آج معروف شاعر رؤف رضا کا یوم پیدائش ہے

——
رؤف رضا : شہر ادب کا ایک سپاہی چلا گیا از محمد اویس سنبھلی
——
میرے کرم فرما محترم اقبال اشہر صاحب نے مجھے ان سے متعارف کرایا۔اور اسی تعارف کی بناپر راقم الحروف کی ان سے ملاقاتیں نہیں بلکہ صرف ابھی ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔ گذشتہ ۱۹؍نومبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی اور شعبۂ اردو کے اشتراک سے ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں کنوینر کی ذمہ داری ان ناتواں کاندھوں پر تھی۔ الحمد اللہ مشاعرہ پروفیسر شہپر رسول صاحب اور میرے بہت پیارے دوست اقبال اشہر صاحب کی سرپرستی اور احساس فاؤنڈیشن کے ۱۵؍والینٹرس کی وجہ سے بہت کامیاب رہا۔اسی مشاعرہ کے توسط سے رؤف رضا سے میری پہلی اور افسوس کے آخری ملاقات ہوئی۔گذشتہ ۲؍دسمبر صبح آٹھ بجے انھوں نے رخت سفر باندھ لیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔اس دنیا میں آنے والے جانے کے لئے ہی آئے ہیں۔اب تک نہ ہی کوئی جانے والوں کو روک سکا ہے اورنہ ہی چند لمحوں کے لئے سفرآخرت موقوف کرنے پر آمادہ کرسکا۔روز اول سے یہی نظام چلا آرہا ہے کہ ہر ذی روح کو وقت مقررہ پر عالم ارواح سے عا لم خاکی کا سفر طے کرنا ہے۔بس باری کا انتظار ہے
——
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
——
۲؍دسمبرکی صبح رؤف رضا کی دیر سے آنکھ کھلی ، تقریباً ۷؍بجے فجر کی قضا نماز پڑھی۔ گھبراہٹ اور متلاہٹ شروع ہوئی، قے ہوئی، جب تک ڈاکٹر کے یہاں جانے کا نمبر آتا ، تارِ نفس ٹوٹ گیا۔فیس بک اور واٹس اپ پرمختلف ذرائع سے رؤف رضا کے انتقال کی خبریں اور تعزیتی پیغامات گشت کرنے لگے۔محترمہ وسیم راشد صاحبہ نے یہ لکھتے ہوئے خبر پوسٹ کی کہ’’دبستان دہلی کی روایتوں کے امین رؤف رضا اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ لکھنا کتنا افسوسناک ہے۔ یقین نہیں ہورہا ہے کہ ابھی دو ہفتے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ایک مشاعرہ ہم نے ساتھ پڑھا ۔ ہم دونوں ساتھ بیٹھے ہوئے تھے‘‘۔ معروف نغمہ نگار و شاعرشکیل اعظمی نے لکھا: یار! رؤف رضا جانے میں اتنی جلدی کیوں کردی۔ ابھی تو ہم اپنی کتاب ترتیب دے رہے تھے۔ تمہارے جانے کا دکھ دیرتک رہے گا بھائی۔ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے
——
جانے والے ہمیں قصہ تو سناتے پورا
یار! ایسے کہیں خاموش ہوا جاتا ہے
——
سرزمین کشمیر کے معتبر شاعر لیاقت جعفری نے لکھا: ’’رؤف رضا آپ ایسے کیسے جاسکتے ہیں…..پرسوں ہی تو آپ نے وعدہ لیا تھا کہ شکیل جمالی کی کتاب کے اجراء کے روز ملتے ہیں…..ایسے تھوڑی ہوتا ہے….بہت دکھ دیا یار….ہلا کے رکھ دیا۔ دو چار ملاقاتیں تو ہی تھیں اب تک۔ ابھی تو بہت دن یوں ہی چلنا تھا۔ محسوس بھی نہیں ہونے دیا آپ نے کبھی کہ آپ سفر تھامنے کو ہیں
——
چلتے چلتے مرجاتے ہیں
یار مصیبت کرجاتے ہیں
——
معروف شاعر خمار دہلوی نے لکھا ’’ایک سچا دوست،مشہور و معروف شاعررؤف رضا دنیا کوخیرباد کہہ گیا۔ اللہ مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔
——
دیتا رہا جو سچی گواہی چلا گیا
شہرادب کا ایک سپاہی چلاگیا
——
جاوید قمر نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا:’’الوداع بھائی ر ؤف رضا۔کل رات آپ ۱۱؍بجے تک میرے ساتھ تھے، اور اچانک جاکرآپ نے اس شعر کو سچ کردیا
——
یونہی ہنستے ہوئے چھوڑیں گے غزل کی دنیا
چار آنسوں سے زیادہ کوئی رونے کا نہیں
——
رؤف بھائی ہم آپ کے لئے تمام عمر روتے رہیں گے۔‘‘
