آج شاعر جذب و حقیقی عشق خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا یومِ وفات ہے ۔
——
نام خواجہ عزیز الحسن غوری، تخلص مجذوب۔ تاریخی نام مرغوب احمد۔ ۱۲؍جون ۱۸۸۴ء کو ادرئی ، ضلع جالوں (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ تربیت خالص دینی اور مشرقی طرز پر ہوئی۔ علی گڑھ سے بی اے کیا۔ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ خواجہ صاحب نے قانون چھوڑ کر پہلے آبکاری میں نوکری کی۔ اس نوکری سے مستعفی ہو کر ڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سات برس اس عہدے پر رہے۔ چوں کہ یہ عہدہ ان کی طبیعت کے خلاف تھا اس لیے کوشش کرکے اپنا تبادلہ تنخواہ کی کمی پر محکمہ تعلیم میں کرالیا۔ پہلے مکاتب اسلامیہ کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے پھرانگریزی اسکولوں کے انسپکٹر آف اسکولز(یوپی) مقررہوئے اور اسی عہدے سے پنشن پاکر ریٹائر ہوئے۔ شاعری میں کسی سے تلمذنہ تھا۔ عزیز الحسن غوری حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ان میں خاکساری اور تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انھوں نے انگریزی کپڑے کبھی نہیں پہنے۔ ڈپٹی کلکٹری اور انسپکٹری میں بھی اپنی وضع نہیں بدلی۔ ۱۷؍اگست کو ادرئی میں انتقال کرگئے۔ ان کا کلام ’’گفتۂ مجذوب‘‘ کے نام سے ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:301
——
تذکرہ مجذوب از شکیل فاروقی
——
قد لمبا اور کشیدہ، رنگ نہایت صاف اور گورا، بدن پتلا اور چھریرا، ناک نقشہ تیکھا اور باریک، چہرے پر براق جیسی سفید داڑھی، گھنی اور سیدھی، شخصیت میں مقناطیسی جاذبیت و کشش، جسم پر کلی دار کرتا اور شرعی پاجامہ اور سر پر پانچ کلیوں والی چکن یا ململ کی ٹوپی، طبیعت میں بلا کی نفاست، نزاکت اور صفائی و سادگی، موسم گرما میں عموماً اعلیٰ قسم کی چکن کا کرتا اور موسم سرما میں انگرکھا یا شیروانی زیب تن فرمائے، مزاجاً نہایت شگفتہ خاطر، چہرہ ہنس مکھ اور کھلتا ہوا، طبیعت میں ہر وقت گلوں کی سی تازگی اور جولانی، آنکھوں میں بے پناہ چمک اور معصومیت، باتوں میں شہد جیسی شیرینی اور زبان سر بسر ٹکسالی اور کھری۔ یہ تھے خواجہ عزیز الحسن غوریؒ جوکہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ خاص تھے اور شاعری میں مجذوب تخلص فرماتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : وزیر الحسن عابدی کا یومِ وفات
——
خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی شخصیت عشق حقیقی سے لبریز اور دیگر شعراء سے بالکل ہٹ کر تھی، ان کا کلام سب سے انوکھا اور نرالا تھا بڑے بڑے قادر الکلام شعراء ان کے معترف اور بے شمار سخن شناس اور اہل ذوق ان کے حلقہ بگوش اور گرویدہ تھے۔ انتہا تو یہ ہے کہ خود آپ کے شیخ حضرت تھانویؒ کو آپ کے اشعار بے حد پسند اور مرغوب تھے، خصوصاً درج ذیل شعر جس کے بارے میں حضرت والا نے ایک مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس ایک لاکھ روپے ہوتے تو میں اس شعر کے عوض آپ کو بلاتامل دے دیتا:
