اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف کلاسیکل شاعر انشاء اللہ خان انشاء کا یوم وفات ہے

انشاء اللہ خان انشاء(پیدائش: دسمبر 1752ء— وفات: 19 مئی 1817ء)
——
سید انشاء اللہ خان انشاء میر ماشااللہ خان کے بیٹے تھے۔ جو ایک ماہر طبیب تھے۔ ان کے بزرگ نجف اشرف کے رہنے والے تھے۔ انشاء کے دادا سید نوراللہ خاں نجف میں طبابت کرتے تھے کہ بادشاہ دہلی فرخ سیئر نے انھیں اپنے علاج کے لیے ہندوستان کا بُلاوا بھیجا۔ وہ اپنے فرزند میر ماشاء اللہ خاں کے ہم راہ ہندوستان آئے اور بادشاہ کا علاج کیا۔ صحت یابی کے بعد بادشاہ نے انھیں خوب نوازا۔ چناں چہ وہ یہیں کے ہو رہے۔ ان کے فرزند میر ماشاء اللہ خاں جوانی میں مرشد آباد چلے گئے تھے وہیں انھوں نے دو شادیاں کیں، انشاء اللہ خاں ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے۔ مغلیہ عہد میں ہندوستان تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی رکاب میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کو زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر مرشد آباد چلے گئے۔ جہاں 1752ء میں انشاء پیدا ہوئے۔
انشاء اللہ خان انشاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل،ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انشاء پہلے ہندوستانی ہیں جنھوں نے دریائے لطافت کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پرروشنی ڈالی۔
انشاء نے 19 مئی 1817ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔
انشاء اللہ خان انشاء نے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس بھی ہوتا ہے۔ انشاء کی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ بانکا ہے۔ جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی جس حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نے انہیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔ اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز دگر ہے اسے محض انشائیت ہی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔
——
انشاء اللہ خاں انشاء کی قصیدہ گوئی از سید ثاقب فریدی
——
اردو قصیدے کی تاریخ میں مرزا رفیع سودا اور ان کے بعد شیخ ابراہیم ذوق کا نام بہت اہم ہے ۔مطبع منشی نول کشورسے شائع شداکلیات سودا میں سودا کے قصیدوں کی تعداد ۴۴ ہے جبکہ قائم چاندپوری نے سودا کے قصیدوں کی تعداد ۵۴ بتائی ہے۔ذوق نے تیس قصیدے کہے ہیں۔سودااور ذوق کے قصیدوں کے مقابلے میں انشاء نے اگر چہ کم قصائد کہے ہیں لیکن اردو قصیدہ کی تاریخ میں انشاء کے قصیدے بہت اہم ہیں۔ قادرالکلامی،پر شکوہ لب و لہجہ اور بلند آہنگی ان کے قصیدوں کا اہم وصف ہے۔انشاء کے قصیدوں کی سنگلاخ زمینیں اور مشکل قافیے ان کا امتیازی حسن ہیں۔عربی الفاظ اورترکیبیں تفہیم کی سطح پر مشکلیں توپیدا کرتی ہیں لیکن ان کا بر محل اور فنکارانہ استعمال قاری کو متاثر بھی کرتاہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ابن انشا کا یوم وفات
——
