اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر حسن عباس رضا کا یوم پیدائش ہے

حسن عباس رضا ——
(پیدائش: 20 نومبر 1951ء )
——
حسن عباس رضا 20 نومبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوئے، والد محترم صوفی محمد زمان، ایک فرشتہ صفت، انتہائی ہمدرد اور نیک انسان تھے، والدہ مرحومہ کا نام زینب بی بی تھا۔ پانچ بھائی اور ایک بہن تھی، تین بھائی ایام جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے۔
اسلامیہ ہائی سکول راولپنڈی کے مدرّس کی حیثیت سے والد نے ہزاروں طالب علموں کو فارسی اور اردو کی تعلیم دی۔ آپ کے بے شمار طالبعلموں نے ادب و شعر کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں نام کمایا۔ حسن عباس رضا نے میڑک تک ابا جی مرحوم سے فارسی اور اردو پڑھی، بعد ازاں گورنمنٹ کمرشل کالج سے ڈی کام کرنے کے بعد پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا پہلا شعر ۱۹۷۲ میں لکھا، محکمہ تعلیم پنجاب سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا، بعد ازاں احمد فراز اکیڈمی آف لیٹرز لے گئے، وہاں چھ برس تک فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران آمر ضیاع الحق کا مارشل لا لگ گیا، فراز صاحب کو تو گرفتار کر کے وہ اٹک قلعہ لے گئے، مگر حسن عباس رضا کو تین روز تک روزانہ جی ایچ کیو کے کسی آفس میں لے جاتے، پوچھ گچھ کرتے، اور ’’معصوم‘‘ جان کر شام کو گھر چھوڑ جاتے۔ اکیڈمی آف لیٹرز کے بعد حسن نے ایک اور نیم سرکاری ادارے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شایع ہونے والے میگزین ’’ یارانِ وطن ‘‘ کو جوائن کر لیا، یہاں پر محترم ممتاز مفتی مرحوم، ضیا اقبال شاہد مرحوم، اور محمد علی چراغ کے ساتھ دو برس تک کام کیا۔
دورانِ ملازمت حسن عباس رضا نے اپنے ادبی میگزین ’’ خیابان ‘‘ کی اشاعت جاری رکھی، مارشل لاء کے عروج کا زمانہ تھا، جب خیابان کا تیسرا شمارہ منظرِ عام پر آیا، اس میں اداریہ، حسن کی نظموں کے علاوہ، اختر حسین جعفری مرحوم، ظفر خان نیازی کی نظم، رشید احمد کی نظمیں، اعجاز راہی مرحوم کا مضمون، احمد داؤد مرحوم کا افسانہ، احمد فراز کی غزل، غرضیکہ بہت سی دیگر تخلیقات پر سرخ نشان لگا کر، خیابان پر پابندی لگا دی گئی، اعتراض وہی پرانے، کہ اسلام، فوج اور پاکستان کے خلاف مواد ہے، نیز فحاشی کا بھی الزام لگایا گیا، خیر فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے حسن کے گھر کا محاصرہ کیا، اور گھر میں موجود خیابان کے نئے، پرانے شمارے اور بہت سی دیگر کتابیں اپنے ساتھ لے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سوزِ دل چاہیے، چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
——
حسن عباس رضا اس وقت گھر پر نہیں تھا، اور اتفاق سے وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (P.N.C.A) میں ملازمت کا پہلا دن تھا، اس شام پی این سی اے کے زیر اہتمام لیاقت میموریل ہال میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈیوٹی پر مامور تھے اور اس وقت ہال میں اقبال بانو غزل سرا تھیں، جب کسی دوست نے مجھے وہاں آ کر اطلاع دی، اور یہ مشورہ بھی دیا کہ فوری طور پر روپوش ہو جاؤں، ابھی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ تازہ اطلاع ملی کہ حسن کی