اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز ادیب اور شاعر شہاب دہلوی کا یوم وفات ہے ۔

شہاب دہلوی
(پیدائش: 20 اکتوبر 1922ء – وفات: 29 اگست 1990ء)
——
شہاب دہلوی ایک نابغہ روزگار مورخ اور با کمال ادیب تھے جو 20 اکتوبر، 1922ء کو دہلی، میں پیدا ہوئے۔
ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا اور آپ دلی کے معزز علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے.آپ کے والد سیّد منظور حسن رضوی شاعری، ادیب اور سلسلہ چشتیہ کی معروف روحانی شخصیت تھے جن کی مشہور تصنیف “حیات اویس” ہے۔ آپ کے تایا سید محمود الحسن اثر کا شمار دلی کے ممتاز شعراء‌اور ادباء میں‌ہوتا تھا.آپ کے دادا سید میر حسن رضوی عظیم شاعر، ادیب اور صحافی تھے.ان کے دو اخبارات “خیر خواہ عالم” اور “چلتا پرزہ” اپنے ہی پریس مطبع رضوی بھوجلا پہاڑی دہلی سے شائع ہوتے تھے.
——
یہ بھی پڑھیں : قدرت اللہ شہاب کی برسی
——
ادبی ماحول میسر آنے کے باعث شہاب دہلوی نے زمانہ طالبعلمی سے ہی مضامین اور نظموں کی ابتدا کر دی.ان کی باقاعدہ شاعری کا آغاز پٹیالہ میں‌اپنی پھپھو کے ہاں قیام پذیری کے دوران ہوا.ان کے گھر رسالہ “بنات” اور “جوہر النسواں” باقاعدگی سے آتے تھے جن کے ایڈیٹر علامہ راشد الخیری تھی.شہاب دہلوی نے ان رسائل میں‌شائع ہونے والی نظموں‌سے متاثر ہوکر اپنی باقاعدہ پہلی نظم “بچہ” لکھی جو 1937میں‌رسالہ بنات میں‌شائع ہوئی.
شہاب دہلوی نے عملی زندگی کا آغاز دلی میں‌آرمی ایجوکیشن کور میں‌بطور انسٹرکٹر کیا.
بعد ازاں‌انہوں‌نے دہلی سے ماہنامہ “الہام” جاری کیا.قیام پاکستان کے بعد بہاول پور سے ہفت روزہ “الہام” کا اجراء بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی.اس دوران وہ ایک سرکاری رسالے “لوکل گورنمنٹ ریویو” کے ایڈیٹر بھی رہے، پھر ڈویژنل انفارمیشن آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے رہے لیکن طبیعت سرکاری ملازمت میں‌نہ لگی لہٰذا ملازمت کو خیرباد کہہ کر “الہام” کی ادارت سنبھالی اور ساتھ ادبی و سماجی سرگرمیوں میں‌بھی حصہ لینے لگے.
انہیں‌تاریخ‌اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا لیکن شاعری میں‌غزل ان کی پسندیدہ صنف رہی.شاعری میں‌ حیدر دہلوی مرحوم ان کے استاد تھے.
شہاب دہلوی کی تصانیف کی تعداد 16 ہے جن میں‌11 نثری فن پارے اور پانچ شعری مجموعے ہیں.تقسیم ہند کے بعد انہوں نے بہاولپور میں سکونت اختیار کی اور یہاں سے ہفت روزہ الہام اور سہ ماہی الزبیر جاری کیے۔ان کے فرزند “شہاب دہلوی اکیڈمی” کی صورت میں‌آج بھی اپنے والد محترم کے ادبی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں.
ان کی نثری کتب میں مشاہیر بہالپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، بہاولپور کی سیاسی تاریخ، خطہ پاک اوچ اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہکڑا تک شامل ہیں.
جبکہ ان کے شعری مجموعے:
نقوش شہاب، گل و سنگ اور موج نور کے نام سے شائع ہوئے۔
انہوں نے الزبیر کے کئی اہم نمبر بھی شائع کیے جن میں: آپ بیتی نمبر، جنگ آزادی نمبر، کتب خانے نمبر اور بہاولپور نمبر کے نام سرِ فہرست ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : قدرت اللہ شہاب کا یومِ پیدائش
——
وفات
شہاب دہلوی نے 29 اگست 1990ء کو بہاولپور میں وفات پائی۔ ان کا مقبرہ بہاول پور کے قبرستان پیر حامد عقب شیر باغ میں ہے.
