آج معروف سیاست دان، عالم دین، شاعر، ادیب، صحافی، مقرر اور دانشور مولانا کوثر نیازی کا یومِ وفات ہے ۔

——
پیدائشی نام محمد حیات خان جنہیں عام طور پر مولانا کوثر نیازی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ان کا جنم 1934ء موسی خیل گاؤں،پنجاب میں ہوا۔ ان کے والد فتح خان نیازی لیق خیل اور چچا مظفر خان نیازی لیق خیل اس علاقے کے معروف افراد میں سے تھے۔ وہ ایک مذہبی اسکالر اور مقرر تھے اور انہوں نے سیاست میں اپنا نام بنایا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک پاکستانی سیاست دان اور مذہبی رہنما تھے۔ نیازی، بھٹو کی وزارت عظمی کے کابینہ میں،1974ء سے 1977ء کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور وفاقی وزیر تھے۔ نیازی بھٹو کے قریبی مددگاروں میں سے ایک تھے اور بھٹو کا مکمل اعتماد جو موت تک بھٹو کے وفادار رہے۔ بھٹو کی وفاقی کابینہ کے رکن بھی تھے۔ ایک وزیر کی حیثیت سے انھوں نے خدمات انجام دیں اور 6 سال تک بھٹو کے مددگار بھی رہے۔ وہ پاکستان ممبر پارٹی کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے 1976ء تک مذہبی اور اقلیتی امور کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس کے بعد انہیں وفاقی وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تھا۔ مولانا کوثر نیازی کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو معزول اور بالآخر تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد کے سالوں میں، مولانا کوثر نیازی کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پر خدمت کرنے کے لیے نامزد کیا گیا تھا ۔
کوثر نیازی نے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کا اجرا کیا جس کا دفتر داتا دربار مارکیٹ، لاہور میں تھا۔
1994 ء اسلام آباد میں وفات پائی۔
——
کوثر نیازی ایک نعت گو شاعر
——
مولانا کوثر نیازی بلند پایہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک بہترین نعت گو بھی تھے۔ فتح اللہ کے لختِ دل محمد حیات کو دنیا مولانا کوثرؔ نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ شاعری میں کوثرؔ تخلص کرتے ہیں۔ 21 اپریل 1934ء کو موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک یہیں سے کیا۔ حالات سازگار نہ ہونے کے سبب میٹرک کے بعد اسکول ٹیچر بھی رہے۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں بی اے آنرز کیا۔ قدرت نے اُنھیں ہمہ وقت بے شمار خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، خطیب،صحافی، محقق، پارلیمنٹیرین، معروف سیاسی رہنما اور جیّد مذہبی اسکالر تھے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر ماہرین سیاست اور نقادان علم و ادب اظہار خیال فرماتے رہے ہیں۔
مولانا کوثرؔ نیازی کی شخصیت بڑی پہلودار تھی۔ جس کی وجہ سے شاید ان سے کسی معاملے میں اختلاف ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا۔ بعدازاں مولانا مودودی مرحوم سے اختلاف کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔ اور پھر پاکستان پیپلزپارٹی سے رشتہ استوارکرلیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظفر نیازی کا یوم وفات
