آج عظیم ناول نگار محی الدین نواب کا یوم پیدائش ہے

——
الفاظ کا دیوتا: محی الدین نواب از ڈاکٹر عبدالحی
——
6 فروری 2016 کو برصغیر کے نامور ناول نگار محی الدین نواب انتقال کرگئے۔ ان کی وفات سے مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ محی الدین نواب کی شخصیت اور فن پر لکھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ وہ ناول نگار ہے جس نے دنیا کا سب سے طویل ناول لکھا ہے۔ ان کے ناول دیوتا کو دنیا کے سب سے طویل اور سب سے زیادہ الفاظ کے ناول ہونے کا ریکارڈ حاصل ہے۔ مجھے دکھ ہے اس جیسے انوکھے اور البیلے ناول نگار کے مرنے پر نہ کوئی تعزیتی نشست منعقد کی گئی اورنہ ہی رسائل کے گوشے شائع ہوئے اور نہ ہی کسی نے ان کی شخصیت و خدمات پر باتیں کیں۔ کچھ گنے چنے لوگوں کو چھوڑ دیں تو اِس ناول نگار نے معاشرے کو جس طرح سمجھا اور پیش کیا ہے اس طرح دوسرے فکشن نگارو ں نے نہیں۔
محی الدین نواب سے میرا سابقہ اسکول کے زمانے میں پڑا جب ہما، چہار رنگ، نیا عالمی، اظہار اثر، صدہا رنگ اور آتش گل جیسے رسالے شمع اردو کو فروزاں کیے ہوئے تھے۔ ان کی دوچار تحریریں پڑھ کر ہی اندازہ ہوگیا کہ ناول نگار کچھ منفرد اسلوب کا مالک ہے۔ مجھے نہیں علم کہ ادب کو دو خانوں میں کیوں تقسیم کردیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کس کی سازش رہی ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ پاپولر ادب کیا ہے اور کیو ںہے اور خالص ادب کیا ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ کم پڑھا لکھا شخص اردو کے ڈائجسٹوں اور گلابی کرن، خاتون مشرق جیسے رسالوں کو پڑھ کر ہی اردو کے قریب آتا ہے۔ یہ رسالے بھلے ہی اردو کے بڑے ادیبوں کی نظر میں معیاری رسائل و جرائد کی فہرست میں نہ آتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دور دراز اور چھوٹے شہروں میں لوگ ایسے ہی رسالوں کو توجہ سے پڑھتے ہیں کیونکہ آجکل، ایوان اردو، ذہن جدید اور دیگر اہم رسالے یہاں پہنچ ہی نہیں پاتے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ 1980 اور 1990 کی دہائی اردو زبان و ادب کے لیے سنہرا دور رہی ہے کیونکہ اس دور میں پروانہ رودولوی، سلامت علی مہدی، خالد مصطفی صدیقی، نازش انصاری، شاہد صدیقی، احمد مصطفی صدیقی، چشمہ فاروقی اور ادریس دہلوی جیسے لوگوں نے اردو کا پرچم بلند کررکھا تھا۔ پاپولر ادب ادب عالیہ کی پہلی سیڑھی ہے اور لوگوں کو اردو زبان و ادب سے قریب لانے میں پاپولر ادب کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور مجھے بھی ایسے ہی پاپولر ادیبوں کو پڑھنے کا چسکہ لگا تھا۔ جب میں نے کنور حشمت علی خاں، الیاس سیتاپوری،صادق حسین سردھنوی، الف صدیقی، انسپکٹر نواز خاں، ایم اے راحت، انوار علیگی، ابن صفی اور محی الدین نواب کو پڑھا۔ یہاں مجھے ابھی صرف محی الدین نواب پر گفتگو کرنی ہے اس لیے پاپولر ادب کا مکمل تذکرہ پھر کبھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر ، ادیب اور تاریخ دان سید محی الدین قادری زور کا یوم پیدائش
——
