آج معروف شاعر فرتاش سید کا یومِ وفات ہے ۔

——
فرتاش سید کا اصل نام سید فضل حسین بخاری تھا، انہوں نے 15 اپریل 1967ء کو لڈن کے سادات گھرانے میں آنکھ کھولی۔
ان کے والد سید خادم حسین بخاری مرحوم بھی ایک ادب شناس اور اعلٰی شعری ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم لڈن سے ہی حاصل کی اس کے بعد گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج وہاڑی سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کرنے کے بعد سنہ 1992ء میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم – اے اردو اور 2008ء میں ایم فل اردو کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل
——
فرتاش سید بتاتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1992ء میں وہ دوحہ (قطر) کے پاک شمع سکول و کالج میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔
کچھ عرصہ کمشنر آفس راولپنڈی میں بطور انچارج کالونی برانچ بھی رہے لیکن درس و تدریس کا جنون کی حد تک شوق ہونے کی وجہ سے ایک سال کے عرصے میں ملازمت چھوڑ کر 1996ء میں دوبارہ دوحہ چلے گئے اور دوبارہ اسی شعبے سے منسلک ہو گئے، ساہیوال میں دی ایشیا فاؤنڈیشن کے ٹی بی ڈاٹس پروگرام کے ضلعی رابطہ کار بھی رہے
——
تصانیف
——
ہر ورق پر اسی کا نام (شاعری/1992ء)
قضائے ادب(نصابی کتاب)
حاشیہ (غزلیات /2009ء)[5]
مجلس فروغ اردو ادب کی ادبی خدمات(مقالہ ایم فل، طبع 2009)
بس امن چاہیے
مغربی پاکستان فیمل کورٹ ایکٹ اور صنفی تشدد
آخر کب تک
جدید اردو غزل، خال و حد
——
وفات
——
18 اپریل 2021ء کو بوجہ کورونا وائرس وفات پاگئے ، لڈن میں تدفین ہوئی،
——
ڈاکٹر فرتاش سید کی تخلیقی اور تنقیدی دنیا کی کئی جہات ہیں مگر وہ بنیادی طور پہ شاعر ہیں اور وہ بھی غزل کے شاعر ۔
اگرچہ فرتاش سید نے کچھ اور اصنافِ شعر میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ ان کے تخلیقی مزاج کو جو طبعی مناسبت غزل سے ہے وہ ہائیکو یا نظم کی دیگر صورتوں سے نہیں یہاں تک کہ سلام و منقبت ورثاء کے لیے بھی وہ غزل کے تخلیقی پیمانے کو ہی استعمال کرتے ہیں ۔
یہی سبب ہے کہ جب وہ وادیٔ تنقید میں اترتے ہیں تو غزل کو ہی انتخاب کرتے ہیں اور اسی صنف پر بامعنی تنقید لکھتے ہیں ۔
فرتاش سید نے جدید اردو غزل کا مطالعہ اس کی موضوعاتی دنیا کےحوالے سے کرنے کی بجائے اس عنوان سے تخلیق کیے جانے والے سرمائے کا جائزہ اس تناظر میں لیا ہے کہ جدید شاعروں نے اس صنف میں کیسے کیسے فنی و شعری وسیلے استعمال کیے اور فن کی دنیا میں کیا کیا جادو جگائے ۔
انہوں نے اقبالؔ ، فراقؔ ، فیضؔ ، ناصرؔ ، منیرؔ ، فرازؔ ، جونؔ اور دیگر جدید شعراء کے کلام کا اس طور تجزیہ کیا ہے کہ جس کے لیے اس صنف کے تخلیقی مزاج سے گہری اور تخلیقی آشنائی ضروری تھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : بُروں سے بُرا ہوں کرم کیجیے گا
——
فرتاش سید نے بہت سہولت اور آسانی سے اُن شاعروں کی تخلیقی واردات کا فنی جائزہ لیا ہے اور جدید غزل کو کلاسیکی غزل کے ہم پلہ کھڑا کر کے یہ دکھایا ہے کہ جدید غزل نے تخلیقی توانائی اور حسن کو محض موضوع کے بیان پر قربان نہیں کیا بلکہ تمام تر تخلیقی حسن کے ساتھ جدید موضوعات کو بیان کیا ہے ۔
——
پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد ، صدر شعبۂ اردو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
