اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر شمیم کرہانی کا یوم وفات ہے

شمیم کرہانی (پیدائش: 8 جون 1913ء – وفات: 19 مارچ 1975ء)
——
شمیم کرہانی ایک ‘زمیندار’ خاندان میں سید محمد اختر اور امت الزہرہ کے ہاں 8 جون 1913 کو گاؤں ‘کرہان’ ضلع ماؤ، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ‘سید شمس الدین حیدر’ تھا۔ انہوں نے خود اپنے قلمی نام (تخلص) کے طور پر ‘شمیم کرہانی’ کا انتخاب کیا۔ بعد میں ان کا یہ قلمی نام اس قدر مشہور ہوا کہ ایک بار ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے ان کا نام پوچھا گیا تو انہیں اپنا اصل نام یاد کرنے کے لیے ایک لمحے کے لیے توقف کرنا پڑا! انہوں نے اپنی ثانوی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور ‘مولوی کامل منشی’ بھی کیا۔ اپنے پیشے کے لیے اس نے استاد بننے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے دیانند اینگلو ویدک اسکولس سسٹم، کمیی آواز اور اینگلو عربک اسکول (نئی دہلی) کے ساتھ کام کیا۔ وہ فارسی زبان کے عالم تھے۔ تاہم انہوں نے اپنی تمام شاعری اردو میں کی۔
——
شمیم کرہانی: شخصیت اور شاعری از محمد عمران
——
شمیم کرہانی کا پورا نام سید شمس الدین حیدر تھا۔شمیم ؔ ان کا تخلص تھا اور اترپردیش کے مؤ ضلع کے کَرہان گاؤں میں پیدا ہونے کی وجہ سے کرہانی لکھتے تھے۔ اپنے قلمی نام سے اس قدر مشہور تھے کہ ایک انٹرویو کے دوران خود بھی اپنا اصل نام یکلخت یاد نہیں کرسکے تھے۔ 8؍جون 1913ء کو ایک سادات زمیندار گھرانے میں ان کی ولادت ہوئی تھی۔ان کے والد ماجد کا نام سید محمد اختر اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ امتہ الزہرا تھا۔سیدہ کاظمی بانو سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ان کے فرزندان کے نام سلمان کرہانی ،مراد کرہانی و عابد کرہانی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساحر لدھیانوی کا یومِ پیدائش
——
انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں خاندانی طور طریقے سے حاصل کی ،اس کے بعد فیض آباد کے وثیقہ عربک اسکول میں داخلہ لیا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انہوں نے فارسی اور اردو زبان میں آنرس کیا تھا ۔ اور مولوی کامل منشی کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔
شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔محض آٹھ سال کی قلیل عمر میں شعر کہنا شروع کیاتھا۔اور یہ سلسلہ تادم مرگ باقی رہا۔ انہوں نے اپنے اس سفر میں کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو شاعرانہ صلاحیتیں عطا کی ہیں اور اس کا بھرپور استعمال کرناہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ شمیم کرہانی دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ انہوں نے خدا کی دی ہوئی اس امانت میں ذرہ برابر بھی خیانت نہیں کی ہے۔اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں انہوں نے انگریزوں کے تسلط کا زمانہ بہت ہی قریب سے دیکھا ، زور و جبر کی شدت کو محسوس کیا۔