ان کے انتقال کی خبر سننے کے بعد میں نے جب ان کی بیماری کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ جناب رؤف رضا حضرت دل کے مریض تھے۔اگر مجھ سے ان کی حیات میں کوئی یہ بتاتا تو میں کہتا کہ آخر وہ کون سا شاعر ہے جو اس مرض میں مبتلا نہیں۔ لیکن ان کے اچانک چلے جانے سے نہ صرف چراغ فکر وفن بجھا بلکہ ادبی راہیں کچھ وقت کے لئے سونی ہوگئیں۔وہ نرم لہجہ کہیں کھو گیا جو رؤف رضا کے نام سے زندہ تھااور ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ ان کا ایک شعر ہے
——
مہربانوں مری آواز ذرا دھیمی ہے
میں بہت چیخنے والوں میں اُٹھا بیٹھا ہوں
——
دبستان دہلی کے معتبر شعراء میں رؤف رضا کا شمار ہوتا ہے۔ وہ ادبی نزاکتوں اور اس راہ کے رموز سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان کے برتنے کا ہنر بھی انھیں خوب آتا تھا۔میری اور ان کی تو صرف ایک ملاقات تھی لیکن یہ ملاقات زندگی بھر یاد رہے گی۔ کیسی محبت سے ملے تھے وہ!۔مشاعرہ کی کامیابی پر مبارکباد بھی دی، بڑے ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے پیٹھ بھی تھپتھپائی۔ انتہائی خوش اخلاق، خوش مزاج ۔چہرے اور ان کی گفتگو سے کہیں سے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ دل کی بیماری میں گرفتار ہیں۔شاداب چہرہ، ہونٹوں پر مسکراہٹ، باتوں میں شوخی ۔ ارادہ تھا کہ اگلی مرتبہ اگر دہلی کا سفر ہوا تو اقبال ا شہر ، رؤف رضا اور شاہد انجم صاحبان کے ساتھ ایک نشست ضرور رکھی جائے گی۔لیکن اچانک رؤف رضا کے انتقال کی خبر نے ہلاکررکھ دیا۔جی بیٹھا جارہا ہے، اُن سے ہوئی ملاقات اور ڈھیرساری باتیں یاد آرہی ہیں۔یوں تو
——
رہنے کو صد ا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
——
بیسویں صدی کے شعرائے دہلی جلداول میں رؤف رضا کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف کالم نویس عظیم اخترلکھتے ہیں:
’’۱۹۷۰ء کے بعد دہلی کے تنگ گلی کوچوں سے نوجوان شاعروں کی ایک نئی نسل ابھری ہے، جس کے لہجے کی تروتازگی اورشعری تیور دیکھ کریہ احساس قوی ہوجاتا ہے کہ ان نوجوان شاعروں کے جلو میں خوبصورت، متاثرکن اور بڑی شاعری کا سورج طلوع ہورہا ہے۔ رؤف رضا اسی نسل کا ایک خاموش طبع اور س سنجیدہ مزاج شاعر ہے جو اسی شہر کے ادبی منظر نامے پر بڑی سبک خرامی سے ابھرا ہے اور جس کے لہجے کی تازگی نے یہاں کے ادبی حلقوں کومتاثر کیا ہے۔
رؤف رضا جن کا خاندانی نام عبدالرؤف صدیقی ہے ۱۸؍اپریل۱۹۵۴ء کو پیداہوئے۔ان کے والد عبدالرشید صدیقی کو شعر و ادب سے کوئی علاقہ نہیں تھالیکن ان کی والدہ کوشعر و شاعری اورخاص طور پر نعتیہ شاعری سے کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے رؤف کے ہی شعرسے آشنا ہوچکے تھے۔یہ آشنائی شعر گوئی کی شکل میں ڈھل گئی۔ ابتداء میں اسکول کے ہم سبق لڑکوں کو دکھانے کے لئے مصرعے کرتے اور شعر کہتے لیکن ۱۹۷۵ء میں سنجیدگی کے ساتھ شاعری شروع کی اور ڈاکٹر افتحار امام احمد علوی مرحوم کا تلمذ اختیار کیا۔ افتخار ا حمد علوی مرحوم ایک اسکول میں مدرس تھے اور فن عروض پر دسترس رکھتے تھے۔رؤف رضا کاروباری انسان بھی ہیں اور ہرذی شعور انسان کی طرح کاروبارکو دوسرے تمام معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رؤف رضا نے شاعری کوشہرت کا ذریعہ نہیں بنایایادوسرے لفظوں میں اپنے لہجے کی تازگی اور متاثر کن شاعری کا استحصال نہیں کیا بلکہ بڑی خاموشی کے ساتھ شعروادب کی خدمت میں مصروف ہیں (تھے)۔دستکیں میری رؤف رضا کا شعری مجموعہ ہے ۔
