احسان سہگل کا یومِ پیدائش

آج نیدرلینڈ میں مقیم اردو ، انگریزی کے معروف شاعر، ادیب، صحافی اور اسکالر احسان سہگل کا یومِ پیدائش ہے ۔

احسان سہگل(پیدائش: 15 نومبر 1951ء )
——
احسان سہگل پیدائشی نام خواجہ احسان الٰہی سہگل نیدرلینڈ میں مقیم اردو ، انگریزی کے شاعر، ادیب، صحافی اور اسکالر ہیں ، جن کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ وہ ایک صحافی ہیں، جمہوریت کے لیے سرگرم کارکن ہیں اور صحافت اور آزادی اظہار خیال کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔ پاکستان نژاد ڈچ ناول نگار ‘ شاعر اور صحافی احسان سہگل کی دو نئی کتابیں شائع ہو گئی ہیں جن میں انگریزی زبان میں شعری مجموعہ بریتھنگ ورڈز اور دوسری کتاب دی رائٹنگ دیٹ فراگرینسز شامل ہیںاس سے پہلے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن کو ادبی حلقوں میں خاصی پزیرائی ملی ہے ۔ وہ انگریزی ، اردو اور ڈچ زبانوں میں لکھتے ہیں اور دنیا کے ادبی حلقوں میں مقبول ہیں وہ 1978کے مارشل لا دور میں پاکستان سے ہالینڈ منتقل ہوئے تھے اس وقت وہ کراچی میں اردو کے ایک اخبار سے منسلک تھے ۔ ادبی خدمات پر مختلف تنظیموں کی جانب سے انہیں کئی ایوارڈز مل چکے ہیں۔
——
احسان سہگل، ایک شخص ایک خیال از نادر شاہ عادل
——
حقیقت یہ ہے کہ احسان سہگل کو ہمارے صحافی دوستوں نے ہمیشہ ایک قلندرانہ شان کے ساتھ اپنی جوانی کے ابتدائی دن گزارتے دیکھا۔ میری ان سے ملاقات روزنامہ مساوات میں ہوئی۔ 1973 کا زمانہ تھا، پہلی ملاقات میں محسوس ہوا کہ ادب شناس ہیں۔ احسان سہگل دو اردوکتابیں ہاتھ میں تھامے اندر ہال میں داخل ہوئے، ایک کتاب ان کے اپنے غیر طبع زاد اقوال کی تھی اور دوسری کتاب زندگی کے متفرق تجربات ، خیالات ، فلسفیانہ موشگافیوں اور یک نشستی شارٹ اسٹوریز تھیں جو بعینہ آج کل کی سو لفظوں کی کہانیاں تھیں۔ ہمیں انھوں نے دونوں کتابیں دے دیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : آرزو لکھنوی کا یوم پیدائش
——
یہ تھی ان سے دوستی کی شروعات۔ احسان نے 15 نومبر 1951 میں لاڑکانہ میں آنکھ کھولی، جامعہ سندھ سے بی اے کی جب کہ جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ماسٹرکیا اور ایل ایل بی کی سند حاصل کی۔ 65کی جنگ میں فوجی تربیت لیے ہوئے تھے، جنگی خدمات پر تمغہ جنگ بھی وصول کیا۔ روزنامہ ’’آغاز‘‘ سے جرنلزم کا کیریئر شروع کیا، اسی دوران ملک سے باہر جانے کا قصد کیا۔ ہالینڈ میں انھوں نے ایک ڈچ لڑکی سے شادی کی، جس سے دو بیٹیاں ہوئیں۔ ان غیر ملکیوں کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ احسان کی اہلیہ حسین وجمیل اور بے حد سنجیدہ وشائستہ گوری تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد جب کراچی پریس کلب پہنچیں تو یہ امتیاز کرنا مشکل تھا کہ وہ کسی مسلمان خاتون سے ادب ،آداب اور اخلاق و سلیقے سے کم ہیں۔