اور اس طرح وطن دوستی کا جذبہ اور انگریزوں سے بیزاری کا احساس ان کے خون میں شامل ہو گیااورشاعری کے سانچے میں ڈھلنے لگا ۔ان کی اس قسم کی متعدد نظمیں اور نغمے آزادی کی تحریک میں لکھنؤ اور بنارس جیسے شہروں میں ’پربھات پھیریوں‘ میں گائے جانے لگے۔رفتہ رفتہ ان کا شہرہ بنارس اور لکھنؤسے باہر بھی پہنچا اور ان کی نظمیں خواص و عوام میں یکساں طور پر مقبول ہونے لگیں اور سب کو یکساں طور پر متاثر بھی کرنے لگیں۔
شمیم کرہانی نے ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی ۔ 1942 ء کی انگریزو بھارت چھوڑو تحریک کے دوران وہ روزانہ ایک باغیانہ نظم لکھ لیتے تھے ۔اس دوران لکھی گئیں ان کی نظمیں ’روشن اندھیرا‘ نام کے شعری مجوعہ میں شائع ہوئی ہیں۔ 1948ء میں جب مہاتما گاندھی کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو انہوں نے تاریخ میں رقم کرنے والی نظم تحریر کی’جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے‘۔یہ نظم عوام کے جذبات کو چھوً رہی تھی اور ان کے دلوں میں تیزی سے اتری جارہی تھی ۔جب پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ نظم سنی تو بہت متاثر ہوئے اورلکھنؤ میں کانگریس کے انتخابی اجلاس میں اس نظم کو سنانے کی درخواست کی۔اس کے بعد پنڈت نہرو نے شمیمؔ کرہانی کو دہلی آنے کی بھی دعوت دی۔1950 ء کے ابتدائی دنوں میں شمیمؔ صاحب نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی دعوت پر دہلی کا سفر کیااور تین مورتی بھون میں ان سے ملاقات کی۔نہرو جی نے ان کا والہانہ استقبال کیااور جنگ آزادی کی تاریخ کے پس منظر میں اردومیں نظمیں لکھنے کی فرمائش کی۔اورکوئی مناسب آمدنی کا ذریعہ ہونے تک اپنی جیب خاص سے وظیفہ دینے کا اظہار بھی کیا۔
7 ؍فروری1950ء کو انہوں نے شمیم کرہانی کی ڈائری میں جو جملے تحریر کیے تھے آج ا ن جملوں کو ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔
انہوں نے لکھا تھا
A poet should make his life itself a poem.Shamim Karhani has sung of India`s freedom.I hope he will continue to do so and enjoy this freedom.
شمیم کرہانی نے اپنے دہلی آمد کے ابتدائی دنوں میں دیانند اینگلو ویدک اسکول کے ساتھ مل کر کام کیا اور پھرروزنامہ قومی آواز سے بھی وابستہ ہوئے ،لیکن بہت جلد انہوں نے شمالی ہندوستان کے اولین تاریخی ادارے کا انتخاب کیا اور غازی الدین خاں کے مدرسہ کے نام سے موسوم اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ دہلی میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔یہاں یہ کہنے میں قطعی مبالغہ نہ ہوگا کہ اس طرح ایک تاریخی اسکول کو ایک تاریخی استاد مل گیاتھا۔ یہ سنہ 1950 ء کا وقت تھا جب ہندوستان ایک جمہوری ملک بنا تھا اور شمیم کرہانی بحیثیت استاداینگلو عربک اسکول کی سنہری تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ کرنے میں منہمک ہوئے تھے۔ ان کی قابلیت اور استادانہ صلاحیت سے ہر شخص متاثر تھا۔ ان کے ہم عصر اساتذہ کا ماننا ہے کہ ایک حد تک اسکول کی شناخت ان کے نام نامی سے ہونے لگی تھی۔ وہ فارسی کے استاد مقرر ہوئے تھے اور اردو کا بھی درس دیتے تھے۔ انہیں اپنے مضمون پر عبور تھا، ان کے ہم عصر اساتذہ کا ماننا ہے کہ آنرس کی ڈگری ہونے کے باوجود بھی وہ پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں سے زیادہ صلاحیت رکھتے تھے ۔ زبان پر ان کو زبردست دسترس حاصل تھی۔ان کے معاصرین کہتے ہیں کہ جب مشاعروں سے کوئی دعوت نامہ آتا تو اس کو بہت غور سے پڑھتے تھے ، زبان کی غلطیوں پر جھنجلا اٹھتے تھے اور فرماتے تھے ’ خط ٹھیک سے لکھنا تو آتا نہیں ہے اور مشاعروں میں بلا لیتے ہیں‘۔ اس جھنجلاہٹ میں ایک درد چھپا ہوتا تھا ۔ان کی طبیعت میں گرانی نہیں تھی۔اکثر ہی طنز و مزاح سے کام لیتے تھے۔فرقت ؔ کاکوروی ان کے ساتھی استاد تھے، دونوں یارانہ بے تکلفی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : رشید امجد کا یومِ پیدائش
——
شمیم کرہانی صاحب قد وقامت کے اعتبار سے بھی متاثر کرتے تھے۔ان کادبلا پتلااورلمبا ودراز قد،لمبی اور ستواں ناک،آنکھوں پر بڑی سی عینک،منہ میں ہمیشہ پان اور دونوں جانب بہتی ہوئی پیک کی سرخی سے ان کی شخصیت کے نادر پہلؤوں کا ظہور ہوتا تھا۔چہرے پر بشاشت،طمانیت اور خود اعتمادی ان کا خاصہ تھی۔خوش مزاجی اور طبیعت میں ملنساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اخلاق مندی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔سخاوت ان کی سرشت میں شامل تھی۔جب تنخواہ ملتی تو شاعروں کو گھر پر بلاتے اور صاحب زادے کو آواز دے کر فرماتے’دیکھو اتنے لوگوں کا کھانا بناتے ہوئے تمہاری امّی تھک جائیں گی،اسلئے جاؤ اور کریم ہوٹل سے کھانا لے آؤ‘۔شاعروں کے علاوہ دیگر احباب ہوں یا اسکول کے اساتذہ ہوں سب کو کھانے پر روک لیتے تھے اور کسی کو بھی وہاں سے بغیر کھانا کھائے جانے نہیں دیتے تھے۔
ایک بار کا واقعہ ہے ،اسکول میں سینئراستاد کی حیثیت سے سیلیکشن گریڈ ان کو ملنا تھا لیکن ان سے کافی جونیئر کسی دوسرے استاد کو مل گیا۔طبیعت میں کچھ ناگواری ہوئی اور دوسرے ساتھیوں کے مشورے پر اس فیصلے کے خلاف درخواست بھی دے دی،لیکن پھر خود ہی جاکر اس درخواست کو پھاڑ بھی دیا اور مذکورہ استاد جو ان کے کافی جونیئر تھے ان کے پاس گئے اور نم آنکھوں سے فرمایا’بھئی یہ گریڈ تم ہی لو میں تو مشاعروں وغیرہ سے بھی کما لیتا ہوں،وہی میرے لئے کافی ہے۔‘ان کی اعلیٰ ظرفی کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کا ذکر ان کے معاصرین اساتذہ بار بار کرتے ہیں۔وہ روپے بچا کر رکھنا نہیں جانتے تھے اسلئے اکثر تنگ دستی کے شکار بھی ہوتے تھے۔کسی سے کچھ طلب کرنا پڑتا تو شاعرانہ رکھ رکھاؤ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ایسے ہی ایک موقع پر اپنے ایک رفیق کو لکھتے ہیں ؂
——
دہر میں یارِ باوفا ہیں آپ!
درد سے میرے آشنا ہیں آپ
حال ہے تنگ دستیوں سے تباہ،
کیونکہ اب تک ملی نہیں تنخواہ
مختصر کہہ دوں،کیوں دوں میں بھاشن،
آج مجھ کو منگانا ہے راشن
غمِ دوراں کو رام کردیجئے!
