اردوئے معلیٰ

Search

آج جدید عہد کے نامور غزل گو شاعر اظہر فراغ کا یوم پیدائش ہے۔

اظہر فراغ (پیدائش: 31 اگست 1980ء )
——
اپنے خوبصورت لب و لہجے کے لیے معروف، جدید دور کے ابھرتے نوجوان شاعروں میں نمایاں اور جدید شاعری کے نمائندہ شاعر اظہر فراغ 31 اگست 1980ء کو پیدا ہوئے۔ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے خوبصورت لب و لہجے کے شاعر اظہر امین جن کا قلمی نام اظہر فراغ ہے گزشتہ چودہ سال سے بہاولپور (پاکستان) میں مقیم ہیں اور ایک این جی او میں اپنی ملازمت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سے گریجویشن کیا ۔ آپ پچھلے پندرہ سالوں سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں ۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ 2007ء میں "میں کسی داستان سے ابھروں گا” کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اور دوسرا شعری مجموعہ ” ازالہ” 2016ء میں شائع ہوا۔
——
عہد جدید کا اُبھرتا ہوا شاعر اظہر فراغ از حنا عنبرین
——
یوں تو دنیا میں ہزاروں لوگ شاعری کر رہے ہیں ، کچھ نو آموز ہیں، کچھ ماہر ہیں، کچھ اوسط درجے کے ہیں ۔مگر یہ بات طے ہے کہ شاعری پھول ہے، پھولوں کی خوشبو ہے، محبت ہے، عشق ہے، معرفت ہے، روحانیت ہے یہ اور بات ہے کہ ہر پھول کی خوشبو دوسرے سے الگ ہے لیکن اپنی اپنی جگہ اہم ہے میرا ذاتی خیال ہے کہ شاعر کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : فراغ روہوی کا یومِ پیدائش
——
معروف سرائیکی شاعر عزیزشاہد کا خیال ہے ہے کہ! شاعری بنیادی طور پر فرد کے باطن کی بربریت کو مہذب کرنے کا عمل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے سو شاعر کو سراپا شکر ہونا چاہیے شہرت شاعر کے قدموں کی دھُول ہے اسے سر پر سوار نہیں کرنا چاہیئے عہد حاضر میں شاعری جدید دور میں داخل ہو رہی ہے اور تیزی سے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے۔ جدید شاعری نئے معاملات پر کھڑی ہے شاعری میں نئی روایات، ترکیب، استعارے، تشبیہات اپنی بنیادیں مضبوط کر رہی ہیں یا ان کی داغ بیل ڈال رہی ہیں۔ معروف شاعر زعیم رشید نے شاعری میں ایک نئی صنف ”تروینی“ ایجاد کی ہے جسے معروف نقاد صادق سعید نے دنیا کی سب سے چھوٹی نظم کہا ہے ”تروینی“ تین لائنوں میں پورا واقعہ بیان کرنے کا نام ہے ’تروینی“ اردو زبان کا مزاج ہے۔ مثال کے طور پر ایک ”تروینی“ دیکھیئے:
——
جدائی آخری بوسہ نہیں تھی
ابھی تو آنکھ بھر دیکھا نہیں تھا
مگر اتنے میں گاڑی جا چکی تھی
——
اور اظہر فراغ نے نئے اور جدید دنیا کے الفاظ کو شاعری میں شامل کر کے ایک نئی روایت قائم کی ہے ۔ اسی طرح ادریس بابر نے ”عشرہ“ کے نام سے ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔ دیکھتے ہیں وقت ”عشرہ“ کو ”تروینی“ کو کتنی پذیرائی عطا کرتا ہے یا کتنی اس کی تقلید کی جاتی ہے۔اظہر فراغ کہتے ہیں کوئی نئی بات ہے تو کرو ورنہ پرانی بات تو سینکڑوں لوگ کر ہی رہے ہیں وہ قدیم شاعری کو پسند تو کرتے ہیں مگر اس کے پیروکار نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں وفا، جفا سے آگے کی بات کرنا ہو گی مگر وہ قدیم شاعری کی افادیت کے منکر بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک شعر دیکھیئے:
——
فِکر و جنوں کی بحث ہو یا حرفِ ناقدانہ ہو
غالب کو رد تو وہ کرے پہلے جو خود یگانہ ہو
——