ان کے طرز عمل رویے اور اخلاق نے بہتوں کو متاثر کیا، مزید برآں ان کی دونوں بیٹیاں بلاشبہ ’’پریاں‘‘ تھیں، میں نے ہمیشہ احسان سہگل کو خوش قسمت کہا کہ ایسی نیک سیرت گوری کے شوہر اورگلاب جیسی معصوم بچیاں تمہارے لیے نعمت خداوندی ہیں ۔ پھر بدگمانی اور داخلی ناچاقیوں کی ایسی آندھی چلی کہ احسان کی دنیا تاریک ہو گئی، وہ ہالینڈ میں ’’تنہا‘‘رہ گئے۔ چالیس سالہ رفاقت برباد ہوئی۔ بہرحال بچیاں پیا کے گھر سدھار چکی ہیں، ابوکو دیکھنے کبھی کبھار آجاتی ہیں۔ تاہم احسان کا حوصلہ تھا کہ انھوں نے ہار نہیں مانی۔ کراچی میں ایک معروف کاروباری گھرانے سے منسلک ہونے کے باعث وہ ادب و صحافت کی ساری سرگرمیوں کو ذرائع ابلاغ کی برقی و مواصلاتی دنیا سے ہم آہنگ کرتے رہے۔
کاشف رفیق نے لکھا کہ احسان سہگل کا نام ہمارے اساتذہ میں ہوتا ہے، ان کے انگریزی اقوال ہوں، شاعری ہو، یا خود نوشت سوانح حیات اپنے اندر ایک عہد کی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ ’’ہیگ کا قیدی‘‘ Prisoner of The Haig ان کی معروف ، دلچسپ اور فکر انگیز داستان حیات ہے۔ ڈچ زبان میں ان کی ضرب المثال او کہاوتوں پر مبنی کتاب کا اردو اور انگریزی ترجمہ نعیم عارف نے کیا ہے۔ احسان کی نعتوں، غزلوں کو یورپ اور پاکستان کے گلوکاروں نے بھی گایا ہے۔ وہ سیمینارز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، ضرب سخن ان کے42 سالہ مشق سخن کا نتیجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سابق صدر صدام حسین نے انھیں دوبار عراق کی پیپلز کانفرنس میں مدعوکیا، ایک بار بھارتی انٹیلی جنس اہلکاروں نے انھیں ورغلانے کی پوری سازش کی مگر وہ ان کے دام میں نہیں آئے۔
سینئر صحافی زیب اذکار حسین نے ایک انگریزی معاصر میںان کی تین انگریزی کتابوں کے حوالے دیئے ہیں۔ Breathing WordsاورThe writings that fragrances ان کے فکر وتخیل کا نچوڑ ہیں جب کہ تیسری کتاب The wise Way ان کے اقوال پر مشتمل ہے۔ ان میں درجنوں فلسفیانہ باتیں مغرب، ومشرق اور عالمی سیاق وسباق میں انسانی رشتوں سے متعلق ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آنکھیں کھولو، آئینہ دیکھو اورکسی کو نظروں سے مت گراؤ۔ ایک جگہ کہتے ہیں کہ امید اور خوف کا حوالہ ہی انسان کے لیے relief اور grief کا استعارہ ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : وہ رات میاں رات تھی ایسی کہ نہ پوچھو
——
احسان نے رباعیات بھی کہی ہیں، علم عروض پر انھیں دسترس حاصل ہے، جس کا ذکر ابن انشا اور بھارتی شاعر ندا فاضلی نے کیا ہے۔ احسان سہگل نے ہالینڈ میں مسلم اقوام متحدہ بھی بنائی۔ اس کا منشور عام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام اور مسئلہ کشمیر کے لیے ان کا جو میثاق تھا اگر اسے حکومتی پذیرائی ملتی تو آج یورپ میں صورتحال مختلف ہوتی۔