دس کا بس انتظام کردیجئے
آپ دنیا میں شادماں رہیے
اپنے یاروں پہ مہرباں رہیے
——
شمیم کرہانی ایک اچھے انسان اور مثالی شوہر کے ساتھ ہی ایک شفیق باپ بھی تھے۔اولاد سے بہت محبت کرتے تھے ۔بیٹے ذرا سی دیر کیلئے باہر چلے جاتے یا انہیں لوٹنے میں دیرہوجاتی تو بے چین ہوجاتے تھے،عجیب وغریب طرح کے خیالات اور وسوسوں کا ذہن سے گزر ہونے لگتا تھا،حادثہ پیش آنے کا تصور کرکے خود ہی کانپ اٹھتے تھے۔جب تک بیٹے لوٹ کر گھر نہیں آجاتے تھے انہیں چین نہیں پڑتا تھا۔حد درجہ پیار کی وجہ سے اولاد کے بگڑ جانے کا اندیشہ ان کے سامنے ظاہر کیا جاتا تو خواجہ میر درد ؔ کا شعر کچھ تحریف کے ساتھ پڑھتے ؂
——
ان کے ملنے سے منع مت کر اِس میں بے اختیار ہیں ہم
——
’روشن اندھیرا‘کی طباعت کے سلسلے میں شمیمؔ صاحب کی ملاقات رفیع احمد قدوائی سے ہوئی تھی۔مراسم اچھے خاصے بڑھ چلے تھے ،اوران کے گھر پر بھی کبھی کبھی تشریف لے جاتے تھے۔ایک بار انہی کے دولت کدے پر فیروز گاندھی سے ملاقات ہوئی ،تعلقات بہت اچھے ہوگئے،فیروز گاندھی نے انتخابات میں سرگرم ہونے کی تجویز رکھی اور کانگریسی امیدواروں کی حمایت کی درخواست کی ،لیکن چونکہ پیدائشی شاعر شمیم کرہانی کی فطرت میں سیاست کا عنصر نہیں تھا اسلئے وہ فیروز گاندھی کی پیش کش کو قبول نہیں کرسکے۔
شاعری میں آرزوؔ لکھنوی کے باضابطہ شاگرد تھے۔اور علی جواد زیدی سے ان کا بے تکلف یارانہ تھا۔عوام سے گفتگو کرنے کا مزاج رکھنے والے شمیمؔ صاحب مشاعروں کیلئے عوامی غزلیں کہتے تھے ،لیکن اپنے بے تکلف دوست علی جواد زیدی کی ضد پر فکریہ غزلوں کی طرف راغب ہوئے ۔وہ شاعری میں معرکہ آرائی کے قائل نہیں تھے اور اس میں سیاست کے زہر کو گھلنے کا نہ تو موقع دیتے تھے اور نہ ہی ایسی کسی کوشش کو پسند کرتے تھے۔وہ ایک سچے شاعر تھے۔آٹھ نو سال کی عمر میں ان کی شاعری کی ابتدا اور یہ شعر ؂
——
نئی طرح کی کشاکش ہے آرزو کے لیے
’نہیں‘ ہے میرے لیے اور’ہاں‘ عدو کے لیے
——
یقیناًان کی طویل عمر کی شاعری کی بلندی کی طرف رہنمائی کرتاہے۔
پروفیسر احتشام حسین کے انتقال پر انہوں نے جو مرثیہ لکھا اس کا ایک بند ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے ۔ملاحظہ ہو ؂
——
لاؤ ذرا قریب ،جنازا تو دیکھ لوں
تابوت کھول دو کہ سراپا تو دیکھ لوں
اجڑی ہوئی بہار کی دنیا تو دیکھ لوں
رخ سے کفن ہٹاؤ کہ چہرا تو دیکھ لوں
اللہ یہ تو نقد و نظر کا امام ہے
جس کیلئے فنا نہیں ،وہ’ احتشام‘ ہے
——
شمیم کرہانی کی کچھ منتخب نظموں کے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ ہوں ؂
——
’ملاقات‘
آ ؤ کچھ دیر دل کی کہانی کہہ لیں
پھر خدا جانے ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
مل گئے ’ہم‘ یہ زمانے میں نئی بات ہوئی
پھر زمانے میں نئی بات کبھی ہو کہ نہ ہو
——
’آہٹ‘
تھک کر گر پڑتی ہے اندھیرے میں نگاہ شوق آنکھوں سے ٹپک پڑتا ہے آنسو بن کر