محمد عسکری لکھنؤنے انشاء اللہ خان انشاء کے اردو کلام کو مرتب کیا تھا۔ان کے مرتبہ’’کلام انشاء‘‘میں انشاء کے قصیدوں کی تعداد دس ہے۔ انشاء نے ایک حمدیہ قصیدہ ،تین قصائد حضرت علی کی منقبت میں اور چھ درباری قصیدے لکھے ہیں۔انشاء کے مذہبی قصیدے درباری قصیدوں کے بالمقابل مشکل معلوم ہوتے ہیں ۔انشاء کے سرکار ودربار سے وابستہ قصیدوں میں تشبیب اور ممدوح کی مدح بہت آسان پیرائے میں ہے۔اس سادہ بیانی کا مقصد یہ بھی ہو سکتاہے کہ ممدوح تک متکلم کے خیالات کی بآسانی ترسیل ہو سکے۔پھر درباری قصیدوں میں مذہبی قصیدوں کے بالمقابل عربی الفاظ کی کثرت نظر نہیں آتی۔انشاء کے قصیدوں کے متعلق یہ بات عام ہے کہ انہوں نے مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں قصیدے کہے ہیں۔بطور مثال انشاء کا یہ قصیدہ بھی پیش کیا جاتاہے جس کا مطلع ہے ۔
——
سحرِ بہار کی خوشبو میں آ گئی یہ لپٹ
کہ صاف چاند سے مکھڑوں کے کھل گئے گھونگھٹ
——
انشاء اللہ خان انشاء کے اس قصیدے کے قافیے بہت دلچسپ ہیں۔اس قصیدے میں لپٹ، چمٹ پلٹ، کروٹ، اچٹ، جمگھٹ، گھبراہٹ، پنگھٹ، چوپٹ، تلچھٹ اور چوکھٹ جیسے خوبصورت قافیے آئے ہیں۔ چٹ ،پٹ ،گھٹ، اور نپٹ جیسی آوازیں طبیعت میں نشاط پیدا کرتی ہیں اور قاری قافیوں کے صوتیاتی حسن میں گم ہو جاتا ہے۔اس طرح کے قافیے تلاش کرنا اور اس زمین میں قصیدہ کہنا انشاء کے لئے آزمائش سے پر ہوگا۔لیکن تفہیم کی سطح پرانشاء کا یہ قصیدہ مشکل نہیں ہے۔انشاء کے اس قصیدے کے مقابلہ میں انشاء کاحمدیہ قصیدہ زیادہ سخت ہے۔اس کے قافیوں میں عربی الفاظ کا استعمال زیادہ کیا گیاہے۔ حضرت علی کی منقبت میں کہے گئے قصیدے بھی مشکل زمین میں ہیں۔حضرت علی کی منقبت میں کہے گئے ایک قصیدے کا مطلع یہ ہے۔
——
گرچہ افلاک نے سب پھونک دیے اطباقِ آتش
منہ تو دیکھو کہ کرے آ مجھے احراقِ آتش
——
اس قصیدے میں انشاء نے بہت مشکل قافیے باندھے ہیں ۔اس میں قافیے اضافتوں کے ساتھ آئے ہیں۔چقماق آتش،اطلاق آتش،حراق آتش،قبچاق آتش،الصاق آتش،شلاق آتش،مطراق آتش،شلتاق آتش،اشواق آتش،احداق آتش،قیماق آتش،میثاق آتش اورغاق آتش جیسے قافیے دیکھ کرکلیجہ منھ کو آتاہے اورقرأت کے دوران زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ان قافیوں میں لفظ آتش کے ساتھ اضافت میں استعمال کئے گئے بیشتر الفاظ عربی زبان کے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ انشاء نے اس قصیدے میں صرف اسی طرح کے مشکل قافیے باندھے ہیں بلکہ قافیوں کی اس فہرست میں بعض آسان قافیے بھی ہیں۔انشاء کا یہ طویل قصیدہ ہے جس میں باون اشعار ہیں۔
انشاء نے حضرت علی کی منقبت میں ایک غیر منقوطہ قصیدہ بھی کہا ہے۔انشاء کے اس قصیدے کو سب سے مشکل قصیدہ کہا جائے گا۔اس قصیدے کا مطلع یہ ہے۔
——
ہلاؤ مروحۂ آہِ سرد کو ہر گام
کہ دل کو آگ لگاکر ہوا ہوا آرام
——
انشاء اللہ خان انشاء نے اس مطلع میں پنکھا کی جگہ مروحہ کا لفظ استعمال کیاہے۔مروحہ عربی زبان میں پنکھے کو کہتے ہیں۔پھر پنکھا جھلنے کی جگہ ہلاؤ کا فعل نقطہ سے احتراز کے لئے آیاہے۔انشاء نے پورے قصیدے میں منقوطہ الفاظ سے بچنے کے لئے عربی زبان کا سہارا لیاہے۔وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں فارسی کے بالمقابل غیر منقوطہ الفاظ کا ذخیرہ زیادہ ہے۔ انشاء نے اس قصیدے میں اوہام، الہام،کلام ، سہام ،کرام اعلام ،احکام اورعلام جیسے عربی قافیے استعمال کئے ہیں ۔قصیدے کے بیشتر الفاظ اس قدر سخت ہیں کہ لغات دیکھے بغیر معنی کی تفہیم مشکل سے ہوتی ہے۔انشاء کا پہلا قصیدہ ذات باری کی حمد ہے۔اس قصیدے کا مطلع ہے۔