——
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
——
معرفت کے اس شعر کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے اور اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جس کے دل میں خالق کائنات کی تڑپ موجزن ہو، اور جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقف کردیا ہو، اور اپنے محبوب حقیقی کی طلب میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ہو۔ اسی کیفیت میں ڈوبا ہوا خواجہ صاحب کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:
——
ساری دنیا کی نگاہوں سے گرا ہے مجذوبؔ
تب کہیں جا کے ترے دل میں جگہ پائی ہے
——
عارفین ان کے کلام کو معرفت کی نظر سے دیکھ کر سنتے تھے اور سر دھنتے تھے جب کہ سخنور اور سخن شناس ان کے اشعار کی باریکیوں اور نزاکتوں کو محسوس کرکے انھیں داد پر داد دیا کرتے تھے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کے اشعار کی جاذبیت اور اثر آفرینی کا بنیادی سبب واردات قلب سے عبارت ہے ۔
ایک تو حسن تغزل سے لبریز عارفانہ کلام اوپر سے مجذوب صاحب کا منفرد پرسوز ترنم گویا سونے پر سہاگے والی بات تھی۔نہ وہ سناتے ہوئے تھکتے تھے اور نہ سامعین کی تشنگی کم ہونے کا نام لیتی تھی۔ شعروشاعری کی ان مجالس کا اختتام نماز یا کھانے کے وقت پر ہوتا تھا۔ اپنا درج ذیل شعر اثر ترنم کے ساتھ پڑھتے اور خود بھی لطف اٹھاتے اور سامعین کو بھی لطف اندوز فرماتے تھے:
——
زیست کیا ہے ابتدائے درد ِدل
موت کیا ہے انتہائے درد ِدل
——
عزیز الحسن مجذوب صاحب جس مشاعرے میں شریک ہوتے،اپنے کلام اور منفرد ترنم سے اسے لوٹ لیتے، ہر طرف سے سبحان اللہ اور مکرر مکرر کی تحسین آفریں صدائیں بلند ہوتیں۔ایک مرتبہ موصوف ایک مشاعرے میں سامعین کے درمیان موجود تھے کہ کسی کو آپ کی موجودگی کا علم ہوگیا۔ ذرا سی دیر میں منتظمین مشاعرہ کو اس کی مخبری ہوگئی۔ مجذوب صاحب اس وقت معمولی سے کپڑوں میں ملبوس تھے، مشاعرہ طرحی تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : میں محمد سے جو منسوب ہوا خوب ہوا
——
اچانک اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اوپر تشریف لے آئیں۔ اس وقت انھیں بڑی پریشانی اور کشمکش لاحق ہوگئی، کپڑے میلے اور اوپر سے طرحی مشاعرے کی تیاری بالکل صفر۔ اسی دوران اسٹیج سے یہ اعلان ہوا کہ اگر آنے میں تاخیر کی تو ہم خود آپ کو تلاش کرلیں گے۔ چاروناچار اسی حالت میں اسٹیج پر جانا پڑا۔ آپ کا اوپر پہنچنا تھا کہ پورا پنڈال فلک شگاف تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجذوبؔ صاحب نے معذرت کی کہ مشاعرہ طرحی ہے اور انھوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی ہے، مگر ان کا یہ عذر یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ آپ تمام پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی ایک مرصح غزل سنائی اور ہر ایک شعر پر داد پر داد وصول کی۔ اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