گرفتاری کی شرط پرپولیس والد کو اپنے ساتھ لے گئی ہے، لہذا فوری طور پر حسن نے گرفتاری دے دی، دوسرے دن پولیس نے عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ لے کر ہتھکڑی پہنائی، اور صدر بازار لے گئے، اور وہاں کے تمام بک سٹالز سے خیابان کے شمارے ضبط کر لیے، ایک بک سٹال کے مالک خواجہ صاحب نے حسن کو پولیس کی حراست میں ہتھکڑی پہنے دیکھا تو انہوں نے پولیس سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا کہ آپ ایک شاعر کو یوں ہتھکڑی لگا کر سرِ بازار گھما رہے ہیں، یہ علم و ادب کی توہین ہے، مگر پولیس کو ایسی باتیں سننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، بارہ روز تک حراست میں رکھا گیا
۱۹۹۹ میں ایک نظم لکھی تھی ’’ میرے بادشاہ ‘‘ اس پر بھی سرکار دربار کے حکم سے مقدمہ تیار کیا گیا، لیکن اس دوران نہ صرف حکومت کا خاتمہ ہو گیا، بلکہ حسن خود بھی امریکہ آ گیا،اور دوبارہ سرکاری مہمان بننے کی ’’ خواہش ‘‘ دل ہی میں رہ گئی۔۔ ۱۹۸۵ میں پہلے شعری مجموعے ’’ خواب عذاب ہوئے ‘‘ کا فلیپ فیض صاحب نے لکھا، اور یہ فیض صاحب کی زندگی کی آخری تحریر تھی، اس کتاب کا پیش لفظ کشور ناہید نے تحریر کیا تھا۔ ٹھیک دس برس بعد ۱۹۹۵ میں دوسرا شعری مجموعہ ’’ نیند مسافر‘‘ شایع ہوا، جس کا دیباچہ قاسمی صاحب نے لکھا تھا، اور فلیپ احمد فراز نے ۲۰۰۰ میں بوجوہ امریکہ آنا پڑا، یوں پہلے دو برس ورجینیا میں اور بعد ازاں نیویارک میں مقیم ہرہے،تیسرا اور تادمِ تحریر نیا شعری مجموعہ ’’ تاوان ‘‘ ۲۰۰۴ میں اسلام آباد سے شایع ہوا جس کا دیباچہ گلزار نے لکھا ہے۔ میرا نیا شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے اور ۲۰۰۸ کے آخر تک شایع ہوا، ۔
پاکستان میں قیام کے دوران نے ٹی وی، ریڈیو اور سٹیج کے لیے متعدد ڈرامے، گیت اور سکرپٹ تحریر کیے، اور پی این سی اے کے زیر اہتمام منعقدہ ڈرامہ فیسٹیول میں ہونے والے ڈراموں کو کتابی شکل میں شایع کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : جو مجھے چاہیے سب کا سب چاہیے
——
۱۹۸۴ میں شادی ہوئی، اہلیہ روبینہ شاہین نہ صرف شعر شناس، اور ادب دوست تھیں، بلکہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار بھی ہیں، دو خوبصورت بیٹے عطا ہویے ، بڑا بیٹا فرہاد حسن، پاکستان میں ہے، اور پاکستان ایئر فورس میں پائلٹ ہے، دوسرا بیٹا وامق حسن ہے، جو حسن کے ساتھ نیویارک میں ہے۔
——
منتخب کلام
——
آوارگی میں حـــد سے گذر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
——
تیری خوش بُو سے بھری ہوتی ہیں جیبیں ان کی
میں نے جس روز بھی پھولوں کی تلاشی لی ہے
——
ترے کِــــواڑ سے اٹھتا دھواں بتاتا ہے
کہ میرا آخری خط بھی جلا دیا تو نے
——
پوچھا : گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہو گئیں؟
بولی کہ اب وہ جھــــــانکنے والے نہیں رہے
——
کل تیرے تشنگاں سے عجب معجزہ ہُوا
دریا پہ ہونٹ رکّھے تو دریا تمــــام شد
——
اَن گِنت عشق کیے میں نے ، مگر سچ یہ ہے
تجھ کو دیکھا تو مِرے دل نے کہـا ، بســم اللہ
——
چــــاہتوں کے دائرے میں آؤ دوڑیں ایک ساتھ
تو نے مجھ کو چھو لیا تو میں تِرا ہو جاؤں گا
——
دُزدانِ نِیم شب نے بھی حِیلے بہُت کیے
لیکن کِسی کو خـــــواب چُرانے نہیں دِیا
——
ایسا نہ ہو ، کہ ڈھنگ ہی اڑنے کا بھول جائیں !