——
اے خداوندِ مہ و مہر وثریا و شفق
لمعۂ نور سے ہے تیرے جہاں کو رونق
——
اس قصیدے کے ہر قافیے کا آخری حرف ’’قاف ‘‘ہے۔ سودا کے لامیہ قصیدے کو مشکل خیال کیا جاتاہے۔انشاء کاقافیہ قصیدہ لامیہ قصیدے سے بھی زیادہ مشکل معلوم ہوتاہے۔اس قصیدے میں بھی انشاء نے بعض نہایت مشکل قافیے باندھے ہیں ۔ علق،مرفق، اشفق ،ارفق،زورق ،زیبق ،الیق ،افسق ،شبق، اوفق جیسے قافیے تفہیم کی سطح پر مشکل پیداکرتے ہیں۔ اشفق ،ارفق الیق ،افسق اور اوفق اسم تفضیل کے صیغے ہیں۔انشاء نے اس قصیدے میں کہیں کہیں ایک ہی شعرمیں کئی عربی الفاظ استعمال کئے ہیں۔
——
واسطے فائدے کہ سب یہ بنائے اعضا
عاتق و کتف و ید ساعد و رسغ و مرفق
——
یہ بھی پڑھیں : قصیدۂ بردہ شریف کا قصیدہ
——
اس شعر میں عاتق ،کتف،ید،ساعد ،رسغ اور مرفق عربی زبان کے الفاظ ہیں۔عاتق کے معنی کندھا،کتف کے معنی شانہ،ید کے معنی ہاتھ،ساعدکے معنی کہنی اور کلائی کے درمیان کاحصہ،رسغ کے معنی پاؤں کا گٹا،مرفق کے معنی کہنی کے ہیں۔عربی زبان میں اگرچہ یہ الفاظ روز مرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اردو میں لفظِ ساعد کے علاوہ کوئی اور لفظ نہیں ہے۔اردو شاعری میں معشوق کے ہاتھوں کے لئے ساعد سیمیں کی ترکیب بہت استعمال کی گئی ہے۔مثلاً میر کا مشہور شعر ہے۔
——
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑ دیے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
——
لفظ ِساعد کے علاوہ عربی نہ جاننے والوں کے لئے عاتق ،کتف،ید،رسغ اور مرفق کی تفہیم مشکل ہے۔انشاء نے اس روش کے علاوہ اپنے قصیدوں میں عربی محاوروں کا بھی استعمال کیاہے۔
——
داورا سچ کہ سزاوار پرستش تو ہے
بے شک و شبہ سمعنا واطعنا الحق
——
اس شعر میں سمعنا و اطعنا عربی زبان کا محاورہ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے۔الحق کا لفظ قسم کے لئے ہے۔البتہ ذات باری کے لئے سزوار پرستش کی ترکیب غیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔فارسی الفاظ کے بالمقابل عربی زبان کے الفاظ اور تراکیب کااستعمال ان کی طبیعت کا حصہ ہے۔بعض موقعوں پر وہ عربی کے بھی مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
——
تو نم فیض نہ چھڑکے تو میاہ الابحار
اڑ چلیں ابخرۂ ارض سے مثل زیبق
——
اس شعر میں میاہ ماء’’کی جمع ہے۔ماء کے معنی پانی کے ہیں۔اسی طرح ابحار بحر کی جمع ہے اور بحر بمعنی سمندر ہے۔شعر کے دوسرے مصرع میں ابخرۂ ارض کی ترکیب بھی عربی زبان کی ہے۔ارض کے معنی تو زمین ہے پھر ارض کا لفظ اردو زبان میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔ابخر ۃکو دیکھ کر اولاً تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ بخرہ کی جمع ہوگی۔ اردو میں ابخرۂ ارض کی جگہ کرۂ ارض استعمال کرتے ہیں۔بخرہ فارسی کا لفظ ہے ۔بخرہ کے معنی ٹکڑے اور حصے کے ہیں لیکن اس کی جمع بخرے اور جمع غیر ندائی بخروں آتی ہے۔یعنی بخرہ کی جمع ابخرۃ نہیں آتی ۔