اردوئے معلیٰ

Search

آج دلی ، ہندوستان سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ عفت زریں کا یومِ پیدائش ہے ۔

عفت زریں(پیدائش: 10 اکتوبر 1958ء )
——
عفت زریں ہندوستان کے شہر دلی میں پیدا ہوئیں ۔ آپ کے والد مشیر جھنجھانوی دہلی کے بہت مقبول اور معروف شاعر تھے ۔
عفت زریں نے شعرا اور ادبا سے بھرے ہوئے گھر میں ہی پرورش پائی ۔ والد صاحب کی وجہ سے گھر میں کم و بیش ہر وقت تلامذہ و اساتذہ کا ہجوم رہتا تھا ۔
عفت زریں کی والدہ سماجی کارکن تھیں اس لیے عفت کی پرورش آزاد ماحول میں ہوئی جو کہ تخلیقی ذہن کے لیے بہت سازگار تھا ۔
نوعمری میں ہی عفت زریں نے شعر کہنا شروع کر دئیے تھے ۔ والدِ محترم سے اصلاح لی اور جلد ہی ادبی حلقوں میں معروف ہو گئیں ۔
——
ڈاکٹر عفّت زرّیں کی توانا شعری صلاحیتوں کا غمّاز – زرّیں نامہ از اسلم چشتی
——
ڈاکٹر عفت زریں درس و تدریس اور شعر و ادب کی دُنیا کا ایک مشہور نام ہے – تعلیمی اور ادبی حلقوں میں ان کے نام کی گونج ہے – تعلیم یافتہ اور مہذب عفّت بے پناہ توانا شعری صلاحیتوں کی مالک ہیں – علمی و ادبی ماحول کی پروردہ یہ خاتون ادب کی دُنیا میں خاموش خدمت کی قائل ہیں – نو عمری سے اب تک تواتر کے ساتھ شعر کہہ رہی ہیں – ان کی شاعری پڑھی اور سُنی جاتی رہی ہے – ایک مجموعئہ کلام ” بے ساحل دریا ” شایع ہو چُکا ہے – ” زرّیں نامہ” ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ہے اس سے پہلے کہ ان کی شاعری پر گُفتگو ہو اس مجموعے میں
——
یہ بھی پڑھیں : ہوں آج محوِ ثنائے رسولِ زریں تاج
——
” میری بات” کے تحت شامل مضمون سے ایک اقتباس مُلاحظہ فرمائیں –
” شاعری کیا ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب لوگ مُختلف انداز میں دیتے رہتے ہیں – میرے نزدیک شاعری خود اپنی تلاش ہے ٹوٹے ہوئے لمحوں اور لفظوں کو ایک ساتھ سمو کر موتیوں کو بال بال پرونا اور پھر ان آبگینوں کو سنبھال کر رکھنا اور ٹھیس لگنے سے بچنا ہی اصل شاعری ہے – میں نے خود کو زندہ رکھنے کے لئے شاعری کا سہارا لیا کیوں کہ –
——
کوشش کے باوجود بھی موتی نہ مل سکے
زرّیں تمام عمر سمندر میں کٹ گئی
——
عفّت کے مضمون کا یہ اقتباس ان کی اپنی ذات سے منسوب ہے – اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شاعری کو کسقدر سنجیدگی سے لیتی ہیں – ان کی یہ سنجیدگی انہیں خوب سے خوب تر شعر کہنے میں معاون ثابت ہوتی ہے – ان کا یہ جملہ کہ ” میں نے خود کو زندہ رکھنے کے لئے شاعری کا سہارا لیا ہے” معنی خیز ہے – بظاہر تو یہ ذاتی خیال ہے لیکن ان کی شاعری پڑھنے کے بعد اس خیال میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا یہ جملہ قاری یا سامع کے دل کی آواز بن جاتا ہے دلیل کے طور پر کچھ اشعار مُلاحظہ فرمائیں –
——
کس کے آگے پھیلتا زرّیں دستِ بے طلب
دل کا سونا ہے میری زنبیل میں پھیلا ہُوا
——
وہ اپنا ہوکے بھی ملتا ہے دشمنوں کی طرح
میری انا بھی شکستِ آنا سے دور رہی
——
جو تعلق ہے وہ خود اپنی جگہ کچھ بھی نہیں
ایسے رشتوں کو کبھی تم نے نبھایا ہوتا
——
الجھتی رہتی ہوں ہر پل ہی اس کی یادوں سے
وہ آدمی ہے کہ الجھی ہوئی پہیلی ہے
——
خوشبو کے برف زاروں میں کرتی رہی سفر
چندن کے جنگلوں میں مچلتی رہی ہے اوس
——
سلسلہ شب کا ٹوٹتا ہی نہیں
ختم کب ہوگا زندگی کا سفر
——
