اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر ثروت حسین کا یوم وفات ہے ۔

ثروت حسین(پیدائش: 9 نومبر 1949ء – وفات: 9 ستمبر 1996ء)
——
ثروت حسین پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔
ثروت حسین 9 نومبر، 1949ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد قیامِ پاکستان کے وقت بدایوں (انڈیا) سے ہجرت کرکے کراچی آ بسے تھے۔آپ سادات کے زیدی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول ملیر کینٹ ،کراچی سے حاصل کی۔ علامہ اقبال کالج ، ائیر پورٹ کراچی سے انٹر (1967ء) کیا۔آپ کوسکول کے زمانے ہی سے شاعری کا شوق تھا ، چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتے اورسکول کا قلمی رسالہ نکالا کرتے تھے۔ شاعری کاباقاعدہ آغازکالج سے ہوا، جہاں آپ نے شعروسخن کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا اورکئی انعامات اپنے نام کیے۔ اپنی شاعری کومقامی اورملکی سطح کے اخبارات و رسائل میں اشاعت کے لیے بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ جامعہ کراچی سے 1973ء میں ایم۔ اے اردو کی سند حاصل کی۔ اس دوران آپ کی شہرت کراچی کے ادبی حلقوں تک جا پہنچی تھی اور بین الکلیاتی مقابلوں کے علاوہ ادبی تقریبات ،مشاعروں اور ریڈیو پاکستان کراچی کے ادبی پروگراموں میں بھی مدعو کیا جانے لگا تھا۔ ثروت حسین زیدی نے عملی زندگی کا آغاز جامعہ ملیہ کالج ،کراچی میں بطور لیکچرر کیا۔ 1976ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ 1979ء میں آپ کی تعیناتی گورنمنٹ شاہ لطیف کالج قنبرعلی شاہ ،ضلع لاڑکانہ میں ہو گئی۔ بعد میں آپ کاتبادلہ مٹیاری کالج ،حیدرآباد کر دیا گیا۔زندگی کے اواخر میں آپ گورنمٹ ڈگری بوائز کالج ملیر ،کراچی میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ثروت حسین کا پہلا مجموعہ 1987ء میں ’’آدھے سیارے پر‘‘ لاہورسے شائع ہوا۔ انتقال کے ایک سال بعد آپ کا دوسرا مجموعہ’’ خاکدان ‘‘ جبکہ تیسرا مجموعہ ’’ایک کٹورا پانی کا‘‘ 2012ء میں اسلام آبادسے شائع ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ثروت حسین کا یوم پیدائش
——
2015ء آپ کی کلیات کراچی سے شائع کی گئی۔ثروت حسین کی شاعری نے ناصرف اردو غزل کو ایک نئے مزاج سے روشناس کرایا بلکہ اردو نظم میں ہونے والے نثری نظم کے تجربے کو بھی جلا بخشی، آج ہمیں شعرا کی بڑی تعداد خصوصاً نوجوان شعرا ثروت حسین کے اسلوب، لفظیات اور طرز کی تقلید کرتے ہیں ایک خوش گو شاعر تھے اور اپنا ایک جداگانہ اسلوب رکھتے تھے۔
ثروت حسین 9 ستمبر، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں ٹرین کے حادثے میں انتقال کر گئے۔ کراچی میں تدفین کی گئی، زاہد حسین بھٹی نے ان کی سوانح حیات بعنوان کاندھے پہ دھرے ساز کے عنوان سے کتابی شکل میں لکھی ۔
——
کرنوں کی میزبانی: ثروت حسین کی شاعری از سلیم سہیل
——
ثروت حسین مختلف شاعر ہے۔ ہمارے ہاں مختلف ہونا عام طور پر متضاد ہونا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مختلف، متضاد کا مترادف ہرگز نہیں۔ ہم جب مختلف کلام پر غور نہیں کرتے تو اُسے مشکل کَہ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں کیوں کہ وہ کلام قرأت میں ہم سے محنت کا تقاضا کر رہا ہوتا ہے۔ جب اُس کے مطلوبہ ہم گزاری نہیں کی جاتی تو قاری اُس نرول جذباتی احساس سے اپنے دامن کو بھر نہیں سکتا اور کاسۂ طلب خالی رہتا ہے۔
ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے
——
جوتوں کی جوڑی سے
یا قبر سے جو بارشوں میں بیٹھ گئی
یا اُس پھول سے جو قبر کی پائنتی پر کھِلا
ہر ایک کو کہیں نہ کہیں پناہ مل گئی