چاند نظروں سے کہیں دور چلا جاتا ہے ’چاندنی‘ ذہن میں رہ جاتی ہے جگنو بن کر
——
’سویرا‘
انہی تنہائی کی راہوں سے گزرنا ہے مجھے ساتھ میرے غمِ دوراں کا اندھیرا ہوگا
غمِ دوراں کا اندھیرا ہی پتہ دیتا ہے اک نہ اک دن میری منزل کا سویرا ہوگا
——
’اجالا‘
تمہیں سے نامِ وطن ہے روشن‘ تمہیں سے شان وطن دوبالا سلام کرتا ہے اے شہیدو‘ادب سے جھک کر تمہیں ہمالا
جو اہل دل کے لہو سے ابھرے تو ڈوب سکتا نہیں وہ سورج جسے شہیدوں کا خوں جنم دے امر ہے دنیا میں وہ اجالا
’جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے‘
نہ دل کش تماشے نہ رنگیں نظارے نہ راحت کی کلیاں نہ عشرت کے تارے
بہت تھک گیا ہے مشقت کے مارے ذرا لگ گئی آنکھ جمنا کنارے
تھکن آج ٹھنڈی ہوا پا گئی ہے
جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : میکش اکبر آبادی کا یومِ پیدائش
——
ان اشعار کو دیگ کے چاول سے تشبیہ دے کر شمیم کرہانی کی شاعری کو سمجھ لینے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی نظمیں ایک بحر کی مانند ہیں اور اس کو سمجھنے کیلئے اس کی ہر موج سے گزرنا ہوگا۔اس مختصر سے مضمون میں ان کی ہر نظم پر تبصرہ کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یوں کہا جانا چاہئے کہ کسی بھی نظم کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے۔لیکن اشعار کا نمونہ پیش کرنے کی اس حقیر کوشش کوانگلی کٹاکر شہیدوں میں شمار کئے جانے کے مصداق حق ادا کرنے کی ایک کوشش کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے۔
شمیم کرہانی کی غزلوں کے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ؂
——
جب تک نہ خوگرِ مہر و وفا تھے ہم
کچھ لذتِ حیات سے نا آشنا تھے ہم
یارانِ سست گام سے مجبور ہوگئے
ورنہ ہوائے شوق سے پوچھو کہ کیا تھے ہم
——
عشق کا نغمہ ‘ عشق کی دھن اور کوئی آواز نہ سن
ساری گرہیں کھل تو گئیں لیکن ٹوٹ گئے ناخن
——
نئی سحر کی تمنا نہیں تو کچھ بھی نہی
ںتری حیات میں فردا نہیں تو کچھ بھی نہیں
سخن میں عالم معنی سہی شمیمؔ مگر
حیات نو کا تقاضا نہیں تو کچھ بھی نہیں
——
جو ہم سفر سرِ منزل نظر نہیں آتے
جنونِ شوق میں آگے نکل گئے ہوں گے
——
یاد ماضی، غمِ امروز، امیدِ فردا
کتنے سائے مرے ہمراہ چلا کرتے ہیں
وادئ دل ہے ،قدم سوچ کے رکھنا کہ شمیمؔ
تیر اس راہ میں ناگاہ چلا کرتے ہیں
——
کشتیاں نہیں تو کیا حوصلے تو پاس ہیں
کہہ دو ناخداؤں سے تم کوئی خدا نہیں
——
شمیم کرہانی ایک استاد اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ان کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست تھی ،جن میں سنت درشن سنگھ درشن،رضاؔ امروہوی،محسن زیدی،سنت نام سنگھ خمارؔ ، شمیمؔ عثمانی،ساقیؔ لکھنوی اور شادؔ دہلوی وغیرہ اہم تھے۔انہیں اپنے شاگردوں کی تربیت کا خاص خیال رہتا تھا۔اوراپنے خیال کی اسی بلاغت کے پیش نظر انہوں نے ’حلقۂ ارباب فکر‘ قائم کیا تھا۔