احسان سہگل جتنا طویل عرصہ ہالینڈ میں مقیم رہے ان سے ہماری دوستی اور تعلق نیٹ کا مرہون منت رہا۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی گردش دوراں کا شکار رہے، مگر ادب وصحافت سے جڑے رہے اور ہالینڈ میں بھی جب ان کے مبارک قدم پہنچے تو وہ ’’ہیگ کے قیدی‘‘ بنے۔ یہ عنوان ان کی کتاب کا ہے جو درحقیقت ان کی اس حالت زارکی داستان ہے جس میں وہ اپنی خود نوشت سوانح حیات بیان کرچکے ہیں۔ یہ ڈچ کلچر سے پیوست پاکستان کے ایک بے چین ادیب ، شاعر ، فلسفی اور صحافی کی انوکھی کہانی ہے جس نے کراچی میں صحافت سے آغاز کیا اور جب محسوس کیا کہ انھیں انسان نما بھیڑیوں کے ساتھ رقص کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے تو ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا کہ دیار غیر میں اپنا مقام پیدا کریں۔
اس سوانح عمری میں احسان پر جوگزری سوگزری لیکن ان کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ہالینڈ میں انھیں ایک نظام اقدار ،انسانیت، حکمرانی کے تجربات سے شناسائی ملی ، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع نصیب ہوئے، دکھ سکھ کے نئے معیار در پیش ہوئے، اندازہ ہوا کہ زندگی کے سکے کا دوسرا رخ اجنبی دیس میں کیسا لگتا ہے۔
احسان جب ہجرت کے تجربات پر اپنے فکر انگیز اقوال کا پٹارا کھولتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے کس قول پر ضمیر کے کنج قفس میں جا کر فغان درویش بلندکی جائے اورکس قول کو ’’درد وغم کتنے جمع کیے تو دیوان کیا‘‘کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ اور کس شعری تخیل پر آنسوؤں کی آبشارکو روکنے کی کوشش ناتمام کی جائے۔ احسان نے دور اندیشی یہ کی کہ جلاوطنی میں فکروتخیل سے اپنا رشتہ مضبوط بنایا ، بین الاقوامیت کو آدرش بنایا، اور اپنی تخلیقات اور فکری پیغام کو واٹس ایپ، فیس بک اور مختلف ویب سائٹس کے حوالے سے پھیلایا۔
ان کا یقین ہے کہ دنیا کی باطل طاقتیں امن وانصاف کے قتل کے درپے ہیں اور انسانیت موت کی دہلیز پر لائی جارہی ہے۔ ہیگ میں ان کا گھر پاکستان سے آنے والے دوستوں کے لیے کھلا رہتا ہے، عمران خان نے تو آج پناہ گاہ اور بے سہارا لوگوں کے مفت کھانے کا اہتمام کیا ہے ،احسان سہگل کی وضع داری اور مہمان نوازی زمانہ ہوا ایک مسافر خانہ کی ضرورت پوری کرتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کو بس انسان کے کام ہی آنا چاہیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : میرے خدا کا مجھ پہ یہ احسان ہو گیا
——