(پیدائش: 20 اکتوبر 1922ء – وفات: 29 اگست 1990ء)
——
مقالہ جات
——
شہاب دہلوی: حیات اور کارنامے،(پی ایچ ڈی مقالہ)، ڈاکٹر مزمل بھٹی، نگران ڈاکٹر شفیق احمد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، 1999ء
——
کتابیات
——
دبستانِ بہاولپور ،ماجد قریشی ،بہاولپور، ادارہ مطبوعات “آفتاب مشرق” 1965ء ، ص 339 – 328
اوچ شریف اسلامی تحریک کا ایک قدیم علامتی مرکز ، مسعود حسن شہاب ، ” ارمغانِ اوچ “، مخدوم الملک سیّد شمس الدّین گیلانی، بریگیڈئر سیّد نذیر علی شاہ ،مرتبہ، بھاولپور، سرائیکی ادبی مجلس ، 1966ء ، ص 22 – 18
بہاولپور میں اُردُو ، مسعود حسن شہاب ، بہاولپور، اُردُو اکیڈمی ، 1983ء ، ص 313
تحریک پاکستان اور شہاب دہلوی کی اداریہ نویسی (تنقیدی مضمون) ، قدرت اللہ شہزاد ، صحرا چمکتا ہے ، قدرت اللہ شہزاد ، بہاولپور، ستلج پبلیکیشنز ، 2002ء ، ص 110 – 83
شہاب دہلوی کی کالم نگاری (تنقیدی مضمون) ، قدرت اللہ شہزاد ، صحرا چمکتا ہے ، قدرت اللہ شہزاد ، بہاولپور، ستلج پبلیکیشنز ، 2002ء ، ص 159 – 144
بہاول پور میں اُردو شاعری 1947ء تا 2010ء عمران اقبال، بھاول پور ،چولستان علمی و ادبی فورم ، 2010ء ص 92
وفیات ناموران پاکستان ، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ ،لاہور، اُردو سائنس بورڈ ، 2006ء ص 409
——
رسائل
——
غزل، سیّد مسعود حسن شہاب ، سہ ماہی “الزبیر” بھاول پور شمارہ سوم جولائی اگست 1961ء ، ص 115
جو مانگنا ہے تو … (غزل) ، شہاب دہلوی . “نخلستان ادب” صد سالہ نمبر 1986ء ، گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج . بہاول پور ، ص 306
مشاعرہ ، “نخلستان ادب” صد سالہ نمبر 1986ء ، گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج . بہاول پور ، ص 344
ماہنامہ “شاعر” ممبئی شمارہ ہم عصر اُردو ادب نمبر جلد اول 1997ء -1998ء ، ص 193
نقش تابندہ ، شہاب دہلوی ، “نخلستان ادب” بہاول پور قائد اعظم نمبر 2003ء ، ص 148
——
کتابیات (شہاب شناسی)
——
جہان ِ تخلیق کا شہاب ، ڈاکٹر طاہر تونسوی بہاول پور،شہاب دہلوی اکیڈمی ،2006ء ، 184 ص
——
یہ بھی پڑھیں : شہاب جعفری کا یوم وفات
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
از ابد تا ازل خدا تو ہے
ابتدا تو ہے انتہا تو ہے
ایک جگنو سے لے کے سورج تک
چشمۂ نور ہے ضیاء تو ہے
تیری قدرت سے روز و شب کا ظہور
ہر نظارے میں رونما تو ہے
بحر و بر ہوں کہ آسمان و زمیں
ہر طرف تو ہے جا بجا تو ہے
ہے مناظر میں ترا عکسِ جمال
سب میں رہ کر بھی ماوریٰ تو ہے
ہر دلِ مضطرب میں ہے موجود
مرکزِ عرض و التجا تو ہے
تجھ سے رحم و کرم کی سب کو امید
سر بسر بخشش و عطا تو ہے
سب میں تحریکِ زندگی تجھ سے
انقلابات کی ہوا تو ہے
کس کے در پر شہابؔ دے دستک
بے سہاروں کا آسرا تو ہے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
پڑی جو نعت میں رنگینیٔ بیاں کی ” طرح ”
سخن میں آ گئی رعنائی کہکشاں کی طرح
عجب تھی بادۂ عشقِ نبی کی سر جوشی