مجھے اردو کے جن ادیبوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان میں قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی، منٹو، بیدی، ابن صفی، محی الدین نواب، کنور حشمت علی خاں، الیاس احمد گدی، اظہار اثر، ایم اے راحت، کرشن چندر اور حال کے دنوںمیں شمس الرحمن فاروقی،پیغام آفاقی، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی اور رحمن عباس قابل ذکر ہیں۔ اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ میں نے اردو کیسے سیکھی تو میرا جواب ہوگا ابن صفی کے ناولوں سے اور اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ معاشرے کو سمجھنے کی اور اچھے برے کی تمیز کہاں سے سیکھی تو جواب ہوگا محی الدین نواب کے ناولوں اور کہانیوں سے۔ ( یہ بھی پڑھیں نصرت ظہیر: خاموش ہے وہ اور ہمیں چپ سی لگی ہے – ڈاکٹر عبدالحی)
محی الدین نواب اس معاملے میں منفرد ناول نگار ہیں کہ انھوں نے اپنی راہ الگ نکالی اور دوسرے ناول نگارو ںکی طرح عام سا اسلوب نہیں اپنایا بلکہ ابن صفی کی طرز پر اپنا ایک منفرد اسلوب وضع کیا۔ ان کی تحریروں کو زہر میں بجھی تحریر یں کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کے جملے بڑے تلخی و ترشی آمیز ہوتے ہیں۔ پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہمارے آپ کے لیے لکھے گئے ہیں۔ تحریروں میں ایک ایسا سچ ہوتا ہے جو ہم آنکھوں سے دیکھ کر بھی پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر پردہ ڈالتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں گھر آنگن، دفتر، شادی بیاہ، رسم و رواج کے علاوہ روزمرہ کے معمولات کے مختلف موضوعات ملتے ہیں۔ وہ کچھ اِس انداز میں لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا ایک د فعہ پڑھ کر ہی تحریر کے سحر میں جکڑ جائے۔ ابن صفی کو جاسوسی ادب اور زندہ جاوید کرداروں کے لیے یاد کیا جاتا ہے، اسی طرح محی الدین نواب کو معاشرے کے نباض کے طو رپر لوگ یاد کرتے ہیں۔ ڈائجسٹ پڑھنے والے تقریباً ہر قاری کی پہلی پسند محی الدین نواب ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے والد حافظ محمد یٰسین خاں مرحوم نے آج سے 16 سال قبل جب میں دہلی آیا تھا تو مجھے کچھ ناولوں کی لسٹ دی تھی اور تاکید کی تھی کہ جاتے ہی بھیج دینا۔ میں نے وہ سارے ناول، ڈائجسٹ نما کے دفتر پہاڑی بھوجلہ سے خریدے اور انھیں بھجوائے۔ ان میں محی الدین نواب کے ناول مقدر، طاعون، دیوتا کے کچھ حصے، نواب بیتی، واپسی، انسان اور شیطان، انہونی، کچراگھر، ادھورا ادھوری، قصہ نصف صدی کا ،نواب بیتی، ہند سے یونان تک، شارٹ کٹ، وقت کے فاصلے، آدھا چہرہ (دو حصہ)، پل صراط، دلدل کے پھول، ایمان کا سفر، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
جس طرح قرہ العین حیدر، انتظار حسین اور ابن صفی کے بعد کوئی دوسرا ویسا اسلوب نہیں ایجاد کرسکا اسی طرح محی الدین کے جانے کے بعد کوئی دوسرا محی الدین نواب جیسا اسلوب لے کر شاید ہی آئے۔ ابن صفی کے بعد تو مشتاق احمد قریشی نے کسی حد تک ان کے اسلوب و انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے لیکن پوری طرح وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ محی الدین نواب کا اسلوب و انداز اپنانا تو اور مشکل ہے۔ نواب صاحب ڈائجسٹوں کی دنیا کے سب سے مصروف قلمکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ ایک لجنڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کا جانا دنیائے اردو ادب کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔کچھ قلمکار ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلو ںمیں اتر جاتے ہیں اور محی الدین نواب بھی ایک ایسے ہی ادیب تھے جو آج بھلے ہی منوں مٹی تلے سورہے ہوں لیکن اپنی لازوال کہانیوں کی بدولت وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