——
نعت گوئی
——
مولانا کو جن موضوعات سے زیادہ شغف تھا۔ اس میں فلسفہ، تاریخ، مذہب اور سیاست خاص طور پر شامل ہے مولانا کوثر نیازی بحیثیت غزل گو بھی ملک کے طول و عرض میں معروف تھے۔ ان کی ابتدا بھی غزل گوئی سے ہوئی اور یہ بچپن میں شاعری کے اسیر ہوچلے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ذوق میں مولانا کی شاعری کو اوّلیت حاصل ہے۔مولانا انعت گوئی میں بھی ممتاز نظر آتے ہیں۔ کہ انہوں نے نعتیہ کتب یا دیوان ’’ نعتیہ ادب‘‘ میں یادگار نہیں چھوڑے۔ بلکہ صرف چند نعتیں کہی ہیں۔ ان چند نعتوں میں اتنا جذب و اثر ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والوں سے آنسوؤں کا نذرانہ وصول کرتی ہیں۔
——
مولانا کا اپنی شاعری پر تبصرہ
——
مولانا زرگل کے حرف آغاز میں رقم طراز ہیں کہ:’’پانچویں جماعت میں سب سے پہلی نظم لکھی، یہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں مگر قافیہ ردیف اور وزن کے لحاظ سے بالکل درست ایک دعا تھی جو بچوں کے پسندیدہ اخبار ’’ پھول‘‘ (مرحوم) میں شائع ہوئی۔‘‘
’’ زرگل‘‘ کے نام سے مولانا کوثر نیازی کا کلام فیروز سنز لمیٹڈلاہور نے شائع کیا تھا۔ 1973ء میں اس کی اشاعت سوم تھی۔ واضح رہے کہ مولانا کے اس سے پہلے دو مجموعہائے کلام زرِگل اور بوئے گل کے نام سے شائع ہوچکے تھے۔ مگر ’’ متاعِ سخن‘‘ کا متذکرہ ایڈیشن جس میں دونوں مجموعوں کا منتخب کلام کچھ نئی غزلیں، نظمیں اور نعتیں اضافے کے ساتھ شامل ہیں۔ (اسے جنگ پبلشرز لاہور نے اگست 1994ء میں طبع کیا تھا۔) یہ ہمارے موضوع کا معاون اور مددگار ہے۔ جس کی مدد سے ہم مولانا کی ابتدائی شاعری، نعتیہ شاعری اور فن شاعری میں ان کے مقام و مرتبہ کے بارے میں جان سکیں گے۔
’’ وقت کے ساتھ ساتھ ذوق سخن نکھرتا چلا گیا۔ اساتذہ قدیم سے لے کر جدید شعراء تک ، سب کے دواوین نظر سے گزرچکے تھے۔ بقدرِ ظرف ہر چشمۂ صحافی سے سیراب ہوا۔ مگر جن احباب نے میرے اشعار کا دقّتِ نظر سے مطالعہ کیا ہے وہ اتفاق کریں گے کہ میں چار شاعروں سے زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ اقبال، اصغرؔ گونڈوی، حسرتؔ موہانی اور مولانا محمد علی جوہرؔ… اقبالؔ کی اسلامی فکر ، اصغرؔ کا پاکیزہ تغزل، حسرتؔ کی سادگی اور پُرکاری اور مولانا جوہرؔ کے جذبات و احساسات … میری شاعری میں اگر کوئی خوبی کی بات ہے تو وہ انہی عناصر اربعہ کا فیضان ہے۔‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : منیر نیازی کا یومِ پیدائش
——
وفات
——
اس کائناتِ ہست وبود میں ساٹھ سال گزارے، بروز ہفتہ 19 مارچ 1994ئ کو انتقال ہوا۔ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں مدفین ہیں۔
——
منتخب کلام
——
نعوتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
میرے لیے ہر گلشنِ رنگیں سے بھلی ہے
کانٹے کی وہ اک نوک جو طیبہ میں پلی ہے
جو ان کی گلی ہے وہی دراصل ہے جنت
دراصل جو جنت ہے وہی ان کی گلی ہے
اے صل علی صاحب معراج کی سیرت
