آج معروف شاعر بسمل عظیم آبادی کا یومِ وفات ہے

——
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے جیسے مشہورِ زمانہ مصرع کے خالق بسمل عظیم آبادی کا اصلی نام سید شاہ محمد حسن تھا عرفیت شاہ چھبو تھی۔ وہ1900ء یا 1901ء میں پٹنہ سے 30 کلو میٹر دور ہرداس بگها گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اپنے والد سید شاہ آل حسن کی موت کے بعد وہ دو سال کے تھے کہ اپنے نانا سید شاہ مبارک حسین کے گھر پٹنہ سٹی آ گئے، جسے لوگ اس وقت عظیم آباد کے نام سے جانتے تھے۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو اپنا نام بسمل عظیم آبادی رکھ لیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی وفات 1978ء میں ہوئی۔
——
بسمل عظیم آبادی از عطا کاکوی
——
ہم تو بسمل ہی رہے خیر ہوئی
عشق میں جان چلی جاتی ہے
——
جس کے قلم سے یہ شعر نکلا تھا اس نے بالآخر 20 جون 1978 ء کو عمر کے اٹھتر سال ختم کر کے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی ۔
بسمل عظیم آبادی جن کا نام سید شاہ محمد حسن عُرف جھبو اور تخلص بسملؔ تھا عظیم آباد کے ایک مقتدر اور صاحبِ ثروت خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔
جناب بسمل کی پیدائش 1900 میں ہوئی ۔ شاید دو ایک ہی سال کے تھے کہ والد ماجد کے سایہ سے محروم ہو گئے ۔ تین بھائیوں میں سب سے بڑے لڑکپن میں ہی فوت ہو گئے ۔ منجھلے بھائی سید شاہ نبی شادی کے بعد لاولد انتقال کر گئے ۔
سب سے چھوٹے یہ خود تھے جن کی پرورش اور تربیت اپنے حقیقی نانا سید شاہ مبارک حسین مبارکؔ اور حقیقی ماموں خان بہادر سید شاہ محی الدین عرف کمال رئیس عظیم آباد کے زیر اثر ہوئی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : وہ کون سی منزل تھی کل رات جہاں میں تھا
——
یہ دونوں بزرگ شاعر تھے اور وحیدؔ الہ آبادی کے شاگرد ۔ اسی شاعرانہ ماحول میں بسمل عظیم آبادی پروان چڑھے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پہ ہی ہوئی اور پھر اسکول میں داخل ہوئے مگر چند ہی درجوں تک پڑھ سکے ۔ تکمیل نہ ہو سکی ۔
طبعیت بلا کی تیز پائی تھی ۔ لڑکپن میں ہی شعر و شاعری کا چسکا پڑا ۔ اساتذہ کے سینکڑوں اشعار یاد تھے اور اپنے ہم سِن لڑکوں سے بیت بازی میں سبقت لے جاتے تھے ۔
منکسر مزاج ، ملنسار ، بذلہ سنج ، خوش گفتار ، طبیعتاََ باغ و بہار ۔ یہ تھے بسمل عظیم آبادی ۔
اُن کے ایامِ شباب کا وہ زمانہ تھا کہ پٹنہ سٹی میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا گھر ہو جہاں کوئی شاعر نہ ہو ۔
ہر ہفتے نہیں تو ہر مہینے مشاعروں کی گرم بازاری رہتی تھی ۔ بسمل کو بھی شعر گوئی کا ولولہ پیدا ہوا ۔ اور جناب شادؔ عظیم آبادی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہو گئے ۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر مختار الدین نے اپنے ایک مضمون میں بسمل کو داغؔ کا شاگرد بتایا ہے ۔ داغؔ کے انتقال کے وقت بسمل بمشکل چار سال کے ہوں گے ۔ شاگرد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
طبیعت رسا تھی ، ذوق رہنما ، ماحول سازگار اور استاد فن کار ۔ بہت جلد شعری صلاحیت پیدا ہو گئی ۔ بھائی کے انتقال کے بعد چونکہ خود تنہا رہ گئے ، زمینداری اور انتظام خانہ داری کا سارا بوجھ سر پہ آ پڑا اُس سے اس فن کی طرف توجہ نہ کر سکے ۔
کم ہی کہتے مگر خوب کہتے ۔ جو غزلیں مشاعروں میں پڑھیں زبانِ زد عام ہو گئیں ۔ پڑھنے کا انداز بڑا سحر آفریں تھا ۔ تحتِ لفظ ہی پڑھتے مگر لب و لہجہ اور طرزِ ادا دلکش ہوتا کہ سارے مشاعرے پہ چھا جاتے ۔
