اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور استاد شاعر بیدل حیدری کا یوم وفات ہے

بیدل حیدری
(پیدائش: 20 اکتوبر 1924ء – وفات: 7 مارچ 2004ء)
——
بیدل حیدری میرٹھ میں 20 اکتوبر 1924ء کو پیدا ھوئے ۔ آپ کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا ۔ ابتدا میں بیدل غازی آباد تخلص کرتے تھے ۔ بعد ازاں جلال الدین حیدر دھلوی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بیدل حیدری کہلوانے لگے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پہلے لاہور اور بعد میں کبیروالا میں رہائش اختیار کر لی۔ تعلیم ایف ایس سی، ادیب فاضل ، ایل ایس ، ایم ایف میڈیکل ۔ کبیروالا میں آپ ایک کلینک بھی چلاتے تھے ۔ آغازِ شاعری 1944ء سے کیا ان کی شاعری زیادہ تر رومان ، معاشرتی ناھمواری ، غربت اور تنگدستی جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے ۔ 1994ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ” میری نظمیں ” شائع ہوا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ” پشت پہ گھر ” 1996ء میں شائع ہوا ۔ یہ مجموعہ تمام تر غزلوں پر مشتمل ہے ۔ بیدل حیدری کا ایک مجموعہ "اوراقِ گل ” کے نام سے بھی شائع ہوا لیکن وقت کی چیرہ دستیوں میں اس کی کوئی بھی کاپی محفوظ نہ رہ سکی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے
——
بیدل حیدری 07 مارچ 2004 ء کو کبیروالا میں وفات پا گئے اورکبیروالا کے مقامی قبرستان میں آسودہ خاک پوئے۔
2004ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ ” ان کہی ” ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ان کے ایک شاگرد شکیل سروش نے ادب وثقافت ( انٹرنیشنل ) کے زیرِ اہتمام ” کلیاتِ بیدل حیدری ” شائع کی ہے جن میں ان کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام شامل کیا گیا ہے
——
علامہ بیدل حیدری منافق صدی کا حق طراز شاعر و نثر نگار از مقصود حسنی
——
تحقیقی عمل’ بلاشبہ بڑا محنت طلب عمل ہے اور اس مشقت طلب عمل سے’ وہ ہی باخوشی گزرتا ہے’ جو متعلقہ معاملہ میں’ دل چسپی رکھتا ہو گا۔ اس پرخطر وادی سے گزرتے’ ہر قدم سونگھ سونگھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ بصورت دیگر’ نتائج میں کہیں بھی گڑبڑ پیدا ہو سکتی ہے۔ کمی بیشی کی تو خیر ہوتی’ لیکن آلو سے الو بن جانے کی صورت میں’ آتے وقتوں میں’ گویا خیر کا شر ہو جانا’ بلاشبہ ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ سکندر کو’ اس کی حیات سے آج تک’ لوگ فاتح اعظم ہی سمجھتے آ رہے ہیں۔ وہ فاتح تھا یا نہیں’ اس معاملے کو ایک طرف رکھیے’ اس سوال کا آج تک جواب نہیں مل سکا’ کہ وہ اتنی دور سے’ کس کار خیر کے لیے مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کرتا’ برصغیر تک آ پہنچا تھا۔
اگر کسی نے فردوسی کا شاہ نامہ پڑھا ہے تواتنا ضرور کہے گا’ کہ اس نے یک طرفہ’ شاہی میسر نمک سے کئی ہزار گناہ حق ادا کر دیا۔ کیا ایتھنز میں اکیلا سکندر ہی پیدا ہوا تھا’ جو اعظم ٹھہرا۔ حقیقت یہ ہے’ کہ بہبود انسانی کے حوالہ سے’ وہ سقراط کے جوتے کی مٹی کے تول میں بھی نہ تھا۔ بدقسمتی ملاحظہ ہو’ وہ عموم میں غیر معروف ہے۔
غزنی میں صرف فردوسی ہی تھا’ باقی سب مر گئے تھے یا فقط یاوہ گو تھے۔ کرسی والے یا کرسی کے قریب ہی’ چوری خور مورکھ کی لکھتوں پر چڑھے ہیں۔ کرسی دور’ کبھی فردوسی یا استاد ذوق نہیں بن پائے اور یہ لکھی پڑھی اور طے شدہ بات ہے
——
یہ بھی پڑھیں : رشید لکھنوی کا یوم پیدائش
——
۔علامہ بیدل حیدری کا شمار’ کرسی کے دور درازوں میں ہوتا ہے’ تب ہی تو’ ان کی زندگی بمشکل گزارے کے حصار میں رہی۔ پیٹو اسے بدقسمتی کا نام دیں گے’ لیکن میں ان کی کرسی یا کرسی قریبوں سے دوری کو’ ان کی بالا نصیبی کا نام دوں گا۔ اگر وہ عنکبوتی ہوتے’ تو ان کی شاعری وقت کی کھلی شہادت سے زیادہ’ محض شاہی کشیدہ کاری ہوتی۔ ان کا کہا’ اس سماج کے دل کی دھڑکنوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں’ مبالغے اور لگی لپٹی سے ہٹ کر کہتے ہیں۔ ذرا یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