رؤف رضا نے وہ شہرت اور ناموری تو حاصل نہیں کی جس کے وہ بجاطور پر حق دار تھے ، مگر جیسا کے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ وہ اپنی ذات، اپنی حدود اور اپنے دائرہ میں رہ کر زندگی گذارنے کے عادی تھے، اس لئے وہ سب کچھ نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا۔
موت برحق ہے آئے گی ایک دن ضرور آئے گی۔ لیکن کیا معلوم تھا کہ رؤف رضا اتنی جلدی اس حقیقت کا حصہ بن جائیں گے۔قضا آئی اور ہمارے درمیان سے انھیں اُٹھا لے گئی۔اب وہ اپنے رب کے حضور ہیں۔ہم ان کی مغفرت کے لئے دعاگو ہیں۔لیکن ایک بات کہنا چاہتے ہیں! رؤف بھائی وہ لوگ جو آپ کے مداح تھے ، آپ کو ،آپ کی شاعری کو پسند کرتے تھے ہمیشہ آپ کو آواز دیں گے ، آپ کو یاد کریں گے۔
——
منتخب کلام
——
تجھ کو تو میرے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں
اک شام میرے شہر میں آ کر گزار لے
——
گلے ملیں گے نئے زاویوں سے سوچیں گے
گرہ کھلے گی لہو سے گلاب بہتر ہے
——
بوندیں شبنم کی
جیسے لب پر کوئی بات
پہلے موسم کی
——
یہ شجر کسی بھی دن روشنی کا پھل دے گا
شاخ شاخ سجدہ ہے دیکھنے میں چھوٹا ہے
——
چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی اتنا سجا کر لکھتے ہو
ایسے ہی تحریر رہی تو بازاری ہو جاؤ گے
——
غضب تو یہ ہے کہ اس سے نگاہ ملتے ہی
میں اپنے جسم کی بستی میں لوٹ آتا ہوں
——
تم بھی اس سوکھتے تالاب کا چہرہ دیکھو
اور پھر میری طرح خواب میں دریا دیکھو
اب یہ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے پھرتے رہو
میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے اتنا دیکھو
روشنی اپنی طرف آتی ہوئی لگتی ہے
تم کسی روز مرے شہر کا چہرہ دیکھو
حضرتِ خضر تو اس راہ میں ملنے سے رہے
میری مانو تو کسی پیڑ کا سایا دیکھو
لوگ مصروف ہیں موسم کی خریداری میں
گھر چلے جاؤ بھاؤ غزل کا دیکھو
——
جو بھی کچھ اچھا برا ہونا ہے جلدی ہوجائے
شہر جاگے یا مری نیند ہی گہری ہو جائے
یار اُکتائے ہوئے رہتے ہیں ایسا کر لو
آج کی شام کوئی جھوٹی کہانی ہو جائے
یوں بھی ہو جائے کہ برتا ہوا رستہ نہ ملے
کوئی شب لوٹ کے گھر جانا ضروری ہو جائے
یاد آئے تو بلدنے لگے گھر کی صورت
طاق میں جلتی ہوئی رات پرانی ہو جائے
ہم سے کیا پوچھتے ہو شہر کے بارے میں رضاؔ
بس کوئی بھیڑ جو گونگی کبھی بہری ہو جائے
——
یہ بھی پڑھیں : اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا
——
ہر موسم میں مجبوری ہو جاؤ گے
اتنا اس کو یاد کیا تو پتھر بھی ہو جاؤ گے
ہنستے بھی ہو روتے تلک تو ایسا ہے
جب یہ موسم ساتھ نہ دیں گے تصویری ہو جاؤ گے
ہر آنے جانے والے سے گھر کا رستہ پوچھتے ہو
خود کو دھوکا دیتے دیتے بے گھر بھی ہو جاؤ گے
جینا مرنا کیا ہوتا ہے ہم تو اس دن پوچھیں گے
جس مٹی کے ہاتھوں کی تم مہندی ہو جاؤ گے
——
میں نے سب کے لئے جنت مانگی
اپنی حسرت کو دعا دیتا ہوں
ایک نیا رنگ بنانے کے لئے
سحر و شام ملا دیتا ہوں
ختم ہوتا نہیں پھولوں کا سفر
روز ایک شاخ ہلا دیتا ہوں
——
بس یہی سوچ کے لہجے میں خرابی لایا
تو سمجھ جائے تری بزم میں آ بیٹھا ہوں
موسم برگ و ثمر آ کے چلے جائیں گے
میں یہاں گوشۂ امکاں میں چھپا بیٹھا ہوں
کھیل ہی کھیل میں اک جسم بنا بیٹھا ہوں
اور اس جسم سے امید لگا بیٹھا ہوں
——
اسی بکھرے ہوئے لہجے پہ گزارے جاؤ
ورنہ ممکن ہے کہ چپ رہنے سے مارے جاؤ
ڈوبنا ہے تو چھلکتی ہوئی آنکھیں ڈھونڈھو
یا کسی ڈوبتے دریا کے کنارے جاؤ
وہ یہ کہتے ہیں صدا ہو تو تمہارے جیسی
اس کا مطلب تو یہی ہے کہ پکارے جاؤ
تم ہی کہتے تھے رضاؔ فرق دوئی ختم کرو
جاؤ اب اپنی ہی تصویر نہارے جاؤ