——
کوئی مزا ‘ مزا نہیں‘ کوئی خوشی‘ خوشی نہیں
تیرے بغیر زندگی‘ موت ہے‘ زندگی نہیں
میکشو! یہ تو میکشی‘ رندی ہے میکشی نہیں
آنکھوں سے تم نے پی نہیں‘ آنکھوں کی تم نے پی نہیں
بیٹھا ہوں میں جھکائے سر‘ نیچی کیے ہوئے نظر
بزم میں سب سہی مگر‘ وہ جو نہیں کوئی نہیں
——
سردی کا موسم اپنے شباب پر تھا اور محفل گرم تھی کہ کسی نے خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کی خدمت مین تاپنے کے لیے ازراہ محبت و عقیدت انگیٹھی بھجوادی۔ خواجہ صاحب بڑے محظوظ ہوئے اور قدر افزائی کے طور پر برجستہ یہ اشعار کہے:
——
انگیٹھی تم نے انگاروں بھری کیوں ہائے بھجوا دی
دہکتی آگ سینے کی میرے اف اور بھڑکا دی
کیا تھا کم بڑی مشکل سے جوش اشعار پڑھنے کا
میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا پھر طبیعت میری گرما دی
——
ایک کمسن بچے پر شفقت کی نظر پڑی تو بے ساختہ یہ فرمایا:
——
ترے گال کیا ہیں ڈبل روٹیاں ہیں
نہیں کوئی پڑی فقط بوٹیاں ہیں
——
خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کا کچھ کلام تو ان کی زندگی میں ہی اشاعت پذیر ہوا اور کچھ ان کی وفات کے بعد سید مولانا ظہور الحسن نے تلاش کر کرکے ایک مجموعے کی صورت میں ’’کشکول مجذوب‘‘ کے عنوان سے چھاپ دیا جس میں غیر طبع شدہ کلام شامل ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا ظہور الحسن کا یوم پیدائش
——
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ نے بہ لحاظ پیشہ اسسٹنٹ انسپکٹر سرشتہ تعلیم کی حیثیت سے سرکاری خدمات انجام دیں اور دوران ملازمت طویل رخصت حاصل کرکے اپنے پیرومرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علما تھانویؔ کی سوانح حیات تحریر فرمائی جوکہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آخری جلد کے اختتامی حصے میں اپنے حالات زندگی بھی قلم بند فرمائے۔ خواجہ صاحب کے کلام میں ان قطعات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو ان کے شیخ حضرت تھانویؒ کے درس و تعلیمات پر مشتمل ہیں۔اور اب چلتے چلتے مجذوبؔ صاحب کا یہ خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیے اور جی بھر کر داد دیجیے:
——
کلام مجذوبؔ والہانہ‘ ہمیشہ دہرائے گا زمانہ
کسی حسیں کا نہیں فسانہ‘ یہ ایک عاشق کی داستاں ہے
——
منتخب کلام
——
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
——
محفل میں آج ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
ساقی نے التفات کا دریا بہا دیا
——
شرابِ ارغواں کیا پی کہ میرا کُل جہاں بدلا
نظر آتا ہے اب رنگِ زمین و آسماں بدلا
——
مجھے دوست چھوڑ دیں سب کوئی مہرباں نہ پوچھے
مجھے میرا رب ہے کافی مجھے کُل جہاں نہ پوچھے
——
