آج ممتاز شاعر اطہر نفیس کا یوم پیدائش ہے۔

——
نام کنور اطہر علی خاں اور اطہر تخلص تھا۔
۲۲؍فروری۱۹۳۳ء کو علی گڑھ(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آگئے ۔اطہرنفیس طویل عرصے تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے وابستہ رہے۔ انھوں نے کالم بھی لکھے اورمختلف عہدوں پر کام کیا۔
تمام عمر تنہا گزاری اور کسی کو اپنا شریک حیات نہیں بنایا۔
یوں تو شعرگوئی کا آغاز علی گڑھ ہی میں ہوگیا تھا لیکن سنجیدگی اور باقاعدگی کے ساتھ شعر کہنے کا سلسلہ کراچی آکر شروع ہوا۔
غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی ، لیکن انھوں نے آزاد نظمیں بھی لکھیں ہیں ۔
اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ’’کلام‘‘ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں ’’فنون‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔
وہ طویل علالت کے بعد ۲۱؍نومبر ۱۹۸۰ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
——
اطہر نفیس، جدید اسلوب کے شاعر از سعید واثقدنیا سن
——
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا؟
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا؟
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دُہرائیں کیا؟
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا؟
——
ساٹھ کی دہائی میں ریڈیو پاکستان سے معروف گلوکارہ فریدہ خانم کی آوا میں ایک غزل نشر ہوئی جس نے اپنی شاعری اور دُھن کی وجہ سے سامعین کے دلوں میں جگہ بنائی،جب ٹیلی ویژن کا آ غاز ہوا تو فریدہ خانم نے اپنی مخصوص اور مدھر آ واز میں یہ غزل پیش کی جس کے بعد فریدہ خانم کی شہرت کو بھی چار چاند لگے ۔ماسٹر منظور کی مرتب کردہ یہ دھن اپنے عروج پہ پہنچ گئی۔عام طور پر دنیا شاعر کو کم ہی جانتی ہیں لیکن صاحبان ذوق جانتے ہیں کہ اطہر نفیس اس غزل کے خالق ہیں اور کسی بھی بڑے تخلیقی کام کی بنیاد تحریر کے عمل سے ہی شروع ہوتی ہے۔اطہر نفیس ایک ایسی شخصیت تھے کہ کبھی صلے کی تمنا کی اور اور نہ ستائش کی پروا۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید نفیس الحسینی کا یوم وفات
——
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی ان کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے‘‘۔
اطہر نفیس کا پورا نام کنور اطہر علی خاں تھا۔ وہ اپنی والدہ کو آپا کہتے تھے۔ انہیں بہت چاہتے تھے۔ فرمانبردار اور چہیتے بیٹے بھی تھے تاہم انہوں نے والدہ کی ایک بات نہیں مانی جو ہر ماں کا سپنا ہوتا ہے۔یعنی عمر بھر شادی نہیں کی۔
جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح کا ہے، جس میں اب زندہ ہوں میں
ان کی پیدائش علی گڑھ کے قصبہ پٹل کے ایک معزز خاندان میں 22فروری 1933کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہی ہوئی۔ علی گڑھ کے قصبہ پٹل سے ہجرت کرکے وہ 1949ء میں کراچی چلے آئے تھے اور وہاں ایک نجی اخبار سے وابستہ ہوئے۔ اطہر نفیس کو کلاسیکی شاعری سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ حالانکہ وہ جدید اسلوب کے شاعر ہیں۔ اس کے باوجود ان کے یہاں کلاسیکی روایات کا التزام ملتا ہے اور اس نے ان کی شاعری کو نفاست عطا کی ہے۔ ان کا صرف ایک شعری مجموعہ’’کلام‘‘ کے نام سے 1975ء میں احمد ندیم قاسمی کے ادارہ فنون نے شائع کیا۔ احمد ندیم قاسمی ان کی نہ صرف بہت عزت کرتے تھے بلکہ ان کی شاعری کے بھی بڑے مداح تھے۔ اطہر نفیس ایک خوددارشاعر اورانا پرست انسان تھے جنہیں شہرت کیلئے کسی ادبی دربار میں مسند نشیں ہونے اور راگ درباری گا کر بیرون ملک مشاعروں میں دوروں کا دعوت نامہ حاصل کرنا پسند نہ تھا۔
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں فیض احمد فیض، منیر نیازی اور حبیب جالب وغیرہ تو تھے ہی جبکہ ہم عصروں میں ابن انشاء، مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامد مدنی وغیرہ تھے۔ اطہر نفیس نے ان سب کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلو کاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ ان کے اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔ اطہر نفیس کی غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید فخرالدین بلے ، ایک زندہ اور نفیس شخصیت
——
ان کی غزلیات میں کوئی مشکل لفظ کم ہی آتا ہے جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لئے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کردیتا ہے۔ دراصل اطہر نفیس صرف ایک حساس شاعر ہی نہیں، صحافی بھی تھے اور انہوں نے چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھا اور پرکھا ۔ اس لیے جب وہ انہیں اشعار میں بیان کرتے تو ان کی لفظیات تبدیل ضرور ہو جاتی لیکن ان کے پرکھنے کا انداز نہیں بدلتا۔ اطہر نفیس کے یہاں عصری مسائل تو موجود ہیں ہی جن کو انہوں نے اپنے احساس میں تپا کر نیا اسلوب بخشاہے لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے تصوف کے مسائل بھی بیان کئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا معرفت سے گہرا لگاؤ تھا۔