درد مند اتنے ہیں کہ کہیں بھی اطلاع مل جائے کہ کوئی ہم وطن مشکل میں ہے، بیمار ہے اس کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں، میں نے جاننا چاہا کہ کشمیرکی صورتحال پر ان کے خیالات اور موقف کو عالمی رائے عامہ میں کتنی پذیرائی ملی تو کہنے لگے کہ میرے جذبات واحساسات آج سے کئی سال پہلے قطعی واضح تھے، میں نے مغرب کی سفید فام اجارہ داری ، فکری اور تہذیبی برتری کے خلاف قلم اٹھایا ہے، اس بات پر استدلال کیا ہے ، بھارتی پالیسیوں پرکڑی نکتہ چینی کی،اور یہ موقف اختیار کیا کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم نہ کرکے بھارت نے انسانی حقوق کے عالمی چارٹرکو پامال کیا۔ سہگل صاحب کے ابلاغ و اطلاعات کے تمام وسیلوں اور سوشل میڈیا پر ان کی زبردست فالوئنگ ان کی ہمہ وقت موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ صنفی امتیاز ، جینڈر ریوولیوشن اور مغرب کے بے جا تفاخر اور انسانیت کے مشترکہ آدرش پر ان کے پاس بے پناہ مواد موجود ہے۔ وہ کہتے ہیںکوئی دن ایسا نہیں گیا جب فیس بک پر میری دنیا والوں اور ہم وطنوں سے گفتگو نہیں ہوئی۔
احسان سہگل کی انجمن آرائی کا جواب نہیں۔ مگر اس بار مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک ایسی آبی مخلوق ہونے کے وجدان سے لبریز ہے جوکرہ ارض کو آگ وخون ، تباہی وبربادی میں تقسیم ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ایران و امریکا میں جنگ کا خطرہ،خطے میں پاکستان کو درپیش چیلنجزاور جاری داخلی کشیدگی پر ان کے خیالات جاننا چاہے تو انھوں نے معنی خیز اور تشویش بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اورکہا کہ وطن کی خیر مانگتا ہوں، یہ دعا کا وقت ہے۔
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
محمد کی رحمت ہے تو ڈر نہیں ہے
محمد کے در سا کوئی در نہیں ہے
برابر ہو کوئی جو میرے نبی کے
زمیں پر کوئی ایسا رہبر نہیں ہے
یہ جتنے بھی دنیا میں آئے نبی ہیں
کوئی بھی محمد سے برتر نہیں ہے
مرے مصطفیٰ کی ہدایت سے بڑھ کر
ہدایت کسی اور کی بڑھ کر نہیں ہے
نبی کا ہو اب کیسے دیدار سہگلؔ
محبت اگر دل کے اندر نہیں ہے
——
وہ آقا بھی ہے ، وہ مولا بھی ہے
وہ تیرا بھی ہے ، وہ میرا بھی ہے
جس کے دامن میں خوشبو ہی خوشبو
وہ اچھا بھی ہے ، وہ پیارا بھی ہے
اپنوں کا اپنا ، وہ یاروں کا یار
سب کی امیدوں کا یارا بھی ہے
وہ دل کی ٹھنڈک اور آنکھوں کا نور
وہ میری ہستی کا ملجا بھی ہے
محشر میں ہو گا وہ سب کا شافع
جس کے قدموں میں یہ دنیا بھی ہے
کالی کملی والا ہر منزل پر
سہگلؔ کا رہبر اور داتا بھی ہے
——
یہ غربت ، یہ تنہائی یہ انتظار
مری زندگی میں مزا ہی نہیں
——
تحریر نہیں ہے تو یقیں کیسے ہو
وہ قرض وفا ہم سے زبانی مانگے
——
کسی کے پاس بھی فرصت نہیں یہاں سہگل
لگا ہے ہر کوئی اپنے شکار کے پیچھے
——
ستارہ ہے گردش میں دن رات کا
ہوا ہے وہی ڈر تھا جس بات کا
——
جو شخص ایک آنکھ نہ بھایا کبھی مجھے
میری حیات کا وہی تو ہمسفر رہا
ہے یہ عجیب بات جہان حیات میں
مارے گئے وہی جنہیں مرنے کا ڈر رہا
——
امیدوں سے اب تو میں گھبرا گیا ہوں
بڑھاپے کی دہلیز پر آگیا ہوں
