پھول بھی نقلی دیے اور عطر بھی جُھوٹا دیا
بول، سچے عاشقوں نے اور تجھ کو کیا دیا؟
معلیٰ
بول، سچے عاشقوں نے اور تجھ کو کیا دیا؟
بکھرے ہوئے اوراقِ خزانی چُن کر لے جاؤں گا ایک ایک نشانی چُن کر چھوڑوں گا نہیں کچھ بھی تری آںکھوں میں کھو جاؤں گا ہر یاد پُرانی چُن کر
گو رزق کے چکر نے بہت جور کیا ہم پھرتے رہے ، صبر بہر طور کیا شانوں پہ تری یاد کی چادر لے کر یوں گُھومے کہ ہر شہر کو لاہور کیا
محفل میں جو ہم تُجھ سے پرے بیٹھے ہیں بے بس ہیں سو اشکوں سے بھرے بیٹھے ہیں فی الحال کوئی اور تواضع مت کر ہم لوگ تو پہلے ہی مرے بیٹھے ہیں
ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے یہ آنسو: ان گنت قرنوں کے ماتھے کا پسینہ یہ وحشت: بے شمار ادوار کے غم کا خزینہ یہ لامحدود اذیّت ، یہ زمانوں کے کچوکے مگر ہم عشق والے ہیں، خدا بھی کیسے روکے ؟ خدا سے لڑ جھگڑ کے بھی اُسے بھاتے رہیں […]
مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو کہ میں نے سہی ہے دل و جاں پہ دونوں جہانوں کی وحشت نفس در نفس در نفس وہ اذّیت کہ جس سے اُبل آئیں یزداں کی آنکھیں اذیّت کہ جس سے مرے روزوشب سے نچڑنے لگا ہے شفق رنگ لاوا شفق رنگ لاوا جو میرا لہو ہے لہو جو […]
!فروغ وہ تجھ سے ڈر گئے تھے !فروغ تُو سر بسر جنُوں تھی سو عقل و دانش کے دیوتا تجھ سے ڈر گئے تھے اندھیر نگری کے حکمرانوں کو تیری آنکھوں کی روشنی میں دکھائی دیتی تھی موت اپنی ازل کے اندھوں کو تیرے ماتھے کے چاند سے خوف آرہا تھا ترے سخن میں وہ […]
ایک اُمید پسِ دیدہء تر زندہ ہے فاختہ خُون میں لت پت ہے، مگر زندہ ہے ورنہ گُل چیں سبھی کلیوں کو مسل ڈالے گا غیرتِ اہلِ چمن ! جاگ، اگر زندہ ہے ریزہ ریزہ ہیں مرے آئنہ خانے لیکن مُطمئن ہوں کہ مرا دستِ ہُنر زندہ ہے سانحہ یہ ہے میرا رختِ سفر لُوٹا […]
سُن اے اَن دیکھی سانولی! تری آس مجھے ترسائے مری رُوح کے سُونے صحن میں ترا سایہ سا لہرائے ترے ہونٹ سُریلی بانسری ، ترے نیناں مست غزال تری سانسوں کی مہکار سے مرا حال ہوا بے حال کچھ دُھوپ ہے اور کچھ چھاوٗں ہے ترا گھٹتا بڑھتا پیار انکار میں کچھ اقرار ہے ، […]
عام سا اِک دن، طلوعِ مہر بھی معمول کا راہگزارِ وقت پر لمحوں کی بگھی گامزن اور بگھی کے تعاقب میں بگولا دُھول کا شہر کی گلیوں میں لمبی سانسیں لیتی زندگی اِس طرف طفلانِ بے پروا کے کمسن قہقہے اُس طرف محوِ تلاشِ رزق لوگوں کا ہجوم دل ۔ دھڑکتے دل ۔ بہت سی […]