آج دل کو بے قراری اور ہے

غم گساری، گریہ زاری اور ہے پاؤں زخمی ہو گئے تو یہ کھُلا راستوں کی بردباری اور ہے آج شب تیری خوشی کے نام تھی جو ترے غم میں گزاری اور ہے برملا ہنسنا نجاتِ غم نہیں شہرِ غم سے رستگاری اور ہے درد کی مہماں نوازی اور تھی ضبط کی تیمار داری اور ہے […]

رُک ہی جاتی کہیں ہَوا، لیکن!

رُک ہی جاتی کہیں ہَوا، لیکن وہ کہیں بھی نہیں رُکا، لیکن جب کوئی درد سانس لیتا ہے مسکراتا ہوں بارہا، لیکن میری آنکھیں نہ دشت ہو جائیں تُو مجھے شوق سے رُلا، لیکن کب تلک یوں فریب کھائیں گے؟ اُس کا چہرہ ہے دلربا، لیکن زینؔ اُس کو، وفا شناسی پر شوق سے آئینہ […]

لفظ کتنے ہی روانی میں رہے

ہم فقط اپنی جوانی میں رہے دل کہیں اور کہیں ہے دھڑکن کون بے ربط کہانی میں رہے اُس نے تحریر کیا ہی کب تھا ہم فقط اُس کی زبانی میں رہے ٹھوکریں آنکھ میں کھاتے کھاتے دکھ مری آنکھ کے پانی میں رہے میں اکیلا تو نہیں لڑ سکتا اُس سے کہہ دو کہ […]

چاہت کی اک خاص نشانی کھو جائے

مجھ سے گر اک شام سہانی کھو جائے طیش کا عالم اور نگاہوں میں آنسو جیسے اِک راجہ کی رانی کھو جائے تم چہرا ڈھلنے سے پہلے لوٹ آنا شاید مجھ سے مِری جوانی کھو جائے حیرت جھانک رہی ہے گم سم آنکھوں سے جیسے اُسکی آنکھ کا پانی کھو جائے پاگل بن کر سر […]

مجھے پائمال تو کر کبھی

مجھے یوں نڈھال تو کر کبھی مجھے روزوشب کی سزا نہ دے مرا کچھ خیال تو کر کبھی تری بے رُخی کی مثال ہوں مجھے استعمال تو کر کبھی مرا نام لے کے زبان سے مجھے بے مثال تو کر کبھی تجھے زینؔ شوقِ ہجوم ہے؟ ذرا انتقال تو کر کبھی

آئینہ ، آگ ، ضو مسائل ہیں

یہ دیا اور لو مسائل ہیں ہم غریبانِ شہر کے صاحب آب و دانہ و جو ، مسائل ہیں جس جگہ انحراف پرکھوں سے بس وہیں نسلِ نو ! مسائل ہیں کب تلک تیرے عشق کو رووں میرے گھر کے بھی سو مسائل ہیں ان چراغوں کے سامنے ، موسم اور ہواوں کی رو مسائل […]

اب جھٹک دیتی ہوں تیری یاد میں

اپنے فن میں ہوگئی استاد میں قاف کا دنیا سے رشتہ جوڑ مت تو پری زادہ ہے آدم ذاد میں چھوڑ ہجراں کی اذیت ، بھول جا خوش رہے تو بھی ، رہوں آباد میں قتل کردیں کتنی ساری خواہشیں دل بہت معصوم سا ، جلاد میں چاہے اچھی ساتھ میں فوٹو لگا شعر اچھا […]

ارادے خستہ ، قدم شکستہ، شنید ہجرت

مزید ہجرت ، مزید ہجرت ، مزید ہجرت ہمارے خیموں کی تھوڑی قیمت لگانے والے ہمارے دیوار و در کی قیمت خرید ، ہجرت معاش کی فکر ایک چھلنی میں ڈال دی تھی اور اب ہمیں کرنا پڑ رہی ہے کشید ہجرت یہ پاوں لگتا ہے گردشوں سے بندھے ہوئے ہیں نہیں ہے خانہ بدوشیوں […]

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، چھت پر میں حسب معمول گئی

اس کو ہنستے دیکھا اور پلکیں جھپکانا بھول گئی ساری رات کی جاگی آنکھیں کھلنے سے انکاری تھیں پوچھ نہ کیسے کام سمیٹے اور کیسے اسکول گئی دونوں نے جینے مرنے کی قسمیں ساتھ اٹھائی تھیں لڑکے کے اب دو بچے ہیں ، لڑکی چھت سے جھول گئی وقت نے ایسی گرد اڑائی عمریں یونہی […]