ان اشعار میں اشارے ہیں کنائے ہیں – آپ بیتی کی ایسی واردات بھی ہیں جو جگ بیتی کی سرحدیں بھی پھلانگ جاتی ہیں – اندرونی کرب کا موثر اظہار ہونے کے باوجود اُداسی یا مایوسی کی پرچھائیں تک نہیں – عفّت کی غزلیہ شاعری کا یہ وصف قابلِ توجہ ہے جو مُثبت سوچ کا نتیجہ ہے – یہ وصف ان کی ساری غزلیہ شاعری کا حُسن ہے کچھ اور حسین شعر پیش ہیں –
——
جس گھر کے ماحول میں اپنے پن کی کوئی بات نہ ہو
کس سے پوچھوں اس گھر کا ہے دل اتنا دیوانہ کیوں
——
یہ بھی پڑھیں : یاقوت لب کو آنکھ کو تارہ نہ کہہ سکیں
——
مُجھے پُکارنے والے بھی سو گئے شاید
وہ جاگتے تو ستاروں کے درمیاں ہوتے
——
عورت کبھی ماں ہے، کبھی بیٹی ہے بہن ہے
عورت سی بلندی پہ کوئی ذات کہاں ہے
——
چھوتے ہی جسے خوشبو مہکتی تھی فضا میں
ہاتھوں میں میرے اب وہ ترا ہاتھ کہاں ہے
——
ہم نفرتوں کے سائے میں چلتے رہے مگر
پھر بھی مُحبّتوں میں اُلجھتے دماغ تھے
——
ڈاکٹر عفت زریں کی غزلیہ شاعری کے کئی رُخ کئی پہلو کئی رنگ کئی آہنگ ” زرّیں نامہ ” کی زینت بنے ہیں – ان کی افادیت اور معنویت کے تعلق سے بہت کچھ لکھّا جا سکتا ہے لیکن راقم اسی پر اکتفا کرنا اس لیے مُناسب سمجھتا ہے کہ اس مجموعے میں غزلیہ شاعری کے علاوہ نظمیں بھی ہیں – یہ ساری نظمیں آزاد نظمیں ہیں – شاعرہ کی فکر کا انداز نظموں میں الگ ہے – یہ نظمیں 62 ہیں سب کے موضوعات الگ ہیں موضوع کے لحاظ سے اظہار کے طریقے بھی الگ ہیں اور لفظیات بھی الگ – ان نظموں میں عصری زندگی کے حقیقی مسائل ہیں – احساس کی شدّت اور جذبوں کا بیان ہے – رشتوں سے وابستگی ، نفاست، نفرت ، مُحبّت اور پاکیزگی کی گہری پرچھائیاں بھی ہیں – نظمیں زیادہ تر کئی مصرعوں کی طویل نظمیں ہیں جو یہاں نقل نہیں کی جا سکتیں – اس لیے مُختصر ترین تین نظمیں پیش ہیں –
——
روح
——
آرزو جسم نہیں روح نہیں
موت نہیں
پھر کیوں تدفین کی خواہش
رہے باقی دل میں
صرف احساس ہے چھونے دو
نہاں رہنے دو
غم کے اندر بھی مُحبّت کے نشاں رہنے دو
میرا احساسِ جنوں
کیوں اتنا پژمردہ ہے
——
آئینہ
——
بھیک مانگیں کس سے ہم
کون ہے درد آشنا
چہرے سب لگتے ہیں اپنے
ایک ہو جب آئینہ
——
جواب
——
ہاتھ پتّھر کے تھے
جسم تھے صندل جیسے
آنکھیں معصوم
زبان خُشک تھی پتّے کی طرح
ایک معمّہ ہے وہ پہیلی ہے
انجمن ہے مگر اکیلی ہے
کون کس کو کس لیے دے گا جواب
——
یہ بھی پڑھیں : محمد طفیل کا یومِ وفات
——
حصّئہ نظم کی پہلی نظم ہے ” امّی” مقدّس ترین رشتے ماں پر عفّت زرّیں کی یہ نظم اپنے طرز کی انوکھی، پیاری، عقیدت اور مُحبّت سے لبریز نظم ہے – یہ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے –
——
میری اچھّی امّی بولو
یہ تو بتاؤ کیسی ہو
دور میں تم سے اتنی ہوں کہ
کوئی صدا نہیں سُن سکتی
تم نے سہارا بخشا مجھکو
اور بانہوں میں جھولا جھولی
آپ کے پیار کی انگنائی میں
اپنے سارے دُکھ بھولی
[ص 155 کتاب ہذا]
——
یہ نظم مرحوم ماں کی یاد میں ہے ایک عمر دراز بیٹی اپنی ماں سے مُخاطب ہے – ماں کی خیریت پوچھتی ہے – اپنے بچپن کے سُکھی دنوں کو یاد کرتی ہے – ماں سے بیٹی کی اور بیٹی کی ماں سے فطری مُحبّت اس نظم کے چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں سمو دی گئی ہے – یہ نظم ویسے تو سبھی کو پسند آئے گی لیکن ان کو بے حد متاثر کرے گی جو اپنی ماں سے محروم ہوں ذاتی طور پر مُجھے یہ نظم بہت بہت پسند آئی –
” زرّیں نامہ ” کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری یقیناً قارئین کو پسند آئے گی کیوں کہ یہ شعری مجموعہ ڈاکٹر عفّت زرّیں کی توانا شعری صلاحیتوں کی غمّازی کرتا ہے شاعرہ کے اس شعر پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں
——
مُدّت سے اپنی سوچ کے تنہا سفر میں ہوں
منزل سے بے خبر ہوں مگر رہ گزر میں ہوں
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
ہیں ہجر میں بھی وصال سارے
تجھی سے روشن جمال سارے
میں ایک دھندلا سا عکس جس کو
تجھی نے بخشے جمال سارے
نمود تجھ سے وجود تجھ سے
تجھی سے حل ہوں محال سارے
یہ زخم ہیں روح کے تجھی سے
تجھی سے ہیں اندمال سارے
یہ خواب در خواب دید تیری
ترے ہی پیکر خیال سارے
وہ پھول ہوں ، یا ہوں ماہ و انجم
ہیں آئینے لازوال سارے
ہیں رات دن تیری جستجو میں
تجھی سے حروف خیال سارے
نگاہیں تجھ سے ہی پوچھتی ہیں
جواب سارے ، سوال سارے
ہے اشک در اشک اب تو زریںؔ
یہ دل کے موتی مثال سارے
——
پرانے وقتوں کے پتھر خرید لاتے ہیں
ہم اپنے دور کے زیور خرید لاتے ہیں
——
سیلاب نے زمیں کو تو ہموار کر دیا
ندی ، اگرچہ ریت کے تودوں میں بٹ گئی
——
دور تک ساحل پہ دل کے آبلوں کا عکس تھا
کشتیاں شعلوں کی ، دریا موم کے بہتے رہے
——
حسیں یادوں کے ، چپکے سے ذہن و دل پہ مرے
یہ کس نے ڈال دئیے ہیں نقاب موسم کے
——
ذہن و دل کے فاصلے تھے ہم جنہیں سہتے رہے
ایک ہی گھر میں بہت سے اجنبی رہتے رہے
——
بارش کے موتیوں نے تو دامن کو بھر دیا
آنگن کی زرد دھوپ نے کُمھلا دیا مجھے
——
روشنی جسم کی دیوار سے آگے نہ گئی
تشنگی تھی لبِ اظہار سے آگے نہ گئی
——
یہ زندگی کا سفر ہے ، سفر صلیبوں کا
ہم اس کو پھر بھی مثالوں کی زد میں رکھتے ہیں
——
خواب آنکھوں میں بسے رہتے ہیں پھولوں کی طرح
رات چپکے سے مرے دل میں اتر جاتی ہے
——
یہ تلخیوں کا لب و لہجہ میری قسمت ہے
کہ زخم زخم رہی ہے میری زباں اکثر
——
جسم و جاں کی بستی میں سلسلے نہیں ملتے
اب کسی بھی مرکز سے دائرے نہیں ملتے
دو قدم بچھڑنے سے قافلے نہیں ملتے
منزلیں تو ملتی ہیں راستے نہیں ملتے
بارہا تراشا ہے ہم نے آپ کا چہرہ
آپ کو نہ جانے کیوں آئنہ نہیں ملتے
وقت کی کمی کہہ کر جہل کو چھپاتے ہیں
آج کل کتابوں میں حاشیے نہیں ملتے
آج بھی زمانے میں آدمی کرشمہ ہیں
شعبدے تو ملتے ہیں معجزے نہیں ملتے
زندگی کا ہر لمحہ آرزو کا دشمن ہے
حادثوں کی خواہش میں حادثے نہیں ملتے
آج قتل کرنا بھی بن گیا ہے فن زریںؔ
قتل کرنے والوں کے کچھ پتے نہیں ملتے
——
بے سمت راستوں پہ صدا لے گئی مجھے
آہٹ مگر جنوں کی بچا لے گئی مجھے
پتھر کے جسم موم کے چہرے دھواں دھواں
کس شہر میں اڑا کے ہوا لے گئی مجھے
ماتھے پہ اس کے دیکھ کے لالی سندور کی
زخموں کی انجمن میں حنا لے گئی مجھے
خوشبو پگھلتے لمحوں کی سانسوں میں کھو گئی
خوشبو کی وادیوں میں صبا لے گئی مجھے
جو لوگ بھیک دیتے ہیں چہرے کو دیکھ کر
زریںؔ انہیں کے در پہ انا لے گئی مجھے
——
اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا
تو درمیاں نہ مقدر کا فیصلہ رکھتا
وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ
وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا
بھٹک رہے ہیں مسافر تو راستے گم ہیں
اندھیری رات میں دیپک کوئی جلا رکھتا
مہک مہک کے بکھرتی ہیں اس کے آنگن میں
وہ اپنے گھر کا دریچہ اگر کھلا رکھتا
اگر وہ چاند کی بستی کا رہنے والا تھا
تو اپنے ساتھ ستاروں کا قافلہ رکھتا
جسے خبر نہیں خود اپنی ذات کی زریںؔ
وہ دوسروں کا بھلا کس طرح پتا رکھتا
——
شعری انتخاب از بے ساحل دریا 1998 ء ، زریں نامہ 2014 ء
مصنفہ : ڈاکٹر عفت زریں ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