نواب صاحب کی داستان حیات بھی کسی قصے سے کم نہیں۔انھوں نے 4 ستمبر 1930 کو ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کے کھڑگ پور میں آنکھیں کھولیں۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔ ان کے دادا اور والد دونوں فنون لطیفہ سے وابستہ رہے ہیں۔ دادا تصویریں بناتے تھے اور والد ریلوے میں سجاوٹ وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ پاکستان جانے کے بعد وہ پہلے سید پور میں رہے بعد میں ڈھاکہ منتقل ہوگئے۔ جہاں وہ ایک جھونپڑی میں اپنے بیوی بچو ںکے ساتھ بہت مشکل حالات میں گزر بسر کررہے تھے۔ ان دنوں وہ سنیما ہال کے لیے بینر اور ہورڈنگ تیار کرتے تھے۔ کبھی کبھار کہانیاں بھی لکھ لیتے تھے۔ اردو چترالی نام کے فلمی ہفتہ وار اخبار میںان کی کہانیاں چھپتی تھیں۔ اس وقت فلم ملن بن رہی تھی جس کی ہیروئن دیبا تھی۔ اداکارہ دیبا کی تصویر چترالی میں شائع ہوئی جیسے دیکھ کرنواب صاحب کی ایک پڑوسن رونے لگی اور کہا کہ یہ میری بیٹی راحیلہ ہے جسے اس سے پھوبھی اور پھوپھا نے بچپن میں لے لیا تھا اور آج وہ راحیلہ کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ نواب صاحب نے یہ سب ایک کہانی کی شکل میں چترالی میں چھپوا دیا جس کی ایک کاپی دیبا کو بھی دی گئی جب اس نے یہ کہانی پڑھی تو وہ اپنی ماں سے ملنے کو تڑپ اٹھی۔ نواب صاحب نے ہی دونوں ماں بیٹی کے ملنے کا انتظام کروایا اور بعد میں راحیلہ عرف دیبا ہمیشہ کے لیے ماں اور بھائی بہنوں کے ساتھ لاہور میں رہنے لگی اور نواب صاحب کو بھی انہی ماں بیوی نے لاہور بلایا تھا۔ دونوں نے اصرار کرکے نواب صاحب کو لاہور بلایا اور رہنے کے لیے اچھا گھر دیا۔ (بحوالہ انور فرہاد اردو کالمز)
——
یہ بھی پڑھیں : رہبر راہ ہدایت، حضرت نواب شاہ
——
محی الدین نواب نے اپنے لیے لکھنے پڑھنے کا میدان منتخب کیا اور اس میں اتنی شہرت حاصل کی کہ جو دوسرے پاپولر ادیب کے حصے میں کم آئی ہے۔ ان کی پہلی تحریر رسالہ رومان میں شائع ہوئی تھی۔ انھوں نے چار شادیاں کی تھیں۔ پاکستان میں وہ لاہور میں سکون پزیر ہوئے۔ جہاں آغاز میںا ن کی گھریلو حالت بہتر نہیں تھی۔ کہانیاں لکھنے کے بعد وہ کسی کو کچھ پیسوں کے عوض بیچ دیا کرتے تھے اور وہ اپنے نام سے چھپوا لیتا تھا۔ اسی دوران سسپنس ڈائجسٹ اور جاسوسی ڈائجسٹ کے مالک نے ان سے رابطہ کیا اور ان کی کچھ کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ باقاعدگی سے ان دونوں جریدوں کے لیے لکھیں۔ انھوں نے دیوتا 1977 سے لکھنا شروع کیا اور تقریباً 33 برسوں تک لکھتے رہے اور یہ ناول آج کی تاریخ میں53 حصوں اور 396 اقساط پر مشتمل دنیا کا سب سے طویل ناول ہے (ملاحظہ ہو وکی پیڈیا)۔ دیوتا میںٹیلی پیتھی کے ایک ماہر فرہاد علی تیمور کی داستان حیات ہے جو اس علم کے ذریعے کسی کے بھی دماغ کو اپنے قبضے میں کرلیتا تھا اور اس سے اپنی مرضی کے کام لیتا تھا۔دیوتا کے ہیرو فرہاد علی تیمور نے بھی چار شادیاںکی ہیں۔ دیوتا پڑھنے کے بعد ہی مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی ایسا علم بھی ہوتا ہے بعد میں میں نے ٹیلی پیتھی گائیڈ بھی منگائی اور اس علم کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کی۔نواب صاحب اپنی تحریروں سے اردو ادیبوں میں سب سے زیادہ کماتے تھے۔ کبھی کبھی تو انھیں ماہانہ 3 لاکھ روپے تک معاوضے دیے جاتے تھے۔نواب صاحب نے دیوتا کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کے لیے بھجوایا تھا لیکن بقول نواب صاحب اس ناول کو اس لیے منتخب نہیں کیا گیا کہ ناول میں امریکیوں اور یہودیوں کے خلاف کافی مواد تھا۔دیوتا میں فرہاد اور میڈیم سونیا کی رقابت اور پھر محبت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ شیخ الفارس، راسونتی، رومانہ، علی اسداللہ تبریزی، مرجانہ جیسے درجنوں کردار اِس داستان میں بھرے پڑے ہیں جو قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتے ہیں۔ آج سے 20-30 برس پہلے محی الدین نواب نے دنیا کے مختلف ممالک کے حالات ایسے بیان کیے ہیں جیسے ہم ٹی وی اسکرین پر کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ ان کی تحریر سے ذرا بھی یہ شک نہیں ہوتا کہ ادیب نے کبھی اُس شہر یا ملک کا دورہ نہ کیا ہو۔ محی الدین نواب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ وہ کرداروں کی تفصیلات جاننے کے لیے اٹلس، انسائیکلوپیڈیا، اور ان ممالک کی فلموں سے مدد لیتے تھے۔ وہاں کے لوگوں کے انداز و اطوار، گفتگو کرنے کا طریقہ، کردارو ں کے نام، علاقوں کا محل وقوع، موسم اور تہذیب و ثقافت پر پوری تحقیق کے بعدہی وہ اپنے ناولو ں میں ان باتو ںکو جگہ د یتے تھے۔آج کے مشینی دور میں ہم انٹرنیٹ اور فلم ٹی وی کی مدد سے تو یہ سب جانکاریاں حاصل کرسکتے ہیں لیکن ذرا تصور کریں کہ آج سے تیس سال قبل نہ موبائل تھا نہ انٹرنیٹ اور محی الدین نواب دنیا کے غیرآباد جنگلات کا ذکر اور ممالک کے واقعات قلم بند کررہے تھے۔ افریقہ، چین، کوریا، نیویارک وغیرہ ممالک کے حالات و کرداروں کی تفصیلات پڑھ کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ان کے ایک بیٹے کا انتقال جوانی میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے نواب صاحب بے حد غمزدہ رہتے تھے اور اپنے بیٹے کی موت پر ان پر بہت گہرا اثر ہوا تھا اور اپنی تحریروں میں بھی انھوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔محی الدین نواب اپنی تحریروں پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:
جب ایک ماں کی پہلی چیخ تکلیف کے کرب سے نکلتی ہے اور دوسری چیخ بچے کو نیزے کی انی پر دیکھ کر تعمیراتی ہے۔ جب انسان انسان کو مارتا ہے اور تقدیر کو مورد الزام ٹھہرا دیتا ہے۔ جب انصاف نہیں ملتا۔ جب ایک روٹی چرانے والے کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں اور قومی دولت کو لوٹنے والے کو فراخ دلی سے معاف کردیا جاتا ہے اور جب ماں باپ مہنگائی اور فاقوں سے مجبور ہوکر اولاد کو فروخت کرڈالتے ہیں تبھی میرے آنسو قلم کی نوک پر ستارے بنتے ہیں۔ (بحوالہ سسپنس ڈائجسٹ مارچ 2016)
ان کے ناول’ آدھا چہرہ ‘میں ا یک ٹیکسی ڈرائیور ’جانی‘ کی داستان بیان کی گئی ہے۔ انسانی نفسیات اور انسانی شعور کی مختلف گتھیوں کو اس ناول میں نواب صاحب نے بڑے اچھے اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ محی الدین نواب کے ایک ناول دل پارہ پارہ پر فلم بھی بن چکی ہے۔ سماج کی تلخ حقیقت صفحہ قرطاس پر بکھیرنے میں محی الدین نواب کو ملکہ حاصل تھا۔ ایک منفرد اسٹائل اور اسلوب کے مالک نواب صاحب کبھی کبھی کہانیوں میں نصیحتیں بھی خوب کرتے ہیں۔ کبھی یہ نصیحتیں کوفت میں مبتلا کرتی ہیں توکبھی دل و دماغ کو پارہ پارہ کردیتی ہیں۔ کچھ تحریریں ملاحظہ ہوں:
’’لیڈی کانسٹبل چلی گئیں۔ دروازے کو باہر سے بند کردیا گیا۔ اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ خود کو چھپاتی ہوئی چارو ں طرف گھوم کر دیکھنے لگی۔ نہ دروازے کھڑکیوں پر پردے تھے۔ نہ بستر اور چادر تھی۔ کپڑا تو دور کی بات ہے ایک ذرا ادھر ادھر سے ڈھانپنے کے لیے کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔
وہ رونے لگی۔ خود کو چھپانے کے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ پہننے کے لیے کفن بھی مانگتی تو کوئی دینے والا نہیں۔
کیسا تماشا تھا،
اے در و دیوار… ابھی تم دیکھو رازہائے نہاں منکشف ہوگئے۔دروازہ کھلے گا تو دیکھنے والی آنکھوں کا تقدس جائے گا۔ پھر نظارہ نہیں نگاہیں ننگی ہوں گی۔ حیا والی کو چبھتی رہیں گی۔
اے ننگ انسانیت! آج تیری رونمائی ہے۔
اے عورت! جب تو سہاگ کا آنچل نوچ کر پھینک دیتی ہے۔ گھر کی چار دیواری سے نکل جاتی ہے تو تیرے ساتھ حیا کا جنازہ بھی نکل جاتا ہے۔
عورت کی بنیادی کشش یہ ہے کہ وہ پردہ راز میں رہے۔ حیا کے لباس میں رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : طلب کا منھ تو کس قابل ہے یا غوث
——
دنیا جانتی رہے کہ پردے میں کیا ہے؟ پھر بھی پہیلی لگتی رہے۔ اسے بوجھنا اچھا لگے۔ یہی عورت کا حسن ہے۔
اور وہ حسن دو کوڑی کا ہورہا تھا۔ دنیا دیکھنے والی تھی اور وہ کیا کرسکتی تھی؟ ابھی تو صرف یہ دعا مانگ رہی تھی کہ کسی طرح ملبوس ہوجائے گیا اچانک تاریکی چھا جائے۔
تاریکی حیا پرور ہوتی ہے۔ ماں کے آنچن کی طرح چھپا لیتی ہے۔ کسی کو مادر زاد الم نشرح نہیں ہونے دیتی۔
وہ دعائیں مانگ رہی تھی۔ کوئی نہ دیکھے۔ جب تک لباس نہ ملے،دنیا اندھی ہوجائے۔
سب آنکھوں کا قصور ہے۔ یہ نہ دیکھیں تو ننگوں کی شرم رہ جائے۔
اپنے پیرو ںپر کلہاڑی مارنے والو ںکی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ دروازہ کھل گیا۔ کھلی ہوئی چوکھٹ پر عالی جناب کھڑا ہوا تھا۔
وہ شرم کے مارے چیخ پڑی۔ دوڑ کر منہ کی سمت دیوار سے لگ گئی …. وہ دیوار سے ایسے چپک رہی تھی جیسے جیتے جی انار کلی کی طرح دیوار میں سما جائے گی۔(لب دم توبہ: محی الدین نواب)
’’خاموشی کیا ہے؟ خاموشی ایک زبان ہے جسے ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے بولتا ہے۔ خاموشی بولتی ہی نہیں چیختی بھی ہے۔ پکارتی اور لتاڑتی بھی ہے، محبوبہ خاموش رہے تو ناراضی … محبوب خاموش رہے تو بزدلی۔والدین خاموش رہیں تو مجبوری.. اولاد خاموش رہے تو سعادت مندی۔
انسان خاموش رہے تو بے بسی… انسانیت خاموش رہے تو بے حسی۔
قوم خاموش رہے تو مظلومیت … اور حکمراں خاموش رہے تو سیاست۔
یہ خاموشی سکہ رائج الوقت ہے۔ جب بھی رائج ہو جاتی ہے تو کسی کو خرید لیتی ہے یا کسی کو بیچ دیتی ہے لیکن….. یہ ہمیشہ رائج نہیں رہتی۔ خاص موقعے اور خاص وقت پر استعمال کی جاتی ہے۔ اسی لیے کم بولنے اور زیادہ سننے والوں کو عقلمند کہا جاتا ہے۔‘‘ (ناول بے زمیں بے آسماں: محی الدین نواب)