ان کی غزل ” دل میں ہے ، قاتل میں ہے ” اس دور کی یادگار ہے جب ملک میں تحریک عدم تعاون کا زور تھا ۔
اس غزل کا مطلع ہندوستان گیر شہرت کا مالک ہوا :
——
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
——
غزل ایک عرصے تک مابہ النزاع رہی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بسمل عظیم آبادی کے قلم سے ہی نکلی تھی جس پر جناب شادؔ کی اصلاح ہوئی ۔ وقت کی پکار تھی سو مشہور ہو گئی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : رام پرساد بسمل کا یومِ پیدائش
——
بسمل عظیم آبادی کی غزلوں میں سادگی کے ساتھ ساتھ پُرکاری بھی ہے ۔ زبان صاف ستھری ، لب ولہجہ میں بے ساختہ پن ، اندازِ بیان میں حلاوت ، اثر انگیزی میں شدت :
——
کہاں قرار ہے ؟ کہنے کو دل قرار میں ہے
جو تھی خزاں میں وہی کیفیت بہار میں ہے
قدم قدم پہ تو ہے سامنا قیامت کا
زمانہ پھر بھی قیامت کے انتظار میں ہے
چمن میں تھے تو ستاتی تھی فکرِ دانہ و دام
قفس میں ہیں تو دل اٹکا ہوا بہار میں ہے
——
میں ہوں اور ہجر کا افسانہ ہے
ملک الموت سے یارانہ ہے
ایک ہی شمع ہے اس محفل میں
سارا عالم ہے کہ پروانہ ہے
دل کو ہندو مسلماں پوجیں
یہی کعبہ یہی بُت خانہ ہے
——
بول چال اور بے ساختہ پن کا انداز دیکھیے :
——
ساری امید رہی جاتی ہے
ہائے پھر صبح ہوئی جاتی ہے
آپ محفل سے چلے جاتے ہیں
داستاں باقی رہی جاتی ہے
——
یا پھر یہ شعر
——
رُخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کدھر جائیں گے
——
واعظ پر طنز دیکھیے :
——
دیکھے ہوئے ہیں آپ تو واعظ بہت نگاہ
کہیے مزاج کیسا ہے اُن کی نظر کے بعد
——
یہ بھی پڑھیں : یہ بسمل خستہ دل آتش بجاں تیرا ہے یا میرا
——
ان چند اشعار سے آپ نے بسمل عظیم آبادی کی افتادِ طبیعت اور طبعِ رسا کا اندازہ لگا لیا ہو گا ۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت میں جگہ دے ۔ آمین
——
منتخب کلام
——
اُلجھنیں وقت کی بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
اب تو سُلجھائیے اُلجھا ہوا گیسو اپنا
——
چھڑ گئی رند سے اور شیخ سے توبہ توبہ
سامنا ہو گیا دیوانے سے دیوانے کا
——
اب ملاقات کہاں شیشے سے ، پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں میخانے سے
——
برہمن کی نظر مل جائے تو دیکھیں حرم والے
بُتوں کے حسن میں پرچھائیاں اس رُوئے زیبا کی
——
دنیا کو دیکھیے کہ کہاں سے کہاں گئی
واعظ کو دیکھیے تو جہاں تھا وہیں ہے آج
——
ٹوٹی جو رسن صید کے اقبال سے بسملؔ
صیاد نے پر باندھ دئیے بندِ قبا سے
——
ہر تار سے اُلجھی رہیں لیلیٰ کی نگاہیں
مجنوں نے مگر اپنا گریباں نہیں دیکھا
——
تم رہنمائے وقت سہی پھر بھی چند گام
چلنا پڑے گا وقت کی رفتار دیکھ کر
——
نہ اپنے ضبط کو رُسوا کرو ستا کے مجھے
خدا کے واسطے نہ دیکھو مُسکرا کے مجھے
——
میری نگاہ کام نہ دے اور بات ہے
جلوہ ترا بقدرِ ضرورت کہاں نہیں
——
جب کبھی نام محمد لب پہ میرے آئے ہے
لب سے لب ملتے ہیں جیسے دل سے دل مل جائے ہے
جب کوئی غنچہ چمن کا بن کھلے مرجھائے ہے
کیا کہیں کیا کیا چمن والوں کو رونا آئے ہے
کوئی کہہ دیتا کہ اب کاہے کو قاصد آئے ہے
ضعف سے بیمار کو اٹھا نہ بیٹھا جائے ہے
ہو نہ ہو کچھ بات ہے تب جی مرا گھبرائے ہے
آپ آئے ہیں نہ خط ہی بھیج کر بلوائے ہے
رات بھی روتے کٹی ہے دن بھی گزرا جائے ہے
آنے والے کچھ نہیں معلوم کب سے آئے ہے
تیرے دیوانے پہ ایسی بھی گھڑی آ جائے ہے
دم بخود رہ جائے ہے سوچا نہ سمجھا جائے ہے
ایک دن وہ دن تھے رونے پہ ہنسا کرتے تھے ہم
ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے
برق کو کیا جانے کیا ضد ہے نشیمن سے مرے
چار تنکوں کی قسم وہ بھی نہ دیکھا جائے ہے
ہجر کی راتوں میں بھی تنہا کہاں رہتا ہے ذہن
تم کبھی آ جاؤ ہو، دشمن کبھی آ جائے ہے
جی میں رکھتے ہیں کہیں بھی تو کسی سے کیا کہیں
شکوہ ان کا یوں تو لب پر بار بار آ جائے ہے
بگڑی بن جاتی ہے، یہ سچ ہے مگر اے ہم نشیں
نا مرادی کا برا ہو، جی ہی بیٹھا جائے ہے
اک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ
عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے
آپ کی اک زلف سلجھانے کو لاکھوں ہاتھ ہیں
میری گتھی بھی کوئی آ کر کبھی سلجھائے ہے
—–
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
رہرو راہ محبت رہ نہ جانا راہ میں
لذت صحرا نوردی دورئ منزل میں ہے
شوق سے راہ محبت کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز پنہاں جادۂ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
مرنے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے خنجر کف قاتل میں ہے
مانع اظہار تم کو ہے حیا، ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
مے کدہ سنسان خم الٹے پڑے ہیں جام چور
سرنگوں بیٹھا ہے ساقی جو تری محفل میں ہے
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسملؔ میں ہے
——
چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
سنا نہیں ہمیں اجڑے چمن کے افسانے
یہ رنگ ہو تو سنک جائیں کیوں نہ دیوانے
چھلک رہے ہیں صراحی کے ساتھ پیمانے
بلا رہا ہے حرم، ٹوکتے ہیں بت خانے
کھسک بھی جائے گی بوتل تو پکڑے جائیں گے رند
جناب شیخ لگے آپ کیوں قسم کھانے
خزاں میں اہل نشیمن کا حال تو دیکھا
قفس نصیب پہ کیا گزری ہے خدا جانے
ہجوم حشر میں اپنے گناہ گاروں کو
ترے سوا کوئی ایسا نہیں جو پہچانے
نقاب رخ سے نہ سرکی تھی کل تلک جن کی
سبھا میں آج وہ آئے ہیں ناچنے گانے
کسی کی مست خرامی سے شیخ نالاں ہیں
قدم قدم پہ بنے جا رہے ہیں مے خانے
یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
——
اب ملاقات کہاں شیشے سے پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آئے ہیں مے خانے سے
کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ اٹھ جائیے مے خانے سے
پھونک کر ہم نے ہر اک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا ستم ڈھانے سے
ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے
ارے او وعدہ فراموش پہاڑ ایسی رات
کیا کہوں کیسے کٹی تیرے نہیں آنے سے
یاد رکھ! وقت کے انداز نہیں بدلیں گے
ارے اللہ کے بندے ترے گھبرانے سے
سر چڑھائیں کبھی آنکھوں سے لگائیں ساقی
تیرے ہاتھوں کی چھلک جائے جو پیمانے سے
خالی رکھی ہوئی بوتل یہ پتا دیتی ہے
کہ ابھی اٹھ کے گیا ہے کوئی مے خانے سے
آئے گی حشر کی ناصح کی سمجھ میں کیا خاک
جب سمجھ دار سمجھتے نہیں سمجھانے سے
برق کے ڈر سے کلیجے سے لگائے ہوئے ہے
چار تنکے جو اٹھا لائی ہے ویرانے سے
دل ذرا بھی نہ پسیجا بت کافر تیرا
کعبہ اللہ کا گھر بن گیا بت خانے سے
شمع بیچاری جو اک مونس تنہائی تھی
بجھ گئی وہ بھی سر شام ہوا آنے سے
غیر کاہے کو سنیں گے ترا دکھڑا بسملؔ
ان کو فرصت کہاں ہے اپنی غزل گانے سے
——
حوالہ جات
——
تحریر : عطا کاکوی ، عطاؔ منزل پٹنہ ۶
کتاب : حکایتِ ہستی از بسمل عظیم آبادی ، شائع شدہ 1980 ، صفحہ نمبر 13 تا 17