چیونٹیوں کو جاے نماز کے نیچے
اور لڑکیوں کو میری آواز میں
مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری نے گھر بنا لیا ہے
——
اس طرح یہ نظم چلتی رہتی ہے۔ پہلی قرأت میں آدمی سوچتا ہے کہ شاعر متنوع عناصر کی یک جائی سے ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے۔ کس دنیا کی سیر مطلوب ہے۔ بظاہر جوتوں کی جوڑی، قبر کی پائنتی پر کھلنے والا پھول، چیونٹیوں کو جاے نماز اور لڑکیوں کو شاعر کی آواز میں پناہ کا ملنا، مردہ بیل کی کھوپڑی میں گلہری کا گھر متصادم مظاہر ہیں۔ ایک مظہر دوسرے سے نہیں ملتا مگر جب ہم اسے تخلیقی عمل میں تنوع اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے پڑھیں گے تو یہ نظم ہم پر آئینہ ہو جائے گی اور شعر کے موضوع اور تخاطب میں سما جانے والے مظاہر ہمیں اس وظیفے کی کاملیت کے قریب لے جائیں گے۔
ثروت کی شاعری دنیا کو خوبصورت دیکھنے کی ایک خواہش کا نام ہے۔ وہ دنیا میں موجود ہر مظہر سے محبت کرتا ہے۔ اُس کے پاس ایسی سیربین ہے جس میں کائنات میں موجود ہر مظہر کو دکھانے کی طاقت ہے۔ ایک نظم کا عنوان ہے ۔
درخت، میرے دوست
——
تم پُروقار اور سادہ ہو
میرے تھیلے کو جاننا چاہتے ہو
ضرور یہ لو میں اسے کھولتا ہوں
روٹیاں، دعائیں اور نظمیں
روٹی: تمھاری چیونٹیوں کے لیے
دعا: تمھارے آخری دن کے لیے
——
فطرت سے محبت کی ایسی مثال کم دیکھنے میں آتی ہے۔ آپ ثروت کی پہلی کتاب ’’آدھے سیارے پر‘‘ میں موجود اِس نظم کو پڑھیں۔ آپ کو جینا اچھا لگے گا۔ آج جب انسان کے لیے انسان کا احترام بھاری ہوگیا ہے ایسے میں ایک شاعر اپنے تھیلے میں درخت کے تنے پر موجود چیونٹیوں کے رزق سے متعلق فکرمند ہے۔ جب سے ہمارے ہاں سے اِس نوع کی شاعری کا چلن رخصت ہوا ہے، ہم زیادہ بے رحم ہوگئے ہیں۔ روٹی کی جگہ بارُود نے لے لی اور دُعا کی جگہ دغا ہمارا وتیرہ بن گیا۔ یہ سب کچھ ہمیں شاعری سے دُوری کی بددُعا کے طور پر حاصل ہوا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : غریبوں کی جو ثروت ہیں ، ضعیفوں کی جو قوت ہیں
——
اقوامِ عالم اگر آج بھی انسان سے اس طرح محبت کرے، جس طرح ثروت درخت سے محبت کرتا ہے تو دنیا کے جملہ ممالک ایٹم بم پھینک کر گندم کو اُگانے اور پانی کو محفوظ کرنے کی سبیل پیدا کر سکتے ہیں۔ ثروت کی شاعری انسانیت کو جوڑنے والی شاعری ہے۔ نفاق نام کو نہیں۔ ثروت کے پاس چیزوں سے محبت کرنے سے فرصت ہو تو وہ نفرت کے لیے وقت نکالے۔
——
بارشوں میں
ٹہنیاں بادل نہ ہو جائیں کہیں
بستیاں اوجھل نہ ہوجائیں کہیں
لڑکیاں پاگل نہ ہوجائیں کہیں
——
یہاں اس جگہ اس نظم میں کوئی مابعد جدید مفکر لڑکیوں کے پاگل ہونے کے معانی سچ مچ کا پاگل ہونا سمجھ کر ثروت کو نسوانی احترام سے عاری فرد قرار دے سکتا ہے مگر یہاں معاملہ نشاط کی ایک لہر سے ہے۔ ایک بے خودی جو ابر کے برسنے سے کائنات کی ہر چیز پر طاری ہو جاتی ہے۔
ثروت فطرت کا حدی خواں ہے۔ وہ انسان کو بھی مظاہر کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ اُس کے نزدیک انسان الگ سے کوئی شے نہیں بلکہ دنیا میں موجود دیگر چیزوں کی طرح سانس لینے والا ایک مظہر ہے۔ اِس مظہر سے ثروت توقع رکھتا ہے کہ وہ صلہ رحمی اختیار کرے جس کے طفیل اُس کا کائنات میں مختصر سا قیام پُر امن اور بامعنی ہو اور اِس کے لیے ثروت محبت کا اسمِ اعظم تجویز کرتا ہے۔
——
وصال
خوشبو کی آواز سنی
غنچۂ لب کے کھِلتے ہی
پانی پر کچھ نقش بنے
پرتوِ شاخ کے ہِلتے ہی
ساری باتیں بھول گئے
اُس سے آنکھیں مِلتے ہی
چاہت
آدمی، پیڑ اور مکان
صاف نیلا آسمان
سنگ ریزے اور گلاب
سب کے سب اچھے لگے
اُس کے گھر جاتے ہوئے
یہ گیت تمھارا گھر
آنکھوں سے زیادہ گہرا