انشاء نے ارض کے ساتھ جس ابخرۃ کی ترکیب بنائی کی ہے وہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے تمام حروف متحرک ہیں اور اس کا تلفظ۔’الف‘ اور’ ب‘ پہ زبر،’ خ‘ پر زیر اور ’ ر‘ پر زبر کے ساتھ اَبَخِرَۃ ہے ۔اَبخرۃ بخار کی جمع ہے۔بخار بمعنی بھاپ یا اسٹیم کے ہیں۔اس طرح شعر کے پہلے مصرعے میں موجود نم ،چھڑکے، میاہ اور ابحارجیسے الفاظ کی رعایت سے ابخرۃ کا لفظ بہت بامعنی ہو جاتا ہے اور ابخرۃ کے لفظ کا استعمال انشاء کے تخیل کی بلند پروازی قرار پاتی ہے ۔یہ لفظ غیر مانوس ضرور ہے لیکن شعر کے دوسرے الفاظ سے اس کی گہری مناسبت ہے۔
اس قصیدے کے مطلع میں انشاء نے ذات باری کے نور کا ذکر کیا ہے اور اس کے نور کی رعایت سے ماہ ،مہر ثریا اور شفق کی رعایت قائم کی ہے۔ آسمان کے درخشاں ستاروں میں خدا کے نور کی جلوہ گری دیکھنے کا مضمون کلاسیکی روایت کا اہم حصہ ہے۔اس مضمون کو دیکھتے ہی سب سے پہلے میر کا مشہور شعر یاد آتاہے۔
——
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
——
یعنی خورشیدجو کہ بظاہر انسان کو سب سے زیادہ روشن نظر آتاہے اس کی روشنی بھی خدا باری تعالی کے نور سے مستعارہے۔میر کے اس شعر میں ’’بھی ‘‘کا لفظ اس طرف اشارہ ہے کہ خورشید کے علاوہ دیگر ستاروں میں بھی جو چمک ہے وہ ذات باری کے نور سے مستعارہے۔انشاء نے اول مصرع میں ماہ ومہر اور ثریا و شفق میں خدا کے نور کا ذکر کیاہے۔پھر دوسرے مصرعے میں تمام جہاں کی چمک کو ذات باری کے نور کا پرتو قرار دیاہے۔شاد عظیم آبادی نے کہا تھا۔
——
وہ عالم گیر جلوہ اور وہ حسن مشترک تیرا
خداجانے ان آنکھوں کو ہوا کس کس پہ شک تیرا
——
شاد عظیم آبادی کے یہاں اس نوع کے مضامین بہت ہیں ۔انہوں نے بھی مختلف موقعوں پر کائنات کے ذروں میں ذات خدا کی جلوہ گری کا ذکر کیاہے۔شاد کے شعر میں کہیں ماہ ومہر اور ثریا وشفق کے الفاظ نہیں ہیں لیکن شاد کی تشکیک ان جیسے تمام الفاظ کو اپنے احاطے میں لے لیتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سراج اورنگ آبادی کا یومِ پیدائش
——
انشاء اللہ خان انشاء کے حمدیہ قصیدے میں مطلع کے بعدہی خدا باری تعالی کی مدح شروع ہو جاتی ہے۔انشاء نے اس قصیدے کی تشبیب میں تخلیق انسانی کا ذکر کیاہے۔انسان کی تخلیق بھی خدا کی تعریف ہے ۔لہذا اس تشبیب میں بھی ذات باری کی مدح موجود ہے۔
——
روح کو حکمِ تعلق بہ جسد فرمایا
تاکہ اشکال و ہیولا و صور ہوں مشتق
خلق انساں کو کیا نامیہ اس کو بخشی
ہیئتِ جسم کو کر کے متشکل زعلق
سمع و ذوق و بصر ولمس و وہم و خیال
بن کہے تو نے دیے ہم کو کریمِ مطلق
——
تشبیب کے ان اشعار کی قرأت کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ انشاء کے قصیدوں کی مشکل پسندی کا انحصار عربی الفاظ پر ہے۔ اگر ان الفاظ کے معنی کا علم ہو توانشاء کے قصائد کی تفہیم آسان ہو جائے گی۔ خیال کی سطح پر ان میں ابہام اور پیچیدگی نظر نہیں آتی ۔انشاء قصیدوں میں عموما ً کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو بہت مغلق یا نا قابل تفہیم ہو،یا جس کو سمجھنے کے لئے دماغ کو مشقت میں ڈالنا پڑے۔اوپر پیش کی گئی تشبیب میں بیشتر باتیں بالکل سامنے کی ہیں۔ان میں تخیل کی بلندپروازی اور دور از کار خیالات کی جولانی نظر نہیں آتی ۔اسی طرح مدح کے اشعار میں بھی پیچیدہ مضامین بہ مشکل نظر آتے ہیں ۔انشاء عموماً وہی مضامین استعمال کرتے ہیں جن سے ہم واقف ہیں۔