اردو ”غزل“ فارسی سے آئی ”ہائیکو“ جاپانی صنف ہے جو نیچر کے مضامین کو تین لائنوں میں پابند کرنے کا نام ہے۔ نثری نظم اور آزاد نظم کو پہلے رد اور پھر بھر پور طریقے سے قبول کر لیا گیا ۔ اب پُرانے اور گھِسے پٹے جملوں کی جگہ نئی اور تازہ تراکیب استعمال کی جارہی ہیں اور جدید شاعری میں شامل ہو رہی ہیں بہت سے شعراء شاعرات بہت اچھی اور تازہ شاعری کر رہے ہیں ان کی تعداد کئی سو یا شاید کئی ہزار ہو سکتی ہے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے۔ اظہر فراغ وہ شخص ہے جسے قدرت نے حُسن، ذہانت وافر مقدار میں عطا کی ہے۔ اظہر فراغ ایک مکمل باوقار، پُر کشش اور ساحرانہ شخصیت کے مالک ہیں ان کے نشست و برخاست میں سلیقہ نمایاں ہے ان کی خوبصورت بلند آواز اور شائستہ لب و لہجہ سننے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ مشاعروں میں اپنا کلام سناتے ہیں تو حاضرین ایسے محو ہو جاتے ہیں جیسے ان پر جادو کر دیا گیا ہو اور وہ داد دیئے بغیر نہیں رہ پاتے یہ ان کا اپنا انداز ہے جو اُنہی کا خاصہ ہے۔ پورے اعتماد سے سامنے والے سے نظر ملا کر بات کرتے ہیں ان کے پاس ہر موضوع پر بولنے کے لیئے بہت سا علمی مواد موجود ہے فنِ عروض پر دسترس رکھتے ہیں اور شاعری کے حوالے سے ہر مشکل کا حل ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصر شاعروں کو تسلیم کرتے ہیں میں نے فیس بُک پر ایک بہت ہی معتبر پوسٹ پڑھی کہ آجکل کچھ لوگ شاعری میں گروپ بندی کر رہے ہیں اور وہ کہتے پھرتے ہیں کہ فلاں میرا شاگر ہے شاگرد کہتے پھر رہے ہیں فلاں میرا استاد ہے اور پھر مشاعروں میں وہی استاد شاگرد ایک دوسرے کو پُرزور داد بھی دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : فراغ روہوی کا یومِ وفات
——
مگر فراغ کے ہاں ایسا نہیں ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے تمام ملنے والوں سے نئے ہوں ، پرانے ہوں، بڑے یا چھوٹے ہوں سب سے ان کا رویہ دوستانہ اور مشفقانہ ہوتا ہے ہر ایک کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے جو بھی بات انہیں معلوم ہو ہر گز نہیں چُھپاتے وہ اپنے سیکھنے والوں کو بیساکھیاں نہیں دیتے بلکہ اُنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان کے علاوہ، انڈیا، دوبئی، وغیرہ کے مشاعروں میں بھی شرکت کر چکے ہیں وہ منفرد اور جدید لب و لہجے کے شاندار شاعر ہیں ۔ ان کی اب تک دو کتابیں۔ i۔ میں کسی داستان سے اُبھروں گا (انتخاب) ii۔ ”ازالہ“ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہیں۔
میں ازالہ کو کئی بار پڑھ چکی ہوں اور ہر بار یہ کتاب مجھے نئی لگی۔ اظہر فراغ نے شاعری کے اس ہجوم میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے نظم اور غزل ہر دو اصناف میں لکھتے ہیں لیکن غزل ان کا پسندیدہ ذریعہ اظہار ہے ۔غزل ایک مشکل صنف ہے۔ تخلیق کرنے کے بعد تخلیق کار کا کردار تقریباً ختم ہو جاتا ہے اب فیصلہ قاری کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور قاری اس کا مقام طے کرتا ہے۔ اور فن بول کر اپنے ہونے یا نہ ہونے کا ثبوت دلاتا ہے۔ان کے اشعار ان کی اپنے عصر سے آگاہی کی نشاندہی کرتے ہیں قوت فیصلہ، قوتِ عمل اور دانش کی نعمت سے سرفراز یہ شاعر عزم و ہمت کا ایک نمونہ ہے۔ اظہر فراغ کی شاعری ہر فرد کی شاعری ہے ۔ اتنی کم عمری میں ایسے ایسے جدید الفاظ اس نے استعمال کیئے ہیں کہ اردو شاعری پر تحقیق کے نئے در وا ہو گئے۔
——
منتخب کلام
——
یہ نہیں دیکھتے کس کی ہے ریاضت کتنی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
——
میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے
پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں
——
وہ دستیاب ہمیں اس لیے نہیں ہوتا
ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں
——
ایسی غربت کو خدا غارت کرے
پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو
——
ہوا کے رُخ پہ دیا دھر نہیں گیا تھا میں
بچھڑ گیا تھا کوئی مر گیا نہیں گیا تھا میں
——
ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر
تولیہ کھُردرا لگے جس کو
——
ہم اُسے پوچھ تھوڑی سکتے ہیں
اُس کی مرضی جہاں رکھے جس کو
——
یہ بھی پڑھیں : اے ڈی اظہر کا یوم وفات
——
تم اپنے کرب کا اظہار کر بھی سکتی ہو
پیاز کاٹ کے یہ وقت کَٹ بھی سکتا ہے
——
نہ کوئی خواب دِکھایا نہ کوئی عہد کیا