بٹھاتے ہیں جو سر آنکھوں پہ سب اس سے خوشی کیا ہو
کسی کی طبعِ نازک پر گراں معلوم ہوتا ہوں
——
اب بھی مجذوبؔ جو محرومِ پذیرائی ہے
کیا جنوں میں ابھی آمیزشِ دانائی ہے ؟
——
بس ایک بجلی سی پہلے کوندی ، پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے
اور اب جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے ، جگر نہیں ہے
——
اس کو ہر ذرہ ہے اک دنیائے راز
منکشف جس پر حقیقت ہو گئی
——
سنبھل کر ذرا تیزگامِ محبت
مقامِ ادب ہے مقامِ محبت
——
چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخِ گُل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
——
ناچیز ہیں پھر بھی ہیں بڑی چیز مگر ہم
دیتے ہیں کسی ہستیٔ مطلق کی خبر ہم
——
جو تیری یاد فرقت میں مری دم ساز بن جائے
تو میرے دل کی ہر دھڑکن تری آواز بن جائے
——
حقیقت میں تو میخانہ جبھی میخانہ ہوتا ہے
ترے دستِ کرم میں جب کبھی پیمانہ ہوتا ہے
——
بس اتنی سی حقیقت ہے فریبِ خوابِ ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
——
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
ظاہر مطیع و باطن ذاکر مدام تیرا
زندہ رہوں الہٰی ہو کر تمام تیرا
بِگڑے نظامِ دیں کو میرے بھی ٹھیک کردے
ہر دوسرا میں کیا کیا ہے انتظام تیرا
زنہار ہو نہ شیطان عاجز پہ تیرے غالب
بندہ نہ ہو نفس کا ہرگز غلام تیرا
یہ بد لگام و بدرگ نفسِ شریر و سرکش
اَے شہسوار خوباں ہو جائے رام تیرا
چھوڑوں نہ زندگی بھر پابندیٔ شریعت
ہو مثلِ زُلفِ دلبر مرغوب دام تیرا
دُوری میں شاہِ خُوباں ابتر ہے حال بے حد
ہو جائے منکشف ہاں اَب قرب تام تیرا
زورِ کشش سے تیرے کر جائے قطع دم میں
راہِ دراز تیری یہ سُست گام تیرا
پردہ خودی کا اُٹھ کر کھُل جائے رازِ وحدت
ہو مست جامِ الفت یہ تشنہ کام تیرا
باطن میں میرے یارب بس جائے یاد تیری
ہَر دَم رہے حضوری دل ہو مقام تیرا
مُونس ہو میری جاں کی فکرِ مدام تیری
ہمدم ہو میرے دل کا فکرِ دَوام تیرا
دل کو لگی رہے دُھن‘ لیل و نہار تیری
مذکور ہو زباں پر ہر صبح و شام تیرا
مورد رہے یہ ہر دم تیری تجلیوں کا
ہو جائے قلب میرا بیت الحرام تیرا
سینہ میں ہو منقش یا رب کتاب تیری
جاری رہے زباں پر ہر دم کلام تیرا
ہے اب تو یہ تمنا اس طرح عمر گذرے
ہر وقت تیرا دھندا ہر وقت کام تیرا
دونوں جہاں میں مجھ کو مطلوب تُو ہی تُو ہو
ہر پختہ کارِ وحدت مجذوبؔ خام تیرا
——
دنیا سے اِس طرح ہو رُخصت غلام تیرا
ہو دل میں یاد تیری ہو لب پہ نام تیرا
ہر ماسوا سے غافل شوقِ لقا میں تیرے
ہو جان و دل سے حاضر سُن کر پیام تیرا
ہے خوبیٔ دو عالم اِک حُسنِ خاتمہ پر
کرنا سَر اِس مہم کا ادنیٰ ہے کام تیرا
رگ رگ میں مرتے دم ہو صدقِ یقیں کے باعث
تیرے نبی کی وقعت اور احترام تیرا
منکر نکیر آکر دے جائیں یہ بشارت
تجھ کو رہے مبارک حسنِ ختام تیرا
رحمت سے بخش دینا میرے گُناہ سارے
روزِ جزا نہ دیکھوں میں انتقام تیرا
ہوں ارذلِ خلائق اشرف کا واسطہ ہو