——
عہد بارود ہے کدھر جائے اے خدا! آدمی مر نہ جائے
آ گیا مرے پیٹ پر باندھنا مل گیا روزگار پتھر کو
——
کرسی سے دوری کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔
——
امیر شہر ہم سے اسلیئے ناراض رہتا ہے
کہ ہم شہر والوں کو جنوں پیشہ بناتے ہیں
——
ڈاکٹر بیدل حیدری کو’ آج کے عہد کا کھلا اور بےباک شاعر کہنا’ کسی طرح غلط نہ ہوگا۔ اب ذرا اس شعر کو دیکھیے گا۔
——
چہرے کی جھریوں کو کبھی آئینے میں دیکھ
کس کس جگہ ہوا ہے ترا انتقال سوچ
——
غربت کی شاید ہی اس سے بڑھ کر’ تصویر کشی کی گئی ہوگی۔
——
ترا یہ حال’ اب اے مفلسی دیکھا نہیں جاتا
تری انگلی پکڑتے ہیں’ تجھے اندھا بناتے ہیں
——
ان کا طنزیہ طور بھی اپنی الگ سے سج دھج رکھتا ہے۔ اس ذیل میں صرف ایک شعر بطور نمونہ ہو۔
——
شاہ کے سایۂ نوازش میں
ہم سبھی ہیں غلام گردش میں
——
اس عہد کے قائدین کی’ چہرہ کشائی بڑے سلیقہ سے کرتے ہیں۔ ذرا یہ شعر دیکھیے
——
ہم سے امید رہنمائی نہ رکھ
ہم منافق صدی کے رہبر ہیں
——
بیدل ناصح کے روپ میں بھی وارد ہوتے رہتے ہیں۔
——
اے عظمت انساں کے منکر! تحقیر نہ کر انسانوں کی
انسان خدا کا نائب ہے’ انسان حقیر نہیں ہوتا
——
ڈاکٹر بیدل حیدری کی زبان اور اس کا محاورہ عوامی ہے اور اسی زبان کے زیر اثر محاورے’ مرکبات’ تشیہات’ استعارے اور دیگر لوازمات شعر اور شعری صنعتوں کا استعمال ہوا ہے۔
ایک زنانہ محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
——
چھوڑ اس تشنگی کے چکر کو
سوکھنے ڈال دے سمندر کو
——
اب ذرا بطور ذائقہ ایک درگاہی محاورہ ملاحظہ فرمائیں۔
——
بیدل یہ آج آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا
کیوں ڈالتے ہیں بگولے دھمال سوچ
——
چلتے چلتے’ انگریزی مرکبات کا استعمال کر جاتے ہیں’ محسوس بھی نہیں ہوتا اور اس میں دانستگی شامل نہیں ہوتی۔ مثلا
——
فٹ پاتھ پہ سونے کی نہیں جب سے اجازت
شہر میں کوئی شخص بھی بےگھر نہیں لگتا
——
نوٹ بک میں لکھ لیا اس نے مجھے
چھپتا پھرتا ہوں کہ پردہ کھل گیا
——
انگریزی کے محاورے کی شکل میں مرکبات استعمال کرتے ہیں۔
——
یوں ہیں آنکھوں میں لوٹ پوٹ آنسو
جیسے دریا میں لانچ الٹ جائے
——
یہ بڑی پرمزہ اور پرسلیقہ تشبیہ بھی ہے۔
نزاکت اور شگفتگی میں ملفوف یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ سرخ ملبوسات اور آگ کا استعاری رشتہ’ داد کے قابل ہے۔ شعر فصاحت و بلاغت کا بڑا خوب صورت نمونہ ہے۔
——
آگ کی پوجا کا دروازہ نہ کھول
سرخ ملبوسات میں نکلا نہ کر
——
چند اک مستعمل اور معروف محاورے اور جو افعال مجہول محاورے کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں’ ملاحظہ فرمائیں۔
——
تہوار منانا’ خیر مانگنا’ پگڑی اترنا’ روگ کٹنا’ عمر کٹنا’ انگلی پکڑنا’
چہرہ بنانا یہ مصوری اور بیوٹی پالر والوں کی اصطلاح بھی ہے
پاؤں پر آ گرنا’ اوقات سے باہر ہونا
شاعری ہی کیا’ علامہ مرحوم کی نثر بھی بڑے کمال کی تھی۔ انہوں نے’ لوگوں کی کتابوں پر لکھا۔ اسی طرح اطراف میں ان کے تعلقات تھے۔ ان اطراف کے احباب سے’ ان کی خط و کتابت تھی۔ ان کی ہر دو حوالوں سے نثر موجود ہے’ جسے نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی نثر کے فقط دو ٹکڑے بطور نمونہ پیش ہیں۔
——
صداقت کی آواز کسی مخصوص صنف ادب کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔ جس کے پاس کہنے کو کچھ ہے وہ کسی بھی صنف میں کہہ سکتا ہے۔
بیدل حیدری
پہلی دستک’ نوید اسلم’ مرکزی کاروان ادب پاکستان’ 1986′ ص 60
——
شاعروں کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک کے مشاعرے شہرت کا پہلا زینہ ہوتے ہیں۔ دوسرا نمبر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا ہے جبکہ اخبارات اور رسائل میں کلام کی اشاعت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ چوتھے نمبر پر شاعر کا کلام شامل نصاب ہونا ضروری ہے اور اس کے بعد شاعر پر پی ایچ ڈی ہونے لگے تو کیا ہی بات ہے لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر بھی ضروری نہیں کہ شاعر کو شہرت دوام مل جائے جبکہ آخری مرحلہ صرف ڈکشزی ہے جو شعرائے کرام ڈکشزی کی زینت بن جاتے ہیں ان کو ہی شہرت دوام ملتی ہے۔