بدن اُدھار لیا بھی تو اس سے شام کی شام
——
آئینہ میرے مقابل لائے
خوب سمجھے میرے معیار کو لوگ
——
آنکھ کھُلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تجھ سے لڑے ہوتے ہیں
——
ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا
گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام
——
رو پڑے عرض حال سُن کر کیا
گر پڑا ہاتھ سے ریسیور کیا
——
یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تمہیں
کہ میرے مشورے بے کار جانے لگے ہیں
——
مسکرانا سکھا رہا ہوں تُجھے
اب تیرا دُکھ بھی پالنا پڑے گا
——
کِس کِس سے کر کے اس کو خبردار جانے دوں
اندھے کو کس طرح سے سڑک پار جانے دوں
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں
اس رسہ کش پہ ڈھیل کا احسان کچھ نہیں
کب تک میں درگزر کروں ہر بار جانے دوں
——
تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
——
ترے بعد کوئی بھی غم اثر نہیں کر سکا
کوئی سانحہ مری آنکھ تر نہیں کر سکا
مجھے علم تھا مجھے کم پڑے گی یہ روشنی
سو میں انحصار چراغ پر نہیں کر سکا
مجھے جھوٹ کے وہ جواز پیش کیے گئے
کسی بات پر میں اگر مگر نہیں کر سکا
مجھے چال چلنے میں دیر ہو گئی اور میں
کوئی ایک مہرہ ادھرادھر نہیں کر سکا
کئی پیکروں کو مرے خیال نے شکل دی
جنہیں رونما مرا کوزہ گر نہیں کر سکا
مرے آس پاس کی مفلسی مری معذرت
ترا انتظام میں اپنے گھر نہیں کر سکا
——
دھوپ میں سایا بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں
بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں
ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی لیکن
اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں
——
بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے
کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے
کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے
نشست کے تو طلب گار ہی نہیں ہم لوگ
ہمارے پاؤں سے کیوں پائیدان کھینچتا ہے
بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے
دکھا رہا ہے خریدار بن کے آج مجھے
جسے لپیٹ کے رکھوں وہ تھان کھینچتا ہے
چراغوں میں وہ چراغ اس لیے نمایاں ہے
ہم ایسے دیکھنے والوں کا دھیان کھینچتا ہے
یہ سارا جھگڑا ترے انہماک کا ہی تو ہے
سمیٹتا ہے کوئی داستان کھینچتا ہے
——
وہ جو اک شخص مجھے طعنہِ جاں دیتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے
تری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
تم جسے آگ کا تریاق سمجھ لیتے ہو
دینے لگ جائے تو پانی بھی دھواں دیتا ہے
جم کے چلتا ہوں زمیں پر جو میں آسانی سے
یہ ہنر مجھ کو مرا بارِ گراں دیتا ہے
ہاں اگر پیاس کا ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے
پھر تو پیاسے کو بھی آواز کنواں دیتا ہے
——
نظم "بے اولاد”
——
اسے معلوم ہے شاید
ادھورے رنگ کی تصویر ہوتی ہے
کہانی
کیسے کرداروں کے کم پڑنے سے بے توقیر ہوتی ہے
وہ جب بھی دیکھتی ہے
خالی گہوارے میں رکھے
آرزؤں سے
بنے ننھے سویٹر کو
گلہ کرتی ہے مجھ سے اس طرح جیسے
مری مٹھی میں ہو تریاق اس
زہرِ اذیت کا
اسے میں روز کہتا ہوں
کبھی تقدیر پر تدبیر کی پیوند کاری سے مسائل حل نہیں ہوتے
مگر کیسے
وہ بازو پر بندھی منت کی ڈوری توڑ سکتی ہے
وہ عورت ہے
اسے محسوس ہوتا ہے
فقط تکمیل ہی اس کے تحفظ کی ضمانت ہے
کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے
جب اس کی گود کا خالی پن اس پر فقرے کستا ہے
چلا لیتی ہے اکثر کام میرے بچپنے سے
میری مصنوعی شرارت کے
کسی
بوسیدہ جذبے سے
اور اک میں ہوں
جو اس کارِ مسلسل کی اداکاری سے تنگ آ کر
اثاثے
دونوں جسموں کے
مسیحاؤں کے اس بازار میں لے جانے والا ہوں
جہاں زرخیز اور بنجر کی پیمائش ذرا آسان ہوجائے
بھلے میرا
بھلے اس کا کوئی نقصان ہو جائے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