شمیمؔ کرہانی کے ہم عصر شعراء میں فیض احمد فیضؔ ،علی سردار جعفری،مجازؔ لکھنوی،معین احسن جذبی ،کیفی ؔ اعظمی اور علی جواد زیدی وغیرہ تھے۔انہوں نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی شاعری کے جواہر پارے بکھیرے ہیں۔ان کی رباعیاں،قطعات،گیت اور مرثیے وغیرہ بھی بہت مشہور ہیں۔
شمیم کرہانی کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔
’برق وباراں‘(1939ء میں)، ’روشن اندھیرے‘(1942ء میں)، ’ترانے‘(1944ء میں)، ’بڑھ چل رے ہندوستان‘(1948ء میں)،’تعمیر‘(1948ء میں)، ’ عکسِ گل‘ (1962ء میں)،’انتخاب کلام شمیم کرہانی ‘(1963ء میں)،’ذوالفقار‘(1964ء میں)،’ حریفِ نیم شب‘ (1972ء میں)،’جانِ برادر‘(1973ء میں)،’صبحِ فاران‘(1974ء میں)۔ان کے علاوہ عکس گل کا ہندی ترجمہ ’پشپ چھایا‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
——
اعزازت
——
شمیم کرہانی کو کئی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔’عکس گل‘ پر 1964ء میں اترپردیش حکومت نے ایوارڈ سے نوازا تھا۔’حریفِ نیم شب‘پر 1972ء میں اترپردیش اردو اکیڈمی نے ایوارڈ عطا کیاتھا۔1972ء میں ہی آپ کو سروپ نارائن اردو نظم ایوارڈ ملا تھا۔ اور’رنگا کے گیت‘ پر حکومت ہند کی جانب سے آپ کو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
——
وفات
——
شمیم کرہانی تاعمر اردو اور اردو شاعری کی خدمت کرتے رہے تھے۔1975ء میں ایوان غالب کے مشاعرے میں شریک ہوئے ،کیفیؔ اعظمی سے گلے ملتے ہوئے اچانک طبیعت خراب ہوگئی۔
قریب ہی واقع اِروِن اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکے کیونکہ زندگی بھر غور و فکر کرنے والے دماغ کی رگ پھٹ چکی تھی اور یہی ان کی موت کی وجہ بنی تھی۔ یہ 19 مارچ کا دن تھا جس نے اردو دنیا سے ایک عظیم شاعر چھین لیاتھا ۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
——
منتخب کلام
——
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے
——
نگاہِ دوست نے کچھ رنگ بھر دئیے ورنہ
حیات اک ورقِ سادہ رہ گئی ہوتی
——
اے گردشِ دوراں تو اس وقت کی ساتھی ہے
جب ہم نے زمانے میں قدم رکھا تھا تنہا
——
پھولوں کو بانٹتے رہے رنگِ وفا شمیمؔ
کارِ چمن میں ہم بھی شریکِ صبا رہے
——
جسے ناز شیشۂ دل پہ ہے اُسے شاید اس کی خبر نہیں
کہ یہ پتھروں کا دیار ہے یہاں کوئی آئینہ گر نہیں
نہ شمیمؔ غنچۂ دل کھلا ، نہ ملی حیات کو روشنی
یہ سحر تو اور کسی کی ہے ، یہ سحر ہماری سحر نہیں
——
ہنسو نہ تم رُخِ دشمن جو زرد ہے یارو
کسی کا درد ہو اپنا ہی درد ہے یارو
——
جو مذاقِ رنگ و بو ہو تو دلوں کا بھید کیسا
کہیں موجِ گُل نے پوچھا ؟ کہ صبا کی ذات کیا ہے ؟
——
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستانِ غم کہیں