صیّـــــاد ! ایکـــــــــــــ دن کے لیے پَر لگا ہمیں
——
مِرے سینے میں کچھ دن سے مقیم اک شخص ہے ایسا
جـــــــو خــــــــــود باہَر نہیں آتا ، مجھے اندر بلاتا ہے
——
ہم نے کچھ خواب ، کچھ اندیشے یہاں بوئے تھے
اور اب چـــاروں طرفــــــــ فصــل ہے حیرانی کی
——
رکھتا ہے ہمیشہ وہ مِری پیاس ادھوری
خــواہش کا کٹورا کبھی بھرنے نہیں دیتا
——
ہمیں اک دوسرے سے غم چھپانا آ گیا ہے
ہمـــارے درمیــــاں شــاید زمانہ آ گیا ہے
——
سینے کی خانقاہ میں آنے نہیں دیا
ہم نے اسے چراغ جلانے نہیں دیا
دزدان نیم شب نے بھی حیلے بہت کیے
لیکن کسی کو خواب چرانے نہیں دیا
اب کے شکست و ریخت کا کچھ اور ہے سبب
اب کے یہ زخم تیری جفا نے نہیں دیا
اس بار تو سوال بھی مشکل نہ تھا مگر
اس بار بھی جواب قضا نے نہیں دیا
کیا شخص تھا اڑاتا رہا عمر بھر مجھے
لیکن ہوا سے ہاتھ ملانے نہیں دیا
ممکن ہے وجہ ترک تعلق اسی میں ہو
وہ خط جو مجھ کو باد صبا نے نہیں دیا
اس حیرتی نظر کی سمٹتی گرفت نے
اٹھتا ہوا قدم بھی اٹھانے نہیں دیا
شام وداع تھی مگر اس رنگ باز نے
پاؤں پہ ہونٹ رکھ دیے جانے نہیں دیا
کچھ تو حسنؔ وہ داد و ستد کے کھرے نہ تھے
کچھ ہم نے بھی یہ قرض چکانے نہیں دیا
——
تجھ سے بچھڑ کے سمت سفر بھولنے لگے
پھر یوں ہوا ہم اپنا ہی گھر بھولنے لگے
قربت کے موسموں کی ادا یاد رہ گئی
گزری رفاقتوں کا اثر بھولنے لگے
ازبر ہیں یوں تو کوچۂ جاناں کے سب نشاں
لیکن ہم اس کی راہ گزر بھولنے لگے
پہنچے تھے ہم بھی شہر طلسمات میں مگر
وہ اسم جس سے کھلنا تھا در بھولنے لگے
ہم گوشہ گیر بھی تھے کسی مہر کی مثال
اوجھل ہوئے ادھر تو ادھر بھولنے لگے
——
وصال گھڑیوں میں ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں
یہ کیسی رت ہے یہ کن عذابوں کے سلسلے ہیں
مرے خدا اذن ہو کہ مہر سکوت توڑیں
مرے خدا اب ترے تماشائی تھک چکے ہیں
نہ جانے کتنی گلاب صبحیں خراج دے کر
رسن رسن گھور اماوسوں میں گھرے ہوئے ہیں
صدائیں دینے لگی تھیں ہجرت کی اپسرائیں
مگر مرے پاؤں دھرتی ماں نے پکڑ لیے ہیں
یقین کر لو کہ اب نہ پیچھے قدم ہٹے گا
یہ آخری حد ہے اور ہم اس تک آ گئے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : مجھے چاہیے مرے مصطفیٰ ترا پیار، پیار کے شہر کا
——
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے
جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے
اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے
ربِّ وصال، وصل کا موسم تو آچکا
اب تو مرا نصیب سنور جانا چاہیے
جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے
بیٹھے رہو گے دشت میں کب تک حسن رضا
پاؤں میں جاگ اٹھا ہے سفر جانا چاہیے
——
شعری انتخاب از فیس بک صفحہ : حسن عباس رضا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