جو بات ہے قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہے
شاید درِ احمد سے صبا لائی ہو اس کو
چہرے پہ یہی سوچ کے یہ خاک ملی ہے
گردن نہ جھکی آپ کی، مخلوق کے آگے
اللہ ری کیا شان حسین ابنِ علی ہے
اللہ ادھر سے بھی مدینے کی ہواؤ
کچھ روز سے پژمردہ مرے دل کی کلی ہے
کوثر غم کونین سے دل ہوگیا فارغ
اب عشق نبی زیست کا عنوانِ جلی ہے
——
خورشید رسالت کی شعاوں کا اثر ہے
احرام کی مانند مرا دامن تر ہے
نظارہ فردوس کی یا رب نہیں فرصت
اس وقت مدینے کی فضا پیش نظر ہے
اس شہر کے ذرے ہیں مہ و مہر سے بڑھ کر
جس شہر میں اللہ کے محبوب کا گھر ہے
یہ راہ کے کنکر ہیں کہ بکھرے ہوئے تارے
یہ کہکشاں ہے کہ تری گرد سفر ہے
اس صاحب معراج کے در کا ہوں بھکاری
قرآن میں جس کیلئے ماذاغ البصرہے
اک مہر لقا ، ماہ ادا کا ہے یہ اعجاز
ہر اشک مری آنکھ کا تابندہ گہر ہے
میں گنبد خضری کی طرف دیکھ رہا ہوں
کوثر مرے نزدیک یہ معراج نظر ہے
——
منجدھار میں ناؤ ڈوب گئی تو موجوں سے آواز آئی
دریائے محبت سے کوثرؔ یوں پار اتارا کرتے ہیں
——
ہر مرحلۂ غم میں ملی اس سے تسلی
ہر موڑ پہ گھبرا کے ترا نام لیا ہے
——
یہ درد کہ ہے تیری محبت کی امانت
مر جائیں گے اس درد کا درماں نہ کریں گے
——
تجھے کچھ اس کی خبر بھی ہے بھولنے والے
کسی کو یاد تیری بار بار آئی ہے
——
تیری زلفیں ترے رخسار ترے لب میرے
جتنے پہلو ہیں ترے حسن کے وہ سب میرے
اس سے اب ترک محبت کا گلہ کیا معنی
مجھ کو تسلیم کہ اطوار تھے بے ڈھب میرے
پھر وہی چاند سر شہر چڑھے تو اے کاش
اس سے روشن ہوں در و بام بس اک شب میرے
جن کا ہر لمحہ گزرتا تھا مری قربت میں
دور و نزدیک نظر آتے نہیں اب میرے
مجھ سے کترا کے گزر جاتے ہیں دیرینہ رفیق
راستے دیکھتے ہیں سخت کٹھن جب میرے
اب اگر کھل ہی گئے ہو تو چلو یوں ہی ہی سہی
ورنہ تم دوست تو پہلے بھی رہے کب میرے
کیوں مجھے شدت احساس عطا کی اتنی
تجھ سے انصاف کا طالب ہوں میں اے رب میرے
خلق کی سنگ زنی کا ہے یہ کوثرؔ احسان
تہ میں جس کے گئے سب حسن و قبح دب میرے
——
ہم دل کی تباہی کا یہ ساماں نہ کریں گے
اس گھر میں کسی اور کو مہماں نہ کریں گے
گھبرا کے کبھی چاک گریباں نہ کریں گے
بد نام تجھے فصل بہاراں نہ کریں گے
مشعل کو چراغ تہ داماں نہ کریں گے
جو داغ ہیں سینے میں وہ پنہاں نہ کریں گے
ٹکرائیں گے تیرے لیے ہر موج بلا سے
ساحل پہ کھڑے شکوۂ طوفاں نہ کریں گے
اے وہ کہ تری یاد ہے تسکین دل و جاں
حالات ہمیں کچھ بھی پریشاں نہ کریں گے
یہ درد کہ ہے تیری محبت کی امانت
مر جائیں گے اس درد کا درماں نہ کریں گے
اے دوست محبت کی نزاکت ہے نظر میں
ہم تجھ کو کسی طور پشیماں نہ کریں گے
دل میں ہے تری چاہ تو اے جان تمنا
ہم اور کسی چیز کا ارماں نہ کریں گے
——
بات قسمت کی تو کچھ اے دل ناکام نہیں
اپنی تقصیر ہے یہ گردش ایام نہیں
اے مسیحا کبھی تو بھی تو اسے دیکھنے آ
تیرے بیمار کو سنتے ہیں کہ آرام نہیں
ایک وہ جن کے تصرف میں ہیں سب مے خانے
ایک ہم جن کے لیے درد تہ جام نہیں
مجھ کو یہ غم کہ انہیں دیکھنے والے ہیں بہت
ان کو شکوہ کہ یہاں ذوق نظر عام نہیں
سفر عشق مبارک ہو کہ اس میں کوثرؔ
غم آغاز نہیں خطرۂ انجام نہیں