی کے نتیجے میں اپنی صحت ہار جاتے تھے اور تپ دق میں مبتلا ہو جاتے تھے ۔ وہ زمانہ تصوریت پسندی کا زمانہ تھا ، جس کے سحر میں ذہین نوجوان ہی نہیں من چلی لڑکیاں بھی مبتلا رہتی تھیں ۔ اس زمانے میں باغی اور انقلابی نوجوان لڑکیوں کے ہیرو ہوتے تھے ، یہ نوجوان کھدر کا پاجامہ ، کھدر کا کرتا اور چپل پہنتے تھے۔ان کے بال بڑے بڑے اور الجھے ہوۓ ہوتے تھے۔
تپ دق کی ” انقلابی بیماری” جواں مرگی کی ایک جاں پرور ضمانت تھی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ صرف دائیں بازو کے کنگریسی ، مسلم لیگی ، احراری اور خاکسار نوجوان ہی طبعی عمر کو پہنچ کر وفات پانے کی ذلت برداشت کر سکتے ہیں ۔ کوئی انقلابی نوجوان یہ ذلت برداشت نہیں کر سکتا ۔ مجھ جواں مرگی میں ایک عجب مرموز اور محزوں حسن محسوس ہوتا تھا ۔ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں عرفیؔ کے حسن اس کی قادر الکلامی اور جواں مرگی کا بہت ذکر ہوا کرتا تھا ۔ ان تینوں چیزوں نے مل کر میری نظر میں عرفی کو جمال و کمال کا ایک بے مثاال مظہر بنا دیا تھا ۔ میں بھی اُس زمانے میں جواں مرگی کی شدید آرزو رکھتا تھا ۔ میری یہ آرزو تو پوری نہیں ہو سکی مگر حسنِ اتفاق سے پاکستان آنے کے بعد مجھے تپ دق میں مبتلا ہونے کی لذت نصیب ہوئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : مفسر قرآن مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا یوم پیدائش
——
1943ء میں میری عمر بارہ برس تھی ۔ میں اس زمانے میں کبھی شعر کہتا تھا ، کبھی جبران خلیل کے نابالغ رزِ احساسو خیال میں اپنی ایک خیالہ محبوبہ صوفیہ کے نام خط لکھا کرتا تھا ، وہ خط میری بیاض میں محفوظ ہوتے رہتے تھے ، میں ان خطوں میں اپنی افلاطونی مگر نرگسی محبت کے اظہار کے ساتھ خاص طور پر جو بات بار بار لکھتا تھا ، وہ یہ تھی کہ ہمیں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے کچھ کرنا چاہیۓ ۔ میرا خیال تھا کہ میرے ہر وقت کے اشتعال ، میری تلخ مزاجی ، بے آرامی ، بیزاری اور دل برداشتگی کا ایک اہم سبب انگریز سامراج کی غلامی ہے۔
مجھے ان خطوں میں سے ایک خط کا دھندلا سا مفہوم اب بھی یاد ہے ۔ یہا میں اس خط کی عبارت اور مفہوم کو اس کی اصل عباتے اور اس کے اصل مفہوم کی بھولی بسری ہئیت اور معنویت کے ساتھ پیش کرنی کی کوشش کروں گا ۔
ناظورہء معنی! تمھاری پیشانی ، ابروؤں اور پپوٹوں کو ہزاروں شبنمی پیار ۔ میں نے اس سے پہلا خط تمھیں اسکندریہ کے پتے پر ارسال کیا تھا لیکن سیدی ایلیا ابو ماضی نے مجھے قاہرہ سے لکھا ہے کہ تمھارا خاندان قاہرہ منتقل ہو گیا ہے ۔ اب میں یہ خط قاہرہ کے پتے پر لکھ رہا ہوں ۔
ہم ہندی ایک سجن میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ افرنجی ہمیں کبھی آزاد نہیں کریں گے ۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ ان کے پاس طیارے ہیں ، توپیں ہیں ، ٹینک ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم انہیں ہندوستان سے کس طرح نکال باہر کر سکیں گے!
میں دو مسرتیں ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ تمھارا دیدار اور افرنجیوں کا ادبار ۔ تم مشہدِ راس احسینؑ مین حاضر ہو کر دعا مانگو کہ ہم اور تم زندگی کی سعادت علیا حاصل کر سکیں ۔ شاید تمھیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ میں تمھیں کتنا یاد کرتا ہوں ۔ عاطفتہ الخوری کو میری دعائیں پہنچانا اور اپنے بالوں کی کوئی لٹ میری طرف سے چوم لینا ۔
صوفیہ ، میری صوفیہ! خدا حافظ
تمھارا جون فوضوی
——
منتخب کلام
——
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
——
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
——
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
——
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
——
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
——
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا یوم وفات
——
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا
ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ
مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا
جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے
کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا
بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے
گناہ ترک بادہ کر لیا کیا
یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں
سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا
اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک
بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا
تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں
بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
——
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
——
اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
بند ہے مے کدوں کے دروازے
ہم تو بس یوں ہی چل نکلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
ہے اسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
شام فرقت کی لہلہا اٹھی
وہ ہوا ہے کہ زخم بھرتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں