ہم اہلِ عشق ہیں ، صدیوں کو چمکاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے یہ آنسو: ان گنت قرنوں کے ماتھے کا پسینہ یہ وحشت: بے شمار ادوار کے غم کا خزینہ یہ لامحدود اذیّت ، یہ زمانوں کے کچوکے مگر ہم عشق والے ہیں، خدا بھی کیسے روکے ؟ خدا سے لڑ جھگڑ کے بھی اُسے بھاتے رہیں […]

مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو

مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو کہ میں نے سہی ہے دل و جاں پہ دونوں جہانوں کی وحشت نفس در نفس در نفس وہ اذّیت کہ جس سے اُبل آئیں یزداں کی آنکھیں اذیّت کہ جس سے مرے روزوشب سے نچڑنے لگا ہے شفق رنگ لاوا شفق رنگ لاوا جو میرا لہو ہے لہو جو […]

فروغ فرخ زاد کے نام

!فروغ وہ تجھ سے ڈر گئے تھے !فروغ تُو سر بسر جنُوں تھی سو عقل و دانش کے دیوتا تجھ سے ڈر گئے تھے اندھیر نگری کے حکمرانوں کو تیری آنکھوں کی روشنی میں دکھائی دیتی تھی موت اپنی ازل کے اندھوں کو تیرے ماتھے کے چاند سے خوف آرہا تھا ترے سخن میں وہ […]

ملالہ یُوسف زئی کے نام

ایک اُمید پسِ دیدہء تر زندہ ہے فاختہ خُون میں لت پت ہے، مگر زندہ ہے ورنہ گُل چیں سبھی کلیوں کو مسل ڈالے گا غیرتِ اہلِ چمن ! جاگ، اگر زندہ ہے ریزہ ریزہ ہیں مرے آئنہ خانے لیکن مُطمئن ہوں کہ مرا دستِ ہُنر زندہ ہے سانحہ یہ ہے میرا رختِ سفر لُوٹا […]

ڈھول کی تھاپ پر کہی گئی ایک نظم

سُن اے اَن دیکھی سانولی! تری آس مجھے ترسائے مری رُوح کے سُونے صحن میں ترا سایہ سا لہرائے ترے ہونٹ سُریلی بانسری ، ترے نیناں مست غزال تری سانسوں کی مہکار سے مرا حال ہوا بے حال کچھ دُھوپ ہے اور کچھ چھاوٗں ہے ترا گھٹتا بڑھتا پیار انکار میں کچھ اقرار ہے ، […]

عام سا اِک دن

عام سا اِک دن، طلوعِ مہر بھی معمول کا راہگزارِ وقت پر لمحوں کی بگھی گامزن اور بگھی کے تعاقب میں بگولا دُھول کا شہر کی گلیوں میں لمبی سانسیں لیتی زندگی اِس طرف طفلانِ بے پروا کے کمسن قہقہے اُس طرف محوِ تلاشِ رزق لوگوں کا ہجوم دل ۔ دھڑکتے دل ۔ بہت سی […]