رہے زمین پہ ہم لیکن آسماں کی طرح
بسیط جس کی ہدایت کے نور کا چشمہ
محیط اُس کا کرم ابرِ زرفشاں کی طرح
مسافرانِ رہِ عشق کے لیے وہ ذات
وفا کے دشت میں ہے میرِ کارواں کی طرح
خیال اس کا رہا وجہِ انبساط و طرب
حریمِ دل میں رہا یارِ مہرباں کی طرح
غلام ہم بھی ہیں ان کے بلال کی صورت
ہمارے دل کی بھی ہیں دھڑکنیں اذاں کی طرح
وہاں ہمیشہ ہے انوارِ ایزدی کا ہجوم
نہیں ہے طور بلند ان کے آستاں کی طرح
بیانِ سرورِ کونین کے مقابل میں
حقیقتیں نظر آتی ہیں داستاں کی طرح
شہابؔ ذکرِ محمد کا یہ تصرف ہے
مہک رہے ہیں مضامین گلستاں کی طرح
——
بلا سبب تو نہیں ہے لبوں پہ مہرِ سکوت
فقیہہِ شہر سے رندوں کی رسم و راہ بھی ہے
——
کروٹیں درد بدلتا ہے ہزار
ضابطے میں کوئی فریاد نہیں
——
یہ کس کے قدم آئے شہابؔ آج چمن میں
خاروں کا جھکا سر کہیں پھولوں کا اُڑا رنگ
——
ہم جو موضوعِ درد پر بولے
شہر کے شہر گھر کے گھر بولے
ان کے تیور چڑھے ہوئے ہیں شہابؔ
جو بھی بولے وہ سوچ کر بولے
——
میں شب کی اثر خیز دعاؤں کی طرح ہوں
تپتے ہوئے صحرا میں گھٹاؤں کی طرح ہوں
بخشی تھیں شہابؔ آ کے جسے میں نے بہاریں
اب میں اسی گلشن میں خزاؤں کی طرح ہوں
——
چپ ہوں مگر افکار کا طوفان ہے دل میں
میں شہر کی خاموش فضاؤں کی طرح ہوں
——
میرا سوال ہے اُس سے جو سب کو دیتا ہے
شہابؔ مانگنے والوں سے کوئی کیا مانگے
——
وہ مجھے مجبورِ ترکِ آرزو کرتے رہے
دیر تک اس مسئلے پہ گفتگو کرتے رہے
ایک گل کیا وہ بہاروں کی فضا پر چھا گئے
اور ہم تکمیلِ شرحِ آرزو کرتے رہے
دوسروں کے راستے ہموار کرنے کے لیے
پیش ہم اپنے ارادوں کا لہو کرتے رہے
ہے کوئی گلشن میں اس ایذا پسندی کا جواب
ہم بہاروں میں خزاں کی جستجو کرتے رہے
ہر قدم پر چاند تاروں کو بنایا فرشِ راہ
کس بلندی پر تمہاری جستجو کرتے رہے
آئیں گلشن میں بہاریں اور رخصت ہو گئیں
عمر بھر ہم اعتبارِ رنگ و بُو کرتے رہے
ہر طرح محفوظ رکھا پیرہن اُمید کا
اختلافی مسئلوں کو ہم رفو کرتے رہے
گردشیں جتنی بھی آئیں زندگی کی راہ میں
ہم سپردِ گردشِ جام و سبو کرتے رہے
جانے کیوں برہم ہیں اہلِ گلستاں ہم سے شہابؔ
ہم تو گُل کیا خار کی بھی آبرو کرتے رہے
——
رہ حیات کی تنہائیوں کو کیا کہیے
ہجوم شوق کی رسوائیوں کو کیا کہیے
مرے وجود کا بھی دور تک مقام نہیں
ترے خیال کی گہرائیوں کو کیا کہیے
غموں کی اوٹ سے بھی ہو سکیں نہ تر پلکیں
نہ برسے ابر تو پُروائیوں کو کیا کہیے
سرودِ غم سے نکھرتی ہے زندگی اپنی
تمہاری یاد کی شہنائیوں کو کیا کہیے
کس کے خون سے نکھرا ہے گلستاں کا جمال
گلِ شگفتہ کی رعنائیوں کو کیا کہیے
شرار زیست کی اک جست ہے بہت لیکن
نفس کی مرحلہ پیمائیوں کو کیا کہیے
ترے جمال کو چھو کر نکل رہی ہے سحر
طلوع مہر کی رعنائیوں کو کیا کہیے
جو مجھ سے دور ہوئے تھے وہ دور تر نکلے
شہابؔ زیست کی انگڑائیوں کو کیا کہیے
——
حوالہ جات
——
شعری انتخاب از ویب شہاب دہلوی ڈاٹ کام
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