اردوئے معلیٰ

آج عظیم مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر کا یوم پیدائش ہے

مرزا سلامت علی دبیر(پیدائش: 29 اگست 1803ء – وفات: 6 مارچ 1875ء)
——
اردو مرثیہ گو تھے۔ مرزا غلام حسین کے بیٹے تھے۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں والد کے ہمراہ لکھنو منتقل ہوگئے ۔ سولہ برس کی عمر میں علوم عربی و فارسی میں دستگاہ بہم پہنچائی۔ بچپن سے مرثیہ گوئی کا شوق تھا۔ مشہور مرثیہ گو مظفر حسین ضمیر کے شاگرد ہوئے۔ جب میر انیس فیض آباد سے لکھنؤ آئے تو دونوں میں دوستی ہوگئی۔ 1857ء تک لکھنؤ سے باہر نہ نکلے۔ البتہ 1858ء میں مرشد آباد اور 1859ء میں پٹنہ عظیم آباد گئے۔ 1874ء میں ضعف بصارت کی شکایت ہوئی۔نواب واجد علی شاہ کی خواہش پر بغرض علاقے کلکتہ تک گئے اور مٹیا برج میں مہمان ہوئے۔ بمقام لکھنؤ 1875ء میں وفات پائی اور اپنے مکان میں دفن ہوئے۔ بہ کثرت مرثیے لکھے جو کئی جلدوں میں چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔
ایک پورا مرثیہ بے نقط لکھا ہے۔
——
مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔
مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑہنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔انہوں نے دہلی سے لکھنّو کی طرف ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔
مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مرزا دبیر کے والد صاحب کے نام کے حوالے سے دو نام ملتے ہیں۔ ایک ’’غلام حسین‘‘ دوسرا ’’مرزا ٓغاجان کاغذ فروش‘‘۔ مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں وہیں پر دفن کیا گیا۔
——
ادبی خدمات
——
انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا جس کا پہلا شعر تھا:
’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘
اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : فراق گورکھپوری کا یوم پیدائش
——
آپ کے چند مشہور مرثیے:
1۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
2۔ دست ِخدا کا قوتِ بازو حسینؑ ہیں۔
3۔ جب چلے یثرب سے ثبت مصطفٰے سوئے عراق۔
4۔ بلقیس پاسبان ہے، یہ کس کی جناب ہے۔
5۔ پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔
اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔
——
مرزا دبیر اور میر انیس کا تقابل
——
اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے کام پر جو کتابیں لکھیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ موازنہِ انیس و دبیر (مولانا شبلی نعمانی)
2۔ انیس و دبیر (ڈاکٹر گوپی چند نارنگ)
3۔ مجتہد نظم مرزا دبیر (ڈاکٹر سیّد تقی عابدی)
4۔ مرزا سلامت علی دبیر (ایلڈر ۔اے۔مینیو)(انگریزی میں)
——
اردو ادب کے شعراء کو سلام
——
انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبو اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔
اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے انکشاف کیا کہ اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔ انہوں نے بتایا نذیر اکبر آبادی نے 8500 الفاظ استعمال کیے مرزا دبیر نے 120,000 جبکہ میر انیس نے 86000 الفاظ استعمال کیے۔
——
نذرانہ عقیدت
——
3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبے انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔
——
وفات
——
مولانا محمد حسین آذاد کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ کے مطابق مرزا دبیر کا انتقال 29 محرم 1292 ہجری بطابق (1875-76ء) میں ہوا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی۔
——
ورثہ دبیر
——
مرزا دبیر اور میر انیس نے اردو ادب پر، خاص طور پر مرثیہ نگاری کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے مرثیہ نگاری میں بہترین اسلوب اور اصنا ف متعارف کرائیںاور الفاظ کا بہترین چناؤ اور استعمال کیا۔
مرزا دبیر اور میر انیس نے مرثیہ نگاری کو جو پہچان دی وہ صرف انہیں سے منصوب رہے گی۔ ان کی مرثیہ نگاری نے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے پر بہت ذیادہ مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا نے ہمیشہ سر فہرست لکھا جائے گا۔
——
منتخب کلام
——
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے
پھر تازہ مری مرثیہ خوانی ہو جائے
فضل باری سے ہوں یہ آنسو جاری
ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
——
اس بزم کو جنت سے جو خوش پاتے ہیں
رضواں لیے گلدستہ نور آتے ہیں
کیا صحن ہے گلشن عزائے شبیر
پانی یہاں خضر آ کے چھڑک جاتے ہیں
——
ادنیٰ سے جو سر جھکائے اعلیٰ وہ ہے
جو خلق سے بہرہ ور ہے دریا وہ ہے
کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ
سمجھے جو برا آپ کو اچھا وہ ہے
——
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
——
ہیبت سے ہیں نہ قلعۂ افلاک کے دربند
جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظر بند
وا ہے کمر چرخ سے جوزا کا کمر بند
سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پر بند
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے
——
خود فتنۂ و شر پڑھ رہے ہیں فاتحۂ خیر
کہتے ہیں انالعبد لرز کر صنم دیر
جاں غیر ہے تن غیر مکیں غیر مکاں غیر
نے چرخ کا ہے دور نہ سیاروں کی ہے سیر
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے
جز بخت یزید اب کوئی گردش میں نہیں ہے
——
بے ہوش ہے بجلی پہ سمند ان کا ہے ہشیار
خوابیدہ ہیں سب طالع عباس ہے بیدار
پوشیدہ ہے خورشید علم ان کا نمودار
بے نور ہے منہ چاند کا رخ ان کا ضیا بار
سب جزو ہیں کل رتبہ میں کہلاتے ہیں عباس
کونین پیادہ ہیں سوار آتے ہیں عباسؑ
——
چمکا کے مہ و خور زر و نقرہ کے عصا کو
سرکاتے ہیں پیر فلک پشت دوتا کو
عدل آگے بڑھا حکم یہ دیتا ہے قضا کو
ہاں باندھ لے ظلم و ستم و جور و جفا کو
گھر لوٹ لے بغض و حسد و کذب و ریا کا
سر کاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا
——
راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے
ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے
تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے
دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر
فتنے نے کیا خواب گلے کفر سے مل کر
——
النشر کا ہنگامہ ہے اس وقت حشر میں
الصورکا آوازہ ہے اب جن و بشر میں
الہجر کا ہے تذکرہ باہم تن و سر میں
الوصل کا غل ہے سقر و اہل سقر میں
الحشر جو مردے نہ پکاریں تو غضب ہے
الموت زبان ملک الموت پہ اب ہے
——
روکش ہے اس اک تن کا نہ بہمن نہ تہمتن
سہراب و نریمان و پشن بے سرو بے تن
قاروں کی طرح تحت زمیں غرق ہے قارن
ہر عاشق دنیا کو ہے دنیا چہہ بے زن
سب بھول گئے اپنا حسب اور نسب آج
آتا ہے جگر گوشۂ قتال عرب آج
——
ہر خود نہاں ہوتا ہے خود کاسۂ سر میں
مانند رگ و ریشہ زرہ چھپتی ہے بر میں
بے رنگ ہے رنگ اسلحے کا فوج عمر میں
جوہر ہے نہ تیغوں میں نہ روغن ہے سپر میں
رنگ اڑ کے بھرا ہے جو رخ فوج لعیں کا
چہرہ نظر آتا ہے فلک کا نہ زمیں کا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