شافع ہو جو نبی ہے خیرالانام تیرا
اپنے کرم سے کرنا مجھ کو بھی اِن میں شامل
جِن پر عذاب یا رب ہوگا حرام تیرا
اوروں کے آگے رُسوا کرنا نہ مجھ کو مولیٰ
آگے تیرے خجل ہے عاصی غلام تیرا
دینا جگہ مجھے بھی بندوں میں خاص اپنے
جب منعقد ہو یا رب دربارِ عام تیرا
محشر میں ہو پہنچ کر اس تشنہ لب کو حاصل
تیرے نبی کے ہاتھوں کوثر کا جام تیرا
جنت میں چشمِ حیرت ہو شاد کام میری
جلوہ رہے میسّر اس کو مدام تیرا
ہو جُملہ انبیاء پر اصحاب و اولیاء پر
دائم صلوٰۃ تیری ، پیہم سلام تیرا
دونوں جہاں کا دُکھڑا مجذوبؔ رو چکا ہے
اب آگے فضل کرنا یا رب ہے کام تیرا
——
اضطرارِ مدینہ
——
مبارک ہو اے بیقرارِ مدینہ
بلاوا ہے یہ اضطرارِ مدینہ
ہو طے جلد اے رہگذارِ مدینہ
بہت سخت ہے انتظارِ مدینہ
الہٰی دکھا دے بہارِ مدینہ
کہ دل ہے بہت بیقرارِ مدینہ
یہ دل ہو اور انوار کی بارشیں ہوں
یہ آنکھیں ہوں اور جلوہ زارِ مدینہ
ہوائے مدینہ ہو بالوں کا شانہ
ہو آنکھوں کا سُرمہ غبارِ مدینہ
وہاں کی ہے تکلیف راحت سے بڑھ کر
مجھے گُل سے بڑھ کر ہے خارِ مدینہ
کبھی گرد کعبہ کے ہوں میں تصدق
کبھی جا کے ہوں میں نثارِ مدینہ
کبھی لطف مکہ کا حاصل کروں میں
کبھی جا کے لوٹوں بہارِ مدینہ
رہے میرا مسکن حوالیٔ کعبہ
بنے میرا مدفن دیارِ مدینہ
پہنچ کر نہ ہو لوٹنا پھر وہاں سے
وہیں رہ کے ہو جاں سپارِ مدینہ
بصد عیش سوؤں میں تا صبحِ محشر
جو ہو میرا مرقد کنارِ مدینہ
مجھے چپہ چپہ زمیں کا ہو طیبہ
میں ایسا بنوں رازدارِ مدینہ
میں پسماندہ ہوں کیوں نہ حسرت سے دیکھوں
سُوئے عازمانِ دیارِ مدینہ
وہاں جلوہ فرما حیات النبی ہیں
زہے زائرینِ مزارِ مدینہ
نمک بر جراحت ہے اُف ذکرِ طیبہ
کہ ہوں آہ میں دلفگارِ مدینہ
میں جاؤں وہاں نیک اعمال لے کر
کہ یارب نہ ہُوں شرمسارِ مدینہ
الہٰی بصد شوق مجذوبؔ پہنچے
یہ ناکام ہو کامگارِ مدینہ
——
نہ دیکھوں گا حسینوں کو ارے توبہ نہ دیکھوں گا
تقاضا لاکھ تو کر اے دل شیدا نہ دیکھوں گا
کروں ناصح میں کیونکر ہائے یہ وعدہ نہ دیکھوں گا
نظر پڑ جائے گی خود ہی جو دانستہ نہ دیکھوں گا
نگاہ ناز کو تیری میں شرمندہ نہ دیکھوں گا
ہٹائے لیتا ہوں اپنی نظر اچھا نہ دیکھوں گا
وہ کہتے ہیں نہ سمجھوں گا تجھے مجذوبؔ میں عاشق
کہ جب تک کوچہ و بازار میں رسوا نہ دیکھوں گا
بلا سے میں اگر رو رو کے بینائی بھی کھو بیٹھوں
کروں گا کیا ان آنکھوں کو جو وہ جلوہ نہ دیکھوں گا
بلا سے میرے دل پر میری جاں کچھ ہی گزر جائے
میں تیری خاطر نازک کو آزردہ نہ دیکھوں گا
اٹھاؤں گا نہ زانو سے میں ہرگز اپنا سر ہمدم
ارے میں اپنی آنکھوں سے انہیں جاتا نہ دیکھوں گا
حسینوں سے وہی پھر حضرت دل دیدہ بازی ہے
ابھی تو کر رہے تھے آپ یہ دعویٰ نہ دیکھوں گا
ذرا اے ناصح فرزانہ چل کر سن تو دو باتیں
نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوبؔ کا دیوانہ دیکھوں گا
——
شعری انتخاب از کشکولِ مجذوب ، مصنف : خواجہ عزیز الحسن مجذوب
شائع شدہ : 1964 ، متفرق صفحات