’’اس خواب سے ایک بہت ہی تلخ حقیقت کا احساس ہوا۔ یہ یاد کرکے بڑی شرم آئی کہ ہم تمام عمر خدا کا نام لیتے ہیں۔ پانچوں وقت سجدے کرتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو مارے خوف کے خدا کو بھول کر زندگی کو پکارتے ہیں۔ میں کسی حد تک انسانی نفسیات کو سمجھتا ہوں۔ بڑے سے بڑے عبادت گزار دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھتے اور عبادت کی گہرائیوں میں غرق رہتے ہیں لیکن ان کے لاشعور میں زندگی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ اکثر لوگوں کی عبادت کے پیچھے خودغرضی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ میری بات تسلیم کرلی جائے۔ میں نے تو نیند کی حالت میں عارضی موت مر کر اپنے دوغلے اعمال کو آزمایا ہے۔ میں ایک مصنف ہوکر سچ لکھتا ہوں تو وہ ساری سچائیاں دنیا کے بیشتر افراد کی نفسیاتی عادات پر پوری اترتی ہیں۔‘‘(اجل نامہ)
’’بندہ گھر کی چاردیواری میں رہے تو باہر کی بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔ اپنی چھت کے نیچے رہ کر بدلتے ہوئے موسموں کی سختیوں کو اور طرح طرح کی بیماریوں کو ذرا آسانی سے جھیل لیتے ہیں۔ لیکن گھر سے بے گھر ہوجائے تو نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا، اور اگر اپنے وطن سے نکل جائے تو پھر دو کوڑی کا نہیں رہتا۔ نہ اس کی کوئی منزل ہوتی ہے نہ کوئی راستہ سجھائی دیتا ہے۔‘‘(آفت جہاں)
’’جب کسی کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے آئینے کے سامنے آکر پوچھتا ہے۔ ’’مجھ میں کیا کمی رہ گئی ہے؟‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : نواب شاہ ! آپ کا اعلیٰ مقام ہے
——
آئینہ اسے سر سے پاؤں تک دکھاتا ہے، اس کے بدن کا ورق ورق پیش کرتا ہے۔ اسے سمجھاتا ہے کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے، کمی دیکھنے والوں میں ہے جو حسنِ نظر نہیں رکھتے، وہ کبھی حسنِ ادا کو پہچان نہیں پاتے۔
صدف ایسی تھی کہ آئینہ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا اور وہ بھی آئینے میں اپنا تماشا دیکھتی چلی جاتی تھی۔کوئی دیوانہ عاشق اسے دن رات ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آئینہ مجبور ہوتا ہے۔ وہ ساری عمر بھی اس کے سامنے کھڑی رہتی تو وہ اس کا قصیدہ پڑھتا رہتا۔
عورت کے لیے آئینہ قدرت کا بہترین عطیہ ہے۔ شوہر اسے دیکھ کر، چھو کر پھر اسے پاکر ایک حد سے گزر کر بیزار ہوجاتا ہے، کوئی دیوانہ شوہر بھی دن رات اپنی بیوی کی پوجا نہیں کرتا، صرف آئینہ کرتا ہے، اس کے سامنے آتے ہی اسے اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ جب تک وہ جانا نہیں چاہتی، تب تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔(منکر)
شراب حانوں میں بھانت بھانت کے پینے والے آتے ہیں، کچھ ایسے بادہ خوار ہوتے ہیں جو بوتل پر بوتل لنڈھاتے ہیں پھر بھی پیاسے رہتے ہیں اور کچھ ایسے طفل مکتب ہوتے ہیں جو ایک چلو میں الُو ہوجاتے ہیں۔ (بحوالہ ناول نوسرباز)
جاسوسی ڈائجسٹ کی مدیر اعلیٰ محی الدین نواب کے انتقال پر کچھ یوں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ مارچ 2016 کے شمارے میں محی الدین نواب کی غیرمطبوعہ کہانی جزیرہ ظلمات شائع ہوئی ہے جس کے تعارف میں عذرا رسول کی یہ تحریر دیکھیں:
’’محی الدین نواب اس عالمِ فانی سے کوچ کرگئے… کچھ لوگ مرجانے کے بعد دلو ںمیں زندہ رہتے ہیں لیکن مرحوم اپنے لاکھوں پرستاروں کے دلوں کے ساتھ اپنی تحریوں میں بھی زندہ رہیں گے… وہ قلم اور لفظوں کے کھلاڑی تھے… انھوں نے اَن گنت موضوعات پر یاد گار کہانیاں لکھیں… جیتی جاگتی زندگی سے انوکھے مضامین نکالے، تصور اور تخیل کی دنیا میں بلند پروازیں کیں… دیوتا کووہ اپنے فکشن کا کمال تصور کرتے تھے… فخریہ کہتے تھے کہ میرے قارئین میرا نام دیکھتے ہی امید باندھ لیتے ہیں کہ انھیں اعلیٰ درجے کا فکشن پڑھنے کو ملے گا… اس رنگ میں انھوں نے متعدد کہانیاں لکھیں… زیر نظر کہانی غیر مطبوعہ ہے اور کچھ دنوں سے اپنی باری کی منتظر تھی… اب نواب ہیں، نہ ان کی تازہ تحریریں… ان کے ہنر اور کمال کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی یہ کہ ان کی غیرمطبوعہ کہانی کو نذر قارئین کیا جائے … سو ذیل میں ’جزیرۂ ظلمات‘ پیش خدمت ہے۔‘‘ (جاسوسی ڈائجسٹ، مدیر اعلیٰ: عذرا رسول)
وہ جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ سے تقریباً 40 برسوں تک جڑے رہے اور ان رسالوں کے لیے دیوتا، پتھر، واپسی، اندھیرنگری، مقدر، مسیحا وغیرہ لکھیں۔ آخری دنوں میں محی الدین نواب نے لکھنا بالکل بند کردیا تھا اور اپنی کہانیاں اپنی بھانجی کو ڈکٹیٹ کرادیتے تھے۔ وہ اُسے لکھ کر رسائل کو بھیج دیا کرتی تھیں۔ انھوں نے شاعری بھی کی ہے اور خالص ادبی تحریریں بھی لکھی ہیں۔ ان کی نظموں اور مضامین کا مجموعہ دوتارا ابھی حال ہی میں شائع ہوا تھا جسے پاکستان میں بہت پسند کیا جارہا ہے۔دوسری جنگ عظیم، بنگال کا قحط، برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان اور بنگلہ دیش کا قیام یہ سب کچھ نواب صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خود ان واقعات کے گواہ بنے۔ یہ سارے واقعات اور ان کے بعد ان کے اثرات ان کے ناولو ںمیں بکھرے نظر آتے ہیں۔
جادوگرنی جیسا پر اسرار ناول لکھنے والے معروف ادیب انور فرہاد نواب صاحب کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خریدار ان کا نام دیکھ کر ڈائجسٹ خریدتے۔ ان ڈائجسٹوں کے مالک اور مدیر معراج رسول نے ان کی اس خوبی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس کا انھیں بھرپور صلہ بھی دیا، جس طرح جواہرات کے قدرداں بادشاہ یا جوہری ہوتے ہیں اسی طرح معراج رسول اچھی تحریروں کے قدر داں تھے۔ انھوں نے محی الدین کو نام کے نواب سے سچ مچ کا نواب بنا دیا۔وہ بہت دور دیکھنے اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے قلم کار تھے۔ (انور فرہاد، اردو کالمز آن لائن)
نواب صاحب اپنی زندگی کے آخری دن تک اردو زبان و ادب کی خدمت میں لگے رہے۔ان دنوں نواب صاحب ماروی (ناول) لکھ رہے تھے جو سسپنس ڈائجسٹ (پاکستان) میں قسط وار چھپ رہا ہے۔ اس کی اٹھائیسویں قسط مارچ 2016 میں شائع ہوئی ہے۔ ماروی کے بعد وہ آج کا رانجھا لکھنے والے تھے۔لیکن افسوس کاتب تقدیر نے انھیں مزید لکھنے کا موقع نہیں دیا۔
محی الدین نواب اپنی تحریر سے پڑھنے والے کے دل کو گدگداتے ہیں، انسانی نفسیات و احساسات سے آشنا کرتے ہیں، تربیت کرتے ہیں اور اپنی کاٹ دار تحریر سے قاری کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔محی الدین نواب کرشن چندر، منٹو، پریم چند، آگاتھا کرسٹی، ٹیگور، اقبال، احمد ندیم قاسمی، غالب، عمر خیام، ایچ جی ویلز اور اوہنری کی تحریروں سے بہت متاثر تھے۔ ان کی تحریر یں پڑھ کر ہی انھیں بھی لکھنے کا خیال آیا۔ محی الدین نواب سب سے زیادہ کرشن چندر سے متاثر تھے۔ ان کی تحریروں میں کرشن چندر کی تحریروں کا عکس بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ابن صفی کے کردارو ں پر عمران بٹا عمران لکھا تھا۔محی الدین نواب نے ایسے وقت میں اپنی تحریروں سے اردو قاری کو متاثرکیا جب ابن صفی اردو کے پاپولر ادب میں اپنے جاسوسی ناولوں کی وجہ سے مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔
محی الدین نواب نے تقریباً 600 کہانیاں اور ناول لکھے ہیں اور ان کی 200 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ انھوں نے موجودہ حالات و موجودہ کرداروں پر قصہ چہار درویش تحریر کیا تھا جو جیل میں قید چار دوستوں کی داستان حیات تھی۔اپنی فکشن نگاری پر نواب صاحب کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’کہانی میری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے، مجھے بھی دوڑاتی ہے، میں نے عورتوں کے ناول لکھے ہیں مگر میں سستا پیار، نالائق انتظار اور ہزار مربع گز کے بنگلے سے خواتین کو پاگل نہیں کرتا۔ میں ان کے مسائل پر لکھتا ہوں، مسائل پیدا نہیں کرتا۔ گھٹیا رومانوی ناول پڑھ کر میں نے لڑکیوں کو گھروں سے بھاگتے اور گولی کا نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ میں ناشرین اور قارئین کو اپنے اسلوب سے مناتا ہوں۔ میں دوسروں پر تکیہ کرنے والا شخص نہیں کہ لڑکیاں اندھی محبت کے سستے جذبات پر مبنی ناول طلب کریں تو میں لکھوں اور انھیں خودکشی پر اکساؤں۔ میں نے عورتوں، لڑکیوں کے لیے بھی صحت مند محبت کا تصور پیش کیا۔ اگرچہ یہ آج کل نہیں لکھا جارہا۔ اگر ہے تو بہت ہی کم۔‘‘
محی الدین نواب کے ساتھ ایک بات یہ بھی رہی کہ وہ اردو کے سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے ادیبوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے ناولوں کا لوگ بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔ نواب صاحب کو بھی اپنی تحریروں کی اہمیت کا اندازہ تھا اس لیے وہ پیسوں کے معاملے میں کوئی رحم دلی نہیں دکھاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر ، ادیب, تاریخ دان سید محی الدین قادری زور کا یوم وفات
——
’’کمرشیل ادب اور کلاسیکل، یہ بحث موجود رہنے دیں مگر ادب کو آگے بڑھنے دیں، اس ادب کو جو زندگی کا غماز ہے۔ ادب پر درجات کا پہرہ نہ اٹھائیں۔ میرا کمرشیل ادب ہزاروں کے کلاسیکل ادب سے کہیں بڑھ کر کلاسیکل ادب ہوتا ہے الحمدللہ! ورنہ ایک قسط کے 50 ہزار روپے کون ادا کرتا؟ میرا ناول ’اندھیر نگری‘ بڑے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مجھے اس پر روکا گیا۔ا س کمرشیل کا ہی کارنامہ تھا کہ لوگ محی الدین نواب سے زیادہ فرہاد علی تیمور سے آشنا ہوگئے ۔ میں نے یہ داستان اٹھا کر روٹی بنا ڈالی تھی۔ لوگ روٹی کے ساتھ ساتھ اسے بھی مانگتے تھے۔ ہزاروں افراد نے ہر سال خطوط لکھے کہ فرہاد کا پتا بتاؤ۔ فون آتے تھے کہ فرہاد دفتر کب آتا ہے؟ اسے رشتے بھی آتے تھے۔‘‘
آج یہ عظیم ناول نگار ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن اس کی تحریریں ہمیشہ لوگ یاد رکھیں گے اور یہ نواب ہمیشہ اردو قارئین کے دلوںپر نواب بن کر راج کرتا رہے گا۔اس مضمون کا اختتام ان کے ناول ’اجل نامہ‘ کے اِس اقتباس پر کرتا ہوں:
الوداع شریک حیات! کہ اب حیات نہیں رہی۔ تو بھی شریک نہ رہی۔ میں تیرے حصے کی مسرتیں دیتا رہا۔ اب اپنے حصے کے آنسو ملتے رہیں گے۔ الوداع پیارے قارئین! اب سماجی معاشرتی سچائیاں میری کہانیو ںکی صورت میں شائع نہیں ہوسکیں گی۔ الوداع کہ میں شریکِ حیات کو شوہر کے پیار سے، بچو ںکو باپ کی شفقت سے اور قارئین کو سچی کہانیوں کے خزانے سے خالی کرکے جاچکا ہوں۔ جہاں جاچکا ہوں، وہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