کرنوں سے گرم سنہرا
آوازوں سے تروتازہ
تاروں سا بے اندازہ
یہ گیت ، تمھارا گھر ہے
——
محبت کی شاعری ایسے بھی کی جا سکتی ہے۔ سراپا نگاری میں بے پیرہنی اور سب کچھ ہوگا، شعر نہیں ہوتا۔ یہ کام ہی پردہ داری کا ہے۔ ایک نیم وا در ہے جس کی اوٹ سے ابلاغ کی دنیا کو رنگوں اور روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے۔ شاعری میں محبوب کے نقش ایسے نہیں تراشنے چاہییں جیسے کوئی بیوپاری اپنے مال کی خوبیاں بیان کرتا ہے مگر یہ سلیقہ کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ثروت جیسے شاعر اپنے دھیان میں دنیا دیکھتے ہیں۔ دنیا جسے ثروت نے چھوڑ دیا۔ وجود جسے وہ رزم گہ کہتا تھا، اس سے اپنی جان چھڑا لی۔ آٹھ کروڑ مسخروں سے دور چلا گیا۔ (اُس وقت ہماری آبادی آٹھ کروڑ تھی، یہ 1981ء کی بات ہے جس میں مردم شماری کے مطابق کل آبادی غالباً آٹھ کروڑ چھتیس لاکھ تھی جو آج اکیس کروڑ ستر لاکھ تک جا پہنچی ہے) کتنا کرب ہے ثروت کی موت میں! اس کرب کی پرچھائیاں اُس کی غزلوں سے ملتی ہیں۔
——
سینے میں آگ جہنم سی
اور جھونکے باغِ اِرم ایسے
رزم گہِ وجود میں آنکھ نہیں جھپک سکا
یورشِ بادِ واپسیں مجھ پہ چہار سُو سے ہے
——
یہ بھی پڑھیں : انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا
——
آپ تصور کریں کوئی کتنے کرب سے گزرا ہوگا جب اُس نے یہ شعر کہے ہوں گے۔ شعر پڑھنے کی تہذیب ہی یہ ہے کہ آپ کچھ وقت کے لیے موجود چھوڑ کر شاعر کی دکھائی ہوئی دنیا میں چلے جائیں، وہاں آپ کو وہ کچھ ملے گا جو آپ کو نہال کر دے گا مگر یہ آئینہ صفت کلام ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ محمد سلیم الرحمٰن نے، جو ثروت حسین کے پہلے پہلے گواہوں میں سے ایک ہیں، ثروت کی کتاب ’’آدھے سیارے پر‘‘ کے پس ورق پر لکھا تھا:
’’اس مجموعے کے لفظوں اور خیالوں میں ایک ستھری چمک ہے۔ جیسے انھیں دیر تک دھویا اور دھوپ میں رکھا گیا ہو۔ اس سے بوئے طفلی آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے اِس شاعری کا گردوپیش ابھی ابھی تخلیق کیا گیا ہے اور شاعر اس کے رنگوں کی تازگی اور کوری باس کو لفظوں میں اتارنا چاہتا ہے۔ عقلیت اور دانشوری کا سکہ یہاں نہیں چلتا۔ ثروت کی شاعری احساس او ر جذبے کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ بھلا سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر، پیار کون کرتا ہے؟‘‘
عاقل اور دانش ور اِس رائے پر بھی دانش وری دکھانے سے باز نہ آئے اور اپنی پہچان کروا کر رہے۔ کہا کہ بوئے طفلی سے محمد سلیم الرحمٰن کا اشارہ ثروت کی شاعری کے بچگانہ پن کی طرف ہے۔ لاحول ولا قوۃ، یہاں اشارہ اُس خوشبو کی طرف تھا جو وقتِ ولادت بطنِ مادر سے جدا ہوتے ہی بچے کے جسم سے نمودار ہوتی ہے۔ اور یہاں اصطلاحی معنوں میں مراد ثروت کی تشبیہات، استعارات، تلازمات کے نئے پن کی طرف تھا۔ اِن سب شعری لوازموں میں نیا پن ہے جو ہاتف کی طرف سے ثروت کو دان ہوا ہے۔
——
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
جب درخت خاموش تھے
اور بادل شور کر رہے تھے
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
جب عورتیں آگ روشن کر رہی تھیں
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
جب میدان سے ایک بچے کا جنازہ گزر رہا تھا
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
جب لوگ عبادت گاہوں کی طرف جا رہے تھے
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
جب دنیا میں ہر شخص کے پاس ایک نہ ایک کام تھا
میں تمھیں یاد کر رہا تھا
——
