اردوئے معلیٰ

Search

آج "محسنِ انسانیت” نامی تصنیف سے عالم گیر شہرت پانے والے مولانا نعیم صدیقی کا یوم پیدائش ہے۔


(پیدائش: 4 جون 1916ء – وفات: 25 ستمبر 2002ء)
——
مولانا نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔
——
ولادت
——
مولانا نعیم صدیقی 4جون 1916ء کوخطہ پوٹھوہارکی مردم خیز دھرتی ،چکوال کے گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔
——
تعلیم
——
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قاضی سراج الدین کی نگرانی میں حاصل کرنے کے بعد قریب ہی کے ایک مدرسے سے فارسی میں سند فضیلت حاصل کی۔ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی سے کسبِ فیض کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : وہ ابر فیض نعیم بھی ہے نسیم رحمت شمیم بھی ہے
——
تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں نعیم صدیقی نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔1994میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اور اپنی ساتھیوں کے ساتھ ملکر تحریک اسلامی کے نام سے ایک اسلامی انقلابی جماعت بنائ جو پاکستان میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد کررہی ہے۔تحریک اسلامی کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔
——
صحافتی زندگی
——
آپ کی صحافتی زندگی کا آغاز ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘سے ہوا۔ ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سر انجام دینے کے علاوہ روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ تحریک ادب اسلامی کی ابتدا 1942ء میں آپ کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوئی۔
——
تالیفات
——
آپ 20سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں
محسنِ انسانیت
المودودی
تحریکی شعور
تحریک اسلامی دوسری اجتماعی تحریکوں کے مقابل میں
اقبال کا شعلہ نوا
عورت معرضِ کشمکش میں
تعلیم کا تہذیبی نظریہ
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی سے موجودہ جماعت اسلامی تک
معرکہ دین و سیاست
تحریکِ اسلامی کا خاکہ
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر مختار صدیقی کا یوم وفات
——
تحریک اسلامی کا قیام کیوں؟
تحریک اسلامی کا ابتدائی دور
تحریک اسلامی کو کیسے نوجوان درکار ہیں؟
کمیونزم یا اسلام،
ہندوستان کے فسادات اور ان کا علاج
نور کی ندیاں رواں
پھر ایک کارواں لٹا
افشاں (مجموعہ انتخابِ کلام)
نغمہ احساس شامل ہیں۔ تاہم آپ کی جس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ سیرت رسول اللہپر آپ کی تصنیف ’’محسن انسانیت‘‘ہے۔
——
وفات
——
نعیم صدیقی حرکت وعمل سے بھرپور ایک طویل اور انتہائی سادہ اور کفایت شعار زندگی گزارتے ہوئے تقریباً اٹھاسی سال کی عمر میں 25 ستمبر 2002ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ حال ہی میں ادارہ معارف اسلامی منصورہ نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں حیات و خدمات کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ہے جس میں آپ کی حیات و خدمات پر تقریباً 28 مضامین، متعدد نظمیں، آپکی اپنی تحریریں، خطوط، کچھ نثری مضامین، انٹرویو اور ان پر بعض نظمیں بھی شامل ہیں جو آپ کی زندگی کے بیش تر پہلوؤں اور ان کی مختلف حیثیتوں (ادیب، شاعر، مقرر، صحافی، مفکر وغیرہ) کو سامنے لاتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اسلوبِ نظم و نثر کیا تھا، ان کے علمی منصوبے کتنے اُونچے پائے کے تھے، اسی طرح یہ کہ ادبیاتِ اُردو میں ان کی تخلیقات کس طرح منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔
——
منتخب کلام
——
اک آفتاب ڈوب گیا ، ڈوبنا بھی کیا
ہر ذرے کے اُفق سے اُبھرتا ہے آفتاب
——
بزم سے یارِ طرح دار گیا
اپنے قابو سے دلِ زار گیا
پیکرِ حسن ہوا وہ رخصت
دوستو ! حسن کا معیار گیا
——
وہ عطا کریں گے کس کو زر و سیم کی فضیلت
کسے امتیازِ شہرت ، کسے مسندِ حکومت
لئے نام انہوں نے لاکھوں ، مرے نام تک نہ پہنچے
——
بے روح ہی رہنے دو یہ مانگی ہوئی تہذیب
بازار کی زلفوں کو سجایا نہیں کرتے
——
نشاں تو تیرے چلنے سے بنیں گے
یہاں تو ڈھونڈتا ہے نقش پا کیا
——
شب کتنی بوجھل بوجھل ہے ہم تنہا تنہا بیٹھے ہیں
ایسے میں تمہاری یاد آئی جس طرح کوئی الہام آئے
——
اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں
اے چشم اشتیاق ترے دن پھرے تو ہیں
کچھ اہتمام رونق مے خانہ ہے ضرور
ٹھنڈی ہوا چلی تو ہے بادل گھرے تو ہیں
لو اب تو آئی منزل جاناں سے بوئے خوش
کچھ ٹھوکریں لگی تو ہیں کانٹے چبھے تو ہیں
وہ کر کے اپنے چاہنے والوں کا قتل عام
اب کچھ پسیجنے تو لگے ہیں دبے تو ہیں
گلشن کی خیر ہو تو گوارا قفس ہمیں
اڑتی سی ہے خبر کہ نئے گل کھلے تو ہیں
تکفیر سے نہ جس کی بچا ایک رند بھی
اس زہد سے بھی مکر کے پردے اٹھے تو ہیں
اپنے نیاز مند کے صدق و صفا کو وہ
یوں مانتے نہیں ہیں مگر جانتے تو ہیں
پھر مسند قضا پہ ہوا ظلم جلوہ گر
تعزیر جرم عشق کے ساماں ہوئے تو ہیں
اس دور کے ظلام میں سورج بھی گم سہی
ساتھ اپنے داغ ہائے کہن کے دئے تو ہیں
——
ہم شاد رہے ناشاد رہے
بس آپ ہمیشہ یاد رہے
صیاد نشیمن لاکھ اجڑیں
پنجرا تو ترا آباد رہے
وہ تخت پہ بھی مجبور سے ہیں
زنداں میں بھی ہم آزاد رہے
تن قید میں ہو تو کیا پروا
اے قیدی من آزاد رہے
یہ آزادی کیا آزادی
جب گھات میں اک صیاد رہے
یوں محض کرم بھی ٹھیک نہیں
کچھ تھوڑی سی بیداد رہے
قانون قضا سے کون بچا
نمرود رہے شداد رہے
ہم رند پریشاں حال سہی
بس مے خانہ آباد رہے
——
کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے
اے کاش تماشا کرنے کو خود تو بھی کنار بام آئے
الفاظ نہ تھے آواز نہ تھی نامہ بھی نہ تھا قاصد بھی نہ تھا
ایسے بھی کئی پیغام گئے ایسے بھی کئی پیغام آئے
شب مے خانے کی محفل میں ارباب جفا کا ذکر چلا
چپ سنتے رہے ہم ڈرتے رہے تیرا بھی نہ ان میں نام آئے
ہم گرچہ فلک پرواز بھی ہیں اور تاروں کے ہم راز بھی ہیں
صیاد پہ آیا رحم ہمیں خود شوق سے زیر دام آئے
پھر لالہ و گل کی نگری سے اٹھلاتی ہوئی آئی ہے صبا
اے اہل قفس چپ چاپ سنو! پھولوں کے تمہیں پیغام آئے
یہ بات الگ ہے پاس رہا کچھ تشنہ لبی کی غیرت کا
ہم پر بھی رہا ساقی کا کرم ہم تک بھی بہت سے جام آئے
شب کتنی بوجھل بوجھل ہے ہم تنہا تنہا بیٹھے ہیں
ایسے میں تمہاری یاد آئی جس طرح کوئی الہام آئے
——
جہان نو
——
مجھے خدا نے خلافت کا شرف بخشا ہے
مرے ہی زیر نگیں اس جہاں کو رکھا ہے
مگر عجیب نظام جہاں کی حالت ہے
مرے ہی دوش پہ عالم کا بار خدمت ہے
مشقتیں ہی لکھی ہیں مرے مقدر میں
نہیں سکون کبھی میرے قلب مضطر میں
ہے قصد اب کہ کروں اک جہان نو آباد
رہوں تفکر فردا و دوش سے آزاد
جہاں کہ کشمکش زیست کا نشاں نہ ہو
حیات صبر و مشقت کا امتحان نہ ہو
یہ سر زمیں یہ سمندر یہ آسمان نہ ہو
درون دام قفس میرا آشیان نہ ہو
جہاں کہ غم کی گھٹا روح پہ نہ چھانے پائے
جمود عالم احساس پر نہ آنے پائے
جہاں کہ نور رہے میرے دل کی بستی میں
شباب و شعر کے جلوے ہوں میری ہستی میں
وہاں میں دل کی امنگوں کے گیت گاؤں گا
وہاں میں حسن کو اپنا خدا بناؤں گا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