ادا ادا سے تم کہو ، نظر نظر سے ہم کہیں
——
وہ دل بھی جلاتے ہیں ، رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
کیا طرفہ طبیعت ہے ، شعلہ بھی ہیں شبنم بھی
——
ان کو شمیمؔ کس طرح نامۂ آرزو لکھیں
لکھنے کی بات اور ہے ، کہنے کی بات اور ہے
——
کیا دیکھ رہے ہو تم دیوانے کے دامن کو
کچھ یادِ وطن ہو گی ، کچھ گردِ سفر ہو گی
——
جلتا تھا جو گھر میرا کچھ لوگ یہ کہتے تھے
کیا آگ سنہری ہے ، کیا آنچ سہانی ہے
——
عشق کی اک زباں پر لاکھ طرح کی بندشیں
آپ تو جو کہیں بجا ، آپ کی بات اور ہے
——
جو دیکھتے ہوئے نقش قدم گئے ہوں گے
پہنچ کے وہ کسی منزل پہ تھم گئے ہوں گے
پلٹ کے دشت سے آئیں گے پھر نہ دیوانے
پکار لو کہ ابھی کچھ قدم گئے ہوں گے
جو ماورائے تصور نہیں کوئی صورت
تو بتکدے ہی تک اہل حرم گئے ہوں گے
ترے جنوں نے پکارا تھا ہوش والوں کو
نہ جانے کون سے عالم میں ہم گئے ہوں گے
ملیں گی منزل آخر کے بعد بھی راہیں
مرے قدم کے بھی آگے قدم گئے ہوں گے
نہ پوچھ حوصلۂ ہم رہان سہل پسند
جہاں تھکن نے کہا ہوگا تھم گئے ہوں گے
جو کہہ رہے ہیں کہ آئی نظر نہ منزل دوست
وہ لوگ جانب دیر و حرم گئے ہوں گے
کہاں سے آئے دیار شفق میں رنگینی
ادھر سے تیرے شہیدان غم گئے ہوں گے
شمیمؔ ہمت پائے طلب کی بات نہ پوچھ
وہاں گیا ہوں جہاں لوگ کم گئے ہوں گے
——
غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے
کہ یہ بادہ بھی مرے ظرف سے کم ہوتا ہے
کب مری شام تمنا کو ملے گا اے دوست
وہ سویرا جو ترا نقش قدم ہوتا ہے
بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے
ہائے وہ محویت دید کا عالم جس وقت
اپنی پلکوں کا جھپکنا بھی ستم ہوتا ہے
غم ہوا کرتا ہے آغاز میں اپنا لیکن
وہی بڑھتا ہے تو ہر ایک کا غم ہوتا ہے
عشق کر دیتا ہے جب آنکھ پہ جادو تو شمیمؔ
دیر ہوتا ہے نظر میں نہ حرم ہوتا ہے
——
اگرچہ عشق میں اک بے خودی سی رہتی ہے
مگر وہ نیند بھی جاگی ہوئی سی رہتی ہے
وہی تو وجہ تعارف ہے کوئی کیا جانے
ادا ادا میں جو اک بے رخی سی رہتی ہے
بڑی عجیب ہے شب ہائے غم کی ظلمت بھی
دیے جلاؤ مگر تیرگی سی رہتی ہے
ہزار درد فرائض ہیں اور دل تنہا
مرے خلوص کو شرمندگی سی رہتی ہے
شمیمؔ خون جگر سے ابھارئے لیکن
ہر ایک نقش میں کوئی کمی سی رہتی ہے
——
نظم : مکان
——
اک پہاڑی کی اونچی چوٹی پر
میں بناؤں گا ایک ایسا گھر
جس میں چاروں ہوائیں آئیں گی
اور سندیسے نئے سنائیں گی
آ کے باد جنوب و باد شمال
ڈال دے گی سنہری نیند کی شال
شام کو سیج پر سلائے گی
صبح کو منہ مرا دھلائے گی
مشرقی اور مغربی جھونکے
جلد کو میری صاف کر دیں گے
اور جب اس گھر میں رات آئے گی
تیرگی چار سمت چھائے گی
جھیل ہوگی سیاہ شب مدہوش
چاند اور پھول چپ ہوا خاموش
تو مرا گھر سماں دکھائے گا
چاند تاروں میں مسکرائے گا
——
شعری انتخاب : اردوئے معلیٰ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