——
روزو شب حضرتِ خلاق ترے حکم میں ہیں
عرش و لوح وقلم و شش جہت وہفت طبق
بھلہ رے قلعۂ اقطارِ سموات علا
قاف پشتہ نہ ہو جس کا نہ سمندر خندق
حمد کے بعد یہ شکریہ ادا کرتا ہوں
شکر صد شکر ہے اے حمد وثنا کے الیق
——
مدح کے ان اشعارمیں تفہیم کی سطح پر مشکل محسوس نہیں ہوتی ۔پہلے شعر میں خدا کو حضرت خلاق سے مخاطب کیا گیاہے۔اس شعر میں روز وشب ،عرش و لوح وقلم، شش جہت اور ہفت طبق پر خداکی حکمرانی کا ذکر ہے۔اس حکمرانی سے خدا کی تمام کائنات پر برتری نمایاں ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ روز و شب ،عرش وفلک ،لوح و قلم اور ہفت طبق کائنات کی پر قوت اور عظیم طاقت ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مولا یا صل ِ وسلم ۔ قصیدہء بردہ شریف ۔ اب اردو زبان میں
——
ان پر خدا کی حکمرانی خدا کی عظمت کا اظہار ہے۔دوسرے شعر میں آسمان کی وسعت کا ذکر آیا ہے۔اقطار سموات کی ترکیب قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔اقطار قطر کی جمع ہے ،اس کے معنی ملک اور صوبہ کے ہیں۔قرآن کریم میں بھی آسمان کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہی اقطارالسمواۃ کی ترکیب آئی ہے۔انشاء نے اپنے قصیدوں میں کئی موقعوں پر قرآن کریم کے واقعات اور تراکیب سے استفادہ کیاہے۔ انشاء اللہ خان انشاء کا مصرع ’’ہیئت جسم کو کر کے متشکل زعلق‘‘ خلق الانسان من علق کی تفسیر ہے۔آخری شعر میں الیق کا لفظ ،لفظ لائق کے اصل مادے لیّق کی اسم تفضیل ہے۔
——
منتخب کلام
——
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
——
جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
——
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد خود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر
——
کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی رات کے وقت
——
ہر طرف ہیں ترے دیدار کے بھوکے لاکھوں
پیٹ بھر کر کوئی ایسا بھی طرحدار نہ ہو
——
پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی
لا ہاتھ ادھر دے کہ بہت دور کی سوجھی
——
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
خیال ان کا پرے ہے عرش اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں
بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں
کہیں بوسے کی مت جرأت دلا کر بیٹھیو ان سے
ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں ہشیار بیٹھے ہیں
جیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں
نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
——
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
کہ ابھی عرش کو چاہیں تو ہلا سکتے ہیں
مجھ سے اغیار کوئی آنکھ ملا سکتے ہیں
منہ تو دیکھو وہ مرے سامنے آ سکتے ہیں
یاں وہ آتش نفساں ہیں کہ بھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
سوچئے تو سہی ہٹ دھرمی نہ کیجے صاحب
چٹکیوں میں مجھے کب آپ اڑا سکتے ہیں
حضرت دل تو بگاڑ آئے ہیں اس سے لیکن
اب بھی ہم چاہیں تو پھر بات بنا سکتے ہیں
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
تو گروہ فقرا کو نہ سمجھ بے جبروت
ذات مولیٰ میں یہی لوگ سما سکتے ہیں
دم ذرا سادھ کے لیتے ہیں پھریری تو ابھی
سون کھینچی ہوئی لاہوت کو جا سکتے ہیں
گرچہ ہیں مونس و غم خوار تگ و دو میں سہی
پر تری طبع کو کب راہ پہ لا سکتے ہیں
چارہ ساز اپنے تو مصروف بدل ہیں لیکن
کوئی تقدیر کے لکھے کو مٹا سکتے ہیں
ہے محبت جو ترے دل میں وہ اک طور پہ ہے
ہم گھٹا سکتے ہیں اس کو نہ بڑھا سکتے ہیں
کر کے جھوٹا نہ دیا جام اگر تو نے تو چل
مارے غیرت کے ہم افیون تو کھا سکتے ہیں
ہم نشیں تو جو یہ کہتا ہے کہ قدغن ہے بہت
اب وہ آواز بھی کب تجھ کو سنا سکتے ہیں
اے نہ آواز سناویں مجھے در تک آ کر
اپنے پاؤں کے کڑوں کو تو بجا سکتے ہیں
ہم تو ہنستے نہیں پر آپ کے ہنسنے کے لیے
اور اگر سانگ نہیں کوئی بنا سکتے ہیں
کالی کاغذ کی ابھی ایک کتر کر بیچا
زاہد بزم کے منہ پر تو لگا سکتے ہیں
گھر سے باہر تمہیں آنا ہے اگر منع تو آپ
اپنے کوٹھے پہ کبوتر تو اڑا سکتے ہیں
جھولتے ہیں یہ جو جھولی میں سو کہتے ہیں مجھے
ایک وعدہ پہ تجھے برسوں جھلا سکتے ہیں
ایک ڈھب کے جو قوافی ہیں ہم ان میں انشاؔ
اک غزل اور بھی چاہیں تو سنا سکتے ہیں
——
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام الٹا
سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے ان نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام الٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام الٹا
بڑھوں اس گلی سے کیوں کر کہ وہاں تو میرے دل کو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام الٹا
در مے کدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا واں دل تشنہ کام الٹا
نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام الٹا
لگے کہنے آب مائع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا
مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام الٹا
نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولد الحرام الٹا
تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام الٹا
فقط اس لفافہ پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشاؔ یہ ترا ہی نام الٹا
——
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
میں تو سخن میں عشق کے بولوں نہ ہاں نہ ہوں
خلوت میں تیری بار نہ جلوت میں مجھ کو ہائے
باتیں جو دل میں بھر رہی ہیں سو کہاں کہوں
گاہے جو اس کی یاد سے غافل ہو ایک دم
مجھ کو دہن میں اپنے لگی ہے زباں زبوں
شط عمیق عشق کو یہ چاہتا ہوں میں
ابر مژہ سے رو کے اسے بے کراں کروں
طوفان نوح آنکھ نہ ہم سے ملا سکے
آتی نظر ہیں چشم سے ہر پل عیاں عیوں
ناصح خیال خام سے کیا اس سے فائدہ
کب میرے دل سے ہو ہوس دلبراں بروں
یہ اختلاط کیجئے موقوف ناصحا
معقول یعنی دل اسے اے قدرداں نہ دوں
انشاؔ کروں جو پیرویٔ شیخ و برہمن
میں بھی انہوں کی طرح سے جوں گمرہاں رہوں
خلوت سرائے دل میں ہے ہو کر کے معتکف
بیٹھا ہوں کیا غرض کہیں اے جاہلاں ہلوں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