کتاب : جدید اردو غزل کی شعریات ، نمایاں خال و خد
——
منتخب کلام
——
چشمِ کشیدہ دیکھ ادھر ، میں کہ بہت جوان تھا
مجھ کو فراق کھا گیا ، مجھ کو شراب پی گئی
——
مری عمر کی جو کتاب تھی وہ نصاب تھی
وہ جو چند آخری باب تھے مجھے کھا گئے
——
بزم دنیا سے چلوں ایسا نہ ہو سب مرے یار
ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ کے جانے لگ جائیں
——
دورِ باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے ، سَر نہیں رہتے
——
حادثے کی ہمیں خبر ہی نہیں
خیر ، ناگاہ ہو گیا ہو گا
حالتِ حال دیکھ کر وہ بھی
تیرے ہمراہ ہو گیا ہو گا
——
رنگ و خوشبو کا کہیں کوئی کرے ذکر تو بات
گھوم پھر کر تری پوشاک پہ آ جاتی ہے
——
گلی کا پتھر تھا مجھ میں آیا بگاڑ ایسا
میں ٹھوکریں کھا کے ہو گیا ہوں پہاڑ ایسا
——
غزالِ زیست کے رم اس کو یاد کرتے ہیں
اسے بتاؤ کہ ہم اس کو یاد کرتے ہیں
——
دیارِ عشق میں کوئی بھی روک ٹوک نہیں
خوش آمدید جو آئے ، جوجائے بسم اللہ
——
نخل ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا میں تو مارا گیا
عرش سے فرش پر کیوں اتارا گیا میں تو مارا گیا
جو پڑھا تھا کتابوں میں وہ اور تھا زندگی اور ہے
میرا ایمان سارے کا سارا گیا میں تو مارا گیا
غم گلے پڑ گیا زندگی بجھ گئی عقل جاتی رہی
عشق کے کھیل میں کیا تمہارا گیا میں تو مارا گیا
مجھ کو گھیرا ہے طوفان نے اس قدر کچھ نہ آئے نظر
میری کشتی گئی یا کنارہ گیا میں تو مارا گیا
مجھ کو تو ہی بتا دست و بازو مرے کھو گئے ہیں کہاں
اے محبت مرا ہر سہارا گیا میں تو مارا گیا
عشق چلتا بنا شاعری ہو چکی مے میسر نہیں
میں تو مارا گیا میں تو مارا گیا میں تو مارا گیا
مدعی بارگاہ محبت میں فرتاشؔ تھے اور بھی
میرا ہی نام لیکن پکارا گیا میں تو مارا گیا
——
سر پہ حرف آتا ہے دستار پہ حرف آتا ہے
تنگ ہوں لوگ تو سردار پہ حرف آتا ہے
ویسے تو میں بھی بھلا سکتا ہوں تجھ کو لیکن
عشق ہوں سو مرے کردار پہ حرف آتا ہے
گھر کی جب بات نکل جاتی ہے گھر سے باہر
در پہ حرف آتا ہے دیوار پہ حرف آتا ہے
کتنا بے بس ہوں کہ خاموش مجھے رہنا ہے
بولتا ہوں تو مرے یار پہ حرف آتا ہے
چپ جو رہتا ہوں تو ہوں برسر محفل مجرم
عرض کرتا ہوں تو سرکار پہ حرف آتا ہے
شکوۂ جور و جفا لب پہ اگر آ جائے
دل پہ حرف آتا ہے دل دار پہ حرف آتا ہے
——
صف ماتم پہ جو ہم ناچنے گانے لگ جائیں
گردش وقت! ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
وہ تو وہ اس کی معیت میں گزارا ہوا پل
جو بھلائیں تو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
مرے قادر! جو تو چاہے تو یہ ممکن ہو جائے
رفتگاں شہر عدم سے یہاں آنے لگ جائیں
بزم دنیا سے چلوں ایسا نہ ہو سب مرے یار
ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ کے جانے لگ جائیں
خواہش وصل! ترا کیا ہو جو ہم سال بہ سال
عشرۂ سوز غم ہجر منانے لگ جائیں
ہم سمجھ پائے نہ فرتاشؔ مزاج خوباں
دل چرائیں تو کبھی آنکھیں چرانے لگ جائیں
——
در فقیر پہ جو آئے وہ دعا لے جائے
دوائے درد کوئی درد لا دوا لے جائے
وصال یار کی اب صرف ایک صورت ہے
ہماری خاک اڑا کر وہاں ہوا لے جائے
تو جان جائے مرا دکھ جو تیرے پہلو سے
کوئی بھی آئے ترے دوست کو اٹھا لے جائے
کسی جزیرۂ نادیدہ کی طلب تھی ہمیں
اب اس پہ ہے کہ جہاں ہم کو ناخدا لے جائے
زمانہ ساز ہے فرتاشؔ اس کے کیا کہنے
کہ خود ہی قتل کرے اور خوں بہا لے جائے