——
رات ہو کہ دن ہو وہ اشک بار رہتا ہے
شہر میں ترے بھی اک غم گسار رہتا ہے
یہ بھی جینے کا ایک ڈھنگ ہے دوست
بت تراش کر بت فروش ہو جا
——
یہ ممکن نہیں حاصل ہو سکون دل
غم عشق بھی ہے، درد جہاں بھی ہے
——
امید کچھ ہوتی تو، اضطرار میں رہتا
کوئی کہاں تک ترے انتظار میں رہتا
——
مرے خلوص کی حد میں جو گفتگو ہوگی
جمال فکر کی بے شک وہ آبرو ہوگی
——
زندگانی کی کیوں دعا مانگوں
بے وفاؤں سے کیا وفا مانگوں
یاں اذیت ہے واں جہنم ہے
میں کہاں جاؤں اور کیا مانگوں
——
اب افسوس کرنے سے کیا ہوگا حاصل
ہماری تباہی میں تم بھی تھے شامل
قیامت جو گزری ہے ہم پر جہاں میں
نہیں اس میں اپنی خطا کوئی شامل
بس آنکھوں میں آئے ہوئے اشک پی کر
دل غم زدہ پر تو رکھ صبر کامل
ہے قبضہ سبھی ساحلوں پر عدو کا
کہیں بھی نہیں میری کشتی کا ساحل
دعا ہی ہوئی جب نہ پوری ہماری
دل اپنا ہے اب تو گناہوں پہ مائل
دعا مانگتا ہے ہمیشہ یہ سہگلؔ
بنانا مجھے اپنے ہی در کا سائل
——
زیاں ہی ہے زیاں ہم سے نہ پوچھو
یہ غیروں کی زباں ہم سے نہ پوچھو
سنا سکتے نہیں حال الم میں
ہماری داستاں ہم سے نہ پوچھو
ہم اپنی ذات تک محدود ہیں دوست
خیال عاشقاں ہم سے نہ پوچھو
رہے ہیں زندگی بھر سادگی سے
خرافات جہاں ہم سے نہ پوچھو
کرو محسوس خود ہی بات سچی
یقیں ہے اب کہاں ہم سے نہ پوچھو
ہے کتنا تلخ کڑوا نفرت آمیز
اب انداز بیاں ہم سے نہ پوچھو
سجایا ہے گلوں سے باغ سارا
کمال باغباں ہم سے نہ پوچھو
جدھر دیکھو عناد و بغض کی دھار
ہے ملا کی اذاں ہم سے نہ پوچھو
کرو ادراک ہر اک گفتگو کا
ہیں کیا گستاخیاں ہم سے نہ پوچھو
برا مانیں گے کہہ دی گر حقیقت
سلوک دوستاں ہم سے نہ پوچھو
رقیبوں کی رقابت کیا بتائیں
وہ دیں گے گالیاں ہم سے نہ پوچھو
رہے ہیں ہم بھٹکتے خود ہی سہگلؔ
سو منزل کا نشاں ہم سے نہ پوچھو
——
شعری انتخاب از افکار کی خوشبو 2002 ء ، اندازِ تخیل 1998 ء ، سازِ تخیل 1999 ء
مصنف : احسان سہگل ، متفرق صفحات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الیاس بابر اعوان کا یومِ پیدائش

آج راولپنڈی ، پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر اور افسانہ نگار الیاس بابر اعوان کا یومِ پیدائش ہے ۔ (پیدائش: 28 مئی 1976ء ) —— الیاس بابر اعوان کی پیدائش 28 مئی 1976ء، راولپنڈی، صوبہ پنجاب، پاکستان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد افضل اعوان ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی […]

منظر لکھنوی کا یومِ وفات

آج معروف کلاسیکل شاعر جعفر حسین منظر لکھنوی کا یومِ وفات ہے (پیدائش: 1866ء – وفات: 28 مئی 1965ء) —— نظر لکھنوی۔ نوبت رائے نام نظرؔ تخلص ۔وطن لکھنؤ کائستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے 1866ء میں پیدا ہوئے ۔ ۔شاعری کا شوق شروع ہی سے تھا ۔آغاز مظہر کے شاگرد ہیں ۔1897 میں لکھنؤ […]