ان کا انتقال21 نومبر 1980کو کراچی میں ہوا اور قبرستان سخی حسن میں مدفون ہیں۔
——
منتخب کلام
——
دروازہ کھلا ہے کہ کہیں لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
——
میں اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر سو
جو مجھ سے کہہ سکے‘ میں بے وفا ہوں
——
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
——
میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تو نے مجھ کو باغ جانا دیکھ لے صحرا ہوں میں
——
لمحوں کا عذاب سہہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں
——
زخموں کے گلاب کھل رہے ہیں
خوشبو کے ہجوم میں کھڑا ہوں
——
کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار مرے
کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا
——
نہ منزل ہوں‘ نہ منزل آشنا ہوں
مثال برگ اڑتا پھر رہا ہوں
——
وہ ایسا کون ہے جس سے بچھڑ کر
خود اپنے شہر میں تنہا ہوا ہوں
——
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
——
کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے
——
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
——
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے
——
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
——
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
اک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
——
یہ بھی پڑھیں : حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے
——
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
ایک سفر ہے وادئ جاں میں تیرے درد ہجر کے ساتھ
تیرا درد ہجر جو بڑھ کر لذت کیف و صال ہوا
راہ وفا میں جاں دینا ہی پیش رؤں کا شیوہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کار مثال ہوا
عشق فسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرہ کمہلایا اور رنگ حنا پامال ہوا
——
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی
اس شب کا نزول ہو رہا ہے
جس شب کی سحر نہ مل سکے گی
پوچھو گے ہر اک سے ہم کہاں ہیں
اور اپنی خبر نہ مل سکے گی
آساں بھی نہ ہو گا گھر میں رہنا
توفیق سفر نہ مل سکے گی
خنجر سی زباں کا زخم کھا کے
مرہم سی نظر نہ مل سکے گی
اس راہ سفر میں سایہ افگن
اک شاخ شجر نہ مل سکے گی
جاؤ گے کسی کی انجمن میں
پر اس سے نظر نہ مل سکے گی
اک جنس وفا ہے جس کو ہر سو
ڈھونڈو گے مگر نہ مل سکے گی
سیلاب ہوس امڈ رہا ہے
اک تشنہ نظر نہ مل سکے گی
——
رونق بیش و کم کس کے ہونے سے ہے
موسم خشک و نم کس کے ہونے سے ہے
کس کا چہرا بناتی ہیں یہ ساعتیں
وقت کا زیر و بم کس کے ہونے سے ہے
کون گزرا کہ بنتے گئے راستے
راہ کا پیچ و خم کس کے ہونے سے ہے
کس کی خاطر دریچوں سے آئی ہوا
یہ فضا یوں بہم کس کے ہونے سے ہے
شاخ در شاخ پتوں کی یہ زندگی
آج بھی محترم کس کے ہونے سے ہے
موت برحق ہے کس کے نہ ہونے سے آج
زندگی دم بہ دم کس کے ہونے سے ہے
کس کی زلفوں کا اعجاز ہے بوئے گل
یہ ہواؤں میں نم کس کے ہونے سے ہے
صبح شادابئ جاں کا کیوں ہے ملال
عشرت شام غم کس کے ہونے سے ہے
وحشت دل کو کس نے سنبھالا دیا
یہ جنوں کم سے کم کس کے ہونے سے ہے
کس سے منسوب ہے ہر جفا ہر وفا
یہ ستم یہ کرم کس کے ہونے سے ہے
——
نہ شام ہے نہ سویرا عجب دیار میں ہوں
میں ایک عرصہء بے رنگ کے حصار میں ہوں
سپاہ غیر نے کب مجھ کو زخم زخم کیا
میں آپ اپنی ہی سانسوں کے کار زار میں ہوں
کشاں کشاں جسے لے جائیں گے سر مقتل
مجھے خبر ہے کہ میں بھی اسی قطار میں ہوں
شرف ملا ہے کہاں تیری ہمرہی کا مجھے
تو شہسوار ہے اور میں تیرے غبار میں ہوں
اتا پتا کسی خوشبو سے پوچھ لو میرا
یہیں کہیں کسی منظر کسی بہار میں ہوں
میں خشک پیڑ نہیں ہوں کہ ٹوٹ کر گر جاؤں
نمو پزیر ہوں اور سرو شاخسار میں ہوں
نہ جانے کون سے موسم میں پھول مہکیں گے
نہ جانے کب سے تری چشم انتظار میں ہوں
ہوا ہوں قریۂ جاں میں کچھ اس طرح پامال
کہ سر بلند ترے شہر زر نگار میں ہوں
——
ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ
رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ
نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی
چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ
اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں
تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ
وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا
نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ
ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے
نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ
——
یہ بھی پڑھیں : تہنیت بر زیارتِ حرمین
——
ایک شام
اس نئے پارک میں
بنچ پر بیٹھتے بیٹھتے
اس نے مجھ سے کہا
’’آئیے بیٹھئے!‘‘
اور میں ۔۔۔ جانے کیا سوچ کر
اس سے دامن کشاں
اپنے گھر آ گیا
اپنے گھر آ گیا
میرے سینےمیں ایسا کوئی دل نہیں
جو محبت میں تقسیم ہوتا رہے