یاد کے قیدیوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ کوئی ایک نام، لمحہ، منظر، مکالمہ، پیکر ایسے دل کے حجرے میں آن بیٹھتا ہے کہ سارہ شگفتہ، شکیب جلالی، شبیر شاہد، ثروت حسین کی طرح پاؤں زمین پر نہیں لگتے اور یاد کا اِکتارا بجتے ہی بستی چھوڑ دل ویرانہ اختیار کرتا ہے۔ آخر اس طرح کے شعر یوں ہی نہیں لکھے جاتے:
——
پھولوں سے بھرے کنج تو اک خواب ہی ٹھہرے
یہ سایۂ دیوارِ خزاں ہے مگر اپنا
——
آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے
گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی
——
لڑکی کوئی گھاٹ پر کھڑی تھی
پانی پہ چراغ جل رہا تھا
——
کسی کے شہر میں مانندِ برگِ آوارہ
پھرے ہیں کوچہ بہ کوچہ ہم اپنے خواب لیے
——
دل میں رکھ لو کوئی کرن ثروت
اور تا صبح میزبان رہو
——
یہ بھی پڑھیں : وہ روشنی ہے علیؓ کی گھر میں فلک سے جو نور بہہ رہا ہے
——
کرن کی اس میزبانی نے ’’آدھے سیارے پر‘‘، ’’خاکدان‘‘ اور ’’ایک کٹورا پانی کا‘‘ کی نظم، غزل، وائی، کافی اور نعت کو اتنا ثمر آور کردیا ہے کہ اس سے کتنی تنہائیاں آباد ہورہی ہیں۔ ’’آج ‘‘ کراچی نے ساری تنہائیاں ایک جگہ اکٹھی کر کے چھاپ دی ہیں۔ ثروت مرا نہیں۔ وہ کائنات کو لفظ کی تکریم سے روشناس کروانا چاہتا تھا۔ جو لوگ لفظ سے محبت کرتے ہیں، لفظ کی سچائی انھیں مرنے نہیں دیتی۔
——
منتخب کلام
——
سورما جس کے کناروں سے پلٹ آتے ہیں
میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں
——
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
——
پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر
اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی
——
مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے
ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا
——
میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے
بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر
——
آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام
یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر
——
یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں
مجھے صبر نے یہ ثمر دیا مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا
——
جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں
پھر سے ہو گیا شامل زندگی کے دھارے میں
اسم بھول بیٹھے ہم جسم بھول بیٹھے ہم
وہ ہمیں ملی یارو رات اک ستارے میں
اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں
تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں
میں نے دس برس پہلے جس کا نام رکھا تھا
کام کر رہی ہوگی جانے کس ادارے میں
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
——
گھر سے نکلا تو ملاقات ہوئی پانی سے
کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے
خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجئے
کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے
سامنے اور ہی دیوار و شجر پاتا ہوں
جاگ اٹھتا ہوں اگر خواب جہاں بانی سے
عمر کا کوہ گراں اور شب و روز مرے
یہ وہ پتھر ہے جو کٹتا نہیں آسانی سے
شام تھی اور شفق پھوٹ رہی تھی ثروتؔ
ایک رقاصہ کی جلتی ہوئی پیشانی سے
——
بارشوں میں
ٹہنیاں بادل نہ ہو جائیں کہیں
بستیاں اوجھل نہ ہو جائیں کہیں
لڑکیاں پاگل نہ ہو جائیں کہیں
——
نظم
مری موجودگی کا پھول پانی پر کِھلا ہے
سلطنت، صبحِ بہاراں کی
بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے
سبک رفتار
پیہم گھومتے پہیے
گراں خوابی سے جاگے ،
آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا
پیار کرتا
رقص فرماتا
ارے !
سورج نکل آیا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