خط بیدل حیدری بنام مقصود حسنی مورخہ 25 اگست 1999
درج بالا معروضات پیش کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا’ کہ اہل ذوق پر کھل جائے کہ علامہ بیدل حیدری کس پائے اور کس سطح کے صاحب قلم تھے۔ ان پر تحقیقی کام کرنا آسان نہیں تھا۔ ان پر صاحب ذوق اور فراخ علم و دانش کا حامل محقق ہی کام انجام دے سکتا تھا۔ جناب ڈاکٹر رحمت علی شاد نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور پھر پوری دیانت داری’ دل چسپی اور ذمہ داری سے اس کام کو انجام دیا۔ انہوں نے اس کام کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے
بیدل حیدری ، احوال و آثار
بیدل حیدری، بحثیت شاعر
ا۔ بیدل حیدری بحثیت غزل گو شاعر
ب۔ بیدل حیدری بحثیت نظم گو شاعر
بیدل حیدری کے تلامذہ۔ فہرست
مقام بیدل ۔ معاصرین کی نظر میں
غیر مطبوعہ و غیر مدون کلام کی تحقق و تدوین
حقی سچی بات تو یہ ہی ہے’ کہ انہوں نے بڑی محنت اور کاوش سے اس کام کو انجام دیا ہے۔ مطالعہ کے دوران ان کی حس جستجو اور سلیقہ سامنے آتا ہے۔ اس ذیل میں وہ شاباش اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
الله ان کے تحقیقی ذوق کو برکت عطا فرمائے۔
——
منتخب کلام
——
جب اس کے ساتھ مرا رابطہ معطل تھا
نہ وہ تھا ثابت و سالم نہ میں مکمل تھا
——
تجھ سے ملتے تجھے اپنا کرتے
کاشـ ہم بھی کبھی ایسا کرتے
——
بیدلؔ مجھے جس شخص نے برباد کیا ہے
وہ سادہ ہے ایسا کہ ستم گر نہیں لگتا
——
ہم سے امیدِ رہنمائی نہ رکھو
ہم منافق صدی کے رہبر ہیں
——
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدلؔ
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں
——
مجھے تو یہ مرے ہی عہد کی تصویر لگتی ہے
شکاری گھات میں ہے اور پرندہ کچھ نہیں کہتا
——
اس نے جب برف نظر ڈالی تھی تجھ پر بیدلؔ
آگ کپڑوں میں لگا لینی تھی ، مر جانا تھا
——
ترا یہ حال اب اے مفلسی دیکھا نہیں جاتا
تری انگلی پکڑتے ہیں ، تجھے اندھا بناتے ہیں
——
کب تک کے لیے آنکھیں ، رکھ چھوڑوں منڈیروں پر
اتنا تو بتا جاؤ ، کب لوٹ کے آنا ہے ؟؟
——
پہرے تھے قتل گاہ کے چاروں طرف مگر
مقتول کے لہو کی نمائش نہیں رکی
——
ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
پیار کی خاطر کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں
وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہے
سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے
دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے
دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے
بیدلؔ مجھ میں یہ جو اک کمی سی ہے
وہ چاہے تو پوری بھی ہو سکتی ہے
——۔
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
——
یہ بھی پڑھیں : زنجیر کس کی ہے کہ قدم شاد ہو گئے
——
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے
ہو گیا چرخ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے
یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچے
——۔
ہم کبھی شہر محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحۂ فرصت جو میسر آ جائے
میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ ترا چہرہ بنانے لگ جائیں
ہم بھی کیا اہل قلم ہیں کہ بیاض دل پر
خود ہی اک نام لکھیں خود ہی مٹانے لگ جائیں
عجب انسان ہیں ہم بھی کہ خطوں کو ان کے
خود ہی محفوظ کریں خود ہی جلانے لگ جائیں
وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بھلا دیں پل میں
ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں
ان مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن میں خود ان کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں
نہیں جلتا تو اترتا نہیں قرض ظلمت
جلنا چاہوں تو مجھے لوگ بجھانے لگ جائیں
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدلؔ
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